Response to 23 Questions - Part 3 - Beard / Veil (Darhi / Parda) - Javed Ahmed Ghamidi
Video Transcripts In Urdu
-
00:00:00 ہم اس وقت موجود ہیں یہاں غامدی صاحب کی اسٹڈی میں اور میں یہ بھی بتاتا چلوں اپ کو ابتدا میں کہ چونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہاں پر کوئی ٹیکنیکل عملہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے اور ہم اپنے طور پر ہی موبائل فون اور باقی ایپس کے ذریعے اس کو کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں تو لائف کے اندر شاید یہ دقت اپ کو کبھی کبھی محسوس ہو بار کہف امید ہے میری اواز اس وقت صاف ا رہی ہوگی ہم نے پچھلی دو نشستوں میں غامدی صاحب داڑھی کے اوپر بہت تفصیل سے اپ کا نقطہ نظر جانا ہے قران مجید کی ایات احادیث لوگوں کے تاثرات پھر جو اعتراض کیا جاتا ہے اپ کے جو نقطہ نظر سے مختلف رائے رکھتے ہیں لوگ 23 کے قریب اعتراضات زیر بحث ہیں پہلی داڑھی تھی گفتگو اس پر بہت ہوگئی
-
00:00:39 میں یہ چاہتا ہوں کہ نئے موضوع کا اغاز ہو جاؤ عورتوں کے پردے سے متعلق ہے لیکن ابتدا میں چند وہ تاثرات جو لوگوں کی جانب سے موصول ہوئے ہیں وہ اپ کے سامنے رکھوں اور چاہوں گا کہ مختصر کمینٹس اپ ان پے کرتے جائیں اور پھر ایک خلاصہ اپنی پوری بات کا اپ کر دیں پہلا سوال لوگوں نے پوچھا ہے کہ ٹھیک ہے قران مجید کی اس ایت کے تحت فطرت میں داڑھی شامل نہیں ہے تو پھر ہم کوئی ادمی پلکیں منڈوا دے تو اس کو کس اصول پے کہیں گے کہ تم اپنی فطرت تبدیل نہ کرو اس سے یہ کہیں گے کہ تم ایک ناشائستہ حرکت کر رہے ہو
-
00:01:11 دنیا میں انسان جب جیتا ہے تو ایسا ہی نہیں ہے کہ وہ ہر وقت قاعدے ضابطے میں رہتا ہے بہت سے لوگ ایسے انحرافات اختیار کرتے ہیں جن پر ہمیں توجہ دلانا ہوتی ہے ادمی اپنے سر پر راکھ ڈالنے اپنے کپڑے پھاڑ لے جیسے ملنگ قسم کے لوگ ہوتے ہیں اس طرح کی ہیت بنا کے باہر نکل ائے اسے توجہ دلائی جائے گی یہ تہذیب ثقافت
-
00:01:32 اور انسان کے شرف کے خلاف ہے اللہ تعالی نے اپ کو ایک شکل و صورت دی ہے ایک شخصیت دی ہے اس کی عزت کرنا سیکھیں تو یہ بات کہیں گے ہر چیز کو مذہب ہی کیوں منایا جائے اچھا اگلا سوال یہ ہے کہ یہ صحابہ کرام اگر داڑھی سنت کے طور پر دینی روایت کے طور پر منتقل نہیں ہوئی تو پھر کیا وجہ ہے کہ تمام صحابہ کرام نے داڑھی رکھی کسی نے نہیں منگوائی اور سب کے ہاں یہ بھی زیر بحث ہے کہ داڑھی کی لمبائی کتنی ہونی چاہیے پھر اس کی کیا وجہ ہے یہ کیسے معلوم ہوا تمام صحابہ نے یعنی باقاعدہ کوئی سروے کیا گیا ہے گفتگو ہوئی تو جان دیا ہے انہوں نے اس طرح کی بات سے باتیں لوگ کہہ دیتے ہیں اس زمانے کا عام رواج یہ تھا جس کی بنیاد پر قیاس کیا جاتا ہے مشرکین نے بھی داڑھی رکھی ہوئی تھی مایوس میں بھی داڑھی رکھی ہوئی تھی اہل کتاب میں بھی داڑھی رکھی ہوئی خود رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے جب توجہ دلائی ہے تو یہی کہا ہے کہ داڑھی موشکی حیات کے بارے میں مجوس کے متکبرین اسی طریقے سے مشرکین کے متکبرین ایسے ہی ہے اہل کتاب کو متکبرین یہ وجہ بنا لیتے ہیں کہ بڑی بڑی مونچھیں رکھ لیتے ہیں اور چھوٹی داڑھی رکھ لیتے ہیں میں یہ حدیث اپ کو پڑھ کے سنا چکا ہوں تو اپ نے فرمایا کہ تمہیں ایسی وزن نہیں اختیار کرنی چاہیے جب یہ بات کہی ہر موقع پر کہا کہ خالق المجوس خالق و اہل الکتاب خالق اور گوشی کی ان کی مخالفت کرو انہوں نے غلط ہے غلط مذاق بنا
-
00:02:51 تو داڑھی تو سبھی رکھتے تھے اپ جانتے ہیں کہ مسیحی یہودی ابھی پچھلے زمانے تک سب داڑھی رکھتے
-
00:02:58 اپ تصویر اٹھا کے دیکھ لیں گاڑی کو کال ماسک تھی
-
00:03:01 ہمارے یہاں کی داڑھیوں سے بھی بڑی تھی تو اس لیے اس لیے کیا استدلال کیا جاتا
-
00:03:05 ٹھیک اگلا سوال یہ ہے کہ یہ بات تو طے ہے کہ دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپ سے تعلق اپ کو سب چیزوں سے عزیز سمجھنا یہ سب سے اولین تقاضا ہے تو کیا اس کا ایک ضمنی پہلو یہ نہیں نکلتا کہ جیسے اپ کی ہیت تھی ویسے ہی اپ سے محبت کرنے والے کا ادمی لازما وہ بنایا ہے یہ داڑھی رکھے اس میں بھی ہر چیز لازم نہیں
-
00:03:32 کچھ چیزیں لازم کی گئی ہیں جن کو ہم فرض کہتے ہیں واجب کہتے ہیں کچھ چیزیں دین میں پسندیدہ ہوتی ہیں مستحبات ہیں اچھی ہیں
-
00:03:41 تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کوئی اقدام اگر اپ کرتے ہیں تو یہ اقدام جو ہے پسندیدہ ہوگا ہم اس کی تحسین بھی کر سکتے ہیں لیکن اس کو بھی ہوش ہوش کے ساتھ ہونا چاہیے کوئی ادمی یہ کہے کہ میں کار پر سوار نہیں ہوگا میں ہمیشہ گدھے پر سواری کر
-
00:03:57 کوئی شخص یہ کہے کہ رسالت میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کا معرکہ لڑا احد کا معرکہ لڑا تیر تفنگ کے ساتھ لڑا بلکہ روایتوں میں دجال کے خلاف بھی جنگ تیر تلواری سے بیان ہوئی ہے تو ہم یہ سب اس لیے ہیں اس کی فیکٹریاں بند کر دیں اور ان کو خریدنا ختم کر دیں ہماری افواج اب تیر تفنگ سے میدان میں اترا کریں گی اور انشاء اللہ اللہ کی مدد حاصل ہو جایا کرے گی تو یہ استدلال ٹھیک ہوگا تو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اپ جو کام کر رہے ہیں وہ کس درجے میں ہے پھر یہ ہے کہ محبت کو اپ دین کیسے بنا سکتے
-
00:04:27 محبت ایک جذبہ ہے اس کا اظہار ہوتا ہے جو محبت دین میں مطلوب ہے وہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اور اللہ تعالی نے بھی واضح کر دی ہے کہ جب اپ کے سامنے کوئی ایسی چیز ائے جس کو اللہ اللہ کا رسول دین قرار دے رہا ہے اس کا مطالبہ کر رہا ہے تو اس کے مقابلے میں ایک بندہ مومن کو نہ اپنی جان عزیز ہونی چاہیے نہ اپنا مال عزیز ہونا چاہیے جب اللہ اللہ کے رسول کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے اجائے یہ چیزیں ایک اور سوال ہم سے بھی موصول ہوا کہ بعض لوگوں کو مثلا بعض فوجی ہوتے ہیں ان کو باز منصبی تقاضوں کے تحت خاص ہیئت اپنانے کا کہا جاتا ہے مثلا وہاں کا بارڈر پر جو لوگ ہیں انہوں نے لمبی لمبی مونچھیں رکھی ہوئی ہوتی ہیں
-
00:05:10 تو وہاں پر اور وہ منہ سے یقینی طور پر روب کے لئے ہی ہے وہ سامنے کھڑے ہوئے اس صورتحال میں کیا ان کا حکم ہوگا اس کے لئے خود دن میں یہ چیز موجود ہے کہ جو عام احکام ہوتے ہیں ان میں اگر کوئی ضرورت پیش اجاتی ہے تو استثناء کے حصول ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع کے اوپر اپ جانتے ہیں کہ صحابہ سے یہ کہا کہ ہم رمل کریں گے یعنی جب طواف کر رہے ہوں گے تو اس طرح کندھے اس کا ا کر اپنی شان کا اظہار کرتے ہوئے چلیں گے اس لیے کہ مشرکین نے اس موقع کے اوپر طنز و تاریخ کی کچھ باتیں
-
00:05:41 صحابہ کرام کے بارے میں جنگ کے میدان میں بعض اوقات یہ ضروری ہوتا ہے کہ اپ اپنی شان اپنے وقار کا اظہار کرتے ہیں تو اس طرح کی چیزیں مستثنیات سے متعلق ہوتی ہیں ان کو وہی رکھنا چاہیے ان کو اپ عام قانون نہیں بنا
-
00:05:54 بالکل ٹھیک ہوگیا اچھا اگلا سوال جو ہے وہ اس حوالے سے یہ ایا ہے کہ
-
00:06:01 زبان یہ کہتے ہیں کہ داڑھی دین نہیں ہے تو ایک صاحب نے سوال پوچھا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دین بنانا چاہتے
-
00:06:09 تو کیا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں رکھی ہوئی تو انہوں نے تھی اگر اس کو دین بنانا چاہتے تو کیا مختلف کام کرتے جس سے بطور سنت دین بن کے سامنے یہ سوال کرتا ہوں اگر رسالت میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ پہننے کو دین بنانا چاہتے
-
00:06:22 اگر اپ احمد باندھنے کو دین بنانا چاہتے ہیں اگر اپ تلوار سے جنگ کرنے کو دین بنانا چاہتے
-
00:06:27 تو پھر کیا کرتے یہی کرتے نہ کہ پھر سب لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ دین ہے ایک ایک شخص پر اس کو واضح کرتے کیونکہ ایک چیز دینی ہے دیکھنے میں جیسے نماز ہے تو اس میں تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اپ عمل کر دیجئے واضح ہو گیا کہ یہ دین ہے جو چیز اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین نہیں ہے اس میں تو پھر ایک ایک دروازے پر دستک دے کے اعلان کرنا پڑے گا ویسے ہی منادی کرنی پڑے گی جیسے جب قبلہ تبدیل کیا گیا تو گلی گلی میں منادی کی گئی بتایا گیا کہ قبلہ تبدیل ہوگیا ہے دین بنانے کا عمل رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کرتے
-
00:07:02 یعنی اگر کوئی چیز پہلے سے دین کی حیثیت سے چلی ا رہی ہے تو اس کی تصویر فرماتے تھے اگر کوئی شبہ تھا دور کرتے تھے پھر یہ کہ اس سے متعلق تہدید ہوتی تھی
-
00:07:12 یہ دیکھو یہ کام نہیں کرنا یہ بتاتے اپ کبھی داڑھی نہیں بنوانی تم نے کبھی بال نہیں کروانے یہ سب باتیں پھر منفی انداز میں بھی کہی جاتی ہیں کبھی بھی کہیں جا
