Response to 23 Questions - Part 13 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Video Transcripts In Urdu
-
00:00:00 جی بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مکتب غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید ہم یہاں اس وقت ڈیلس میں موجود ہیں اور غامدی صاحب سے سلسلہ گفتگو میں ان 23 فکری سوالات کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں جو بالعموم ان کے مذہبی افکار پہ پیش کیے جاتے ہیں ہم نے اب تک داڑھی اور پردے پر بہت تفصیل سے بات کی اور اب انہیں سلسلہ اعتراضات کو اگے بڑھاتے ہیں اور اب پیش نظر ہیں کہ فطرت کے بارے میں غامدی صاحب سے بات کی جائے یہ بات پیش نظر رہے کہ ہم ظاہری بات ہے ان اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں جو بالوں پوچھے جاتے ہیں لیکن ان کا اسلوب ہرگز ہرگز کو جواب در جواب کوئی مناظرانہ کسی کو کٹہرے میں کھڑا کرنا نہیں ہے بلکہ مقصد اس کا یہ ہے کہ غامدی صاحب سے ان کے فکری سفر کی روداد ان کا استدلال ان انہوں نے کیسے ان چیزوں کو ایکسپلور کیا ہے ڈسکور کیا ہے اس کو سمجھا جائے اور کوشش ہماری یہی ہے کہ علمی وقار اور سنجیدگی اور شائستگی کے ساتھ اس سلسلہ گفتگو کو اگے بڑھائیں اور ان سے بہت شکریہ اپ کے وقت کا تیسرا اعتراض جو کیا جاتا ہے وہ فطرت سے متعلق ہے اپ نے اپنی کتاب میں بھی لکھا
-
00:01:17 اور اپ کا جو بیان ہے وہ مذہبی علوم کے طلبہ کے لئے ایک بہت ہی اجنبی بیان محسوس ہوتا ہے اعتراض یہ ہے
-
00:01:24 کہ ہم نے جب بھی دین کو سمجھنا چاہا تو ہم کہتے ہیں قران سنت اجماع قیاس اپ نے اپنی بات کا جب اغاز کیا اپنی کتاب میزان میں تو کہا دین اللہ کی وہ ہدایت ہے جو اس نے پہلے انسان کی فطرت میں اعلان فرمائی لوگوں کو جو خدشہ ہے لوگوں کو جو اعتراض ہے وہ یہ کہ یہ دین کے سورسز میں اپ نے ایک نئی چیز کو شامل کرلیا ہے اور پھر یہ فطرت انسان بتائے گا کہ کیا ہے گویا دین اب انسان کے ہاتھ میں اگیا یہ تصور کیا ہے فطرت کا کیسے اپ کے ذہن میں پیدا ہوا اور کیوں اپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے یہ بات خود اللہ تعالی نے فرمائی ہے
-
00:01:58 یعنی قران مجید میں دین سے متعلق
-
00:02:02 جو پوری تاریخ بیان کر دی ہے اس کی ابتدائی سے کی
-
00:02:07 یہ بتایا ہے کہ یہ دین اصلا فطرت کے ذریعہ کیا گیا ہے
-
00:02:12 تو سارے استدلال کی بنیاد قران مجید میں نے یہ کوئی نئی بات نہیں کی
-
00:02:18 نہ صرف یہ کہ یہ بات قران مجید کہتا ہے بلکہ ہمارا پورا علم بھی اس بات کو بیان کرتا رہا ہے لیکن یہ بحث تو بہت بعد میں جا کے ہونی چاہیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ یہ جانا جائے کہ فطرت ہے کیا کس چیز کو ہم فطرت کہتے ہیں
-
00:02:33 اس فطرت کا ہمارے ساتھ ہمارے علوم کے ساتھ کیا تعلق ہے
-
00:02:37 اس کو سمجھنا چاہیے نہ پہلے تو یہ جان لیجئے کہ جس وقت کوئی
-
00:02:43 تخلیق کی جاتی ہے کسی چیز کو وجود میں لایا جاتا ہے تو اس کی غایت کو سامنے رکھ کے اس کے مقصد کو سامنے رکھ کے
-
00:02:52 ہم اس میں بعض خصائص بعض خصال پیدا کرتے
-
00:02:57 یہ اس چیز کی فطرت
-
00:02:59 ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اڑنا چاہتے ہیں
-
00:03:03 جہاز بنایا
-
00:03:04 اب جب ہم جہاز بنائیں گے تو اس کا انجن
-
00:03:08 اوسکی سیٹیں
-
00:03:10 اس کے پنکھے اس کی مشینری
-
00:03:13 اوسکی ٹیکنالوجی یہ سب کچھ وہ خصائص اور اوصاف پیدا کر دے گی یا وہ خصال پیدا کر دے گی کہ جس کا نام پھر جہاز ہوگا
-
00:03:24 اور اس میں سے ہر ہر چیز اس روایت کو سامنے رکھ کر وجود پذیر کی جائے گی
-
00:03:31 یہ تو اللہ تعالی بھی جب مخلوقات پیدا کرتے ہیں تو ہر مخلوق میں ایک غایت ہے اس کو سامنے رکھتے ہیں انہوں نے شعر بنایا انہوں نے بلی کو بنایا انہوں نے کتے کو بنایا انہوں نے پرندے بنائے
-
00:03:45 انہوں نے سواری کے جانور بنائیں انہوں نے ہم انسانوں کو بنایا
-
00:03:49 تو جس مخلوق کو بھی وہ وجود پذیر کریں گے اس میں کچھ اوصاف کچھ خصائل کچھ خصائص ہوں گے جن کو سامنے رکھ کر وہ چیز موجود پوری ہوگی
-
00:04:00 یعنی اس کی بنیادی ترکیب اس کی بنیادی تالیف حقیقت میں انہی چیزوں سے ہوگی
-
00:04:07 اس کو اس چیز کی فطرت کہا جاتا ہے
-
00:04:11 تو جب ہم انسان کا مطالعہ کریں گے تو یہاں پر بھی یہ سوال پیدا ہوگا کہ انسان کیا ہے انسان کو کن خصال اور کن خصائص کو سامنے رکھ کر وجود پذیر کیا گیا ہے
-
00:04:23 اس میں کونسی چیزیں ایسی ہیں جو دوسری مخلوقات کے ساتھ مشترک ہے کون سی چیزیں ایسی ہیں جو انسان کے خصوصی امتیازات
-
00:04:31 تو انی سب چیزوں کے اوپر یا ان کے مجموعے پر ہم لفظ فطرت بولتے ہیں
-
00:04:38 ٹھیک
-
00:04:39 اور یہ وہ چیز ہے کہ جس کا صرف مذہب سے تعلق نہیں ہے بلکہ ہمارے تمام علم کی بنیاد اسی پر
-
00:04:47 یعنی پہلے ہم یہ سمجھیں گے
-
00:04:49 کوئی چیز ہے کیا اصل یہ دیکھا ہوگا اپ نے کہ جو لوگ جانوروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ بھی ان کی فطرت کو متعین کرتے ہیں یعنی یہ طے کرتے ہیں کہ یہ جانور وہ کیا بنیادی اوصاف کیا بنیادی خصائص کیا بنیادی خصائل رکھتا ہے
-
00:05:08 یا کس کو کیا صلاحیتیں دے کر اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے اس کی بنیادی استعداد کیا ہیں ان سب کو سامنے رکھ کر اپ ان جانوروں کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے ہیں اس سے اپ اس علم کو وجود میں لاتے ہیں جس کو ان جانوروں کے بارے میں علم کہا جاتا ہے
-
00:05:27 اچھا اگر اپ لوگ جانوروں سے کوئی کام دینا ہے تو اس وقت کی سب سے پہلے یہ چیزیں دیکھی جاتی ہیں
-
00:05:34 اپ کی پوری کی پوری زندگی اپ کے تمام فیصلے اصل میں فطرت کے علم پر مبنی ہوتے ہیں اسی میں غلطی لگ جائے
-
00:05:45 تو ساری بنا ہی ٹیڑھی ہوجاتی ہے اس کا صحیح تعین ہو جائے اس میں توازن قائم رہے فطرت کے اصولوں کی خلاف ورزی نہ ہو تو اپ صحیح فیصلہ کرتے ہیں
-
00:05:57 نقد و نگر کے لیے بھی اسی کو بنیاد بنایا جاتا ہے
-
00:06:00 میں ایک سالہ مثال دیتا ہوں
-
00:06:02 میں یہ کہتا ہوں کہ جو ہمارے ایک چڑیا گھر قائم کیے جاتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے
-
00:06:07 کیوں اس لئے کہ جانوروں کی فطرت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ وہ کس طرح کا ماحول پسند کرتے ہیں ان کو جواب ایک پنجرے میں قید کر دیتے ہیں تو یہ اصل میں ان کی فطرت سے ان کو انحراف پر مجبور کرنا ہے
-
00:06:23 اس لئے یہ ظلم ہے
-
00:06:24 تو یہ دیکھئے کہ اخلاقی فاصلے بھی اسی بنیاد پر کرنے کے لیے ہم مجبور ہو جاتے ہیں ہمارے درمیان ابلاغ کا رشتہ اسی سے پیدا ہوتا ہے