-
00:07:22 ٹھیک بالکل سمجھ میں اتی ہے بات اچھا اگلا سوال ہم سے بھی موضوع موصول ہوا ہے کہ پھر اگر کوئی شخص داڑھی رکھتا ہے تو ہم اس کو کس اصول پے کہیں گے کہ داڑھی ایک مجھ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے
-
00:07:35 میں تو نہیں کھاؤں گا میرے نزدیک یہ بیماری سے بات ہے جب ایک چیز کا تعلق دین سے نہیں ہے تو ایک ادمی اپنے ذوق کے لحاظ سے اپنی وضع قطع کے لحاظ سے جیسی داڑھی چائے رکھے چھوٹی رکھ لے بڑی رکھ لے یہ ویسے ہی بالکل بے معنی ہے ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے جب دین میں کوئی چیز متعین کی جاتی ہے تو اللہ کے پیغمبر اسے ہمارے اشتہارات پر اس طرح نہیں چھوڑتے پھر وہ بتاتے ہیں کہ اپ نے رکھنی ہے ایسے ہے یہ اہتمام کرنا ہے یہ چیزیں کیوں کہ زیر بحث ہی نہیں ہے ان کو لوگوں نے استنباط کرکے زیر بحث موزوں میں داخل کر
-
00:08:08 اچھا ہم سے ایک بڑا دلچسپ ہے ایک سرکاری ملازم ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس نیت سے داڑھی رکھی ہوئی ہے کہ کوئی بندہ ا کر مجھے دیکھ کر کوئی غلط کام نہ کر سکے تو یہ کیسا ہے ہر ادمی کی اپنی ایک حکمت عملی ہے اگر انہوں نے اپنے لئے یہ حکمت عملی اختیار کی ہے اور اس میں انہیں کامیابی ہوتی ہے تو مجھے اپ کو کیا اعتراض کا حق
-
00:08:28 اچھا ایک صاحب نے پوچھا رام صاحب کیا حضور کی محبت میں داڑھی رکھنے کے نتیجے میں اخرت میں بھی کوئی اجر ملے گا ہمیں
-
00:08:36 یہ جو کام بھی اپ اللہ کے پیغمبر کی محبت میں کرتے ہیں اللہ تعالی اس کو پسندیدگی کی نگاہ سے
-
00:08:42 لیکن میں نے پہلے بھی توجہ دلائی کہ اپ کو وہی کام کرنا چاہیے کہ جو اج کے تمدن میں کرنے موضوع ہو
-
00:08:50 اس کی مثالیں دی ہیں میں نے گاڑی اپ میں رکھ لی کوئی فرق نہیں پڑے گا رکھ لے
-
00:08:55 لیکن اگر اپ یہ کہیں کہ میں اب تہمت باندھ کے فوج میں جاؤں یہی سنت
-
00:09:00 میں گلی پر سواری کروں گا اس لئے یہی سنت ہے
-
00:09:03 تو یہ اپ دین کے ساتھ بھی مذاق کریں گے اور میں یہاں ایک چیز کی طرف توجہ دلادوں اور وہ یہ ہے کہ جو چیز دین میں ہے اور اپ اس کو دین سے نکالتے ہیں
-
00:09:15 جس طرح وہ ایک بڑا جرم ہے اس طرح جو چیز دین میں نہیں ہے
-
00:09:19 اوسکو دین میں داخل کرتے ہیں اس سے بھی بڑا ج
-
00:09:22 یہ اللہ تعالی نے یہ بتایا ہے قران مجید میں کہ یہ اس طرح بن جاتا ہے اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے
-
00:09:29 ارے اللہ کا کام ہے نہ دین دینا تو جب اپ نے اپنی طرف سے کوئی دین بنا کے چیز دین میں داخل کر دی تو یہ کیا چیز ہے یہ وہی چیز ہے جس کو قران مجید میں بیان کیا جاتا ہے کہ تم اللہ تعالی کی نسبت سے جھوٹ باندھ رہے ہو
-
00:09:45 اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح دین کے اندر کوئی چیز ہے اسے نکالنے کے لئے برسوں اپ کو غور کرنا چاہیے کہ اپ کہیں غلطی نہ کھا جائیں اسی طرح داخل کرنے کے لئے بھی اس سے زیادہ غور کرنا چاہیے
-
00:09:59 عدالت
-
00:10:01 بالکل اس لئے ہمیشہ اس معاملے میں مطلب میں رہنا چاہیے
-
00:10:04 اشتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے وہ غلطی کو اللہ معاف کرتا ہے لیکن بڑی احتیاط سے یہ باتیں کرنی چاہیے یہ اس طرح کے معمولی معمولی قسم کے استدلالات کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی اگر ہم صرف ایک کمیٹی موصول ہوا ہے کہ کہتے ہیں ایک صحابی کی داڑھی تھی اور صرف ایک بال تھا
-
00:10:21 تو انہوں نے وہ بال بھی جب کٹوا دیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا اس کی کیا کی روایت کی تحقیق کرکے مجھے بتائیے گا کہاں پائی جاتی
-
00:10:30 اس طرح کے بہت سے قصے ہیں لوگ بیان کرتے رہتے ہیں
-
00:10:33 ٹھیک
-
00:10:34 اچھا ہم سے ایک دو تین اور سوال ہیں اس حصے سے متعلق پھر ہم ان شاء اللہ اس خلاصے کی طرف بڑھیں گے
-
00:10:40 ہاں ایک سوال یہ ہے کہ
-
00:10:42 بہت سارے لوگ اج کل فیشن کے طور پے مونچھیں رکھتے ہیں لیکن اس میں مقصود جو ہے وہ تکبر نہیں ہوتا ہے تکبر کو نمایاں کرنا نہیں ہوتا بس ایک فیشن ہے چل پڑا ہے لمبی لمبی مونچھیں رکھ لیں تو اس صورت میں دین کا کیا حکم
-
00:10:56 دو چیزوں کو الگ الگ ہمیشہ کرلیں ایک یہ ہے کہ ایک ایسی ہے یا ایسی وضع قطع ہے جس سے متعلق عمومی تاثر ہی متکبرانہ ہے تو ہمارے دین میں تعلیم دی گئی ہے کہ اس سے بچنا چاہیے ادمی
-
00:11:08 ہینی اس کو دیکھنے کے بعد اپ کی نیت نہیں پوچھی جاتی اپ کی ہیت سے یہ اندازہ ہوتا ہے یہ کیا صورت بنا رکھی ہوئی ہے تو ایسی سب چیزوں پر توجہ دلانی
-
00:11:18 اور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تو سنت کا درجہ دے دیا
-
00:11:22 یہ بات کے مونچھیں پست رکھی
-
00:11:24 اس کو سنت کا درجہ
-
00:11:25 اور اپ دیکھیے کیسے دیا کس طرح تاکید کی
-
00:11:28 پھر اس کی وجہ بتائیے اور ہم نے جب اس کو دین کے مجموعی نظام میں رکھ کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ٹھیک دین میں تزکیہ کو ہدف کیا مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے یہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اس سے ریلیٹ کر رہا ہے اس کو الگ سے بیان کیا
-
00:11:44 اور یہ بتایا کس کی کیا حیث
-
00:11:46 چنانچہ ہم سے میل فطرہ والی روایت میں صرف اسی کو بیان
-
00:11:49 ٹھیک اس کے بارے میں تو ہمارے پاس واضح ہدایات موجود ہیں یہاں بحث کی گنجائش نہیں ایک سوال یہ ایا ہے کہ اگر کوئی افسر اپنے ماتحت کو داڑھی منڈوانے کا حکم دے کسی ضرورت کے تحت
-
00:12:03 ایک اور میں سے ضرور اجکل جنگیں سامنے ائی ہے کوئی کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز جو ہیں اس وقت ماسک پہنتے ہیں کورونا وائرس کے ضمن میں تو ان کی داڑھی اگر بہت بڑی ہو تو وہ ماسک کور نہیں کر پاتا تو اس طرح کی صورتحال میں کوئی اس طرح کا حکم دیا جا سکتا ہے اس لیے اس طرح کی ساری ہدایات کی جا سکتی ہیں لیکن وہ ادمی جو اس کو دین کا حکم سمجھتا ہے
-
00:12:24 اس کے لئے تو بڑا مسئلہ پیدا ہوگا نا
-
00:12:27 وہ کیا کرے گا
-
00:12:28 اب ظاہر ہے کہ اب وہ اپنی ملازمت چھوڑیں
-
00:12:31 اور یاد پھر اپنے افسروں کے حکم پر عمل کریں تو میں یہ تو ضرور کہوں گا کہ اپ کسی چیز کو دین سمجھتے ہیں تو پھر اپ کو عزیمت کے ساتھ اس پر عمل کرنا چاہیے
-
00:12:40 لیکن میرے نزدیک کیونکہ یہ دین کا مسئلہ نہیں ہے تو اس لئے ادمی کا ذوق ہے اور ذوق کے معاملے میں تو کوئی اصرار نہیں کرنا چاہیے
-
00:12:47 ٹھیک
-
00:12:48 اخری سوال جو ہے وہ سمن میں لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بائبل کے اندر بھی ہم سبھی کہتے ہیں کہ جو دین ہے وہ اصل میں انبیاء کی اسی روایت سے ایا ہے جو پہلے جاری تھا تو ہمیں بائبل میں باتیں ملتی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ نہ صرف کے بال کاٹو اور نہ داڑھی منڈ
-
00:13:04 میں داڑھی کے بال کاٹ دو تو اس کو کیسے دیکھتے ہیں اپ اگر جانتے ہو اس بات کو کہ جب ادمی اپنے اپ کو اللہ کی نظر کرتا ہے
-
00:13:13 تو اس کے کچھ عذاب ہماری شریعت میں بھی مقرر کیے گئے ہیں اور یہ ہمیشہ سے رہیں
-
00:13:17 کین یو اس میں اپ ناخن نہیں تراشتے اس پر اپ بال نہیں تراشتے یہی ہم احرام میں کرتے ہیں اور اسی کے بارے میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ جو ادمی قربانی کرے گا تو وہ یکم ذوالحج کے بعد یہی اہتمام کرے گا تو اس ضمن کی چیزیں بائبل میں بھی ائی
-
00:13:32 ٹھیک تو یہ ہم سب کو ضمنی سوالات ہمیں موصول ہوئے تھے اب میں چاہوں گا کہ جو پورا نقطہ نظر ہے داڑھی کے متعلق اس کا اپ اگر خلاصہ کریں یہ بتانا چاہیں کہ داڑھی کی دینی حیثیت کیا ہے تو اپ کیا کہیں گے
-
00:13:47 میں یہ کہوں گا کسی چیز کی دینی حیثیت کو متعین کرنے کے لئے ہمیں جذبات سے بالکل الگ ہو کر سب سے پہلے اللہ کی کتاب قران مجید کو دیکھنا چاہیے میں نے بہت تفصیل کے ساتھ تجزیہ کر کے اپ کو بتایا ہے کہ قران مجید میں اس کا کوئی ذکر بھی کہیں موجود نہیں ہے یہ بات کہ فلاں پیغمبر نے داڑھی رکھی ہوئی تھی یہ داڑھی کے حکم کو بیان کرنے کا اسلوب نہیں ہوتا یہ تو ایک بیان واقع ہے اور اس طرح کا ذکر کہیں بھی اسکتا ہے کوئی چیز بھی کسی جگہ اسرائیل کی بیان نہیں
-
00:14:16 جن لوگوں نے بعض ایات سے ضمنی استدلال کیا اس کی غلطی ہم نے واضح کر دی اور یہ بتایا کہ اس میں انسان کی وہ فطرت زیر بحث ہے جو دین کی بنیاد
-
00:14:26 یعنی تزکیہ یعنی اخلاقی تطہیر یعنی اللہ کا تصور یعنی ربوبیت کا اقرار وہ چیزیں ہیں جو وہاں زیر بحث ہے اسی طرح سے اگر اس کے تحت بھی کچھ چیزوں کو دیکھنا ہے فطرت کی حیثیت سے تو یہ دیکھا جائے گا کہ مجھے خدا نے مرد بنایا ہے کسی کو عورت بنایا ہے اسے اپنی اس حیثیت کو تبدیل کرکے اللہ تعالی کے ساتھ سرکشی اختیار کرنی چاہیے
-
00:14:48 ہمیں کچھ اللہ تعالی نے بال اگائے ہیں ان میں سینے پر بھی ہوتے ہیں جسم کے دوسرے حصوں پر بھی ہوتے ہیں زیر ناف بھی ہوتے ہیں سر پر بھی ہوتے ہیں ان کی تلاش تلاش کیا رکھنی ہے کیا نہیں رکھنی اینسان کے ذوق پر چھوڑ دیا گیا ہے اس کا فطرت کے انحراف سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے تو اس کی غلطی واضح کی گئی اور پھر یہ بتایا گیا کہ جو سنت ہوتی ہے یعنی جس کو رسالت میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم دین کی حیثیت سے جاری کرتے ہیں
-
00:15:12 اور وہ پیغمبروں سے چلی جا رہی ہوتی ہے اپ اس میں اضافہ بھی کرتے ہیں ترمیم بھی کرتے ہیں اس میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس میں کوئی اس نوعیت کی بات نہیں کہی گئی نہ کبھی صحابہ کرام نے اس حیثیت سے اس کو منتقل کیا ہے
-
00:15:27 کچھ روایات ہیں ان روایات میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو بعض چیزوں کی طرف توجہ دلائی
-
00:15:35 اس کو لوگوں نے غلطی سے سمجھا ہے کہ یہ داڑھی رکھنے کا حکم ہے جب ان سب روایتوں کو اپ جمع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دو طرح کی چیزیں پائی جاتی
-
00:15:46 یعنی یہ کہے کہ وضع قطع کے ذہن میں اہل کتاب میں مثلا جیسے میں نے
-
00:15:51 ابو ماما باری کی روایت اپ کے سامنے پیش کی اور بیان کیا ایک بدعت اختیار کرلی تھی تو اپ نے اس کی اصلاح
-
00:15:58 یہ بدعت ہے میں نے جوتے پہننے کے بارے میں موزے پہننے کے بارے میں داڑھی رنگنے کے بارے میں تو اپ نے فرمایا کہ ان بدعتوں میں ان کی مخالفت کیا کرو یہی پیغمبروں کا کام
-
00:16:08 اور اسی طریقے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مجوس میں بھی اہل کتاب میں بھی اور مشرکین میں بھی متکبرین لیڈر قسم کے لوگ ایسے ہی وضع قطع بناتے تھے اس کو خود حضور نے بیان کر دیا کہ چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھ لیتے ہیں بڑی بڑی مشہور رکھ لیتے ہیں تو اس کو اپ نے پسند نہیں فرمایا اور یہ کہا کہ یہ متکبرانہ وضع قطع
-
00:16:28 یہ متکبرانہ مذاق تھا کی چیز ہے اس کو ہم نے دین کے اصول سے سمجھا
-
00:16:32 یعنی یہ جانا کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تبصرہ فرما رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں خالق و مشرکین خالق و اہل الکتاب خالف المجوس یعنی ان کی مخالفت کرو تو گاڑیاں تو وہ رکھے ہوئے ہیں اس سے بھی رکھے ہوئے ہیں ان کی وضع قطع کیسی ہے
-
00:16:48 وہ متکبرانہ مذاق کرتا ہے اس کے نتیجے میں تطہیر کے تقاضوں پر کوئی فرق پڑتا ہے تو پیغمبر اس کی اصلاح کرتے ہیں اور اصولی طور پر ہم نے توجہ دلائی کہ دین کا مقصد تزکیہ ہے یہ اللہ تعالی نے متعین کر دیا ہے
-
00:17:01 اس کے ہر حکم کا ریلیشن اس مقصد کے ساتھ متعین کرنا پڑے گا اور تزکیے کا مطلب کیا ہے یہ کہ ہم تطہیر کریں ہم پاکیزگی اختیار کریں چنانچہ میں نے اپ کو بتایا کہ جب بھی دین کا استخصار کرتے ہیں اور اس کے احکام کو دیکھتے ہیں وہاں احکام زیر بحث ہے یعنی ایک تو ایمان اور عقائد کی چیزیں ہے نا وہ الگ ہے دین کیا کام کا جب اپ استخار کرتے ہیں تو اپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں عبادات ہوتی ہیں اس میں طہارت بدن کے احکام ہوتے ہیں اس میں طہارت خرونوش کی چیزیں ہوتی ہیں کہ طیبات کھاؤ گے خبائث سے اجتناب کرو گے اور اس میں اخلاق کی تطہیر اخلاق کے تزکیہ کے احکام ہوتے ہیں تو ہر چیز وہاں ہوگی مونچھوں کو پست رکھنا یہ طہارت کے لئے بھی ضروری ہے اور یہ متکبرانہ احساس کو ختم کرنے کے لئے بھی ضروری ہے اور اس معاملے میں جو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پوری باتیں کہی ہیں جب ان کو اپ بالکل ٹھیک رکھ کے دیکھتے ہیں تو اس سے بھی یہی مدعا ہے کہ لوگ داڑھی رکھیں گے مرد داڑھی رکھتے تھے ایک لمبے عرصے تک سبھی لوگ داڑھی رکھتے رہے ہیں تصور بھی نہیں تھا کہ داڑھی نہیں رکھی جائے گی عام طور پر چند لوگ ہوتے تھے داڑھی منگواتے تھے ورنہ داڑھی رکھی جاتی تھی
-
00:18:08 تو اس داڑھی کی اور موس کی نزاکتیں کیسی ہونی چاہیے اپ نے بال رکھے ہیں تو کیسے رکھنے چاہیے اپ نے لباس پہنا ہے تو کیسا پہننا چاہیے تو یہ چیز ہے جو حدیثوں میں زیر بحث ہے اس کو لوگوں نے داڑھی رکھنے کا حکم سمجھ لیا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہمارے جلیل القدر ائمہ میں امام شافعی اس کو ایسے نہیں
-
00:18:28 ٹھیک
-
00:18:29 داڑھی کے حوالے سے جو ایک بہت بنیادی اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہاں پر پایہ تکمیل کو پہنچا ہم اس موضوع کو
-
00:18:37 یہاں پر روک کے
-
00:18:39 اب دوسرے اعتراض کی طرف اتے ہیں
-
00:18:42 اور میرا احساس یہ ہے کہ جس طریقے سے
-
00:18:45 داڑھی ایک بہت ہی
-
00:18:47 حساسیت رکھتی ہے مسلم امہ کے نزدیک مردوں کی حیثیت سے اسی طرح سے یہ دوسرا مسئلہ ہے وہ ہے عورتوں کے پردے سے متعلق تو اس حساسیت کا ذکر کرتے ہیں صرف برصغیر میں اچھا میں نے اپ سے عرض کیا کہ جہاں جہاں اس طرح کی کوئی حساسیت نہیں ہے اپ جائیں مراکش میں اپ جائیں مصر میں اپ کو مساجد کے ائمہ ملیں گے جن کی کوئی داڑھی نہیں ہے اور دنیا کی اقوام میں عرض کر چکا ہوں کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے
-
00:19:14 ایک دو نہیں چار پانچ نہیں کروڑوں کی تعداد میں ہے جن کی داڑھی ہوتی ہی نہیں ہے تو خان صاحب عورتوں کے پردے کے حوالے سے
-
00:19:26 ہم گفتگو کا اغاز کرتے ہیں کوشش ہماری یہی ہے کہ اسی ترتیب سے چلیں قران مجید کی ایات پھر احادیث اور پھر لوگوں کے معاشرتی اور تہذیبی تاثرات لیکن
-
00:19:37 میں ابتدا میں ایک پرسیپشن جو ہے اس کو اپ تک منتقل کرنا چاہتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اس کو اپ ویسے تو اپ بہت حوصلے سے چیزوں کو سنتے ہیں لیکن میری خواہش یہ ہے کہ جو لوگوں کے تاثرات ہیں جذبات ہیں وہ میں اپ تک پہنچا ہوں اور میں نے بہت کوشش کی کہ وہ میں کیسے پہنچاؤں ان چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے تو مجھے مولانا مودودی کی کتاب پردہ میں سے اقتباس ملا
-
00:19:59 تو مجھے لگا کہ وہ بالکل وہی تاثر بیان کرتے ہیں جو لوگ اپ کی پردے کے اراء کے بارے میں سمجھتے ہیں میں 1 منٹ میں وہ پڑھ دیتا ہوں
-
00:20:07 بولنے کہتے ہیں کہ 19ویں صدی کے اخر اخری زمانے میں ازادی نسواں کی جو تحریک مسلمانوں میں پیدا ہوئی ہے
-
00:20:14 اس کے اصلی محرک یہی جذبات اور رجحانات
-
00:20:18 بعض لوگوں کے
-
00:20:20 شعور خفی میں یہ جذبات چھپے ہوئے تھے اور ان کو خود بھی معلوم نہ تھا کہ دراصل وہ کس تحریک کی طرف اپنی توجہات کو لے کے جا رہے ہیں
-
00:20:29 یہ لوگ اپنے نفس کے دھوکے میں مبتلا تھے اور بعض کو خود اپنے جذبات کا بخوبی احساس تھا مگر انہیں اپنے اصلی جذبات کو ظاہر کرتے شرم اتی ہے
-
00:20:39 مولانا اگے لکھتے ہیں کہ یہ خود تو دھوکے میں نہ تھے لیکن انہوں نے دنیا کو دھوکے میں ڈالنے کی کوشش کی بہرحال دونوں گروہوں نے ایک ہی کام کیا اور وہ یہ کہ اپنی تحریک کے اصل محرکات کو چھپا کر جذباتی اور عقلی تحریک اجاگر کی جائے عورتوں کی صحت ان کے عملی اور عقلی ارتکاب ان کے فطری اور پیدائشی حقوق ان کے معاشی استقلال مردوں کے ظلم اور استبداد سے ان کی رہائی اور پھر مولانا لکھتے ہیں کہ ان سب کا مقصد عورتوں کو مغربی تہذیب کی طرف لے کر انا ان کو بے پردہ کرنا اور ان کے جو
-
00:21:17 شہوانی جذبات ہیں ان کو اجاگر کرنا
-
00:21:20 اس کے بعد مولانا نے جو ایک اور جملہ لکھا ہوا یہ کہ ہر
-
00:21:24 صاحب علم اور عقل اندازہ کر سکتا ہے کہ اس طرح کی جو تحریک جو لوگ اٹھاتے ہیں وہ قران و سنت سے دلائل تلاش کے لاتے ہیں اور مولانا یہ لکھتے ہیں کہ یہ لوگ درحقیقت پہلے سے طے کر چکے ہیں کہ اپنے معاشرے کو مغربی معاشرے کی طرف ڈالنا ہے اور پھر قران و سنت سے دلائل نکال کے لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں تو میں بہت معذرت کے ساتھ ناراض نفسی کی لیکن اپ جب بھی کبھی بات کرتے ہیں پردے سے متعلق
-
00:21:51 لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ کوئی دینی جذبہ نہیں رکھتے نہ ان لوگوں کا کوئی مذہب بھی پس منظر ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک مذہبی ادمی قران و سنت پڑھے اس کے اپنے گھر والے اس کی بیوی اس کے بچے
-
00:22:03 پردہ نہ کرتے
-