-
00:06:33 انسان کا مطالعہ کرتے ہیں تو انسان عدل چاہتا ہے
-
00:06:38 انسان دوسروں سے حسن سلوک چاہتا ہے
-
00:06:41 انسان یہ چاہتا ہے کہ کوئی اس کے ساتھ زیادتی نہ کرے تو یہی وہ مقدمات ہے نا یعنی انسان کے اوصاف خصائص خیال کا مطالعہ کرکے یہ مقدمات ہم نے قائم کیے ہیں اور انہیں مقدمات پر ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں قوم ظلم کر رہی ہے
-
00:06:57 فلاں جماعت عدوان کا ارتکاب کر رہی ہے فلاں فرد میں حدود سے تجاوز کر دیا ہے تمام فیصلوں کی بنیاد یہی ہوتی ہے دنیا میں اگر اپ یہ کام نہ کریں یعنی فطرت کو متعین نہ کریں تو کسی چیز پر نقد کی کوئی علمی بنیاد قائم ہی نہیں کی جاسکتی اتنا بڑا فلسفہ دور حاضر میں وجود میں ایا ہے جس کو اپ ماکسیم کہتے ہیں
-
00:07:21 اگر اپ اوسکی علمی بنیادوں کو مطالعہ کریں جلدی مادیت کیا ہے طبقات کی کشمکش کیسے پیدا ہوتی ہے اس کے نتائج کیسے نکلتے ہیں تاریخی عمل کس طرح سے عمرانی احوال سے متاثر ہوتا ہے تو یہ ساری کی ساری چیز اپنی جگہ بہت متاثر کن ہے
-
00:07:39 اس پر انہوں نے کچھ اقدامات کا فیصلہ کیا
-
00:07:42 ایک ریاست وجود میں لائی گئی بلکہ دو ریاستیں وجود میں اگئے نقط یہ کیا گیا کہ یہ جو کچھ ہوا ہی فطرت کے خلاف
-
00:07:50 اج بھی یہی کہیں گے
-
00:07:53 اس کو ایک بڑے غیر معمولی حادثے دوچار ہونا پڑا ایک بڑی سلطنت قائم ہو کر بالکل بکھر کر رہے ہیں
-
00:08:02 تمہاری انکھوں کے سامنے یہ حادثہ ہوا اگر اپ نق کے لئے قلم اٹھائیں گے تو یہیں سے بات شروع ہوگی یعنی اگر وہ انسانی فطرت کے مقتضیات کے لحاظ سے تھا تو پھر اس کو کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن اگر ایسا نہیں تھا تو اسی انجام تک اس کو پہنچنا تھا
-
00:08:20 تو اس لئے یہ بڑی اہم بات ہے کہ ہم یہ متعین کریں کہ انسان کی فطرت کیا ہے جس کے ساتھ بھی ہم کو معاملہ کرنا ہے ہمارے علم کی ابتدا یہیں سے ہوگی اب جو سوال اپ کر سکتے ہیں اور میرے نزدیک ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کی تعلیم کا طریقہ کیا ہوتا ہے ہم کس طریقے سے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ فلاں جانور کی فطرت ہے یا جبلت ہے یا صرف کا لفظ بول لیتے ہیں یہ اصل میں ہم معنی الفاظ ہے یہ سب کے سب یہ جو بات ہم کرتے ہیں تو اس کے لئے محض اپ کا یہ میرا دعوی تو کافی نہیں ہوگا نہ کوئی علمی بنیاد قائم کرنی پڑے گی کہ ہم کسی کی فطرت کیسے طے کریں گے
-
00:09:02 یہ بات کہ اس کی مذہبی بنیاد کیا ہے کیا اللہ تعالی نے اس پر اپنے دین کی بنیاد قائم کی ہے قران مجید اس کے بارے میں کیا کہتا ہے یہ اس کے بعد کا مسئلہ ہے اور اس میں ایک ایک کرکے ہم جائیں گے میں نے اپ کے سوال کا بنیادی جواب دے دیا کہ میری اس میں کوئی اختیار نہیں ہے یہ اللہ تعالی کا اپنا بیان ہے اس نے اپنے دین کی بنیاد فطرت پر رکھی ہے یہ خود اس کائنات کے پروردگار نے فرمایا ہے اور یہ کہاں فرمایا ہے یہ قران مجید میں فرمایا ہے وہ ہم دیکھیں گے کہ کہاں فرمایا ہے ہم ان ایات کو سمجھیں گے جن میں یہ بات بیان کی گئی ہے اس سے میرا موقف تین سے متعلق اپ کے سامنے مبرہن ہو کر سامنے اجائے لیکن سب سے پہلے یہ جان لیجئے کہ یہ جو چیز ہے یہ فطرت اس کو ہم کیسے عکس کرتے ہیں اس کی تعلیم کیسے کرتے ہیں کیونکہ یہ بحث کہ انسان کی فطرت متعین کی جائے یہ بحث کے انسان کی فطرت کو سمجھا جائے یہ بحث کے علوم فنون سے متعلق اس کو ایک بحق ایک معیار قرار دیا جائے یہ تو محض دین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہماری روزمرہ گفتگو میں یہ چیز زیر بحث ائے گی ہمارے علوم میں یہ چیز زیادہ بحث ائے گی ہمارے نقد اور تبصرے میں یہ چیز زیر بحث ائے گی ہمارے فیصلوں پر یہ چیز اثر انداز ہوگی تو اس کو تو سمجھنا چاہیے نا تاہم اگے بڑھنے سے پہلے اگرچہ بنیادی بات میں نے کی ہے اس پر کوئی سوال ہے تو اپ کرلیں سوال سب سے پہلے ذہن میں اتا ہے وہ یہ کہ جس وقت ہم یہ کہتے ہیں کہ مذہب ہو یا کوئی بھی فلسفہ ہو وہ انسان سے متعلق ہو یا جانور سے متعلق ہو تو ہمیں یہ جاننا پڑے گا کہ وہ کام کیسے کرتا ہے اس لئے کہ جب تک اس کے مکینزم کو نہیں جانیں گے تو ہم اس فلسفے کا اس سے ریلیشن واضح نہیں کر سکتے سوال بنائی طور پر یہ ہے کہ یہ بات ہمیں کیسے معلوم ہوئی کہ اس کے اندر کوئی میکنیزم اپ سے اپ جاری ہے پوٹینشل موجود ہے یعنی یہ یہ بحث ہم نے شروع کہاں سے کی کیا یوں نہیں ہم کہہ سکتے کہ جیسے ہی اس کو خارجی علم ملتا ہے اثرات ماحول عادات اس سے اس کے اندر ایک چیز پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے ہم فطرت کی تعین کی طرف گئے کیوں یعنی اس کے اندر ڈھونڈنے کیسے چلے جائیں ہم ہمارے پاس جو ذرائع ہیں کسی چیز کو جاننے کے وہ ہمارے لئے ایک علمی معیار پیدا کرتے ہیں
-
00:11:20 چیزیں اسی کی بنیاد پر کئی اور سمجھی جاتی ہے
-
00:11:24 وہ کیا کرایا ہے ایک نظر ان کے اوپر ڈال دیجئے سب سے پہلی چیز کیا ہے تجربہ اور مشاہدہ مجھے ہوس دیے گئے میں ان سے خارجی کائنات کو دیکھتا ہوں
-
00:11:36 جو کچھ بھی ہوشیار ہے میرے گرد و پیش ہیں انکھیں ہوں تو نظر اتی ہیں
-
00:11:41 کان اوازوں کو سنتے ہیں میری حصے لامسہ ان سے اشنا ہو جاتی ہے
-
00:11:47 نہیں مجھے جو حواس دیے گئے ہیں یہ کیوں دیا گیا ہے یہ خارجی دنیا سے میرا تعلق پیدا کرتے ہیں اسی طرح یہ میری باطنی دنیا سے بھی داخلی دنیا سے میرا تعلق پیدا کرتے ہیں یعنی میں ایک طرف باہر دیکھتا ہوں دوسری طرف اندر دیکھتا ہوں
-
00:12:04 میرے اندر بھی ایک دنیا ہے
-
00:12:07 اور اس دنیا کے لئے بھی مجھے حواس دیے گئے یہ میرا تجربہ ہوتا ہے تجربے اور مشاہدے کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے میرے تجربے اور مشاعرے سے یعنی ابتدا کسی خارجی جگہ سے نہیں ہوتی سب سے پہلے میں خارجی دنیا سے دوچار ہوتا ہوں جیسے ہی میں شعور کی انکھ کھولتا ہوں تو میرے سامنے جو اشیاء اتی ہیں میں ان سے دوچار ہوتا ہوں میری انکھیں ان کو دیکھتی ہیں حکم لگانا بات کا مرحلہ ان کو دیکھتی ہے میرے کان اوازیں سنتے ہیں
-
00:12:39 بالکل اسی طریقے سے میں اپنے باطن کو بھی دیکھتا ہوں اپنے باطن کو بھی سنتا ہوں اپنے باطن کو بھی محسوس کرتا ہوں
-
00:12:47 یہ دونوں چیزیں کیا ہوتی ہیں میرا تجربہ اور مشاہدہ فلسفے کی زبان میں یہ میرا موضوع ہی علم ہے
-
00:12:55 یعنی جو مجھ پر واضح ہوجاتا ہے اب اس کے بعد اس کو علم بننا ہے یعنی میری ذات کی حد تک میرے محسوسات ہیں میرا ایک تجربہ ہے میرا ایک مشاہدہ ہے میں کسی جگہ جنگل میں بیٹھا ہوا ہوں میں نے دھونی رما رکھی ہوئی ہے میں تپسیہ کر رہا ہوں مجھ تک محدود ہے لیکن جس وقت وہ ابلاغ کے ساتھ علم بنے گا تو علم بننے کے لئے استقرار کے مرحلے سے گزرتا ہے