00:22:04 یہ لوگ جب بھی پردے پر بات کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کو اس مغربی تہذیب کے برابر لایا جائے میں اپ سے پوچھنا چاہتا ہوں بہت معذرت کے ساتھ
-
00:22:15 اپ اپنا ہی فکری سفر بتائیں پہلے کہ یہ پردے کے پورے معاملے میں انے سے پہلے کیا رجحانات تھے کیسے اس پر توجہ کی کوئی مغربی فکر سے متاثر ہوئے پھر یہ پرانے سنت کا مطالعہ کیا حقیقی اور سچی سچی بات بتایا
-
00:22:29 تو بارہا ہی عرض کر چکا ہوں کہ جہاں تک دینی علوم کا تعلق ہے وہ تو میں اپنے مدرسے کے زمانے میں پڑے ہوئے
-
00:22:38 اس لئے مذہبی روایت عربی زبان فارسی زبان ہمارے ہاں درس نظامی کے علوم و فنون ان سے میں واقف
-
00:22:46 تو اس وجہ سے مذہب کے معاملے میں ایسا نہیں تھا کہ میں کوئی بیگانہ تھا
-
00:22:51 میرے والد کو ایک صوفی تھے اور اس پس منظر میں میرا دہانہ بھی ایک مذہبی گھرانا تھا مذہب کی اقدار ان سب چیزوں کی نہایت عزت کرنے والا ہمارے خاندان کی گاؤں میں اپنی مسجد تھی اور میرے اپنے اجزاء کربہ وہاں پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں تو اس وجہ سے یہ تو کوئی سوال ہی نہیں تھا
-
00:23:10 مولانا سید مولانا صاحب بلودی کا اقتباس اپ نے پڑھا ہے میں کئی مرتبہ بتا چکا کہ میں نے تو اصل میں علمی اور فکری شعور کی انکھوں کی اغوش میں کھولی
-
00:23:20 اور یہ جو ان کے تصورات تھے انہی کے اندر زندگی شروع کی
-
00:23:24 ان کی جدوجہد کا حصہ بن کے زندگی شروع کی
-
00:23:27 برسوں تک صورتحال یہ رہی ہے کہ میں تو اس کا بھی قائم نہیں تھا کہ خواتین دستانے پہنے بغیر باہر چ
-
00:23:34 اپ کی اپنی اہلیہ کبھی کہی معاملہ تھا میری والدہ تو وہ برقعہ پہنتی تھی جو اپ جس کو کہتے ہیں کہ وہ ٹوپی والا برقعہ ہوتا ہے جس میں سارا کا سارا جسم چھپ جاتا ہے اپ نے افغانی خواتین کو پہنے ہوئے دیکھا ہوگا
-
00:23:49 تو اس وجہ سے یہی پسند تھا ہمارا میں نے جب دین پر غور کرنا شروع کیا تو پھر تمام تعصبات کو ایک طرف رکھ دیا جذبات کو بھی ایک طرف رکھ دیا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ حقیقت میں اللہ تعالی کیا چاہتے ہیں اللہ کے پیغمبر نے کیا ہدایت دی ہے اور ہم مسلمانوں کی تعریف میں جو جلیل القدر اہل علم رہے ہیں وہ کس طرح سمجھتے ہیں
-
00:24:11 لوگ عام طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ کو دیکھے بغیر کوئی رائے قائم کرلی
-
00:24:16 ابھی اپ دیکھ سکتے ہیں کہ میری دو اہم ترین تحقیقات کے اوپر مولانا عمار خان ناصر صاحب نے ایک لمبا سلسلہ مضامین لکھا ہے
-
00:24:26 میں توجہ دلاؤنگا کہ اس کو پڑھ لیجئے اس میں انہوں نے بتا دیا ہے کہ وہ تحقیقات کے پس منظر میں مسلمانوں کی علمی تاریخ کے کیا مواعظ
-
00:24:34 اس سے پہلے اہل علم اس کو کس طرح دیکھتے
-
00:24:38 خاص اس پردے کے بارے میں
-
00:24:40 ہمارے عزیز دوست مولانا عامر غزل صاحب نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے
-
00:24:46 اور اس میں بھی پوری طرح بتا دیا ہے کہ اس سے پھلے کیا ارار رہی ہیں اہل علم اس کو کیسے دیکھتے رہے ہیں اس میں کیا اختلافات رہے ہیں اصل میں ہم بالکل اپنے قریبی ماحول میں اسیر ہوتے ہیں
-
00:24:58 میں نے اپ سے عرض کیا کہ میرے ایک عزیز تھے انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ایک اہل حدیث بچے کے ساتھ کر دی اچھا اور
-
00:25:08 حسن اتفاق کہیے سوئے اتفاق رمضان اگیا وہ اعتکاف پر بیٹھ گئے یہ ان کو ملنے کے لئے گئے اہل حدیث کی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے یہ وہاں گئے ساری زندگی کبھی پتا ہی نہیں تھا کہ رفع الیدین بھی ہوسکتا ہے امین زور سے بھی کہی جا سکتی ہے تو جیسے ہی سنا تو نماز توڑ کے باہر نکلا ہے اور یہ کہا کہ کافروں کی جگہ پے اگیا ہوں میں تو ہمارے ہاں بھی صورتحال یہی ہے کہ ہم نے اپنے قریب کی علماء سے بعض باتیں سنی ہوتی ہیں بعض چیزیں صرف برصغیر میں سنی ہوتی ہے اس سے اوپر اٹھ کے کبھی دیکھا ہی نہیں ہوتا
-
00:25:36 میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ پہلے پہل اپنے دیہاتوں سے نکل کے حرم میں جاتے ہیں یا مثال کے طور پر سعودی عرب میں ملازمت کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں تو بڑی اہمیت محسوس کرتے ہیں کہ یہ تو کوئی اور ہی دین ہے ابھی انہوں نے تو نوافل نہیں پڑھے ابھی سنتے نہیں پڑی ابھی یہ نہیں ہوا تو اس وجہ سے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اپ تعصبات اور جذبات کو ایک طرف رکھیں اور اپ اپنے دین کو سمجھنے کی صحیح کریں میں پھر عرض کردوں کہ اس کے سمجھنے میں غلطی ہو
-
00:26:03 ہم سب انسان ہیں لیکن استدلال پر نگاہ کرنا اور سمجھنا ہم اس کی روایت نہیں ڈالیں گے تو ہمارے ہاں یہ سب چیزیں بالکل ایسے ہی تعصبات کی صورت اختیار کر کے وہی جذبات پیدا کر دیں گی جس میں ہم ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے اس کی تذلیل تفسیر کرتے کسی ادمی کی نیت پر حملہ اور ہو جاتے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پیغمبر نے کیا رویہ اختیار کیا اس طرح کے معاملات میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اللہ کی ہدایات کیا ہیں اپ ذرا سورہ حجرات پڑھیے
-
00:26:35 اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں زیادہ گمان نہ کیا کرو ورنہ بازو زندہ اسم
-
00:26:40 یہ سب گناہ کی بات بن جائے
-
00:26:42 اسی طریقے سے کوئی کسی کا مذاق نہ اڑائے تمسخر نہ کرے استحزا نہ کرے گالی نہ
-
00:26:48 کوئی بری باتیں نہ کہے یہ فرمایا کہ یہ جو برے برے نام رکھنا ہے یا اس طرح کے بعض جملے کسنا ہے یہ سب کچھ جو ہے یہ گناہ کی باتیں
-
00:26:57 تو ہمیں علمی مزاج پیدا کرنا چاہیے اور شائستگی کے ساتھ یہ کہنا چاہیے کہ ہمیں اس بات سے اختلاف ہے تو ایسا نہیں ہے میں وہی پس منظر رکھتا ہوں اسی میں میں نے زندگی بسر کی ہے برسوں ہمارے خاندان کے اندر وہی روایات موجود رہی ہیں اس کے بعد میں نے تحقیق کا جب کام کیا تو جس نتائج نتیجے پر پہنچا اس کو میں نے اپنی کتاب میزان میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے اپنی تفسیر میں سورہ نور کی تفسیر میں سورہ احزاب کی تفسیر میں اپنا نقطہ نظر بتا دیا ہے اور اب اس کے اوپر علمی کام کر رہے ہیں لوگ بہت سی یونیورسٹیوں میں عنقریب وہ سب چیزیں سامنے اجائیں گی جیسے میں نے اپ سے عرض کیا ہے کہ مولانا عامر غزل صاحب کا مطالعہ عربی زبان میں ہے اب شائع ہو جائے گا دیکھ لیں گے لوگ اس میں پوری تاریخ انہوں نے بیان کر دی ہے کہ یہ پس منظر ہے اس مسئلے کا یہ اہل علم کی ارادہ نہیں ہے اور میرا نقطہ نظر اس میں بیان کرتی ہے
-
00:27:48 یہ بات تو سمجھ میں اتی ہے کہ اپ نے اپنا استدلال علمی بنیادوں پر دیا
-
00:27:52 لیکن مولانا مودودی نے جس نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے پردے کی اس بحث میں یہ بھی تو اپ مانیں گے نہ کہ مغربی تہذیب کا باہر کیف اثر ہوا ہے ہماری دینی علمی روایت پر بھی ایسے علماء پیدا ہوئے جنہوں نے پھر اس تحریک کے ساتھ کوئی معاف کر پیدا کرنے کے لئے لٹریچر بھی تصنیف کیا ہے تو کیا اپ اس کو بالکل خلاف حقیقت بات سمجھتے ہیں جو مولا نے کہی ہے کچھ ایسے کیوں کہا جائے مفتی محمد عبدو ہے رشید رضا ہیں سرسید احمد خان ہیں اسی طرح مولانا سیدنا صاحب بودوی ہیں شبلی نعمانی ہیں مولانا امین احسن اصلاحی ہے مولانا عبدالکلام ازاد ہیں بڑے جلیل القدر علم ہے اسی طرح شیخ غزالی ہیں مثال کے طور پر اخوان کے لوگوں میں سے سید کتب ہیں تو یہ جتنے لوگ بھی دور حاضر میں پیدا ہوئے ہیں نہایت نیک نیت ہے تاہم ان کے محرکات تلاش کرنے چاہیے نہ یہ خیال کرنا چاہیے کبھی خلوت میں بھی خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ بد نیتی کی وجہ سے یا کسی سے مرعوب ہو کر یہ بات کریں گے ایک صاحب علم بعض اوقات کسی مسئلے کی طرف متوجہ ہوتا ہے حالات کی
-
00:28:52 میں نے اس کی مثال دی تھی
-
00:28:54 کہ اس سے پہلے تصویر کوئی مسئلہ ہی نہیں
-
00:28:57 اس وجہ سے لوگوں نے جو بات سمجھی تو یہ خیال کرتے رہے یعنی مولانا سید عبداللہ صاحب مودودی نے اپ تفہیم القران میں دیکھیے حکایت تصویر حرام ہے متعلق ہے
-
00:29:08 اور اس میں کوئی فرق نہیں
-
00:29:10 یعنی وہ منہ کرم سے بنی ہوئی ہے وہ کیمرے پر ا رہی ہے وہ کسی بھی نوعیت کی تص
-
00:29:14 لیکن اپ دیکھیں وقت کے ساتھ
-
00:29:17 کون عالم بھی رہ گیا ہے کہ جو تصویر نہیں کھینچوانا فیزبک پر دیکھ لیجئے دوسری جگہ پر دیکھ لیجئے تو اس طرح کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جو جس وقت شروع ہوتی ہیں تو ایسا ہی ردعمل ہوتا ہے لیکن یہ تصویر کے بارے میں تبدیلی ائی کیسے یعنی یہ پیسے کیسے پیدا ہوئی کہ یہ وہ قلم والی تصویر نہیں ہے چلیے یہ تو کیمرے کی تصویر ہے یہ تو اپنی جگہ مستحکم نہیں ہوتی اس طرح کی چیزیں اپ نے کیوں نکالی اس کی وجہ یہ ہے کہ تصویر علم کا ذریعہ بن گئی ابلاغ کا ذریعہ بن گئی اخبار کا ذریعہ بن گئی پاسپورٹ کی بنیاد بن گئی شناختی کارڈ کی بنیاد بن گئی ہر جگہ تصویر کا اتنے بڑے پیمانے پر شیو ہوا کیا اپ غور کرنے کے لئے مجبور ہو گئے
-
00:29:58 تو یہ بات بسا اوقات ہوتا پھر میں اس سے اگے بڑھ کے پوچھوں گا سوال یہ ہے کہ یہ جوک جتنی بحث ہوئی ہے اسلامک بینکنگ کی
-
00:30:05 یہ اسمان پر بیٹھے ہوئے ہوگئی ہے
-
00:30:08 ایک پورا کا پورا اس ٹیوشن وجود میں اگیا اس انسٹیٹوشن میں دنیا کی معیشت کا احاطہ کرلیا
-
00:30:14 اس علاقے کے نتیجے میں سوالات پیدا ہو گئے تو بسا اوقات دنیا میں انے والی تبدیلیاں اپ کو تحقیق کی طرف متوجہ کر
-
00:30:21 یعنی اس سے پہلے اپ نے غور نہیں کیا ہوتا تو اپ پلٹ کے دیانتداری کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ جو بات ہم کہہ رہے تھے کہیں ہم اپنی انٹرپریٹیشن میں غلطی تو نہیں کر رہے تھے
-
00:30:31 اسی غلطی بازی ہو جاتی
-
00:30:32 بالکل ٹھیک ہے ہم سب بڑی تفصیل سے اپ نے اس حساس چیز کو بھی
-
00:30:38 گفتگو میں لے کر ایا ہے اب ہم ترتیب سے شروع کرتے ہیں جو ہمارا طریقہ ہے کہ بھئی قران مجید میں
-
00:30:44 میرے بھینس سے حدیث میں ہے سب سے پہلا سوال بہت بنیادی سوال
-
00:30:48 اصطلاح ہے پردہ یہ عربی میں اس کو مثلا حجاب کا کہہ کے بیان کیا جاتا ہے
-
00:30:54 اس لفظ کا ماخذ کیا ہے اپ کے علم کی حد تک یہ کہیں قران مجید میں زیر بحث ہے کسی اور دینی روایت میں زیر بحث ہے یہ لفظ کہاں سے
-
00:31:02 یہ بھی بڑا دلچسپ سوال کیا یعنی یہ پردہ
-
00:31:06 حجاب عربی میں حجاب کہتے ہیں نہ اس
-
00:31:09 یہ جس طرح کے ہمارے ہاں ایک فقہی چیز یا ایک شریعت کا حکم سمجھ کے بیان کیا جاتا ہے دین کا پورا ذخیرہ اس سے بالکل خالی اچھا نہ یہ قران مجید میں اس لحاظ سے زیر بحث ایا ہے
-
00:31:22 نا یہ کسی حدیث میں اس لحاظ سے زیر بحث ایا ہے
-
00:31:25 یعنی یہ بات کہ حجاب کا کوئی حکم ہے جس کو اللہ تعالی نے اللہ کے پیغمبروں نے ایسے بیان کیا
-
00:31:32 قران مجید میں یہ لفظ کہاں استعمال ہوا ہے وہ جو گھر کے دروازے پر پردہ ڈالتے ہیں اس کے لئے استعمال ہوا
-
00:31:39 ہمم برائے حجاب
-
00:31:41 یعنی یہ جو حجاب کا تصور اب ہمارے یہاں ہے یا پردے کی اصطلاح جو عام طور پر بولی جاتی ہے یہ قران مجید کی اصطلاح نہیں ہے یہ حدیث کی اصطلاح نہیں ہے اس لئے میں نے یہاں بھی دیکھی ہے یہ توجہ دلائی اپنی کتاب میزان میں کہ صحیح تاویل یہ نہیں ہوگی یعنی پردے کے احکام پردے کا حکم
-
00:32:01 یہ تو ہمارے ہاں ایک اجنبی چیز ہے ہی نہیں ہمارے علم میں جو چیز بیان ہوئی ہے قران مجید میں وہ کیا ہے وہ حقیقت میں یہ ہے کہ مرد و زن کے اختلاط کے موقع پر یعنی جب عورتیں اور مرد اکٹھے ہوں تو کن اداب کا لحاظ رکھنا
-
00:32:16 اپ جس کو ایٹیکیٹس
-
00:32:18 تو اسی وجہ سے میں نے جو عنوان قائم کیا ہے اپنی کتاب میزان میں وہ مرد و زن کے اختلاط کا عنوان
-
00:32:25 یہ بھی ایک اپ نے سمجھا ہے کہ اصلاح کیا تصور میں کہ ہم ایک چیز کو بیان کر رہے ہیں تو خواتین کو اپ وہ پیغام دے رہے ہیں جو ان کے لئے قران میں ہے ہی نہیں
-
00:32:36 شانی ان کو خواتین ہیں مرد ہیں تو ان کو پیغام بھی دیجئے کہ اگر وہ مہذب زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں یا چاہتے ہیں تو اللہ تعالی نے ملنے جلنے کے لئے اداب بتائیں
-
00:32:47 تو جب اپ کس جگہ سے بات کرتے ہیں تو بات ان کی سمجھ نہیں اتی
-
00:32:51 لیکن اگر اپ پردے کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عورتوں کو تو باہر نکلنا ہی چاہیے ان کے لیے تو اصل دائرہ ہے اور ان کا گھر ہے ان کو اسی میں بند رہنا چاہیے کسی ضرورت کے وقت باہر نکلے تو نکلے باہر بھی نکلے تو پھر اصل میں تو ان کو اسی طرح کا برقعہ پہننا چاہیے جس طرح کہ میں نے اپنی والدہ کے بارے میں اپ کو بتایا تو یہ تصور اس سے پیدا ہوتا ہے
-
00:33:14 کیا یہ تصور دین میں ہے اپ سارے ذخیرے کا مطالعہ کرکے اپ کو کہیں اس کا شائبہ بھی نہیں ملے یہ لفظ کے زیر بحث ہے وہ اداب ہے ایٹی کیٹس ہے یعنی یہ بتایا جا رہا ہے کہ دیکھو تم گھروں میں جاؤ تو اجازت کس طریقے سے لو تم ملو تو کس طریقے سے اپنے نگاہوں پر پیرا بٹھاؤ اس طرح کی چیزیں جو بیان کی گئی ہیں اس کے لئے صحیح کریم تعبیر اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہی ہے جو میں برسوں سے اختیار کیے ہوئے ہوں مرد و زن کے اختلاط کے اداب
-
00:33:44 عورتوں اور مردوں کے ایک دوسرے کے ساتھ میل جول کے اداب
-
00:33:48 اگلا سوال یہ ہے کہ
-
00:33:53 ان میل جول کے جو اداب
-
00:33:55 ان کا سورس کہاں ہے ریفرنس کہاں ہے ماخذ کیا ہے ہم بھی دیکھتے ہیں کہ دین کے دو سورسز ہیں اپ بار بار توجہ دلاتے ہیں قران مجید اور سنت اب مثلا ہم اللہ میاں کے پاس جانا چاہتے ہیں پوچھنے کے لئے کہ میل جول کے اداب کیا ہیں
-
00:34:08 تو ان میل جول یہ اختلاط مرد و زن کے اداب کا سورس کیا ہے قران مجید ہے سنت ہے کیا ہے
-
00:34:16 یعنی یہ سب چیزیں قران مجید میں زیر بحث ہیں قران نے ان کو خود موضوع بنایا ہے
-
00:34:22 یہ سورہ نور میں زیر بحث ائے ہیں اور بڑی تفصیل سے میرے بحث
-
00:34:26 اور پھر کچھ چیزیں سورہ احزاب میں زیر بحث ائی ہیں جو ایک وقتی نوعیت کی صورتحال سے متعلق ہے
-
00:34:34 وہ اس لئے اہم ہوگئی ہیں کہ ہمارے یہاں کچھ اہل علم نے ان کی تعمیم
-
00:34:40 یعنی وہ ان کو عام لوگوں کے لئے بھی ضروری سمجھتے ہیں یا ان کا فہم یہ ہے کہ اس میں غالبا یہ بات بیان ہوئی
-
00:34:47 تو وہ بھی زیر بحث اتی ہیں لیکن اصل یہ عذاب سورہ نور میں بیان
-
00:34:51 اگلے سال ہم سب یہ ہے کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ جو اداب اپ بیان کر رہے ہیں سورہ نور میں بیان ہوئے ہیں
-
00:34:58 یہ عورتوں کے اختلاط سے متعلق ہیں یہ یہاں پر بتائیے گا کہ یہ جو احکام ہے یہ کیا عورتوں کے لئے وہاں پر زیر بحث ائے ہیں
-
00:35:08 اپ اندازہ کریں کہ اس میں تو سب سے پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اپ اگر جائیں کہیں تو اپ اجازت کیسے لیں گے اپ اوس کیسے پیدا کریں گے گھر والوں کو اپنا تعارف کیسے کرائیں گے اگر گھر والے اپ اس وقت نہیں ملنا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ اپ چلے جائیں واپس یہ اگے سے نہیں جواب دیتے تو اپ دل میں تنگی محسوس کیے بغیر
-
00:35:32 اسی طرح بتایا کہ گھروں کے اندر کن چیزوں کا لحاظ رکھیں گے تو وہاں یہ سچ سب چیزیں بہت تفصیل سے دے رہے ہیں بحث ائی ہیں اور یہ بتایا کہ پاکیزہ معاشرت
-
00:35:41 پھر توجہ دلاؤنگا وہی تزکیہ
-
00:35:43 یعنی تمہارے دلوں کو بھی پاکیزہ رہنا چاہیے تمہاری معاشرت کو بھی پاکیزہ رہنا چاہیے تمہارے میل جول کو بھی پاکیزہ رہنا چاہیے تو فرمایا ہے کہ یہ اصل میں اس کا بات ہے لیکن ہمارے دلوں کے لئے یہ چیز پاکیزگی کا باعث بنتی ہے مردوں کو بھی کہا ہے عورتوں کو بھی کہا ہے ایک بات ہے یہ صرف عورتوں کو خاص طور پر کہی ہے باقی تو اللہ تعالی نے وہاں یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اے پیغمبر اپ مومن مردوں سے کہہ دیں اس کے بعد اتا ہے مومن عورتوں سے یہ کہہ دے مومن مردوں سے یہ کہہ دے مومن عورتوں سے یہ کہہ دے تو دونوں کو دہرا کے کہا ہے تاکہ کوئی ابہام ہی پیدا نہ ہو اس
-
00:36:19 تو اگر اس کو اپ نے بیان کرنا ہے تو اسے کوئی عورتوں کے لئے پردے کے احکام نہیں ہے یہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے اتا
-
00:36:27 کس چیز کے وہ ایک الگ بحث ہے لیکن دونوں کے لئے اچھا ان سب اگے بڑھاتے ہیں بھینس کو اب اپ یہ بتائیے کہ یہ جو موضوع بحث ہے مرد و زن کے اختیارات کے معاملے میں
-
00:36:37 اس کو واضح کیجئے کہ اس میں اپ کا نقطہ نظر جیسے اپ نے شروع میں بتایا لوگوں کو ایک اجنبی نقطہ نظر محسوس ہوتا ہے وہ
-
00:36:45 اوسکی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے وہ کیا علمی اختلاف رائے ہے جو قران مجید کی ان دو سورتوں کو سمجھنے میں واقع ہوا اور پھر میں چاہوں گا کہ ان دونوں صورتوں میں جو اپ کا نقطہ نظر ہے اس کو اپ براہ راست قران مجید کی وہ ایات کھول کے بتائیں کہ وہ ہے کیا
-
00:37:01 شیر کا سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ جب میں نے عرض کردیا کہ برائے بحث 3ی مقا
-
00:37:06 یعنی سورہ احزاب میں دو مقامات اور سورہ نور کا یہ مقام بنائے بحث
-
00:37:13 تو ان کی جماعت تفسیر کریں گے ان کو سمجھیں گے تو ایک طالب علم کی طرح
-