-
00:13:20 ہمارے تمام علوم ایسے ہی پیدا ہوتے ہیں
-
00:13:24 یعنی تجربہ اور مشاہدہ میرے سامنے کچھ حقائق کو یا وہ باطنی ہوگئی یا خارجی ہونگے واضح کرے گا اس کے بعد استقراء کا عمل انڈکشن کا عمل شروع ہوتا ہے یہ عمل کیسے شروع ہوتا ہے یعنی ہم بہت بڑے پیمانے کے اوپر انسانوں کا مشاہدہ کرتے ہیں ان کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتے ہیں یہ جو میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے یہ اپ تک پہنچتا ہے اپ کا تجربہ مشاہدہ مجھ تک پہنچتا ہے
-
00:13:51 یہ جب ابلاغ کا رشتہ قائم ہوتا ہے تو استقاء کا منشور ہو جاتا ہے اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ بالعموم انسان ایسے ہی کر رہے ہیں یا یہی محسوس کر رہے ہیں یا ان کا تجربہ بھی یہی ہے ان کا مشاہدہ بھی یہی ہے تو ابلاغ کے رشتے سے ہم اس کو علم کی ٹائم میں لے جانا شروع کر دیتے ہیں اب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسمان پر وہ سورج چمکتا ہے اپ کال کر کے دیکھیں تو اس کی پناہ کہاں سے ہوگی
-
00:14:19 یعنی میرا تجربہ
-
00:14:21 میرا مشاہدہ اپ کا مشاہدہ اسی سے ہوگی نہ اس کے بعد اس مشاہدے نے استقراء کے عمل سے گزر کر ایک مسلمہ کی صورت اختیار کرلی
-
00:14:32 ہمارے تمام علوم ایسے ہی ہوتے ہیں یہ اج کل جو علوم اپ پڑھتے ہیں خواہ وہ سائنس جس پر نیچرل سائنسز کہتے ہیں خواہ وہ سوشل سائنس ہو سب کے مقدمات اسی طرح ترتیب دیے جاتے ہیں یعنی اپ کسی شے کا مطالعہ کرتے ہیں ہم زوالوجی ہے تو جانوروں کا مطالعہ کریں گے حیاتیات یا بائیولوجی ہے تو زندہ چیزوں کا مطالعہ کریں گے تجربے اور مشاہدے سے جو چیزیں واضح ہوتی ہیں ان میں اشتراک تلاش کیا جاتا ہے جن جگہوں پر وہ پیدا ہوتی ہیں ان کا مطالعہ کیا جاتا ہے اچھا اس عمل کے دوران میں اپ بعض اوقات ہزاروں شواہد اکٹھے کر لیتے ہیں پھر کچھ استثناء بھی سامنے انے شروع ہو جاتے ہیں وہ استثناء کیا ہیں ان کا کیا تعلق پیدا کیا جائے گا ان کی بنیاد پر ہم اپنے مقدمات پر نظر ثانی کریں گے یہ معاملہ بھی اسی طریقے سے جاری رہتا ہے تو اگر اپ غور کر کے دیکھیں تو یہ اصل میں اشیاء کی فطرت ہے مخلوقات کی فطرت ہے انسان کی فطرت ہے جس کا مطالعہ کرنے کا عمل جب ہوتا ہے اور استقرار سے گزر کر وہ نتائج کو ترتیب دیتا ہے تو علم پیدا ہو جاتا ہے یہ عمرانیات ہے یہ سماجیات ہے یہ حیاتیات ہے یہ حیوانات کا علم ہے یہ تمام جتنے علوم ہیں وہ اگر اپ غور کریں تو اسی طریقے سے پیدا ہو رہے ہیں ایسا نہیں ہے کہ اپ کو اسمان سے کوئی وحی اکے بتاتی ہے کہ انسان کے اندر وہ صلاحیت رکھی گئی ہے اس کا ظہور ہوتا ہے اس کے نتیجے میں وہ صلاحیت تو اللہ تعالی نے ایک مکھی کے اندر بھی رکھی ہے گدھے کے اندر بھی رکھی چھوٹے سے چھوٹے حشرات الارض میں بھی رکھی ہے یعنی وہ اپنی فطرت کے مطابق کام کر رہے ہیں تو جو کچھ اپ کے اندر موجود ہے اس کا تعلق اپ کے تجربے اور مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے اپ اس پر حکم لگاتے ہیں جیسے ہی اپ حکم لگاتے ہیں تو اس سے زبان وجود میں انے لگ جاتی ہے کیونکہ اپ تعبیر کرنا چاہتے ہیں وہ ابلاغ کا رشتہ پیدا کرتی ہے اپ نتائج تحقیق انڈکشن یا استقرا کے نتیجے میں ترتیب کے عمل سے گزرنا شروع ہوجاتے ہیں جتنا یہ استقاء غیر معمولی ہوگا جتنا بڑھتا چلا جائے گا اتنا ہی وہ علم مکمل ہوتا چلا جائے گا ہم اس وقت جس صورتحال میں بیٹھے ہوئے ہیں بات کر رہے ہیں اسی کی مثال لے لیں ایک بیماری وبا پھیل گئی کا نام دے دیا گیا ہے یہ نام دینے کا عمل بھی اگر اپ غور کریں تو ایک تجربے اور مشاہدے سے ہوا ہے اب اس کے بعد اس کے اثرات کیا ہیں یہ کہاں تک جا رہا ہے یہ پھلتا کیسے ہے یہ سب کچھ جو ہے اس کا مطالعہ جاری ہے اس وقت اپ نے دیکھا ہوگا کہ اس میں متضاد چیزیں سامنے اتی ہیں کیا سات کی دنیا پیدا ہوتی ہے ہر علم ترتیب میں نہیں مراحل سے گزرتا ہے پھر اس میں اپ چیزوں کو تجرید کے عمل سے گزارتے چلے جاتے ہیں یعنی جو غیر متعلق چیزیں ہیں وہ ہٹتی چلی جاتی ہیں جہاں مشاہدے میں کوئی خرابی ہوتی ہے اس کو دور کیا جاتا ہے اہستہ اہستہ وہ علم ایک مذموم علم بن جاتا ہے کہ اپ کی جتنی دوائیں ہیں جن سے اپ استفادہ کرتے ہیں علاج کے طریقے ہیں یہ سب اسی طریقے سے پیدا ہوئے تو اپ کسی علم کو اٹھا لیں وہ اپ کی جدید معیشت کے علوم ہو وہ اپ کی سماجیات کے علوم ہو وہ سائنس کے علوم ہو سب اپنا عمل اسی طریقے سے کر رہا ہے
-
00:17:45 اچھا اس میں ایک چیز اور داخل ہوتی ہے ایک مرحلے کے اوپر یعنی اپ نے تجربے اور مشاہدے سے حقائق جمع کرلی حقائق کے جمع کرنے کے عمل کے بعد نتیجہ نکالنے کا عمل ہوتا ہے یہ عقلی عمل ہے
-
00:17:58 اس میں استنباط کیا جاتا ہے یعنی حقائق کسی چیز کو لازم کر رہے ہوتے ہیں تو اس لازمی نتیجے کو جواب بیان کرتے ہیں تو یہ ان فرانس عقلی استنباط ہے تو اس پورے عمل کو سمجھنے یعنی تجربہ اور مشاہدہ حقائق کا استرا عقلی استنباط کے ذریعے سے اخری فیصلہ جو اپ سناتے ہیں میں پھر عرض کر دوں کہ یہ فیصلہ بعض اوقات غلط بھی ہوجاتا ہے اس میں استقرار نہیں خرابیاں ہوتی
-
00:18:27 کراچی اسی وجہ سے سائنس اپنے نتائج پر نظر ثانی کرتی رہتی ہے سماجی علوم اپنے نتائج پر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں یہاں سے بات شروع ہوتی ہے اس کو بھی بار بار دیکھا جاتا ہے استقراء میں جو حقائق جمع کیے جاتے ہیں ان کو بھی بار بار دیکھا جاتا ہے اور جو عقلی نتیجہ نکالا ہوتا ہے اس کی مطابقت کو بھی بار بار دیکھا جاتا ہے تو نقد کا ایک عمل اس کے ساتھ جاری رہتا ہے یہ نقط کا عمل ہے جو اصل میں علم کے اگے بڑھنے کا باعث بنتا ہے یعنی اپ میں کسی چیز کو دیکھا ایک ادمی اکر یہ کہتا ہے کہ اپ کی دیکھنے میں غلطی ہوئی ہے تو دیکھیے ابتدا ہی سے اپ نے اس پر نقش شروع کر دیا وہ کہتا ہے اپ سے استقراء میں غلطی ہوئی ہے اگلے مرحلے پر نقش ہو گیا وہ کہتا ہے استقرار میں حقائق بالکل درست جمع کیے گئے تھے اپ نے اس سے عقلی نتیجہ غلط نکالا ہے دونوں میں مطابقت نہیں ہے یعنی یہ ایک ایسی چیز اپ نے بیان کرنی ہے اس میں کچھ چھلانگ لگا دی ہے نتیجہ نکالنے میں تخیل کو دخل انداز ہونے کا موقع مل گیا ہے تو یہ تنقید کے طریقے تو نقد کیا کرتا ہے وہ اصل میں ہمارے سارے عمل کا جائزہ لے کر اس کی غلطی بتاتا ہے یہ غلطی اپ جب بتا دیتے ہیں تو علم اگے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اس لئے کہ وہ نظر ثانی کا تقاضا کرے گا اپ پیچھے مڑ کے جہان نقد کیا گیا ہے اس کو درست کرنے کی صحیح کرتے ہیں تو اس طرح علوم پیدا ہوتے ہیں فطرت کا لفظ بولے بغیرتو علم کی گفتگو ہی نہیں کی جا سکتی میں نے اپ نے انسان کے بارے میں گفتگو کرنی ہے مذہب پر گفتگو کریں گے وہ بھی وہی شروع ہوگی