00:37:18 جیسے میں نے بارہا توجو دلائی ہے کہ اگر اپ قران مجید کو جاننا چاہتے ہیں تو جو کچھ پہلے سے اپ جانتے
-
00:37:25 جو چیزیں اپ دوسروں سے سنتے ہیں جو اپ کی معاشرت میں رائج ہیں ان کو اپ ایک طرف
-
00:37:31 اور پھر ایک بالکل طالب علم کی حیثیت سے قران کے سامنے جا کے سینڈ
-
00:37:36 اس کی بات سنی ہے وہ کیا کہ
-
00:37:39 اپ کو جو کچھ قران مجید سمجھائے پھر اپ ایک نگاہ ڈال کے دیکھیے ایک سچے طالب علم کی حیثیت سے کہ یہ تو میں اج اس کو دیکھ رہا ہوں
-
00:37:48 سوال یہ ہے کہ مجھ سے پہلے بھی بارہ تیرہ صدیوں میں اہل علم اس کو دیکھتے رہے ہیں تو اپ ان کے تاویلات ان کی تشریحات ان کی تفسیریں ان پر ایک نگاہ ڈال
-
00:37:59 ندا ڈالنے کے بعد اپ دیکھتے ہیں تو بات میں نے سمجھی تھی
-
00:38:02 اور اگر دوسرے مجھ سے مختلف سمجھ رہے ہیں تو ان کا استدلال کبھی تو نہیں ہے پھر اس کا تقابل کرنے میں
-
00:38:09 ایک عمر گزر
-
00:38:10 یہاں تک کہ پھر اپ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ نہیں یہاں یہ بات صحیح ہے
-
00:38:15 تو جو بات میں سمجھا ہوں سورہ نور میں یا سورہ احزاب میں یہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے ہر جز میں میں منفرد ہو بعض چیزوں میں میری انفرادیت ہے لیکن بہت بڑے پیمانے پر جب اپ اس کا مطالعہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ مثلا احناف کیا کہہ رہے ہیں مثلا اصولین کیا بات کر رہے ہیں مثلا ہمارے اہل تفسیر کیا کر رہے ہیں
-
00:38:37 مختلف ایات کو کیسے دیکھا جا رہا ہے تو اپ یہ دیکھیں گے کہ میری اراء کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اپ کو ان لوگوں کے ہاں بھی ملیں گے دور حاضر میں مثلا اپ سید رشید رضا کو پڑھیں گے اپ مفتی محمد عبدو کو پڑھیں گے اپ حسن ترابی صاحب کو پڑھیں گے تو اپ دیکھیں گے کہ وہ ایک مختلف اپروچ سے کم و بیش میں نہیں نتائج تک پہنچ رہے
-
00:38:57 میں نے اسی لئے توجہ دلائی کہ مولانا عامر غزل صاحب نے اس کا بڑا تفصیلی مطالعہ کیا ہے یعنی میرا بھی نقطہ نظر اور اس سے پہلے جو نقطہ نظر
-
00:39:06 تو جب یہ تصنیف لوگوں کے سامنے ائے گی تو ان کو اندازہ ہوگا کہ کیا پس منظر ہے اس ساری ب
-
00:39:12 اتنی سادہ بات نہیں ہے جیسے لوگ اس کو دیکھتے ہیں اس میں بڑی تحقیق پیسے ہیں میں صرف ایک چیز کی طرف توجہ دلاؤں گا اپ نے مولانا سید عبداللہ صاحب مودودی کا ذکر کیا بڑی قابل احترام شخصیت ہے میرے لئے تو وہ باپ کے درجے میں ہے اپ یہ دیکھئے کہ جس طرح وہ ایک بالکل مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں
-
00:39:30 اس معاملے میں
-
00:39:32 تو جب انہوں نے تفہیم القران میں ابوبکر جصاص پر جلیل القدر حنفیہ
-
00:39:37 ایپلائی زمانے
-
00:39:38 ان کی رائے نقل کی ہے اس پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ اچھا جساس یہ مانتے ہیں
-
00:39:44 کیوں وجہ کیا ہے اس لئے کہ اپ کے گرد و پیش کی معاشرت اور
-
00:39:48 اپ جانتے ہیں کہ ہماری دلی کے اشرافیہ
-
00:39:51 ہمارے یہاں کی جو تہذیبی روایت ہے اس میں یہ پردہ وہاں بھی نہیں رہا تھا جہاں پر اس کو بعض علماء بیان کر دیتے ہیں
-
00:39:58 یو اس سے بہت اگے جا چکا ہوا تھا
-
00:40:01 یعنی اس میں ایسی ایسی چیزیں شامل ہوگئی تھی کہ جو اپ کو کتابوں میں کہیں ملے گی نہیں
-
00:40:07 علماء کے زیر بحث نہیں ہوگی مثال کے طور پر یہ کہ عورتیں پالکی میں نک
-
00:40:11 اپ اندازہ کریں کہ اس میں یہ تک ملحوظ رکھا جاتا تھا کہ اپ نے جوڑی کے اندر جا کے وہ پالکی رکھ دینی ہے اس میں بھی کوئی اینٹ پتھر رکھ دیا جاتا تھا کہ وزن تک کا اندازہ نہ ہو
-
00:40:22 خاتون اکے بیٹھ جائیگی کار اس کو اٹھائیں گے اور پالکی میں لے جا کے کسی دوسرے کی جوڑی میں پہنچا دیں
-
00:40:29 اسی طرح سے اگر اس بیچاری نے کپڑے دھونے ہیں تو ان کے لئے بھی یہ ہے کہ کہیں ایسی کسی الگ نہیں پڑھنا ڈال دے جس کو لوگ دیکھ رہے ہیں
-
00:40:36 اس نے بال بنائے ہیں اور بال کنگھی میں اگئے ہیں وہ بھی کہیں دفن ہونے چاہیے تاکہ اس پر کسی کی نگاہ نہ پڑجائے تو یہ جتنی چیزیں میں نے خود اپنی معاشرت میں یہ دیکھیں
-
00:40:46 اپنے ہاں دیکھیں
-
00:40:48 اپنی خواتین کو یہ بات کرتے ہوئے دیکھا ہے کیوں وجہ کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جس وقت اپ کسی چیز کو اس طرح معاشرت تہذیب ثقافت کا حصہ بنا دیتے ہیں تو اس میں انتہا پسندیاں پیدا ہونی شروع ہوجاتی
-
00:41:00 تو یہ پس منظر ہے یعنی یہ اشرافیہ کا ایک خاص رہن سہن ورنہ مجھے یہ بتائیں میں ایک دیہاتی ادمی
-
00:41:07 یعنی یہ جو کچھ ہے پردہ یہ ہماری مائیں ایسے ہی کرتی
-
00:41:11 اسی طریقے سے ہمارے اپنے تہذیبی پس منظر میں یہ سمجھا جاتا
-
00:41:15 اسی کو دین کا تقاضا میں کسی وقت حیران ہوتا تھا میں بالکل رائیونڈ دیہات میں رہا ہوں جو بالکل باہر کے دیہاتی ان میں پیدا ہوا پلا بڑھا تو میں حیران ہوتا تھا کہ یہ پردہ یہ میری والدہ کر رہی ہیں یہ تو اس پورے گاؤں کے کسی عورت نے بھی نہیں کیا ہوا
-
00:41:39 اچھا وہاں کسی کو تردد بھی نہیں ہوتا تھا
-
00:41:42 اپ یہ دیکھیے کہ وہی مغلانی وہی کام کرنے والی
-
00:41:46 جس کو اپ اپنے ہاں پنجاب وغیرہ ماسی کیا کہتے ہیں وہ دلی کے گھروں میں ارہے ہیں اپ بھی نذیر احمد کے ناول پڑی ہے وہاں کسی کے ماتھے پر شکن نہیں اتی پردہ کدھر گیا لیکن جو اپنی خواتین ہیں ان کے لئے بالکل دوسرے
-
00:42:00 تو یہ چیزیں جب اس طرح تہذیبی روایت کا حصہ بن جاتی ہیں تو لوگ ان میں بڑے حساس ہو
-
00:42:07 اس حساسیت کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے یہ حالات سے پیدا ہوتی ہے میں اس کو الٹ کے کہوں گا جس طرح موجودہ زمانے میں
-
00:42:14 موجودہ زمانے میں تہذیب فیشن مغربی معاشرت نے ہمیں بہت سی چیزیں جن کے بارے میں حساس ہونا چاہیے ان میں بحث کر دی
-
00:42:23 یعنی زمانہ کیسے اثر انداز ہوتا
-
00:42:26 اپ دونوں انتہاؤں کو دیکھے نا یعنی اس طرف وہ انتہا ہے کہ پالکی کے باہر باہر قدم نہیں رکھنا
-
00:42:32 اپ سے کنگھی میں ٹوٹے ہوئے بال پر بھی کسی کی نظر نہیں پڑھنی چاہیے کیا چیز باہر سے کشش ہوتی ہے ایک طرف یہ انتہا اور دوسری طرف وہ انتہا پیدا ہوجاتی ہے کہ جس میں اپ کہتے کپڑے اتار دے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے
-
00:42:47 رانی اپ نے اگر دودھ جیا بھی لپیٹی میں تو بہت کافی ہے اپ نے بکنی پہنی ہوئی تو بہت کافی ہے اس کا نتیجہ کیا ہے وہ وہاں پے وہ حساسیت بھی تہذیب بھی معاشرت میں پیدا کی ہے اور یہ بے حسی بھی تہذیبی معاشرت میں پیدا کی
-
00:43:01 تو اللہ کی کتاب کا اصل کمال کیا ہوتا ہے
-
00:43:04 اور اللہ کے پیغمبروں کی رہنمائی کا کہ وہ انسان کو اس صراط مستقیم پر رکھتے ہیں جس میں نہ یہ انتہا ہوتی ہے نہ وہ انتہا ہوتی ہے انسان کی فطرت جس پر ہم اس سے پہلے بڑی تفصیلی بحث کر چکے ہیں وہ ٹھیک اس پر اپنے دین کی بنیاد
-
00:43:20 یعنی اسی وجہ سے اسلام کو دین فطرت کیوں کہا جاتا ہے
-
00:43:23 یہ وہی بات ہے جو سورہ روم کی ایت میں زیر بحث ائی تھی داڑھی پر گفتگو کرتے ہوئے کہ اللہ تعالی نے انسان کی جو فطرت بنائی ہے اس کے اندر جو داعیات رکھے ہیں انہی کے اوپر اثاث قائم ہیں سارے کے سارے دین
-
00:43:36 تو اس کا مطلب کیا ہے اس میں ادنی درجے میں بھی اپ کوئی انتہا پسندی نہیں دیکھتے ایک جادہ اعتدال
-
00:43:43 غالبا یہی وہ چیز ہے جس کو سامنے رکھتی ہے اللہ تعالی اپنے دین اپنی ہدایت کو صراط مستقیم کہتے ہیں اور ایک موقع کے اوپر کیا کمال کی بات کرتے ہیں لوگوں کو توجہ دلانے کے
-
00:43:53 ارے یہ جو دائیں اور بائیں انتہائیں اپ کو نظر اتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ یہ کیوں پیدا ہوتی ہیں اس لئے کہ لوگ بغیر حدم بنا کتاب منیر غور
-
00:44:02 یعنی اگر وہ اس روشن کتاب کی رہنمائی اپنے سامنے رکھیں اور اپنے ذہنی تعصبات کو الگ کر لیں میں نے فلاں مولوی صاحب سے یہ سنا ہوا ہے ہمارے ہاں تو یہ کہا جاتا ہے فلاں جگہ تو یہ مانا جاتا ہے ان چیزوں کو تھوڑی دیر کے لئے الگ رکھتے ہیں اور الگ رکھ کے مطالعہ کریں میں یہ عرض کرتا ہوں کہ جس طرح میں نے اس سارے کے سارے موضوع کو دیکھا ہے جس طرح اپنی کتاب میزان میں بیان کیا ہے یا اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے اپ اس کو ایک طرف رکھ دیں
-
00:44:29 اور صرف یہ طے کرلیں کہ اپ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے جو مسلمانوں کا علم پیدا ہوا ہے خواہ وہ محدثین ہے خواہ وہ اپ کے فقہاء ہیں
-
00:44:40 اپ پڑھے لکھے کس طرح دیکھ رہے ہیں نایاب کو تفسیروں کو دیکھیں گے تو اپ حیران رہ جائیں گے کہ یہ جس چیز کو اپ کہتے ہیں یہ تو بڑی مانی ہوئی ہے اس میں تو ہر ادمی اسی کا قائل ہے اپ اتنے اختلافات دیکھیں گے جس کی
-
00:44:54 تو اس وجہ سے یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اس طرح کے لوگ اس کو سمجھ لیتے ہیں کہ بس یہی ہوگا اچھا اسی طرح بہت سے قصے بہت سی روایتیں لوگوں کی زبانوں پر
-
00:45:05 حد یہ ہے کہ مولانا سید عبداللہ صاحب مودودی کی جو کتاب ہے پردہ اگر اپ دیکھیں اس میں میں نے تو جوانی کے زمانے میں جب وہ پڑی اگر اپ دیکھے تو میں بہت سی روایتیں انہوں نے نقل کی ہیں یہ کتاب عربی میں ترجمہ کی گئی
-
00:45:17 الحجاب کے نام سے اور اس کو علامہ ناصر الدین البانی نے شائع کیا
-
00:45:22 اپ دیکھیں اس کے اخر میں انہوں نے ان تمام روایات پر تنقید کر کے بتا دی ہے کہ ان میں ایک بھی روایت صحیح نہیں
-
00:45:29 یہی ضعیف روایتوں کا ایک مجموعہ ہے
-
00:45:32 اس کی وجہ کیا ہے کہ ہمارے یہاں محدثانہ تنقید کا طریقہ روایتوں پر بالعموم ہندوستان کے علماء اختیاری نہیں کرتے
-
00:45:39 یعنی جب وہ ایک چیز کے بارے میں یہ مطمئن ہو جاتے تھے کہ یہ تو دین کا حکم ہے تو اس کے بعد روایت ضعیف ہے روایت بہت کمزور ہے وہ سب کی سب چیزیں اس میں بیان کرتے چلے جاتے
-
00:45:50 تم محدثانہ تنقید کے نقطہ نظر سے اپ دیکھیں تو کوئی بنیادی نہیں باقی رہتی ان کے شوہر کہانیوں کی بھی تو اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ سارے معاملے کو اس زاویے سے دیکھا جائے اور تعصبات سے بالاتر ہو کر جذبات ایک طرف رکھ کے اپنی تہذیبی روایت اور معاشرت کو جو میری بھی تھی اس سے تھوڑی دیر کے لئے قطع نظر اگے بڑھاتے ہیں بھینس کو ہمارے پاس پندرہ منٹ ابھی باقی ہیں
-
00:46:14 کم سے کم وہ پرابلم اسٹیٹمنٹ جو ہے وہ واضح ہو جائے ہم جانتے ہیں کہ علماء کا اس وقت جو رائج معاشر نقطہ نظر ہے دینی مذہبی حلقوں کا اور جس کو وہ بنیاد بناتے ہیں اپ کا اعتراض کی
-
00:46:26 ہوئی ہے کہ قران مجید کی سورہ احزاب میں اللہ تعالی نے یہ بتا دیا ہے کہ خواتین جب گھروں سے نکلیں گی تو انہوں نے اپنے جو ڈوپٹے ہیں اپنے جو سر کی اوڑھنی ہے ان کو اپنے چہروں پے گرا دینا ہے
-
00:46:38 اس سے اخذ کرتے ہیں پردے کے احکام
-
00:46:42 یہ بتائیے کہ اپ کی بنائی استدلال کیا ہے یہ جو ایٹی کیٹس اپ نے سیکھے ہیں اور اس حکم کو جو سورہ احزاب میں اسکو اپ کیسے
-
00:46:51 یہ بڑا اچھا سوال اپ نے کیا میں اس سے ذرا مزید پیچھے جاؤں
-
00:46:55 سورہ احزاب کو سب سے پہلے سمجھنا چاہیے کہ اس سورہ کا موضوع کیا ہے یعنی یہ پوری کی پوری جو سورہ ہے اپ اس کو دیکھیں میری تفصیلا بیان میں تو اس میں میں جب تفسیر و تفسیر میں تعارف لکھتا ہوں سورتوں کا تو میں یہ بتاتا ہوں کہ پوری سورہ کی فضا کیا ہے
-
00:47:13 ہنی پوری سوراخ کی فضا یہ ہے کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے گھرانے
-
00:47:20 ان کو باقاعدہ ہدف بنا لیا گیا ہے
-
00:47:23 کہ اب ان کی اخلاقی صاف سوسائٹی میں مجروح
-
00:47:27 ٹھیک یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین ہمیں دیا ہے اور ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے اس ہستی کا جس کے ذریعے یہ دین ملا جب وہ دین کو بیان کر رہے تھے جب وہ یہ جدوجہد کر رہے تھے جب وہ لوگوں کو اس کو پہنچا رہے تھے تو ایسا نہیں تھا کہ میری اپ کی طرح کسی میز پر بیٹھے ہوئے اطمینان کے ساتھ پہنچا رہے تھے
-
00:47:45 ایک بڑی کشمکش برپا ہوگئی تھی اور یہ کشمکش ایک انداز سے مکے میں برپا ہوئی اپ جانتے ہیں تو اس میں کیسے کیسے ستم توڑے گئے کس طرح کے اقدامات کیے گئے خاص طور پر کمزور مسلمانوں کے خلاف کیسے لوگوں نے ان کو ستم رانیوں کا نشانہ بنایا جب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم
-
00:48:06 تشریف لا
-
00:48:07 تمہارا اہل کتاب
-
00:48:09 وہاں بہت سے لوگ وہ تھے جن کو بعد میں قران مجید نے منافقین سے تعبیر کیا
-
00:48:13 یہ جتنے لوگ ہیں
-
00:48:15 ان کی طرف سے طرح طرح کی سازش
-
00:48:18 اور سب کی قران مجید میں تصویریں بیان کیا یعنی وہ کوئی قصے کہانیوں کی بات نہیں
-
00:48:23 حضور کو اذیت دینے کے لئے اپ دیکھیں ایک مسجد بنا ڈالی ہے جس کو قران میں مسجد ضرار کہہ کے یہ کہا کہ اس کو ڈھالیں مسجد کو چھوٹی سی ایک بستی ہے چند ہزار کی ابادی کی
-
00:48:34 جس میں وہ لوگ موجود ہیں کہ بظاہر وہ مسلمان بنے ہوئے ہیں
-
00:48:38 سیدہ عائشہ کے اوپر جو تہمت کا واقعہ بیان ہوا ہے یعنی اپ کبھی دیکھے کہ کوئی سلیم و تباہ ادمی اس واقعے میں تہمت نکال سکتا ہے
-
00:48:48 نکال لی گئی تو ایک ایسی فضا تھی کہ جس میں پہلے حملہ کرنے کی کوشش کی گئی باہر سے حملہ اور بنائے گئے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذات پر حملہ اور ہوئے اپ کو گھروں میں بلا کر اپ کے اوپر پتھر گرانے کی کوشش کی گئی اس طرح کی بے شمار چیزیں
-
00:49:04 اخری یہ دور ہے جو 4 5
-
00:49:06 ہجری کے بعد ایا ہے جس میں ہدف بنایا گیا کہ اب اخلاقی ساخت ختم
-
00:49:12 اور اخلاقی ساک ختم کردینے کے لئے اپ کے گھرانے اپ کی بیٹیوں اپ کی بیویوں اور جلیل القدر صحابہ کی جو بیویاں تھیں ان کو ہدف بنا دیا
-
00:49:22 اب جب یہ ہدف بنا لیا گیا طرح طرح کے اسکینڈل بنانے
-
00:49:26 اینی پیش نظر کیا تھا غیرت دیہاتی معاشرت ہے کوئی قصہ کوئی کہانی جو ہے اپ بھی وہ واقعات پڑھے جس میں سیدہ پر تہمت لگائی گئی ہے کہ گھر میں کیا صورتحال ہوگی
-
00:49:36 حضور کتنے اظہر کا ہوگئے
-
00:49:38 یہاں تک کہ وہ اپنے گھر سے سیدہ عائشہ ام المومنین سیدہ عائشہ والدین کے گھر چلی
-
00:49:44 ازردگی کا یہ معاملہ ہو گیا کہ گویا میاں بیوی کے درمیان مخالفت تک نوبت اگئی یہ صورتحال اپ دیکھیں اس موقع پر حضور نے کتنے رنجیدہ ہو کر بعض گفتگو میں کی ہیں بعض سوالات کیے ہیں مسجد میں کیسا ہنگامہ برپا کر دیا گیا یعنی ایک موقع پر جب اپ نے اس سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیا اپس میں صحابہ کرام کے تبصروں کی نوعیت کیا بنا دی گئی
-
00:50:07 کیسے کیسے لوگ اس میں ملوث ہوگئے ان کا ذکر کیا قران مجید میں تو یہ صورتحال اور پس منظر تھا کہ جس میں یہ فضا بن گئی کہ رسول اللہ سلم کا گھر اپ کی خواتین ظاہر ہے ایک عام دیہاتی معاشرت ہے جس میں سب لوگ رہ رہے ہیں یہ گویا اسکینڈل کا ہدف
-
00:50:24 اب اگر یہ کوئی اسکینڈل بن جاتا خدا نہ خا
-
00:50:28 جھوٹا یا جس طرح کا بھی تھا یہ بن جاتا اور اس کی شہرت ہو جاتی تو اس کا مطلب کیا تھا کہ اللہ کا پیغمبر جو ہدایت کا منبع ہے جس کی طرف ہم سب نے قیامت تک دیکھنا ہے جس کی دی ہوئی ہدایت ہی کے اوپر پوری انسانیت کو کھڑا ہونا ہے اس کی شخصیت مجروح کردی یہ اصل میں سورہ احزاب کا پس من
-
00:50:49 یعنی سورہ احزاب جو ہے وہ اس مسئلے کو دیکھ رہی
-
00:50:54 کیا اب اس میں کیا کرنا ہے پہلے تو یہ بنیادی بات سمجھنی
-
00:50:57 اگر اپ قران میں تو تب ہمارا یہ کام روایت ہی ہے کہ اپ نے قران کھولنا اچھا یہ پردے کی ایت ہے اچھا یہاں یہ حکم دیا گیا ہے وہ نکالی اور نہیں دیکھا کہ سورہ کیا ہے پس منظر کیا ہے بات کہاں سے چلی ا رہی ہے اور بس بات بیان کرنا شروع کر دی تو اپ پہلے تو یہ دیکھیں اور اگر اس کا ذوق ہو کہ اپ اس سورہ کے اندر اتر کر جان سکیں تو اس کے لئے تدبر قران میرے جلیل القدر استاد امام امین احسن اصلاحی کی طرح اس کا مطالعہ کریں
-
00:51:24 اپ کو اندازہ ہوگا کہ کیا صورتحال بنا دی گئی ہے حضور کے لئے
-
00:51:28 اب اس میں میں ان ایات پر انے سے پہلے کہ جس میں مسلمان عورتیں بھی شامل ہیں اپ کو توجہ دلاؤنگا کہ خود حضور کے گرانے کے معاملے میں کیا
-
00:51:38 پہلا کام کیا ہوا اب اللہ تعالی دیکھیے اس کائنات کا خالق
-
00:51:42 اس صورتحال سے نمٹ رہے
-
00:51:44 ویسے تو کوئی مشکل کام نہیں ہے اپ نازل ہو جاتا لیکن وہ پیش نظر نہیں
-
00:51:49 تو اس صورتحال سے نمٹنا
-
00:51:51 اس سے نمٹنے کے لئے اپ سے یہ کہا گیا کہ اپ اپنی بیویوں سے کہیں
-
00:51:57 کہ وہ انتخاب کرلیں ایک بار پھر
-
00:52:00 اگر وہ ازادانہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہے تو کریں اس لئے کہ مہمات اسی طرح کی عورتوں کے ذریعے سے چلائی جا رہی
-
00:52:07 یعنی اس طرح کے پیغامات ہوتے تھے کہیں موقع مل گیا بات کرنے کا کیا اب تو شہزادی ہیں اپ کی تو بڑی حیثیت ہے یہ اپ کو کن حالات میں رکھا ہوا ہے انہوں نے اپ اگر یہاں نہ ہوتی تو معلوم نہیں کون کون تھے کہ جو اپ کے ساتھ شادی کرنے کے لئے تیار ہوتے اس طرح کی فضا بنائی جا رہی ہے
-
00:52:24 تو اس میں یہ کہا گیا کہ اپ اپنی ازواج کو ازواج مطہرات کو یہ تاخیر اس کو کہا جاتا ہے چوائس دے دیں کہ وہ اگر اپ کو چھوڑ کے جانا چاہتی ہیں تو چلی
-