-
00:19:58 سماجیات پر گفتگو کریں باہمی تعلقات پر گفتگو کریں گے وہ بھی وہی سے شروع ہوگی سیاست پر گفتگو کریں گے وہ بھی وہیں سے شروع ہوگی معیشت پر گفتگو کریں گے وہ بھی شروع میں اس سے کوئی مختلف جگہ ہے ہی نہیں جہاں سے بات شروع کی جا سکے تو اب اس کے بعد زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ میں نے عام علوم کے اصول کو مذہب پر اطلاق کر دیا خود قران مجید نے یہی کیا ہے یعنی جس طرح یہ جتنے علوم جن کی میں نے مثال دی یہ اپنی بحث کی پناہ فطرت سے کرتے ہیں بالکل اسی طرح قران میں بھی اپنے علم کی علم دے رہا ہے انسانوں کو یہ بتا رہا ہے کہ یہ خدائی علم ہے جو تمہیں دیا جا رہا ہے تو اس کی ابتدا بھی یہیں سے کی میں نے عرض کیا کہ یہ بحث ہم بعد میں کریں گے لیکن جو بات میں نے کہی ہے اس بات کا عقلی پہلو یہ ہے اور اس کا دینیاتی پہلو ہے یعنی عقلی پہلو کیا ہے کہ تمام علوم یہیں سے شروع ہوتے ہیں مختلف کی جگہ سے مجھے شروع کر کے دکھائیے شروع ہو ہی نہیں سکتا یہیں سے بات کی ابتدا کی جائے گی انہیں تین مراحل سے گزرے گا اور اپ کا تجربہ اور مشاہدہ
-
00:21:07 اس کا باہمی تعلق اس کے نتیجے میں استقراء اور استقراء کے نتائج عقلی طریقے سے نکال کر علم کو تعین میں ڈال دینا ہر جگہ ہونا ہے میں یہ کہتا ہوں کہ اپ کسی جگہ اس کے بغیر دو لفظ بھی بول نہیں سکتے تو اس لیے کوئی نادر بات نہیں جو میں نے کی ہے بلکہ یہ بتایا ہے کہ ہمارے دین میں بھی یہی چیز ہے اور اس کے لئے سند کس چیز کی پیش کی ہے علم کے ذرائع بتائے کہ جو ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم اپنی اس تخلیقی ساخت اپنے اندر کے متعلق کو سامنے رکھیں فطرت کا جائزہ لیں اس میں پہلی چیز تجربہ
-
00:21:48 میں اس کو ایک سادہ مثال سے اپنے کورونا کی مثال دی میں اس کو اپنی زندگی کی کملی مثال میں لاکر اپ سے پوچھنا چاہتا ہوں میں اگر دلی میں پیدا ہوا ہوں اور میں روز دیکھتا ہوں ظاہری بات ہے جب میں شعور کو پہنچوں گا تبھی میں اپنی شخصیت پر نگاہ ڈال سکتا ہوں مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ جب بڑے اتے ہیں تو تم نے جو ہے وہ کھڑے ہوجانا ہے اور سلام کرنا ہے ان کو اب میرے تجربے کے اندر ادب اور احترام کا یہ ایک لازمی تقاضا ہے کہ بڑوں کے انے پر کھڑا ہو میرا تجربہ مشاہدہ اسی کو بیان کر رہا ہے تو یہ تجربہ اور مشاہدہ تو اصل میں خارج سے میرے اندر گیا ہے داخل سے تجربہ مشاہدہ تو ائینی سکتا کیونکہ میں نے زبان سیکھنی ہے شعور سیکھنا ہے معاشرے میں پیدا ہونا ہے تو تجربہ اور مشاہدہ تو خارجی عمل ہے داخلی عمل کیسے بات یہ ہے کہ تمام مخلوقات کا مطالعہ کرکے ہم اس نتیجے پر پہنچے اور یہ بالکل درست نتیجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک کسی چیز کے لئے بالکل استعداد اپ کے اندر نہیں ہوتی خارج کی ترغیب کچھ بھی نہیں کرسکتے اس کی استعداد اپ کے اندر ہونی چاہیے سیکھ سکتے ہیں
-
00:22:52 اپ کے اندر وہ چیز موجود ہے جو اس طرح باہر ا سکتی ہے
-
00:22:57 اپ ساری زندگی لگا لیں اور ایک گدھے کو یہ تعلیم دینے کی کوشش کریں کہ جب بوڑھے ائیں یا بزرگ ائیں تو میں اٹھ کر کھڑے ہوجانا
-
00:23:05 اس کے اندر یہ اشتراک نہیں پیدا کی جاسکتی انسان کے اندر یہ چیز بچپن میں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے میں نے کئی مرتبہ اس کی مثال دی ہے کہ جو بنیادی مذہبی حقائق ہے اپ اپنے بچے پر اس کا تجربہ کر کے دیکھئے
-
00:23:20 انسان کے امتیازی خصائص کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کئی مرتبہ یہ کہا ہے کہ انسان کے پاس ایک حادثہ اخلاقی ہے
-
00:23:29 اسی طریقے سے انسان کے پاس حصے جمالیت
-
00:23:33 ائیے اپنے بچے پر اس کا تجربہ کرتے ہیں وہ بچہ ہمارے ہاں پیدا ہوا
-
00:23:38 کتنے لوگ ہیں جن کے ہاں کتے کے بلیوں کو چینی پیدا ہوتے ہیں
-
00:23:42 ان میں سے کسی نے اج تک اپ حصے جمالیت پیدا کر سکے کسی مے اج تک وہ حادثہ اخلاقی بیدار کر سکے یعنی کچھ چیزوں کو سیکھ کر وہ اپ کے احکام پر عمل کرنا جان لیتے ہیں
-
00:23:55 لیکن کیا انسان کا بچہ بھی ایسے ہی کرتا ہے کہ بچے کو اپ جس وقت شعور کی عمر کو پہنچنا ہوتا ہے
-
00:24:03 تو یہ بتانا شروع کرتے ہیں کہ چیزیں اچھی اور بری بھی ہوتی ہیں اور عام طور پر ایک دو چار چیزوں کے اوپر اس کا اطلاق کرتے ہیں بار بار جیسے ہی وہ یہ دو نفس سیکھ لیتا ہے اور یہ اطلاق جان لیتا ہے
-
00:24:17 اس کے بعد وہ خود اس کا اطلاق کرنا شروع کردیتا ہے تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پہ بالقوہ وہ چیز رکھی گئی ہے
-
00:24:26 وہی نکلتی ہے یعنی خارجی تحریک سے نکلتی ہے علوم بھی اسی سے پیدا ہوتے ہیں
-
00:24:32 لیکن وہ جو کچھ ہے اندر وہی نکلتا ہے
-
00:24:36 اچھا ایسا بھی بارہا ہوتا ہے کہ انسان کو چونکہ ارادہ اور اختیار دیا گیا ہے اسی طرح سے اس کی بنیادی مقدمات بھی متضاد نوعیت کے ہیں
-
00:24:45 تو اس وجہ سے کبھی خارجی تحریک کسی کو نمایاں کر دیتی ہے کبھی کسی کو نمایاں کر دیتی ہے تو نتائج بھی بعض اوقات مختلف انے لگ جاتے ہیں لیکن وہ چیز اندر موجود ہوتی ہے تو تبھی اس کا وہ نتیجہ نکلتا ہے یعنی کسی ہندو اور کسی مسلمان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے کتے اور اپنی بلیوں کو بھی مسلمان یہ ہندو بنا لے یہ انسان کا بچہ ہی نہیں بنتا ہے تو اپ کے باطن میں وہ چیز رکھ دی گئی ہے جس کو میں نے اپنی بات تحریروں میں واضح کیا ہے اور امام حمید الدین فراہی کے حوالے سے اس کی تفصیلات کی ہیں کہ ہم ایک نوعیت کا اضطراری علم لے کے ائے
-
00:25:23 یعنی یوں نہیں ہے کہ خارج میں علم پڑا ہوا ہے کہ خارج میں اشیاء موجود ہیں باطن میں ہمارا نفس موجود ہے ہم جب اس کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتے ہیں تو جو حقائق ہمارے سامنے اتے ہیں ان پر حکم لگانا یہ صلاحیت ہمارے اندر موجود ہے حکم لگانے کے بعد اس کے ابلاغ کا مرحلہ پیش اتا ہے اس کے لئے زبان چاہیے جس وقت اپ ابلاغ کرتے ہیں مختلف چیزوں کا تو اس طرح اپ کا علم اور اپ کا مطالعہ اور اپ کا مشاہدہ مجھ تک پہنچتا ہے اور میرا مطالعہ اور مشاہدہ اپ تک پہنچتا ہے تو اس میں علم اگے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور اس کے بعد جب صدیوں کا مطالعہ اور مشاہدہ جمع ہوتا چلا جاتا ہے تو اپ یہ دیکھتے ہیں کہ کتابوں پر کتابیں تصنیف ہو جاتی ہیں لائبریریاں بن جاتی ہیں یہ کتوں نے بلیوں نے گدھوں نے شیروں نے دنیا میں کتنی مخلوقات ہیں
-
00:26:15 ارے لاکھوں کی تعداد میں مخلوقات گنوائی جا سکتی ہیں کونسی لائبریری تصنیف کر ڈالی کونسی تہذیب بنا دی ہے
-
00:26:22 کیوں نہیں بنا
-
00:26:24 مخلوقات نہیں ہے کھاتے نہیں ہیں پیتے نہیں ان کے اندر خوف کی جبلت نہیں ہے وہ اپنی حفاظت نہیں کرتے 10 چیزیں گنوائی جا سکتی ہیں جن میں اور وہ مشترک ہے لیکن جو چیز نہیں ہے وہ ہے چیزوں کو علم بنا دینے کی صلاحیت تو یہ صلاحیت کے وہ چیزوں کو علم بنا دیتا ہے انسان یہ میرے اندر رکھی گئی ہے یعنی یوں نہیں ہے کہ جو بنیادی مقدمات میرے تجربے اور مشاہدے سے گزرے جیسے ہی مقدمات کو میں نے ترتیب دیا اور ترتیب دینے کے بعد استقراء کے عمل سے گزارا تو اس کے بعد اسمان کی کوئی وحی ائی اور اس نے کہا کہ یہ معیشت کا علم ہے یہ سماجیات کا علم ہے یہ عمرانیت کا علم ہے نہیں جو وہی انی تھی وہ میری پیدائش کے ساتھ اگئی وہ میرے باطن میں ائی وہ صلاحیت میرے اندر رکھی گئی میں بالکل وہ چیز لے کے ایا اب وہ میرے اندر موجود ہے اس کے لئے خارجی تحریک چاہیے اور وہ خارجی تحریک پہلے دن ملے گی تو علم کی ابتدا ہوگی اس وقت اصل میں وہ پورے ماضی کے ساتھ ملتی ہے
-
00:27:27 یعنی اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ بن چکی ہوتی ہے تو اس وجہ سے بعض اوقات ہم دسویں یا 20 ویں یا 10000 قدم اگے اٹھا کے وہاں سے ابتدا کر دیتے ہیں تو اس کو پھر اپ یوں کہتے ہیں کہ جیسے ہی بچہ پیدا ہوا تو اس نے اپنے کچھ توہمات اپنے کچھ تصورات اپنے گرد و پیش کر لیے لیکن میں اپ سے عرض کروں کہ اس کے اندر یہ غیر معمولی صلاحیت رکھی گئی ہے کہ اگر اس کو اپ اس کی ترغیب دے دیں کہ میں چیلنج کرو
-
00:27:55 تو وہ بالکل اسی طرح سے چیلنج کرے گا جس طرح وہ ابتدا میں پیدا ہوئے تھے
-
00:28:02 وہ کیا کرے گا ان چیزوں کا پہلے ریلیشن استقراء کے نتیجے میں متعین کرے گا اس کے بعد فطرت کے مقدمات پر چلا جائے گا تو یا خارج کے علم سے چیلنج ہو جائے گی کوئی چیز کرے گا اس کو قبول کرنے سے اور یہ خارج کی معلومات بتا دیں گی کہ یہ بات ہی غلط ہے کہی جا رہی ہے بعض اوقات ہمارے ہاں جو فلسفہ ہے مثال کے طور پر جو لوگ فلسفے کی تاریخ سے واقف ہیں انہیں معلوم ہے کہ اس میں بنائے استدلال تخیل کو بنا لیا گیا معمولی چیز نہیں ہے اپ نے دیکھا ہوگا کہ یہ تخیل ہے جس کے زور پر ایک شخص ایک ناول لکھتا ہے
-
00:28:43 اور اپ کو چند گھنٹوں کے لئے اپنی دنیا میں لے جاتا
-
00:28:47 داستان بیان کرتا ہے
-
00:28:49 اور مجھے معلوم ہے کہ جب وہ داستان گو داستان سنا رہا ہوتا ہے تو اپ اپنی یہ دنیا جو اپ کے گرد و پیش میں ہیں اس کو فراموش کر بیٹھتے ہیں اس میں چلے جاتے ہیں اپ نے سائنس فکشن دیکھا
-
00:29:01 یعنی جو انسان کے اندر خیالات ہیں انہی کی دنیا سے وہ کیسی کیسی چیزوں کا متخیلہ قائم کر لیتا ہے
-
00:29:09 کیا حال ہے اس میں انسان کے اندر کیونکہ یہ صلاحیت رکھی گئی ہے اور جس وقت وہ ایک ناول کا پلاٹ ترتیب دیتا ہے یا جس وقت وہ ایک سائنس فکشن لکھتا ہے یا جس وقت اپ کے سامنے کوئی داستان بناتا ہے تو اس وقت اگر اپ کو یہ بتایا نہ جائے کہ یہ داستان ہے تو بالکل ایک حقیقی چیز لگتی ہے تو فلسفے میں بالکل اسی طریقے سے ہوا یعنی انسان کی یہ جو صلاحیت ہے اس کو کام میں لا کر متخیر کو انگیت کیا گیا اور اس سے ایک ایسی تصویر بنا دی گئی کہ اس عالم میں حقیقت متعلقہ کیا ہے عین متعلق کیا ہے وہ کس طرح سے اشیاء سے اپنا ریلیشن پیدا کرتا ہے وحدت سے کثرت کیسے صادر ہوتی ہے اس کو متخیل کے زور پر ایک بالکل جس طرح سائنس فکشن ہوتا ہے یا ایک ناول ہوتا ہے ایک دنیا دے دیجئے یہ دنیا ہے جو مثالیت پسند ہو کہ اپ ہاں اپ کو مثال کے طور پر ملے گی اب یہ دنیا بنا دی گئی اس دنیا کو چیلنج کیا چیز کرے گی وہی چیز یعنی تجربہ اور مشاہدہ جب اپ علم کی کسوٹی پر اس کو پرکھیں گے تو وہیں سے بات شروع کریں گے یعنی جس چیز کی ابتدا کی گئی ہے کیا باطن اس کا مشاہدہ کر رہا ہے یا ظاہر کر رہا ہے تو تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر اپ ابتدا کرتے ہیں استقراء کیا نتیجہ پیدا کرتا ہے کہ وہ تجربہ اور مشاہدہ کے اپ کا بھی ہے یا فلاں کا بھی ہے کیا فلاں کا بھی ہے تو جیسے ہی اپ استقرار ہو جاتے ہیں یہ اپ نے دیکھا ہو یہ شماریات جو علم بنایا ہے کیا چیز ہے اس میں ایسے ہی کیا جاتا ہے سروے کریں گے ہم یہ استقراء ہے اس سے غلط عقائد بھی نکلتے ہیں لیکن ہمارے پاس علم کے ذرائع یہی ہیں تو ان ذرائع کو کام میں لا کر ہم وہ نتائج نکالتے ہیں یہ خیال نہ کیجئے گا کہ اس میں صرف وہ چیزیں ہوتی ہیں کہ جو ہم ٹھوس طریقے سے دکھا سکتے ہیں مجھے سر درد ہوتا ہے
-
00:31:01 ساری دنیا اس کو مانتی ہے کہ سر درد ہوتا ہے دوائیں ایجاد کی گئی ہیں اس کی لیکن یہ جو میرا احساس ہے کہ مجھے سر درد ہوتا ہے یہ میرا بات نہیں احساس ہے اور اس اپنے باطنی احساس کو میں نے منتقل کیا اپ کو اپ نے مجھے منتقل کیا یہاں تک کہ یہ ایک عالم گیر صداقت بن گیا کہ انسانوں میں یہ درد پیدا ہوتا ہے اچھا سر درد ہے درد جگر ہے اس پر لوگوں نے شاعری کی ہے اپنا کام کرتا ہے
-
00:31:27 جس چیز کو اپ درد جگر کہتے ہیں یہ ہوسکتا ہے کہ تنقید سے یہ ثابت کر دیا جائے کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے یا یہ محض ایک مجازی استعمال ہے تو یہ سب چیزیں جو ہے وہ علم کی دنیا میں ہوتی رہتی ہیں لیکن علم پیدا ہی اس طریقے سے ہوتا ہے کیا اپ کسی چیز کی فطرت کا مطالعہ کرتے ہیں میں تو یہ کہتا ہوں کہ جب اپ مٹی کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں جب اپ پہاڑوں کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں
-
00:31:54 دنیا کو دیکھنے کا جتنا علم ہے اس کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں اس کی ابتدا یہی سوتی یعنی تجربے اور مشاہدے سے حقائق جمع ہوتے ہیں ان حقائق کا استرا ہوتا ہے بہت بڑے پیمانے پر جب وہ جمع ہو جاتے ہیں اس کے بعد ہم اس سے نتائج نکالتے ہیں وہ استنباط کا عمل ہے جو کیا جاتا ہے ان نتائج کو بار بار پرکھا جاتا ہے ان کو مرتب کیا جاتا ہے اب ہم کہتے ہیں کہ ایک باقاعدہ علم وجود میں ا گیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حتمی حجت ہے یہ ہر وقت رقبہ نظر کے لئے کھلا ہوتا ہے اور یہ ہوتا رہتا ہے تو میرے کہنے کا مطلب کیا ہے یعنی خلاصہ یہ ہے کہ فطرت کا لفظ بولے بغیر تو علم کی اطلاع ہو ہی نہیں سکتی اپ جس علم کا ذکر کریں گے یہیں سے شروع ہوگا اس کے مقدمات یہیں سے ترتیب پائیں گے اس نے اگر باقی رہنا ہے تو یہیں سے باقی رہے گا اگر اس نے ختم ہو جانا تو یہیں سے ختم ہو جائے گا
-
00:32:44 جو بھی ایک علم ہے یہ بھی یہیں سے شروع ہوتا ہے اور یہ بات میں کیوں کہہ رہا ہوں اس لئے کہ اللہ تعالی نے یہ بات کہی ٹھیک اچھا اپ نے بہت تفصیل سے میرے سوال کا جواب دیا کہ جو تجربہ اور مشاہدہ ہے یہ محض انسان کی فطرت کو تخلیق نہیں کرتا بلکہ فطرت کو اس کے اظہار کے مواقع فراہم کرتا ہے اپ نے ایک لفظ یہاں پے بھی استعمال کے اضطراری علم
-
00:33:11 میرا سوال یہ ہے کہ جو اپ نے کہا کہ انسان ایک اضطراری علم لے کر اتا ہے یہ حقیقت خود
-
00:33:17 اپ کے سامنے اپ کے تجربے یا مشاہدے کے سامنے ائی استخراج سے سامنے ائی یہ بھی کوئی عقلی قیاس ہے کہ انسان کی اس طرح علم رکھتا ہے کہ ہم حکم لگا رہے ہوتے ہیں نہ اپ یہ دیکھیے کہ تین زاویے تین سطروں سے وجود میں اجاتے ہیں یہ اس کو ہم نے کہا یہ مثلث ہے اس کو چوکور سے الگ کردیا اب ظاہر ہے کہ یہ حکم لگایا گیا
-
00:33:43 [Unintelligible]
-
00:33:45 اور یہ حکم لگانے کی صلاحیت ہی انسان کو دی گئی ہے جس سے اصل میں علم کی بنیاد پڑ گئی لیکن مسلط کا تصور تو پہلے مجھے باہر سے ڈالا گیا تھا تب میں نے اندر سے حکم لگایا کہ متعلق نہیں جس وقت یہ بنا اب تو اصل میں جو پہلے بن چکا ہے وہ اپ کو بتایا جا رہا ہے جس وقت اپ اسکول میں جاتے ہیں اپ کے والدین اپ کی تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں تو وہ اصل میں جو علم وجود میں ا چکا ہوتا ہے جو مانا جا چکا ہوتا ہے جو ان کی میراث بن چکا تھا وہ اپ کو منتقل کرتے ہیں میں اپ کو یہ بتا رہا ہوں بنا کیسے تھا
-
00:34:17 اس کا طریقہ کیا ہوتا ہے کچھ علم وہ ہے جو ماضی میں بن گئے ہیں
-
00:34:21 ان کے لئے اپ کو ماضی میں جانے کی ضرورت ہوتی ہے بہت اچھا طریقہ کسی چیز کو سمجھنے کا یہ ہے کہ جو علم اج وجود تبدیل ہو رہے ہیں ان کا مطالعہ کریں اصل میں جب کوئی علم بن جاتا ہے اور ہم مطمئن ہو جاتے ہیں کہ علم بن گیا ہے
-
00:34:36 [Unintelligible]
-
00:34:37 نیوٹن میں ایک سیب کے گرنے کا مشاہدہ کیا
-
00:34:43 سیف تو گر رہے تھے نہ اس سے پہلے مشاہدے کے نتیجے میں ایک استنباط کیا اس نے
-
00:34:50 مشاہدہ یہ مشاہدہ استقراء کے عمل سے بھی ذہنی طور پر گزر گیا یعنی سیب نے گر کر کیا کیا صرف یہ نہیں بتایا کہ سیب نیچے گرتا ہے
-
00:35:03 مجھے یہ بتائیں سبھی چیزیں نہیں چاہیے
-
00:35:06 یہ جو دوسرا مرحلہ تھا اس کو طے کرنے کے لئے نیوٹن کو کہیں جانا نہیں پڑا یہ تو روز کا مشاہدہ تھا
-
00:35:14 اور یہ مشاہدہ اتنے بڑے پیمانے پر ہو رہا تھا لیکن توجہ نہیں ہوئی تھی تو اب یہ ظاہر ہے کہ یہ جو حکم لگایا گیا اس کے اوپر یہ اپ کے باطن سے پیدا ہوا مشاہدہ تو ہو رہا تھا
-
00:35:27 اچھا جو استنباط کیا گیا اس سے اور استنباط کرکے اس اصول کا اطلاق تمام عدنان پر کر دیا گیا
-
00:35:34 یہ کیا چیز ہے یہ بھی وہی استنباطی ہے یعنی اپ نے بالکل اسی مرحلے سے گزارا
-
00:35:41 اس میں جو جس چیز کا مشاہدہ کیا گیا وہ مشاہدہ ایک فرد نے کرکے پھر دیکھا کہ کیا یہی سب کا مشاہدہ ہے چیزیں ایسے نیچے کی طرف گرتی ہیں
-
00:35:52 [Unintelligible]
-
00:35:53 یہی ہوا نا اپ اگر کسی بھی چیز کا تجزیہ کریں تو اپ خود اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ اپ کے باطن کے اندر یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کیا صلاحیت ہے دو صلاحیتیں ہیں یعنی ابتدائی حکم لگانے کی صلاحیت جس سے اصل میں سیب نے بغیر خود وجود پذیر ہو کر ایک صورت اختیار کرلی ہے اور اس کے بعد جو کچھ اپ کے مشاہدے میں ایا ہے اس کے حقائق کو ترغیب دے کے اس کو ایک نظم میں لا کر اس ترکیب اور اس نظم سے اپ نے ایک نتیجہ نکالا ہے یہ نتیجہ کیسے نکالا جاتا ہے یہ استنباط ہوتا ہے یعنی یہ چیز اگر ایسے ہے تو پھر وہ چیز بھی ایسے ہونی چاہیے یہ جو قیاس کا عمل ہے یہ جب بالکل براہ راست ہوتا ہے یعنی اس میں تخیل کو اپ دخل انداز نہیں ہونے دیتے تو اس کو کہتے ہیں یہ سیری کلاس ہے یعنی یہ صحیح استنباط ہے انہی کے مجموعے سے پیدا ہو رہا ہے تو اگر اپ سارے علم کا مطالعہ کریں گے تو کسی چیز کو اپ لے لیں کوئی نہیں مراحل سے گزرے گی اب یہ جو کچھ نتیجہ نکلا اس کو قبول کر لیا گیا جب اس کو قبول کر لیا گیا تو اس کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے اب ہم نے پڑھانا شروع کر دیے تو اب جس وقت ہمارا بچہ اس کو پڑھتا ہے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ خارج سے اس کو چیز دی گئی ہے اصل میں تو یہ اس کی تعریف جو میں نے اپ کو بیان کی ہے وہ پیچھے گزر چکی تھی جس وقت پیچھے جائینگے اپ کو یہی تاریخ ملے گی کسی ایک چیز کو بھی اپ اس سے مختلف طریقے سے نہیں دیکھ سکتے ہر جگہ یہی ہوگا تو بار بار جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ میسج پیدا ہوتا ہے تو ہم اس سے پھر ایک کیس کرتے ہیں اور وہ یہ کہ جو کچھ ہمیں اپنی میراث میں ملا ہے وہ بھی ایسے ہی پیدا ہوا
-
00:37:34 ہنی اس وقت ہزاروں لوگ پیدا ہو رہے ہیں روز تجربے اور مشاہدے کے نتائج سامنے ارہے ہیں روز استقرار ہو رہا ہے میں نے ابھی اپ کو کورونا کی مثال دی یہ کورونا اس وقت ہمارے ہاں ایک افت کے طور پر مسلط ہے یہ ان مراحل سے گزر رہا ہے یعنی مطالعہ کیا جا رہا ہے مشاہدہ کیا جا رہا ہے مریض دیکھے جا رہے ہیں نتائج دیکھے جا رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے استقرار ہو رہا ہے استقراء کے اس عمل کے بعد جو نتائج ہوں گے ان کو ہم ترتیب دیں گے ترتیب دیں گے تو ہر طبیعت کی میز کے اوپر وہ نتائج پڑے ہوئے ہوں گے وہ پڑھائے جا رہے ہوں گے وہ اپ کے میڈیکل کالجوں میں سکھائے جارہے ہوں گے تو ایک متعین مرض اس کا علاج اس کے وجوہ اس کے پھیلاؤ کی صورتیں یہ علم بن جائیں لیکن یہ پیدا کیسے ہوا اس وقت اپ کے سامنے پیدا ہو رہا ہے اس کی پیدائش کا مطالعہ کیجئے اب اپ پیچھے جائیے تو جتنی دوائیں اب تک یاد ہوئی ہیں جتنے امراض کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے سب کچھ ایسے ہی ہوا ہے میں نے ہم نے بچپن میں میرے والد کیونکہ طبیب تھے تو تب کی بہت کتابیں میں نے پڑھی
-
00:38:35 وہ کتابوں کے جو کلاسی کی حیثیت رکھتی ہیں جیسے مثال کے طور پر گولی سینا کی القانون ہے یا دوسری کتابیں جب ان کو دیکھا تو وہ سب کیا تھی وہ سب کی سب انہی مراحل سے گزری یعنی کسی دیہاتی نے کسی بدو نے کسی اور جگہ پر پھرنے چلنے والے ادمی نے اپنا مشاہدہ تجربہ بیان کر دی تجربات و مشاہد اپ کہتے ہیں یہ میرے خاندان کے مجربات ہیں مطلب کیا ہے کہ بار بار ان کو دہرایا گیا ہے اور اس سے ایک ہی طرح کے نتائج نکلے کے بارے میں جو فیصلہ اپ کرتے ہیں وہ پہلے مرحلے میں کیسے ہوتا ہے وہ ایسے ہی ہوتا ہے
-
00:39:13 ابے کا ہوگا ابھی چند روز پہلے یہ اعلان کیا گیا کہ فلاں دعا بڑی موثر ثابت ہو رہی ہے
-
00:39:19 کیسے معلوم ہو
-
00:39:21 تجربہ اور تجربہ کا استقراء تجربہ تو کسی ایک پر پہلے ہوا ہوگا نہ دو پر ہوا ہوگا اس کے بعد استقراء کا عمل ہوتا ہے یعنی اس تجربے کو بار بار دیکھا جاتا ہے بہت سی جگہوں پر دیکھا جاتا ہے وہ العموم جب دیکھ لیا جاتا ہے تو پھر ایک نتیجہ نکالا جاتا ہے جب وہ نتیجہ نکالا جاتا ہے تو پھر اس کے بعد ہم اس کو علم کی صورت دے دیتے ہیں اور میں نے پہلے عرض کر دیا نا کہ یہ علم ایسا نہیں ہوتا کہ چیلنج نہیں ہوتا یہ چیلنج بھی ہوتا رہتا ہے مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں ایک دوا تھی وہ ان سب مراحل سے گزر کر رائج ہوئی مراحل سے گزر کر رہا ہے مراحل سے گزر کر ابھی بھی کوئی دوا بنے گی
-
00:40:03 لیکن ایک دن اچانک معلوم ہوا کہ وہ دوا اٹھائی جا رہی ہے کیا ہوا معلوم ہو گیا کہ اس کے بعض ایسے اثرات ہیں کہ جو انسانوں کے لئے بہت مہلک ثابت ہو سکتے ہیں تو اس کا مطلب کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہی جو استرا کا عمل تھا اس میں کوئی خامی رہ گئی جب وہ سامنے اگئی تو اپ نے اپنے علم میں ترمیم کردی تو اس وقت جو اپ کے والدین اپ کو بتا رہے ہوتے ہیں یا اپ کا معاشرہ بتا رہا ہوتا ہے یا اپ کے اساتذہ اپ کو بتا رہے ہوتے ہیں وہ اصل میں علم کی میراث اپ تک پہنچا رہے ہوتے ہیں تاکہ اپ اگے بڑھ سکیں اور کوئی شخص کسی موقع کے اوپر بھی اٹھ کر جو کچھ اپ کو اسکول میں پڑھایا گیا ہے چیلنج کر دے گا اس کو چیلنج کرے گا چیلنج بھی نہیں مراحل سے گزرنا ہے اور علم پیدا ہوگا تو پیدائش کے عمل میں بھی نہیں مراحل سے گزرنا یہ اصل میں علم تو پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے علم ہے ہی فطرت کے متعلق کا نام یعنی جانوروں کا مطالعہ کرلیں اپ جمادات کا مطالعہ کریں ان کی بھی فطرت ہے
-
00:41:04 نباتات کا مطالعہ کریں گے ان کی بھی ایک فطرت ہے تو جس کا بھی مطالعہ کریں گے اس کی فطرت کیا ہے یعنی اس کے اوصاف خصائص اس کی غایت وہ کس طریقے سے وہ چیز وجود پوری ہو رہی ہے اس کو بہت ہی خوبصورتی سے عربی ادا کرتی ہے
-
00:41:21 یعنی وہ جان کیسے کرتی ہے
-
00:41:26 یہ چیز اس چیز پر بنائی گئی ہے جو بلال ہے
-
00:41:31 اچھا اسی طرح سے ایک اور بڑی خوبصورت تعبیر ہے وہ من کے ساتھ ادا ہوتی ہے انگل انسانوں خلیفہ حلوہ کھولے کا منجل انسان جلد باز پیدا ہوا ہے انسان
-
00:41:47 تجھے نے پوچھا فاصلے کرتا ہے تو یہ سب تعبیریں کیا ہے یہ اصل میں انسان کی فطرت کا مشاہدہ اور مطالعہ اس کا نتیجہ ہے اللہ تعالی بیان کرتے ہیں وہ تو خالق ہے نہ وہ بیان کریں گے میں صرف اسلوب بتا رہا ہوں اپ کو تو جو اسلوب اختیار کیا جاتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ فلاں چیز کو جب خالق نے بنایا جو بھی خالق ہے اس کا تو اس نے اصل میں اس کو ان اوصاف و خصائص اور خصال کے ساتھ بنایا ہے جہاز کی فطرت ہے جو ہمیں لکھ کر دے دی جاتی ہے یا اسی طرح کوئی جواب خرید کے لاتے ہیں کوئی کھلونا بچے کے لئے لاتے ہیں تو اس کے ساتھ ایک پوری کتاب ہوتی ہے وہ اپ کو بتاتی ہے کہ یہ کیا چیز ہے یہ کام کیسے کرے گا اس میں کیا اوصاف و خصائص ہے یہ نتائج کیا دے گا یہ کیا چیز ہے یہ اس کی فطرت کا بیان ہے تو فطرت کے بیان یا فطرت کے فہم کے بغیر تو ابتدا کی نہیں جا سکتی اپ کسی علم کی ابتدا مجھے کر کے دکھائیے تو مذہبیات کی بحث اس کے بغیر کیسے کی جاسکتی ہے وہ وہی سے پیدا ہوگی خاتمے کی طرف جا رہے ہیں اج کی نشست کا اخری سوال میں اپ سے پوچھنا چاہوں گا
-
00:42:52 کچھ سوال یہ ہے کہ جس وقت ہم یہ کہتے ہیں کہ بچے کو خارج سے زبان سکھائی گئی اس کی معاشرت میں اس کو بیان اور اظہار کیسا نہیں سمجھائے اور اس کو ابتدائی چند چیزوں پر حکم لگا کے بتا دیا تو اب وہ خود ایک مکینزم کی طرح خود بخود خودکار مشین کی طرح کام کرنا شروع ہو جاتا ہے
-
00:43:12 میرا سوال اپ سے یہ ہے کہ اگر کوئی اس کی نفی کرے اور وہ یہ کہے کہ یہ تو جو معلومات خارج سے اندر داخل کی جاتی ہے اسی کا ظہور ہو جاتا ہے یعنی میں نے بچے کو بتایا اور صرف یہ نہیں بتایا کہ حسن اور کو بھی کوئی چیز ہوتی ہے بلکہ میں نے ساتھ اس کے معیارات بھی بتا دی میں نے بچے کو بتا دیا کہ جو گوری رنگت ہے وہ حسن کو نمایاں کرتی ہے جو کالی رنگت ہے تو کیا یوں نہیں کہا جا سکتا کہ جو خارج سے معلومات اور معلومات کے ساتھ نتیجے تک پہنچنے کا کرائٹیریا ڈالا جاتا ہے اس کا ظہور ہوتا ہے نہ کہ محض بتا دیا جاتا ہے اور پھر خود کار مشین جو ہے اس پر وہ حکم لگا رہی ہوتی اس کا بڑا اچھا مشاہدہ کرنا ہو تو کسی طوطے کو یہی سکھایا جاتا ہے تاکہ دیکھ لیجئے کہ انسان کا بچہ کیسے بیہو کرتا ہے وہ کیسے کرتا ہے وہ اصل میں نقالی کر رہا ہوتا ہے اپ کا بچہ صرف یہ نہیں کرتا جو مرضی ڈال کے دیکھ لیجئے اس کو چیلنج کرنا شروع کردیں میں نے تو اپ سے عرض کیا ہے کہ جس وقت اپ اس کو وہ ٹولز دے دیتے ہیں وہ الات دے دیتے ہیں جن سے وہ اظہار کر سکتا ہے جیسے ہی اس کی گرفت اس پر قائم ہوتی ہے تو اپ کو چیلنج کرنا شروع کر دیتے اپ اصرار کر رہے ہو کوڑے کا ڈھیر اس کے سامنے رکھ کے دیکھیے جب اپ کے بچے کو پانچ سات سال کے ہو جائے تو ایک دن اچانک ہونا چاہیے کہ یہ بہت خوبصورت لگ رہا ہے پھر دیکھے وہ اپ کے ساتھ کیا کرتے ہیں تو یہ ایسا اسان کام نہیں ہے میں نے یہ ایک طوطے کو تو اپ سکھا سکتے ہیں کیونکہ وہ کیا کر رہا ہے امیت کر رہا ہے نہ کالی کر رہا ہے محاکات ہے انسان کو جو کہ اللہ تعالی نے یہ صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ اس میں بالکل وہ ان چیزوں کا شور رکھ دیا گیا ہے تو نتیجہ کیا نکلتا ہے اپ صرف اس کے لئے خارجی تحریک پیدا کرتے ہیں جیسے ہی وہ خارجی تحریک پیدا ہوتی ہے تو اسکے اندر وہ جو چیز رکھی گئی ہے وہ فورا اس پورے علم کے ساتھ اپنا رٹ پیدا کر لیتی ہے یہ جو ربط ہے یہ جس وقت چیلنج ہوگا تو اپ دیکھیں گے کہ وہ فنون کی ایک نئی دنیا وجود میں اجائے گی اگر ایسا ہوتا کہ اپ نے جو کچھ اریسٹو کے ذریعے سے پڑھا دیا تھا اور جو کچھ پادریوں نے سکھا دیا تھا انسان کے بچے اس کو چیلنج کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے تو یہ اپ کا ہوا ہے یہ اپ کی جدید سائنس کہاں سے پیدا ہوئی ہے یہ نئے علوم کہاں سے وجود میں ایا ہے اور جس وقت کوئی نیا علم روز اپ کو دیکھا ہوگا کہ ہمارے ہاں لوگ کہتے ہیں کہ مغربی علوم پہ ہم تنقید کر رہے ہیں یہ اپ کے اندر صلاحیت کیسے پیدا ہوگی مگر یہ روم سے پڑھائے جا رہے ہیں اپ مذہبی گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں اس کے بعد کچھ دوسرے علوم و فنون کے ساتھ اپ کرپٹ پیدا ہوتا ہے وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو الحاد اختیار کر لیتے ہیں اپنے مذہب کو چھوڑ دیتے ہیں دوسرا مذہب اختیار کر لیتے ہیں یہ بالکل درست ہے کہ انسانوں کے اندر اگر اپ نقد کی صلاحیت پیدا نہ کریں یا اس کی انگیز نہ کریں لیکن نقد کی صلاحیت ہونا یہ خود بتائیں
-
00:46:05 انی ایسا نہیں ہے کہ میں نے جو کچھ اپنے بچے کو پڑھا دیا بتا دیا مجھے دیکھ لیں میں تو اپنے اپ کو جانتا ہوں یعنی میرے والدین نے مجھے کیا بتایا پڑھایا تھا جس میں میں نے اپ کھولی یعنی وہ صوفیا کی دنیا
-
00:46:21 اس میں وہی شخصیات تھی انہی شخصیات کا ایک سحر تھا اور یہ اپ دیکھیں کہ اس میں جو مجھے چیزیں پڑھنے کو ملی وہ کوئی معمولی چیز نہیں تھی اینی وہ صرف کسی مجلس میں بیٹھ کے سنائی ہوئی داستانیں نہیں تھیں وہ دنیا کا اعلی ترین ادب
-
00:46:40 یہ فارسی زبان مے سب سے پہلے سامنے ایا اور فارسی زبان اور فارسی زبان کے صوفی شعراء وہ ان چیزوں کو کیسے بیان کرتے ہیں وہ کیا سحر پیدا کر دیتے ہیں وہ کیا دنیا وجود میں لاتے ہیں اس سے نکلنا اسان کام نہیں ہوتا
-
00:46:55 لیکن انسان کے اندر جو نقد کی صلاحیت رکھی گئی ہے وہ اپنا کام شروع کر دیتی ہے جب وہ کام کرتی ہے تو اپ دیکھیں وہ بالکل اسی طرح کام کرتی ہے یعنی پہلے بنیادی مقدمات کو چیلنج کرے گی بنیادی مقدمات کہاں سے پیدا ہوتے ہیں مشاہدے سے
-
00:47:10 استقراء کو چیلنج کرے گی کہ وہاں کے ایک خامی رہ گئی ہے کوتاہی ہوگئی ہے اس میں کچھ استثناء ہوں گے جن کو وجود پذیر کر دے گی اس وقت دنیا میں اپ یہ فیصلہ کرتے ہیں سب لوگ مانتے ہیں نا اس بات کو کہ انسان ایک عاقل مخلوق ہے میں اپ کو دو نہیں چار نہیں دس نہیں سینکڑوں لاکھوں لوگ ایسے اس وقت پیش کر سکتا ہوں جو عقل سے ارہی ہے
-
00:47:34 مجنون ہے ذہنی امراض کی شفا خانوں میں ہے تو اپ فیصلہ کرتے ہیں نہ اس بنیاد پر کہ اصل یہ ہے اور وہ بیماری ہے
-
00:47:46 اچھا کوئی بڑا فن سے بھی کھڑا ہوا یہ کہہ سکتا ہے کہ اصل وہ ہے اپ بیماری میں مبتلا ہیں نہ اس کے اوپر اب ظاہر ہے کہ اس کے لئے پھر وہی معراج ہوں گے کہ کیسے فیصلہ کرنا
-
00:47:57 دورے حاضر میں بعض فلسفیاں نہیں پوسٹ مارننگ کی تحریک میں یہ کر ڈالا انہوں نے کہا کہ اپ کو کیا حق ہے کہ ذہنی امراض کے شفا خانے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اپ کہتے ہیں کہ وہ مریض ہیں وہ بھی اپ کی طرح سے اسی طرح سوچ رہے ہو کہ اپ مریض ہیں اس معاملے میں تو یہ ساری بحث کی جا سکتی ہے لیکن میں اپ کو جو بتا رہا ہوں یہ نہیں ہے کہ اس سے حق کو باطل کا فیصلہ ہوتی ہے علم ایسے ہی اگے بڑھتا ہے اور اسی طرح چیلنج بھی ہوتا ہے تو یہ چیز ہم لے کے ائے ہیں یہ علم پیدا کرنے کی صلاحیت انسان کی فطرت کی فطرت نہیں ہے یہ صلاحیت اسے دی نہیں گئی
-
00:48:41 یعنی یہ میں علم پیدا کر لیتا ہوں کیسے پیدا کرتا ہوں اس کا پورا پروسیس میں نے واضح کر رہی ہے یعنی ہمارے تمام علوم جتنے ہیں جتنے بھی علوم ہیں اپ کسی ایک کو بھی مستثنا نہیں کر سکتے ہو سب ایسے پیدا ہوتے ہیں جن علوم کے بارے میں اپ یہ کہتے ہیں نفسی علوم ہے وہ بھی باطنی مشاہدہ سے پیدا ہوئے
-
00:49:01 وہ بھی اسی طرح استقراء کے عمل سے گزرتے ہیں ان کے بھی نتائج کو اسی طریقے سے جانچا اور پرکھا جاتا ہے اپ کے ساتھ باقاعدہ ایک فن بنتے ہیں اور اس کے بعد چیلنج بھی ہوجاتے ہیں اج بھی اپ بہت سے لوگ ہیں اپ کہتے ہیں کہ یہ فلاں عامل نے یہ کہا ہے کہ میں جن نکال لیتا ہوں فلانے کی دعوی کیا ہے تو اپ اس کے اوپر نقش کہاں سے کرتے ہیں تجربے اور مشاہدے چلے گئے ہم نے تو نہیں دیکھا ہمیں بھی نکال کے دکھائیے اچھا ہمارے سامنے لا کے دکھائیے کیا چیز ہے یہ تجربے اور مشاہدے کا مطالبہ ہے اچھا وہ بیچارہ ایک یا دو مظاہرے اگر کر بھی ڈالیں تو پھر اپ اس سے استقرار کا مطالبہ کریں ہونا چاہیے سائنسدانوں کے سامنے بھی ذرا اس کا اظہار کرو تو یہ استقراء کا مطالبہ ہے اس کے بعد نتیجہ نکلنا ہر جگہ اصل میں یہی عمل ہے جو پوری شان کے ساتھ ہو رہا ہے تو اس لئے ہم مجبور ہیں کہ کسی بھی بحث کی ابتدا کریں تو فطرتی سے کریں یعنی جمادات کے علم کی ترتیب کے لیے بھی ان کی فطرتی سے بات شروع کرنی پڑے گی پھر عرض کردوں کہ یہ محض فلسفہ نہیں ہے جو میں نے مذہب پر اطلاق کر کے دکھا دیا ہے اللہ تعالی نے خود اپنی بات کی ابتدائی یہاں سے کی بہت شکریہ یہ ہماری نشست کا وقت ختم ہوتا ہے اگلی نشست میں بحث کو اگے بڑھائیں گے اور ہم سب سے پوچھیں گے کہ یہ جو علم ہے یہ جو فطرت ہے اس کا کونٹینٹ کیا ہے اس کے مشمولات کیا ہیں کن چیزوں کا علم اس کے اندر رکھ دیا گیا ہے اور پھر اس میں اختلاف کیا ہو سکتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو پھر وہ کیا معیارات ہیں کہ جس سے ہم اس اختلاف کو رفع کر کے بتا سکتے ہیں کہ فطرت درحقیقت ہے کہ اور اس سے متعلق اور بہت سارے عقلی سوالات کی بحث ابھی جاری ہے اب تک ہم سب اپ کے وقت کا بہت شکریہ
-
00:50:47 [Unintelligible]
Video Transcripts In English
Video Summry
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ اور نئے موضوع کا تعارف 01:23 فطرت کیا ہے؟ آپ نے اسے دین کے مآخذ میں کیسے شامل کر لیا ہے؟ 02:31 فطرت کیا ہے؟ 08:34 فطرت کی تعیین کا طریقہ کیا ہے؟ 10:27 ہم یہ کیوں فرض کریں کے انسان کے اندر کچھ صلاحیتیں پہلے سے موجود ہیں؟ 21:37 تجربہ اور مشاہدہ خارجی عمل ہے یا داخلی؟ 26:45 تجربے اور مشاہدے کو علم بنا دینے کی صلاحیت 33:01 ہمیں یہ کیسے معلوم ہے کہ انسان اضطراری علم لے کر آتا ہے؟ 50:24 اختتامیہ
Video Transcripts In Urdu
Video Transcripts In English
Video Summary
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ اور نئے موضوع کا تعارف 01:23 فطرت کیا ہے؟ آپ نے اسے دین کے مآخذ میں کیسے شامل کر لیا ہے؟ 02:31 فطرت کیا ہے؟ 08:34 فطرت کی تعیین کا طریقہ کیا ہے؟ 10:27 ہم یہ کیوں فرض کریں کے انسان کے اندر کچھ صلاحیتیں پہلے سے موجود ہیں؟ 21:37 تجربہ اور مشاہدہ خارجی عمل ہے یا داخلی؟ 26:45 تجربے اور مشاہدے کو علم بنا دینے کی صلاحیت 33:01 ہمیں یہ کیسے معلوم ہے کہ انسان اضطراری علم لے کر آتا ہے؟ 50:24 اختتامیہ
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ اور نئے موضوع کا تعارف 01:23 فطرت کیا ہے؟ آپ نے اسے دین کے مآخذ میں کیسے شامل کر لیا ہے؟ 02:31 فطرت کیا ہے؟ 08:34 فطرت کی تعیین کا طریقہ کیا ہے؟ 10:27 ہم یہ کیوں فرض کریں کے انسان کے اندر کچھ صلاحیتیں پہلے سے موجود ہیں؟ 21:37 تجربہ اور مشاہدہ خارجی عمل ہے یا داخلی؟ 26:45 تجربے اور مشاہدے کو علم بنا دینے کی صلاحیت 33:01 ہمیں یہ کیسے معلوم ہے کہ انسان اضطراری علم لے کر آتا ہے؟ 50:24 اختتامیہ