00:52:36 کوئی ان کے اوپر مسئلہ نہیں ہوگا
-
00:52:38 ہینی ہم اپ کے لئے دوسرے بندوبست کر دیں
-
00:52:41 اب یہ کیا چیز تھی یعنی مقصد یہ تھا کہ اس موقع پر ازواج مطہرات جس کردار کا مظاہرہ کریں گی
-
00:52:49 مشک کے لحاظ سے یہ فتنہ دم توڑ دے گا حوصلے پست ہوجائیں گے جیسے سیدنا ابراہیم کو ایک امتحان سے گزارا گیا تو ازواج مطہرات کو بھی اس امتحان سے گز
-
00:52:59 اور کس امتحان سے یہ اسان معاملہ نہیں تھا
-
00:53:03 یعنی ترکیبات کی دنیا باہر موجود
-
00:53:05 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے کہ پھر قران مجید کی اس ایت کے تحت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جا کے اپنی ازواج سے بات
-
00:53:14 ایک لمحے کیلئے نہیں سوچنا
-
00:53:16 ہم بہت سوچ سمجھ کے اپ کے ساتھ
-
00:53:19 اور اپ ہی کے ساتھ
-
00:53:20 تو انہوں نے انتخاب کر لیا
-
00:53:22 جب انتخاب کرلینی پہلے چوائس دیا گیا اپ عام عورتوں کی زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں تو اپ چلی جائے
-
00:53:28 اگر اپ چلی جاتی ہیں تو ہم اپ کو اطمینان کے ساتھ خوش اسلوبی سے رخصت کر دیں
-
00:53:33 یعنی رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں اپ نہیں رہیں گی
-
00:53:36 یہ اپ کو اختیار دیا جا رہا ہے
-
00:53:39 پہلے یہ بات کہی گئی جس وقت انہوں نے یہ انتخاب کر لیا تو پھر انہیں کہا گیا کہ اب ہم اپ کو بعض خصوصیا احکام دے رہے ہیں
-
00:53:48 تاکہ یہ جو اسکینڈل بنانے والے لوگ ہیں ان کا خاتمہ کیا جا
-
00:53:52 وہ خصوصی احکام دینے سے پہلے یہ بتایا کہ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو تمہاری حیثیت بڑی غیر معمولی ہوگئی ہے
-
00:54:03 تم پیغمبر کے ساتھ ہو تو اب پیغمبر کو تمہارے ذریعے سے اور تمہیں پیغمبر کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے
-
00:54:10 تو اس لئے اپنی ذمہ داری کو پہچانو اور دیکھیے اللہ تعالی کا انصاف یعنی جو چیزیں عام لوگوں سے مطلوب نہیں ہیں پہلے انہیں عام لوگوں کی زندگی بسر نہیں کرنے کا حق دے دیا گیا
-
00:54:21 اگر وہ اس وقت کوئی انتخاب کر لیتی تو عام زندگی بسر کرتے لیکن انہوں نے جب پیغمبر ہی کا انتخاب
-
00:54:27 جو عزت جو شرف ہے ان کو حاصل تھا انہوں نے اسی کو اپنی سعادت سمجھا اور سب نے بغیر کسی توقف کے یہ کہہ دیا کہ نہیں اس کا کوئی سوال ہی نہیں
-
00:54:36 جب یہ بات ہو گئی تو اللہ تعالی نے کہا کہ اب ہمیں کچھ خصوصیا کام دے
-
00:54:40 اور یہ خصوصی احکام دیتے وقت یہ ذہن میں رکھو
-
00:54:44 کہ اگر کوئی غلطی ہوئی تو جس طرح دہرا عذاب ہے
-
00:54:48 تمہارے لئے اسی طرح سے
-
00:54:51 کیونکہ تم یہ زائد ذمہ داریاں اور پابندیاں قبول کر رہی ہو تو تمہاری ہر نیکی کا دوہرا اجر بھی
-
00:54:59 یعنی اس کی بنیاد ہی بالکل یہاں سے رکھی
-
00:55:02 یہ رکھنے کے بعد
-
00:55:04 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے یہ کہا گیا کہ اپ
-
00:55:10 حجاب میں
-
00:55:11 یہ اصل میں یہ ہے وہ جگہ ہے جہاں سے یہ مسئلہ پیدا
-
00:55:15 عینی ازواج مطہرات کے معاملے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ باہر نکلیں گی تو اہتمام کرکے اور اگر گھر میں ہوگی تو وہاں بھی کوئی اسی طرح نہیں ائے
-
00:55:26 مسجد میں بیٹھنے والے لوگ بھی اگر کوئی چیز لینی ہے تو کس طرح ائیں گے ہم سے کہا گیا کہ اپ کو باہر کی سرگرمیاں بھی ختم
-
00:55:34 اسی میں یہ الفاظ ایا تم اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ رہو گی وہاں نماز کا اہتمام کرو گی روزے کا اہتمام کرو گی دینی سرگرمیوں میں مصروف رہو گی اور جو اللہ نے بڑی نعمت تم کو دی ہے اس کی تبلیغ کی ذمہ داریاں انجام
-
00:55:49 یہ ہدایات ان کو کی گئی ان کے لئے دائیاں مقرر کیا گیا کہ اپ کے قریبی اجزا اقربا کے سوا کوئی اور گھر میں بھی نہیں
-
00:55:57 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کوئی کھانے کی دعوت ہوگی کیا ہوگا اس کے بھی عذاب مقرر کر دیے گئے اور اس کے ساتھ یہ اعلان کردیا گیا کہ اپ کے بعد
-
00:56:07 کوئی شخص
-
00:56:08 ان خواتین سے نکاح بھی نہیں کرسکے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کو پابند کر دیا گیا کیا اپ ان کو طلاق دی اب نہیں دے
-
00:56:16 ان کی جگہ کوئی دوسری بیوی بھی نہیں لا
-
00:56:18 تو یہ اصل میں وہ خصوصی احکام ہے جو ازواج مطہرات کو دیے گئے
-
00:56:23 اور یقینا انہی کے لئے یہ لفظ استعمال بھی ہوا یعنی وہ حجاب میں رہیں گی اس کا اہتمام کریں گی یہ احکام ہے جن کو بعض اہل علم نے اس طرح سے سمجھا کہ وہ چونکہ اس پوری امت کے لئے ائیڈیل تھی تو ان کو احکام دے دئیے گئے ہیں اور پھر ایک ایک چیز سے احکام مستنبط کرنا شروع کر دیے مثلا اپ دیکھیے کہ ازواج مطہرات سے یہ کہا گیا کہ عام حالات میں تو ہر ادمی جب اپ کے گھر اتا ہے یا باہر سے بات کرتا ہے تو اس سے نرمی سے شفقت سے بات کرنی چاہیے اپ تو مائیں ہیں اور اپ کی یہی حیثیت ہے لیکن یہ منافقین کیوں کہ اسکینڈل بنا رہے ہیں تو اگر کسی وقت کوئی بات کرے تو ایسا لب و لہجہ رکھیے کہ جس کے نتیجے میں کسی کے اندر اگر تمام موجود ہے تو اس کو ہوش اج
-
00:57:10 اچھا اب اپ دیکھیے کہ یہ کس پس منظر میں بات کہی جا رہی ہے
-
00:57:14 گھنی اپ کو معلوم ہے کہ اپ کے گھر پر کچھ لوگ حملہ اور ہونے والے ہیں اور اپ خواتین کو کوئی ہدایت کر رہے ہیں وہاں سے کیا کیا عورت کی اواز کا پڑھنا
-
00:57:24 یہ اپ دیکھ رہے ہیں نہ ایک زاویہ نظر کی غلطی
-
00:57:29 پورے پس منظر کو جو سورج سے بالکل واضح ہے
-
00:57:34 جس کے اندر اللہ تعالی نے ایک ایک اسٹیپ کو واضح کیا ہے یعنی پہلے موقع دیا کہ وہ جا کے عام عورتوں کی زندگی بسر کریں پھر یہاں سے بات شروع کی کہ عام عورتوں کی طرح نہیں ہو پھر بتایا کہ تمہارے لئے اجر بھی دہرا ہوگا غلطی کروگی تو سزا بھی دہری ہوگی یہ سب کچھ کہنے کے بعد یہ ہدایات دی گئی اچھا اسی طرح جب یہ کہا گیا کہ وہ کرنا بھی کیا کہا جا رہا ہے باہر نکلنا ہے گھروں سے باہر جا کے کوئی کام کرنے ہیں کھیتوں میں جانا ہے انہوں نے جا کے جانور چرانے ہیں میں اس وقت کی معاشرت ہے تم لوگوں کو اب یہ سب کام میں بالکل نہیں جانا
-
00:58:09 تمہیں گھروں میں وقار کے ساتھ رہنا ہے تاکہ اسکینر کا مقابلہ کیا جا سکے اب اس سے لوگوں نے کیا استنباط کیا کہ عورت کا دائرہ عمل اس کا گھر
-
00:58:16 چارج داری کے اندر رہنا ہے زمانے کی پھر دیکھیں کہ جب یہ احکام نازل ہوئے ہیں ازواج مطہرات کے لئے تو اس کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا کہ کہیں دوسری عورتیں اس سے مشابہت نہ اختیار کرلیں
-
00:58:30 اس لئے کہ اس سے پھر التماس کا خطرہ تھا
-
00:58:33 تو اس لئے یہ ازواج مطہرات کے لئے خصوصی احکام سے ہمارے جلیل القدر اہل علم اور محققین کی ایک بہت بڑی جماعت ہے جو ان کو ایسے ہی دیکھتی رہی ہے اور بالکل درست دیکھتی رہی ہے یہاں تک کہ اپ شاہ عبدالقادر اپ کے پہلے پرانے مجید کے ہندوستان میں اردو کے مترجم ہے ان کا دو لفظوں کا حشرہ دیکھ
-
00:58:53 بیان کی ہے لیکن پھر ان کے بعد ہمارے یہاں کے اسی مذہبی پس منظر میں یعنی جب علمی طریقہ نہیں رہا چیزوں کا تو یہ جتنی چیزیں ہیں مولانا سید عبداللہ صاحب مودودی جب ان کو بیان کرتے ہیں تو وہی کام کرتے ہیں یہ دیکھیے اواز کا پردہ ہو گیا یہ اپ نے گھروں میں دائرہ عمل طے کر دیا گیا یہ تمام چیزیں ہو گئیں جبکہ اس پس منظر میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے لئے یہ خصوصی احکام دیے گئے ان کا عام عورتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ جس پس منظر میں دیے گئے وہ میں نے اپ کو سورہ سے واضح طریقے سے بتا دیا غم سب ہمارے پاس یہاں وقت ختم ہو رہا ہے
-
00:59:34 سورہ احزاب کے اس پس منظر کے بعد وہ جو ایت ہے اس کو انشاءاللہ ہم اگلی نشست میں زیر بحث لائیں گے اور اس کے علاوہ اپ نے ذکر کیا مولا امین احسن اصلاحی کا وہ اس کو کیسے دیکھتے تھے سورہ احزاب کے ناکام کو اور ان سے کیا نتیجہ اخذ کرتے تھے اس پہ اپ کی رائے اور پھر احادیث اس ضمن میں جو زیر بحث اتی ہیں یہ ساری چیزیں انشاءاللہ مکتب غامدی کی اسی سیریز میں جو اپ پر 23 اعتراضات عام طور پر کیے جاتے ہیں زیر بحث ہیں ائندہ انشاء اللہ گفتگو کریں گے اپ کے وقت کا بہت شکریہ ہم سے بہت شکریہ
Video Transcripts In English
Video Summry
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason.
Video Transcripts In Urdu
Video Transcripts In English
Video Summary
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason.
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason.