Response to 23 Questions - Part 15 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Video Transcripts In Urdu
-
00:00:00 [Unintelligible]
-
00:00:01 [Unintelligible]
-
00:00:05 [Unintelligible]
-
00:00:08 [Unintelligible]
-
00:00:11 بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مکتبہ غامدی کے ایک اور نشست میں خوش امدید یہ اس سلسلے کی پندرہویں نشست ہے اور فطرت کا موضوع زیر بحث ہے
-
00:00:20 گوشہ نشست میں ہم نے غامدی صاحب سے جو عقلی سوالات ہیں ان کو مکمل کرکے جو مذہبی بحث شروع ہوتی ہے فطرت کے حوالے سے اس پر بالکل ابتدائی نوعیت کی گفتگو کی تھی اور یہ سوال کیا تھا کہ وہی مقدم ہے یا فطرت مقدم ہے یعنی اللہ تعالی نے انسان کا اغاز اپنے الہام اپنے حکم اپنی بات پہنچا کر کیا ہے یہ اندر اس کے شعور موجود ہے اس پر اعتماد کرکے انسان کو دنیا میں بھیجا گیا اور غامدی صاحب نے بہت تفصیل سے یہ پہلو واضح کیا تھا کہ کیا وجہ ہوئی کہ پہلے ہی انسان کو وحی کی نعمت سے سرفراز کیا گیا اسی سلسلہ گفتگو کو اگے بڑھاتے ہیں ہم سے بہت شکریہ اپ کے وقت کا
-
00:00:58 ان سب اخری گفتگو میں اپ کو یاد ہوگا
-
00:01:02 کہ میں نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا وجہ ہوئی کہ ابھی تو اللہ تعالی نے ایک انسان کو تخلیق کیا ہے اس کے اندر فطرت کا شعور
-
00:01:09 خالص سورۃ میں موجود ہے لیکن پہلے ہی انسان سے وحی کبھی اواز ہو گیا تو اپ نے اس کی کچھ تفصیل کی تھی اپ نے کچھ بتایا تھا میں چاہوں گا کہ اگر اپ اس اپنا نقطہ نظر کو ابتدائی طور پر دہرا دیں وہ ربط گفتگو کا ہمارا پیدا ہو جائے کہ فطرت کی موجودگی میں وحی کی ضرورت کیوں پیش ائی اور پھر ادم علیہ السلام کے اندر بھی فطرت موجود تھی اپ نے اس میں کی پہلو سے حوالہ دیا تھا تو وہ کیا اپ کا نقطہ نظر ہے پھر اس پر کچھ سوالات ہیں جو اپ
-
00:01:35 یہ میں نے یہ عرض کیا تھا کہ
-
00:01:38 انسان کی فطرت جن چیزوں کا تقاضا کرتی ہے
-
00:01:41 ان کا ظہور
-
00:01:42 خارجی تحریکات کے نتیجے
-
00:01:44 اس وقت
-
00:01:46 اگر اپ کسی شخص کو موصول ٹھہرا رہے ہیں
-
00:01:49 تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس کی رہنما
-
00:01:51 اللہ تعالی نے چونکہ مذہب کے معاملے میں
-
00:01:54 یہ چیز ہم پر نہیں چھوڑ دی کہ صدیوں میں ہم کچھ نتائج عکس کریں اور اس کے بعد اپنے لئے ایک مذہبی لائحہ عمل بنا
-
00:02:01 جس طرح ہم دوسرے علوم میں کرتے
-
00:02:04 ادم علیہ السلام بھی جواب دہ تھے ان کی اولاد بھی جواب
-
00:02:07 ہر شخص اپنے اسی زندگی میں جواب دے
-
00:02:10 اور اس کو پروردگار کے سامنے اپنا نامہ اعمال پیش
-
00:02:14 تو یہاں یہ ضرورت
-
00:02:16 فوری طور پر لاحق ہوجاتی ہے کہ جو کچھ بھی انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے وہ اطلاقات میں بھی متعین کر دیا جائے تاکہ وہ اس کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اور اس کو ٹرائل اور ایرر کے اس مرحلے سے نہ گزرنا پڑے جس سے اسلامی عام طور پر انسانی عل
-
00:02:34 یہ میں نے اس کا جواب دیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ یہ ضرورت ہے
-
00:02:38 چنانچہ اس کو میں نے سیدنا ادم کا حوالہ دیا تھا
-
00:02:43 کہ ان کی فطرت کے ظہور کے لئے باغ کا انتخاب کیا گیا اور جب وہ فطرت بالکل ظاہر ہو گئی اور معلوم ہوگیا کہ وہ کیسے دیکھیں گے چیزوں کو اس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا کہ اب میں تمہارا استفاع کر رہا ہوں اور استفاق کے نتیجے میں اب تم پیغمبری کے بن سکتا فائز ہو اور پھر ساتھ ہی یہ بشارت بھی دی کہ میری یہ ہدایت اتی رہے گی وقتا فوقتا اتی رہے گی اور میرے پیغمبر رہنمائی کرتے
-
00:03:08 یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں میری ہدایت اتی رہے گی یعنی جب جب ضرورت
-
00:03:14 تم اپنی فطرت کی رہنمائی میں کام کرو گے اس وقت جو ہدایت دے دی گئی ہے اس کی روشنی میں زندگی کی ابتدا کر دو گے اختلافات پیدا ہوں گے اطلاعات کے مسائل پیدا ہوں گے اس میں میری ہدایت ائے گی اور میری ہدایت کی پیروی
-
00:03:27 اچھا ہم سب اس میں جب یہاں بھینس پہنچی تھی کہ ادم علیہ السلام سے تو چونکہ اللہ تعالی کا براہ راست مکالمہ ہے اللہ تعالی ان سے براہ راست گفتگو کر رہے ہیں تو میں نے یہ اعتراض اپ کے سامنے رکھا تھا جو بالوں کیا جاتا ہے کہ ادم علیہ السلام کے اندر تو فطرت کے شعور کی کوئی چیز نظر نہیں اتی ہمیں اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جو ان کو حکم دیا اس کے خلاف ورزی ہوئی اللہ کی طرف انہوں نے رجوع کر لیا اس پر اپ نے کچھ چیزوں کو واضح کیا تھا بتایا تھا کہ جو شرم کا جذبہ ہے یہ حیا کا جذبہ ہے یہ انہوں نے اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپا یہ پھر کیسے ظہور پذیر ہوا تو اس پر یہ سوال ہے کہ ہم یہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ یہ جو شعور جس کو اپ کہتے ہیں فطرت کا شعور اندر موجود تھا وہ محض دو کیٹیگریز کو الگ الگ جاننے کی استعداد یا ایک صلاحیت تھی کہ پہلے ایک
-
00:04:13 ایک ایک فیکلٹی کا ظہور ہوا کہ بہائی کردی اور پھر ایک دوسری فیکلٹی کا ظہور ہوا یعنی فطرت کا جو شعور ان کے اندر تھا اس میں کوئی معیار مقرر نہیں تھا پہلے بے حیائی ہوئی اور پھر اس کے بعد انہوں نے چھپا لیا یعنی ایک چیز اچھی تھی ایک چیز بری تھی ایک کا ارتکاب یہاں کی دوسری کا وہاں کیا کوئی معیار نہیں تھا کہ غلطی ہوئی ہے تو اپ بہتری کی طرف میں نے جانا ہے
-
00:04:34 یعنی جب ہم نے یہاں یہ بات کہی تھی کہ جس وقت انہوں نے ایک فعل کا ارتکاب کیا جس سے اللہ تعالی نے روکا تھا
-
00:04:42 یہ بتایا کہ فعل کی نوعیت کیا
-
00:04:44 اس کے لازمی نتیجے کے طور پر جیسے اب ہمارے اندر شرم کا داعیہ پیدا ہوتا ہے بالکل اسی طرح پیدا
-
00:04:51 اور شرم کا داعیہ پیدا ہونے کے بعد محض یہ نہیں ہے کہ داعیہ پیدا ہوا انہوں نے اسمان کی طرف منہ اٹھا کے دیکھا کہ اب کیا کریں اس کے بعد انہوں نے کچھ کیا
-
00:05:00 قران مجید نے اس کو بیان کیا
-
00:05:02 متفقا یکے الجن
-
00:05:05 تو اس طرح گویا ایک دایے کا موجود ہونا اس کا خارجی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہوجانا اور پھر اس کے بعد اس دایے کے لازمی نتیجے کے طور پر انسان کو کیا کرنا چاہیے یہ سب کچھ سہول
-
00:05:19 پیدا ہوئے تو یہ بھی تو کہا جاسکتا ہے کہ جب اللہ نے روکا تھا کہ جنسی عمل نہیں کرنا تو اسی وقت روک دیا ہو کہ بے لباس بھی نہیں ہونا تو یہ جو ظہور میں ایا ہے یہ اصل میں خدا کے اسی حکم کو ان کو یاد اگیا ہو کہ اب جس طرح غلطی یہ کر دیا تو اب مجھے چھپانا بھی چاہیے اس کا بھی حکم دیا گیا
-
00:05:36 پہلی بات دوسری یہ ہے کہ پھر اس کے اوپر عمل بھی پہلے ہی مرحلے میں ہوجانا چاہیے
-
00:05:41 یعنی قران مجید تو یہ کہتا ہے کہ ان پر ان کی شرمگاہوں کی یہ حقیقت ہی اس کے بعد واضح ہوئی
-
00:05:47 مدد نہ ہو ما سوات
-
00:05:49 اور پھر یہ کہتا ہے کہ ابلیس کے پیش نظر یہ تھا کہ میں
-
00:05:55 جو چیز ان سے چھپا دی گئی ہے
-
00:05:57 اینی ہوتا کیا ہے
-
00:05:59 بتاؤ ایک رفع حاجت کے الات کے تو ہم سب اس سے واقف ہوتے ہیں بچے بھی واقف ہو جاتے ہیں لیکن یہ کہ ان کے اندر جنسی دائیاں چھپا ہوا ہے اور یہ اس کے حالات بھی ہے یہ چیز وقت کے ساتھ نمایاں ہوتی
-
00:06:12 اس میں خارجی تحریک بھی کام
-
00:06:14 وہاں بھی اس تحریک میں کام کیا
-
00:06:16 یعنی جب وہ یہ معاملہ کر بیٹھے کیسے کر بیٹھیں
-
00:06:20 شیطان
-
00:06:22 ان کے خارجی تحریک ائی اسی طریقے سے ائی جب ائی تو اس نے اندر چھپے ہوئے جنسی جذبے ہی کو ابھارا جب وہ ابھرا
-
00:06:31 تو اس فعل تک پہنچ گیا جس تک وہ اب بھی پہنچتا ہے حیران کی کیفیت جیسے ہی دور ہوئی تو ایک احساس پیدا
-
00:06:38 قران مجید نے تو اس کی ایک ایک مرحلے کو بیان کر
-
00:06:41 اس میں یہ بات کس اصول پر کہی جائے گی کہ پہلی بتا دیا گیا تھا پہلے یہ کام ہوجانا چاہیے
-
00:06:47 پہلے مرحلے میں ان کو کلباس پہن لینا چاہیے تھا پتے اٹھا کے رکھ لینا چاہیے
-
00:06:51 اس موقع کے اوپر جب قران اس کو بیان کرتا ہے کہ جب ان پر یہ حقیقت واضح ہوئی تو تفے کا یک سے
-
00:06:59 یہ قران کا اپنا بیان ہے لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اپ کو چھپا لیا اپنی شرم گاہوں کو اس کیفیت کے بعد تو جس کو اپ شرم اور حیا سے تعبیر کر رہے ہیں کے جذبہ تھا اس کا یہاں ظہور ہوا تو کوئی تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ مثلا شرم ہے یا نہیں تھی خوف تھا اور سمجھ میں نہیں ایا کیا کرنا ہے تو انہوں نے شرم گاہیں چھپانی شروع کردی
-
00:07:19 [Unintelligible]
-
00:07:20 پہلے میں زیادہ بہتر جگہ سے لینے
-
00:07:22 وہ چھپا لینا چاہیے
-
00:07:24 خوف کے مارے
-
00:07:25 اس طرح کے قیاسات کی ہے کوئی گنجائش قران مجید سورہ اعراف میں پڑھی ہے اپ نکال کے اس کے بعد پوری تفصیل بیان کرتا ہے
-
00:07:34 تو دیکھو شیطان اسی طرح
-
00:07:36 تمہارے اندر میں نے ایک لباس کو تقوی رکھا ہے
-
00:07:39 یہ اس لباس کو اتروا لینا چاہتا
-
00:07:41 یہ تمہاری اولاد پر بھی اسی طریقے سے ہم لاہور ہوگا اس کے معاملے میں مح
-
00:07:46 وہ پوری بات بیان کرتا ہے
-
00:07:48 اس کے بعد یہ نتیجہ کیسے نکلے گا یہ نتیجہ کو باہر بیٹھ کے نکالنا چاہتا ہے تو نکالیں اس میں تو توحید کے معاملے میں بھی لوگوں نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ یہ کوئی چیز نہیں جس سے انسانیت کی ابتدا ہوئی ہے انسانیت کی ابتدا تو شرک سے ہوئی ہے اور شرک کا باعث کیا چیز بنی ہے وہ خوف کا دائیاں بنا ہے تو پھر اس دنیا سے نکل جائیے ہم مذہبیات میں جب داخل ہوں گے تو قران مجید کو دیکھیں گے کہ وہ کیا بات
-
00:08:10 [Unintelligible]
-
00:08:11 یہ بات چلیں اگر مان بھی لیں اس طرح اپ نے بیان کر رہے ہیں کہ یہ شعور کے اندر یہ حیا کا جذبہ موجود تھا جس کا ظہور ہوا
-
00:08:18 ایک لمبی دیکھتے ہیں کہ ادم علیہ السلام تو پہلے انسان ہیں دنیا میں میں اپ کو خارج میں علم ہے نہ کوئی اثرات ہیں نہ کوئی اور ان کے اس تصور یا فطرت کی روشنی کو مسخ کرنے کی کوئی چیز موجود ہے ہم اج کے دور میں مثلا کسی انسان کو بتائیں کہ ادم علیہ السلام میں فطرت کا شور ہوا تھا تو اس کا فائدہ کیا وہاں تو وہ خالص ادمی تھے ہمارے پیچھے تو یہ سب خیالات اور مغربی فلسفے اور یہ نظریات فطرت ہوتی کیا یہ بحثیں تو وہ پوائنٹ اف ریفرنس تو نہیں بنتے ادم علیہ
-
00:08:44 سے پہلے گفتگو کر
-
00:08:45 کہ جب لوگ ہمارے ساتھ گفتگو کریں گے تو وہاں سے بات شروع کریں گے جہاں پے عقلی مقدمات
-
00:08:50 وہاں ہم نے بڑی تفصیل سے یہ بات کی ہے کہ انسان کے تمام علوم کی اسا
-
00:08:56 انسان کا حادثہ اخلاقی انسان کی حصے جمالیات یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کا اب بھی ظہور ہوتا ہے
-
00:09:03 یہ بحث تو بڑی تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں وہاں ادم علیہ السلام کو لے کے جائیں گے کیوں
-
00:09:07 جب یہ سوال مذہبیات کے دائرے میں ہوگا تو پھر یہ بتایا جائیگا کہ اللہ تعالی نے قران مجید میں اس کی یہ داستان بیان
-
00:09:15 اور اس طرح اس نکتہ نظر کا ایک کال کر دیا ہے اپ نے اس علم کی بنیاد پر جو خالق ہی ہو سکتا تھا کہ انسان کو سفید سادہ نہیں ہے
-
00:09:24 بلکہ وہ یہ سارے احساسات لے کے ایا
-
00:09:28 اس کا شور لے کے
-
00:09:29 خارو سر کو پہچانتا ہوا ہے اس کو صرف ضرورت ہی ہوتی ہے کہ جب وہ اس کے نتائج کو دیکھے تو اطلاقات میں کیا کرے
-
00:09:38 یہ ضرورت ہوتی ہے اسی کو میں نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ تفصیلات کو بتانے کے لئے پی
-
00:09:44 یعنی جو کچھ اجمال میں موجود ہے اسی طرح جیسے بیج ڈال دیا گیا ہے اور نشونما پائے گا اس کے لئے خارجی تحریکات کی بھی ضرورت ہوتی ہے وہ سب چیزیں ہوں گی جب وہ نشورا پائے گا تو پھر وہ ایک برگو باہر کا حامل درخت
-
00:09:58 اس کی وضاحت کریں اس میں اج کے دور میں اگر کوئی ادمی شرمگاہیں کھول کے پھر رہے بازار
-
00:10:05 تو میں اس کو جاکے ہی کہتا ہوں کہ دیکھو تمہیں جو کام کر رہے ہو یہ بے حیائی کا کام ہے اور دیکھو میں تمہیں دیتا ہوں کہ یہ انسان کی فطرت کے بھی خلاف ہے اور جو پہلا انسان تھا دیکھو اس میں بھی شعور پیدا ہوا تھا اس نے چھپا لیا تو گویا میں اس کو یہ مثال نہیں دوں گا کہ یہ بتاؤں گا کہ انسانیت کی ابتدا اسی فطری ظہور ہے انسانوں کی بہت بڑی اکثریت میں شرم گاہیں
-
00:10:26 سڑکوں پر پھیرنے لگ گئے ہیں
-
00:10:28 وہ بات یاد کی ہے جہاں سے ہم نے فطرت کی بحث شروع کی تھی
-
00:10:31 کہ انسان اپنے باطن میں ایک چیز کو محسوس کرتا ہے یہ اس کا موضوع ہی اح
-
00:10:36 اس احساس کے بعد وہ استقراء کے عمل سے گز
-
00:10:39 جب وہ استقراء کے عمل سے گزرتا ہے تو کہیں چند مستثنیات سامنے اجائیں تو اجائیں بالعموم انسان کے سامنے وہ بدیہی حقائق اجا
-
00:10:48 اسی سے عالمگیر اخلاقیات وجود میں
-
00:10:51 اوسکے اطلاقات میں بعض موقعوں کے اوپر اختلاف کیا
-
00:10:54 ہم بھائی سے اپروچ کریں گے یہ پوری دنیا ادم کا قصہ سناتی ہے
-
00:10:58 دنیا بھر میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اخلاقی اصولوں کے اوپر اپ گفتگو کرتے ہیں ان کی بنیاد پر اپ کسی کا محاسبہ کرتے ہیں ان کی بنیاد پر اپ جزا و سزا کا نظام قائم کرتے ہیں ان سب چیزوں کے لئے کسی حوالے کی ضرورت نہیں
-
00:11:12 یہ تو بات اس وقت شروع ہوئی تھی کہ اچھا اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مذہبی متون کس طرح سے اس معاملے کو
-
00:11:19 یعنی یہ گویا جو کچھ ہماری فطرت کا شعور تھا اس کی اللہ تعالی کی طرف سے تسبیح
-
00:11:25 یہ واضح ہو گیا کہ انسانیت کی ابتدا قران مجید کے بیان کے مطابق ایسے
-
00:11:31 اور اس میں وہ رت بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یوں نہیں ہے کہ انسان نابینا تھا وہ کچھ دیکھ نہیں سکتا تھا وہ کچھ سن نہیں سکتا تھا اس میں کوئی بصیرت نہیں تھی اس میں کوئی شعور نہیں تھا نہ خیر سے واقف تھا نہ شر سے واقف تھا نہیں وہ ان چیزوں سے واقف تھا لیکن بال اجمال
-
00:11:48 اسی اقبال کو تفصیل میں ڈالنے کے لئے وحی کا سلسلہ شروع کیا گیا اور پہلے انسان سے شروع کر دیا گیا اس کا جواب میں دے چکا ہوں کہ پہلے ہی انسان سے کیوں شروع کیا
-
00:11:58 لیکن شروع کر دیا گیا تو یہاں صورتحال یہ نہیں ہے کہ ہم اس پر استدلال کر رہے ہیں کہ انسان کے پاس جو فطرت میں ہدایت موجود ہے اس میں اللہ تعالی نے اس کو چھوڑ دیا تھا
-
00:12:08 بہی کا سلسلہ پہلے دن شروع ہوا ادم علیہ السلام سے شروع ہوا اور وہ سلسلہ کس انسان کے لئے شروع ہوا
-
00:12:15 شعور رکھنے والے
-
00:12:16 شارو شرک کو پہچاننے والے انسان کے لئے شروع ہوا چنانچہ یوں نہیں ہے کہ ایک ایک چیز وہی میں اکے بتائی یوں ہے کہ جو کچھ انسان بال اجمال جانتا تھا اس کی اطلاعات کے بارے میں راہنما
-
00:12:28 اس کی تفصیلات کے بارے میں رہن
-
00:12:31 اس وقت بھی اپ الہامی کتابوں کو پڑھیں تو وہ اسی طرح خط
-
00:12:34 اچھا یہ جو بنیادی سوال تھا ظاہری بات ہے کہ یہ جو دین فطرت کا نقطہ نظر پیش کرتا ہے اس کو تو اب ہمیں زیر بحث لائیں گے اپ سے یعنی یہ سوال یہاں سے اٹھا تھا کہ یہ ایک مقام ہے جو اس تصور کے خلاف پیش کیا جا سکتا ہے یا پیش کیے جاتا ہے کہ نہیں فطرت کا شعور کچھ نہیں ہے حکم الہی سب کچھ ہے میرا سوال ہے واپسی
-
00:12:54 جو ہمارا مرکزی سوال ہے جو بالکل لوگوں کی طرف سے اعتراض کے طور پر سامنے اتا ہے
-
00:13:00 کی جو پوری بےعزتی عقل ہماری تقاضا کرتی ہے انسان کی ساخت اس کی فطرت جس سے اس کو بنایا گیا ہے اس کا جائزہ لیں ہمارا داخل ہمارا تجربہ ہمارا استخار سب اسی کی گواہی دیتا ہے ادم علیہ السلام کے اس قصے کی ابتدائی روشنی میں بھی بات سامنے اتی ہے لیکن جب کوئی اصول بیان کیا جاتا ہے تو وہ کسی واقعے سے ضمنی طور پر استنباط کرکے نہیں ہو تو اس کے لیے کوئی واضح اسٹیٹمنٹ ہونی چاہیے
-
00:13:23 تو کیا قران مجید کے اندر فطرت کے اس چیز کو ریفرنس بنانے کے
-
00:13:28 کوئی دور دو چار کی طرح واضح اسٹیٹمنٹ بھی ہیں قران کے کو ایسے متعین مقامات بھی قران مجید میں موجود
-
00:13:36 میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ جب میں مذہب پر گفتگو کروں گا
-
00:13:40 تو پھر میں بتاؤں گا اپ کو
-
00:13:41 یہ اللہ کی کتاب اس معاملے کو کیسے
-
00:13:44 ابھی ہم یہ بحث کر رہے تھے
-
00:13:46 خود انسانی فطرت کا مطالعہ بھی یہی بات بتا
-
00:13:50 یعنی انسان اپنی فطرت کو کیسے دیکھتا ہے
-
00:13:53 سطرت ایک معروضی علم میں کیسے بدلتی ہے اس سے مختلف علوم کیسے پیدا ہوتے ہیں اب جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مذہبی احساس اس طرح پیدا نہیں ہوتا
-
00:14:03 وہ حقیقت میں ایک ایسی بات کہہ رہے ہیں کہ جو بالکل خود انسانی فطرت کے خلاف
-
00:14:08 یعنی سماجیات کی بنیادیں موجود ہیں عمرانیات کی بنیادیں موجود ہیں حیاتیات کی بنیادیں موجود ہیں سائنسی تحقیق کی بنیادیں موجود ہیں اس کے سوالات بھی انسان پیدا کرتا ہے علم میں بدلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اپنی ماضی کی میراث سے فائدہ اٹھا کے اپنے علم کو مزید اگے بڑھانے کی حیثیت بھی رکھتا ہے اس میں ارتقاء کا ایک سفر بھی طے کرتا ہے اگر نہیں کرتا تو اخلاقی مقدمات کے بارے میں
-
00:14:33 کس استثناء کو تو خود لوگوں پر واضح ہونا چاہیے
-
00:14:37 تو میں نے یہ بتایا تھا کہ پوری انسانیت کا اگر اپ مطالعہ کریں
-
00:14:41 اخلاقی احساس بھی اپنے نتائج کے لحاظ سے ایک عالمگیر حقیقت بن
-
00:14:45 معروضی حقیقت بن چکا ہے یعنی اقدار کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کہیں پڑی ہوئی ہے یہ صرف ان کے اطلاقات ہوتے ہیں جن میں اختلافات کی مثالیں دے کے لوگ اس کی نفی کرتے ہیں وہ چیز ہر علم میں پائی جاتی
-
00:14:58 اور یہ عرض کر دیا تھا کہ یہی بات قران مجید
-
00:15:02 یعنی اگر یہ قران مجید نہ کہتا تو پھر میں اس کو مذہبیات میں پیش نہ کرتا
-
00:15:07 یعنی فری عقلی اتی کی بہن
-
00:15:10 قران بھی یہی
-
00:15:11 تو اس میں اپ ایک ایک چیز جو قران مجید میں بیان ہوئی ہے اس کو دیکھیے سب سے پہلے تو اگر اپ غور کر کے دیکھیں تو قران مجید میں یہ بتایا ہے
-
00:15:20 تو یہ دن ہے کیا
-
00:15:21 اینی سب سے بڑا سوال یہی ہے اب ذرا اندازہ کیجئے اس میں قران کا ارشاد کیا ہے یہ سورہ روم ہے
-
00:15:28 سورہ روم کی ایت 30 سے میں پڑھ رہا
-
00:15:31 ارشاد فرمایا پیچھے یہ بیان ہوا ہے
-
00:15:34 یہ جو حقائق تمہیں بتائے گئے ہیں وہ مبرہن ہو
-
00:15:37 او میں اپ کو یہ باہم نہیں ہے بات واضح ہوگئی یہ کہنے کے بعد کہا ہے 3:00 کے لیے دین حنیفہ
-
00:15:43 فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل خلق اللہ
-
00:15:48 [Unintelligible]
-
00:15:51 والا کتنا اکسر ناصر لا الہ ال
-
00:15:53 سویے خدا کے ہو کر تم اپنا رخ اس کے دین کی طرف کیے رہو
-
00:15:59 تم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کی پیروی کرو
-
00:16:02 یہ دیکھیے وہی الفاظ است
-
00:16:04 یعنی یہ جو دین کی ہدایت تمہیں دی جارہی ہے یہ کوئی خارج کی چیز نہیں ہے جو تم پر ٹھوس دی گئی
-
00:16:10 تم اللہ کی بنائی ہو فطرت کی پیروی کرو فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا
-
00:16:16 اے پیغمبر جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا
-
00:16:20 یعنی پوری بات کہہ دی
-
00:16:22 یوں نہیں ہے کہ یہ فطرت کوئی ایسی شرح ہے جو اپ فرمائیں گے یہ کوئی ایسی چیز ہے کہ جو پیغمبرے ہی کے ذریعے سے بتائی گئی ہے ورنہ یہاں یہ جملہ ہونا چاہیے تھا کہ اس فطرت کی پیروی کرو جس کی تعلیم تمہیں اللہ کے پیغمبروں نے دی
-
00:16:37 نہیں یہ نہیں فرمایا فرمایا میں نے انسانوں کو اس پر پیدا کیا ہے
-
00:16:44 اس کی پیروی کرو اگر یہ کوئی مبہم چیز ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے انسان اس کا شعور نہیں رکھتا اپنی فطرت کو نہیں پہچان سکتا تو یہ کیا چیز ہے کہ جس کی پیروی کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے عربی زبان کا ہر عالم جانتا ہے کہ یہاں فطرت اللہ کا نسب جو ہے وہ ایک فعل محذوف پر ہے
-
00:17:01 تو فرمایا کہ اللہ کا دین اسی پر مبنی ہے اس فطرت کی پیروی کرو اور اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی
-
00:17:10 اینی یہ ایسی محکم ہے اس کو اس طریقے سے راسک کر دیا گیا ہے یہ تمہارے وجود اور تمہاری پیدائش اور تمہاری خلقت کی بنیاد ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرو گے یہی سیدھا دین ہے
-
00:17:25 یعنی دین ہی یہی ہے اسی پر دین کی بنا قائم کی گئی ہے اسی کو پیغمبروں نے اکے تفصیلات میں بدلا ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں
-
00:17:34 تو اللہ تعالی نے ایک واضح بیان دیا ہے اس
-
00:17:37 اس پر جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ میں اپ کو سنا رہا ہوں
-
00:17:40 مطلب یہ ہے
-
00:17:41 یہ دین کوئی خارج کی چیز نہیں ہے
-
00:17:44 جو اوپر سے تم پر لادی جا رہی ہے یہ عین تمہاری فطرت کا ظہور ہے
-
00:17:50 اس سے اختلاف کرو گے تو گویا اپنے ساتھ اخ
-
00:17:54 یعنی قران مجید میں اس کو گویا اخری درجے میں بنایا استدلال بنا کے پیش
-
00:17:59 جب تم دین سے اختلاف کرتے ہو
-
00:18:02 تو کسی خارجی باد سے اختلاف نہیں
-
00:18:04 کسی باہر کے حکم سے اختلاف نہیں کرتے
-
00:18:07 اپنے اپ
-
00:18:08 اس لئے کہ یہ تمہاری فطرت کا خزانہ ہے جس سے تمہیں اب بتایا جا رہا ہے
-
00:18:13 اس سے اختلاف کرو گے تو گویا اپنے ساتھ اختلاف کرو گے اور اپنے ہی باطن میں چھپے ہوئے خزانے سے اپنے اپ کو محروم کر لو
-
00:18:21 اس پر استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر قران میں جو کچھ لکھا ہے اس کو میں نے یہاں نقل کیا ہے اس سے واضح ہوا وہ لکھتے ہیں اس سے واضح ہوا کہ جو فلسفے یہ کہتے ہیں
-
00:18:34 انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک صفحے سادہ
-
00:18:39 اور تمام تر اپنے ماحول کی پیداوار اور انس و عادت کی مخلوق ہے
-
00:18:44 یہ تو اصل میں مقدمہ ہے دین کا انکار کرنے والے لوگوں
-
00:18:48 وہ یہ کہتے ہیں کہ انسان تبیلا را
-
00:18:51 یعنی وہ ایک صفحہ سادا ہے وہ جب پیدا ہوا تھا تو اس پر کوئی نقوش نہیں تھے
-
00:18:56 سفید سادہ اور تمام تر اپنے ماحول کی پیداوار والی شہادت کی مخلوق ہے ان کا خیال بالکل غلط
-
00:19:03 یہ قران مجید کے اس زمانے میں سب سے بڑے عارف کی شرح ہے
-
00:19:08 انسان کو اللہ تعالی نے بہترین ساخت اور بہترین فطرت پر پیدا کیا ہے اس کو خیر و شر اور حق و باطل کی معرفت عطا فرمائی ہے اور نیکی کو اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کا جذبہ بھی اس کے اندر ودیعت فرمایا ہے
-
00:19:25 لیکن اس کی یہ فطرت
-
00:19:27 حیوانات کی جبلت کی طرح نہیں ہے
-
00:19:30 کہ وہ اس سے انحراف نہ اختیار کر سکے بلکہ وہ اپنے اندر اختیار بھی رکھتا ہے
-
00:19:35 یہ جو ہم کہتے ہیں نا کہ انسان کو ارادہ اختیار دیا گیا ہے تو اصل میں یہ ارادہ اختیار ہے جس کی وجہ سے فطرت سے انحراف ہو جاتا
-
00:19:42 سطرت تو موجود ہے اپنی جگہ اگر یہ ارادہ اختیار نہ دیا جاتا اور انسان اپنی فطرت کو پابندی رہتا وہ اس سے ہراس نہ کر سکتا تو پھر امتحان نہیں لیا جاسکتا
-
00:19:53 تو اس کے ساتھ ارادہ و اختیار دیا گیا
-
00:19:56 اس وجہ سے بسا اوقات وہ اس دنیا کی محبت اور اپنی خواہشوں کی پیروی میں اس طرح اندھا ہو جاتا ہے کہ حق و باطل کا شعور رکھتے ہوئے نہ صرف باطل کی پیروی کرتا ہے بلکہ باطل کی حمایت میں فلسفے بھی ایجاد کر ڈال
-
00:20:13 انبیاء علیہم السلام
-
00:20:15 یار میں نے اس کی مزید توضیح کی ہے انبیاء علیہم السلام اسی فطرت کی تفصیل کرتے
-
00:20:21 اور اس کے تمام مقتضیات و نوازن یعنی اس کے کیا اگے تقاضے ہیں اس سے کیا چیزیں لازم اتی ہیں
-
00:20:28 اس کے تمام مقتضیات اور نوازن کو انسان کے لئے واضح کر
-
00:20:32 قران میں ذکر اور ذکری کا لفظ اسی پہلو سے اپنے لئے است
-
00:20:37 یعنی جب قران کہتا ہے نہ یہ ذکر ہے یہ ذکر ہے یہ یاد دہانی ہے تو اصل میں یہ کہتا ہے کہ جو کچھ تمہاری فطرت میں موجود تھا
-
00:20:46 اسی کو نمایاں
-
00:20:48 اسی کو یاد دلانے کے لئے اللہ تعالی یہ کتابیں اتار رہا ہے یہ پیغمبر بھیج رہا ہے
-
00:20:53 مدعا یہ ہے کہ وہ درحقیقت وہ یعنی قران درحقیقت انہیں حقائق کی یاد دہانی کرتا ہے جو انسان کے اندر موجود ہے لیکن وہ انہیں فراموش
-
00:21:04 تو یہ درحقیقت قران مجید کا اپنا بیان ہے یعنی نا فطرت کا لفظ
-
00:21:09 میں نے داخل کر
-
00:21:10 میں یہ بات کی اصل دین یہی ہے
-
00:21:13 یہ میں نے اپنے طور پر کہہ دی ہے
-
00:21:15 قران مجید میں اس کو اس طرح بیان
-
00:21:18 پھر سننے واحد یہ حقائق کو برہم ہوگئے ایک خدا کے ہو کر تم اپنا رخ اس کے دین کی طرف کیے رہو تم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کی پیروی کرو اے پیغمبر جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے
-
00:21:32 یعنی یہ جو الفاظ ہیں جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے یہ بتارہے ہیں کہ دین کی پوری ہدایت اللہ تعالی نے دیکھ کر انسان کو تخلیق کیا
-
00:21:42 جس پر اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ جانتے
-
00:21:52 یہ قران مجید کا اپنا بیان
-
00:21:55 [Unintelligible]
-
00:21:56 اور قران مجید کے اس بیان کو اپ یہ خیال نہ کریں کہ یہ استاد امام نے اس کو اس طریقے سے بیان کر دیا میں نے اس کو اس طریقے سے بیان کر دیا یہی بات
-
00:22:07 ہمارے کو داماد بھی
-
00:22:09 اچھا
-
00:22:10 ایک تو وہ لوگ ہیں کہ جن کے اوپر یونانی منطق اور فلسفہ کا غلبہ ہوا اس کے نتیجے میں علم کلام کے مباحث پیدا ہوئے اور پھر وہ ان بھول بھلائیاں میں گم ہو کر رہ گئے جو اب ہم معتزلہ اور شاعرہ اور ماتریدیہ کیا دیکھتے
-
00:22:26 لیکن وہ لوگ کو جو اللہ کی کتاب ہی پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھتے ہیں وہ دیکھئے اس کو کس طریقے سے بیان کرتے ہیں
-
00:22:32 یہی ایات ہیں اس پر ابن کثیر کیا کہہ رہے ہیں
-
00:22:36 معرفتہ وتوحید ہی وانہ لا الہ
-
00:22:43 اس لئے کیا اللہ تعالی نے مخلوقات کو بنایا ہے تو اپنی معرفت دے کے بنا
-
00:22:50 اپنی توحید سکھا کے بنا
-
00:22:53 اور یہ سکھا کے بنایا ہے کہ اس کے سوا کوئی معب
-
00:22:56 جماعت تقدم ائندہ قولے تالا اور اس میں مثال دی ہے یعنی اپنی اس بات کی تائید میں مثال دی ہے ان ایات کی جن میں اللہ تعالی نے توحید کے عہد کا ذکر
-
00:23:08 سورہ اعراف میں وہ ایت نقل کی ہے
-
00:23:14 پھر اس کے بعد مزید لکھتے وہ فی الحدیث
-
00:23:17 اور حدیث میں ہے ان میں خلق تو ابادی خلفا
-
00:23:20 میں نے اپنے بندوں کو پیدا کیا تو وہ دین کے معاملے میں بالکل یک
-
00:23:25 یعنی گویا وہ اصل فطرت لے کے ائے
-
00:23:30 اس کے بعد یہ شیاطین ہے
-
00:23:32 [Unintelligible]
-
00:23:35 انہوں نے ان کو انحراف کی طرف امادہ کیا اور وہ ایک دوسرے راستے کے اوپر لے گئے اور پھر کہتے ہیں کہ اس مضمون کی تاکید تائید میں میں اور احادیث بھی نقل کر
-
00:23:46 سنسکر فل احادیث اللہ تعالی فطر خلق و علی الاسلام جس سے واضح ہو جائے گا کہ انسانیت کی پیدائشی اسلام پر ہوئی ہے
-
00:23:55 یعنی اسلام وہ اللہ کا دین جو فطرت کے اندر ودیعت
-
00:23:59 فاسدہ تل یہودی یا نصرانی
-
00:24:04 یہ اس کے بعد
-
00:24:06 بہت سی اس طرح کی چیزیں جو ہے وہ دوسرے فاسد ادیان کی صورت میں اس پر اگ
-
00:24:11 تو یہ اصل میں وہ پورا بیان ہے کہ جس کو قران مجید میں بنیاد بنا کے دین کی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کی
-
00:24:20 اچھا اچھا یہ جو ایت اپ نے ابھی پڑھی اور اس کی کافی تفصیل کی اور بتایا کہ ہمارے جو قدیم بزرگ ہیں وہ اس کو کیسے لیتے ہیں
-
00:24:27 اس ایت میں جو بات زیر بحث ہے
-
00:24:29 اوسکو یہ کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں پر یہ کہا جارہا ہے کہ اللہ تعالی یہ کہتے ہیں کہ میں نے
-
00:24:35 جو الہام جو وحی جو دین بھیجا ہے پیغمبروں کے ذریعے وہ فطرت کے مطابق ہے یعنی فطرت اصل میں کوئی شعور نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کر سکے کیا درست ہے کیا غلط لیکن جو چیز میں نے بھیجی ہے اگر فطرت کی روشنی میں اس کو سامنے رکھو گے تو وہ تمہیں درست معلوم ہو جائے گی میں عبارت پیش کرنا چاہتا ہوں جو عام طور پہ اس نقطہ نظر کے برخلاف کے فطرت شعور ہے یا ایک استعداد ہے میں صلاحیت ہے امام تیمیہ کی عبارت ہے میرے سامنے اسی ایت کے اوپر وہ کہتے ہیں فطرت اللہ ہے وہ لکھتے ہیں کہ میں فطرت سے مراد اسلام ہے یہ وہی فطرت جس پر اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا جس دن ان سے سوال کیا کیا میں تمہارا رب ہوں تو انہوں نے کہا ہاں اور فطرت کی حق کی مثال کے ساتھ ایسے ہی ہے جیسے قوت بصارت کی صورت سے اگر کسی بھی صاحب بشارت کو بغیر کسی حجاب کے چھوڑ دیا جائے تو وہ ضرور سورج دیکھ لے گا
-
00:25:25 لیکن یہودیت مسیحیت اور دیگر باطل اعتقادات کی مثال اس حجاب کی ہے لوگوں کی فطرت پر پیدا ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہر انسان اسلام کے عقیدے پر بالفعل پیدا ہوا ہے کیونکہ قران یہ کہتا ہے کہ واللہ اخرجکم من بطون امہاتکم لا تعلمون کہ اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے سال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے
-
00:25:48 جو اعتراض کیا جاتا ہے اس ایت کی اپ کے انڈرسٹینڈنگ پے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی تو ایک طرف ہی کہتے ہیں کہ جب تمہیں میں نے ماؤں کے پیٹوں سے نکالا تو تم تو کچھ بھی نہیں جانتے تھے دوسرا اس ایت میں یہ کہاں بیان ہوا ہے کہ فطرت کے اندر میں نے دین ڈال دیے یہاں تو زیادہ سے زیادہ یہ بات بیان ہوئی ہے کہ جو دین تمہیں پیش کیا جائے گا اس کو تمہارا اندرون قبول کر لے گا بس یہ ویسے کہاں بیان ہوا
-
00:26:09 یہ میں نے ابھی اپ کو ایت سنائی ذرا کوئی ایک جملہ بتا دیجئے جس میں وہ بات
-
00:26:14 وہاں تو سیری لفظوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ دین بہت فطرت
-
00:26:19 اس کی تو وہ پیروی کرنی ہے اس پر میں نے تمہیں پیدا کیا ہے
-
00:26:23 جو بات معلوم کرنی ہے کہتے ہیں بالکل دوسری بات ہے وہ یہ ہے کہ یہ جو فطرت ہے کیا یہ لفظوں میں ڈھل جائے گی خود بخود یہ خود عقائد میں بدل جائے گی
-
00:26:32 اس میں تو تھک گئے ہیں
-
00:26:34 انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے باقی روم فنون میں بھی اسی طرح داخل
-
00:26:39 قران مجید کی جو ایت سنائی جارہی ہے وہ اس علم کی نفی کرتی ہے
-
00:26:44 جس علم کو ہم یہاں حاصل کرتے
-
00:26:46 ارے کوئی ادمی یہ بتا سکتا ہے کہ جس وقت انسان پیدا ہوتا ہے تو ماہر سماجیات ہوتا ہے ماہر عمرانیات ہوتا ہے
-
00:26:53 وہ پوٹینشل اس کے اندر موجود
-
00:26:55 اور وہ اپنے اس باطنی علم کو خارج کے ساتھ متعلق کرنے کا عمل شروع کرتا ہے
-
00:27:01 اس کے بعد خارجی تحریکات اس کو اگے بڑھاتی
-
00:27:04 اور اہستہ اہستہ وہ اندر کا علم باہر نکلنا
-
00:27:08 وہ یہ بتا رہے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپ یہ کہیں کہ انسانی فطرت اپ کو بتا دے گی کہ عقیدہ تحویل میں یہ چیزیں لکھی
-
00:27:16 یہ بتا رہے
-
00:27:17 یعنی کیسا ہے تعلق تعلق یہ ہے کہ فطرت کو بنیادی چیزیں رکھتی ہے اجمال میں وہ سارا دن رکھتی ہے اس کے تمام مقدمات اندر موجود ہیں لیکن وہ ایک باقاعدہ دینی ہدایت اور ایک شریعت کی صورت کب اختیار کریں گے جب انبیاء علیہم السلام ائیں گے اور وہ اکر بتائیں گے اس لئے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو ایسا نہیں کہ پیدا ہوتے ہی وہ تمام علوم اس پر ڈھیل دیے جاتے ہیں
-
00:27:42 ان کا فطری طور پر ظہور ہوتا ہے جس میں خارجی تحریکات کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اس رہنمائی کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ باقاعدہ علم بن سکے یہ پوری بات ہے جو ابن تیمیہ
-
00:27:53 یعنی امام صاحب کی جو بات ہے جو اپ نے پچھلی بات ایت سے اخذ کر کے بتائی تھی اور باقی جو سیلف کی ارا ہے یہ اصل میں اس کی تائید میں وہ ایک اعتراض کا یہ جواب دے رہے ہیں کہ یہ جب کہا جاتا ہے کہ فطرت میں اسلام ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی پانچ نمازیں جو ہے وہ اپنی فطرت سے وہ شعور کی انکھ کھولے گا تو اپ کو یہ بتائے گا
-
00:28:17 یہ کہاں جا رہا
-
00:28:19 یہ کاہے جا رہا ہے کہ وہ بنیاد موجود ہے جس طرح بیج کے اندر درخت چھپا ہوا موجود
-
00:28:24 خارو سرکش شور موجود ہے
-
00:28:26 یعنی دین جیسے ہدایت کو لے کر ایا ہے اس کے مبادی رکھے ہوئے ہیں
-
00:28:30 ان کو باہر ان
-
00:28:32 اس کو نمودار ہونا ہے یہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ان کا علم دے کے نہیں اتا اس وقت تک کوئی ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں جانتا نہیں جانتا یعنی یہ خارجی علم کی حیثیت سے نہیں جان
-
00:28:44 اس کی نفی کی جا
-
00:28:45 خارجی علم کی حیثیت سے جب معروضی علم کی حیثیت سے کوئی چیز کس طرح علم بنتی ہے اس پر ہم تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں تو یہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے یعنی وہ پھر انبیاء علیہم السلام کی ہدا
-
00:28:57 انبیاء علیہم السلام کی ہدایت ایک میراث کی صورت اختیار کر لیتی ہے اس کو ہمارے والدین ہمیں بتاتے ہیں ہمارے اساتذہ میں بتاتے ہیں تو وہ سفر جو اس بیج کو درخت بننے کے لئے کیا کرنا تھا اور جو شاید صدیوں میں طے ہوتا وہ اصل میں دنوں میں طے ہوجاتا ہے باقی علوم میں کیا ہوتا ہے
-
00:29:13 یعنی اگر اپ کسی ادمی کو یہ کہیے کہ وہ ریاضی کا سارا علم اسی طریقے سے حاصل کرے یعنی جو فطرت کے اندر ودیعت کیا گیا ہے اس کا ظہور اپ سے اپ ہونے دیں تو معاف کیجئے گا اس کے اوپر ہوسکتا ہے دس ہزار سال لگ جائے لیکن ہوتا کیا ہے یعنی ہمارے اساتذہ جو کچھ انسان اس سے پہلے دریافت کرچکا ہے وہ سامنے رکھ
-
00:29:33 اور اس کے نتیجے پے علم اگے بڑھتا ہے
-
00:29:36 تو اسی طرح یہاں ہوتا ہے یہ جب کہا جاتا ہے کہ انسان اسلام پر پیدا ہوتا ہے
-
00:29:40 اس کا مطلب کیا
-
00:29:41 یعنی اسلام کوئی محض استعداد کا نام ہے
-
00:29:45 اسلام اصل میں اس عقیدے کا نام ہے کہ بندہ خدا کے بندے کا شعور لے کے
-
00:29:50 اور یہی وہ شعور ہے جس کو پھر قران مجید نے اتمام حجت کے درجے میں سورہ یارات میں واضح
-
00:29:56 اگر اس پر سوالات پورے ہو جائے تو ہم پھر اس ایت کی طرف جائیں گے اور میں اپ سے عرض کروں گا کہ وہاں قران مجید کس طریقے سے ایک ایک پہلو کی تعین کرکے بیان کرتا ہے کہ جن لوگوں تک میرے پیغمبروں کی دعوت نہیں پہنچ
-
00:30:09 جن کے ہاں کوئی بری روایت قائم ہوگئی ہے جن کو ان کے والدین نے شرک کے راستے پر ڈال دیا ہے ان لوگوں کو میں کس بنیاد پر موصول ٹھہراؤں گا
-
00:30:18 کیا مطلب
-
00:30:19 اس کا جواب دیا اللہ
-
00:30:21 اس پر ایک جو اخری سوال میرا یہ ہے کہ جس وقت اپ نے قران میں ایک عام ذہن کی الجھن اپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اپ نے ایک ایت پڑھی قران کی اس میں بالکل واضح ہے فطرت اللہ ہے لطیفہ
-
00:30:32 اس کے بعد قران کو دوسرا شخص کھولتا ہے وہی ایت پڑھتا ہے واللہ اخرجکم من بتون عماتکم لا تعلمون ایک اور ایت کھولتا ہے اس میں لکھا ہے تم جب پیدا ہوئے تو تم کچھ بھی نہیں تھے
-
00:30:44 تو اب
-
00:30:45 ان بیانات کی روشنی میں کہ ایک طرف اللہ ہی کہتا ہے کہ تم پیدا ہوئے کچھ بھی نہیں تو تم کچھ نہیں جانتے میں ان کو سامنے رکھ کے اس ایت کی تشریح کروں گا یا اس کو سامنے رکھ کے اس کی تشریح کروں گا اس میں فیصلہ کیسے ہوگا ان کا کیا ہے کہ تمہارے اندر کیا وصیت کیا گیا ہے
-
00:31:03 تم کیا صلاحیت ہے لے کے ائے ہو کس چیز کا شعور لے کے اؤ یعنی یہ کیا میں بتاتا ہوں انسان کو کہ تمہاری حصے جمالیات بھی کوئی چیز ہوتی
-
00:31:13 وہ اس کے اندر موجود ہے
-
00:31:15 یعنی وہ میرے ہاں جو کتا باندھا ہوا ہے جو بلی میں نے رکھی ہوئی ہے جو بکرا میرے گھر میں اتا ہے
-
00:31:22 عیدالاضحی کے موقع پر وہ نہیں جانتا اس بات کو کہ پھول میں کیا خوبصور
-
00:31:26 انسان کے اندر یہ چیز موجود ہے میں جیسے ہی اپنے بچے کے سامنے اپنا علم رکھتا ہوں تو اس کے اپریشیٹ
-
00:31:33 اور اس کے بعد اس کا خود اطلاق کرنا شروع
-
00:31:35 اسکی میں نے مثالیں دی تھی
-
00:31:37 اس طرح ہوتا ہے
-
00:31:39 تو یہ بات ہے جو زیادہ بیان ہوئی ہے یعنی انسان کی فطرت میں کیا رکھا
-
00:31:44 اور یہ دوسری بات ہے بالکل جس میں یہ بتایا گیا کہ انسان اپنی زندگی کی ابتدا کرتا ہے جب وہ علم سے نہیں کرتا ہے
-
00:31:52 یعنی اس دنیا میں جب وہ ماں کے پیٹ سے باہر اتا ہے اس موقع کے اوپر تو زبان میں نہیں جانتا وہ تو اپنی رفع حاجت کی چیزوں کو بھی نہیں جانتا وہ تو اپنے جنسی تصور کو بھی نہیں جانتا تو یہ ساری چیزیں اپ سکھاتے ہیں اسے یہ خودا نے اس کے اندر رکھی ہے یہ سب کی سب ظہور پذیر ہوتی ہے لیکن ظہور پذیر ہونے کے لئے خارجی تحریک کی
-
00:32:12 اور اوسکے علم بننے کے لئے صدیوں کے تعمل کی ضرورت
-
00:32:16 اللہ تعالی کیونکہ دین کے معاملے میں یہ نہیں چاہتے تھے کہ انسان دینی حقائق کو ایک متعین ایک مدون صورت دینے کا عمل صدیوں میں کرے تو انہوں نے پہلے انسان کو نبوت
-
00:32:27 یہاں سے بھی جو کہا جارہا ہے کہ فطرت استعداد ہوتی ہے اگر اس ایت کو سامنے رکھیں تو اس میں تو استعداد کی بھی نفی ہوگئی کیونکہ بچے کو تو سچ اور جھوٹ اور نیکی اور بدی دو الگ الگ کیٹگریز بھی نہیں پتہ ہوتا ہے
-
00:32:39 اور یہ بات ابن تیمیہ بالکل دوسرے محل میں کہہ
-
00:32:43 اپ یہ دیکھیے ہمارے سلف جب بیان کرتے ہیں فطرت کا کیا مطلب
-
00:32:46 مثلا رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث زیب بحث ائے گی
-
00:32:53 ارے ہر بچے کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے
-
00:32:55 تو اس کی تشریح کرتے ہیں کہ اسلام پر ہوتی
-
00:32:58 کیا بات ہے
-
00:32:59 استعداد مراد ہے اسلام کو قبول کرنے
-
00:33:02 اسلام پر ہوتی ہے
-
00:33:03 یعنی وہ دین لے کر اتا ہے لیکن وہ دین کونسا ہے
-
00:33:08 پانی وہ ہے جو بارش شریعت میں لکھا ہوا ہے
-
00:33:11 جو امام سرخسی نے مقصود میں لکھا ہے میں نے اپنی کتاب میزان میں بیان کیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دین کے بنیادی حقائق کا شعور لے کے اتا ہے ان کو علم بننے کا عمل یہاں دنیا میں ہوتا ہے یعنی علم کی ابتدا
-
00:33:28 یہ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد ہوتی
-
00:33:31 اس وقت وہ پاگل ہوتا ہے اس وقت یہ چیز علم نہیں بن چکی ہوتی کہ تم اس سے بچے سے پوچھو کہ تم اپنی گواہی جواب دہارے کے اندر کہ تم مسیح بن کے
-
00:33:41 یہ چیز ہے جس کو بیان کیا جا
-
00:33:43 ایت کا محل بالکل اور ہے اور اصل حقیقت
-
00:33:46 یہاں ذرا اس ایت کو بار بار پڑھیے نکال کے سورہ روم میں اللہ تعالی نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی اس معاملے میں
-
00:33:52 یہ میری بنائی ہوئی فطرت ہے میں نے اس پر انسان کو پیدا کیا ہے یہی سیدھا دین ہے اس پر میں نے پیدا کیا ہے اور پھر حکم دیا ہے لا تبدیل والا خلق اللہ
-
00:34:04 یہ مکلف ٹھہرا دیا ہے
-
00:34:06 تمہاری اس فطرت کے اندر جو ہدایت ہے اس کو تبدیل کرنے کی جسارت مت کرنا
-
00:34:10 پوری بات بیان ہوگئی ہے کوئی ایک چیز باقی نہیں رہ گئی بشرطیکہ ادمی مختلف تصورات اور علم کلام کے مباحث سے اپنے اپ کو بلند کر کے اللہ کی کتاب کے سامنے ا کے سر نگو ہو جائے کہ وہ کس طرح بیان کر رہی ہے ان کا بھی اپ نے ایک حدیث پڑھی کہ ہر بچہ جو ہے فطرت پیدا ہوتا ہے یہ ابن حجر کا ایک اقتباس ہے میرے سامنے لکھتے ہیں اور سب سے مشہور قول یہ ہے کہ فطرت سے مراد اسلام ہے اسی ایت پر اور وہ کہتے ہیں کہ میں لکھا ہے کہ یہی سلسلہ علیم کا قول ہے مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فطرت اللہ سے مراد اسلام ہے اور اسلام سے مراد فطرت ہے ابو ہریرہ نے فرمایا ہے ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہ جو روایت ہے کہ فطرہ کی روایت بیان کر کے کہ چاہے تو یہ ایت پڑھ لو فطرت اللہ لطیفہ تھا یا چاہے یہ حدیث پڑھ لو تو میرا سوال اپ سے ہی ہے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جو اعتراض ہوتا ہے اعتراضات کے ہم فہرست کو لے کے چل رہے ہیں کہ اس میں جو سیلف کا فہم ہے جو ہمارے پرانے صحابہ ہیں تابعین ہیں ان کے فہم سے اپ نے اختلاف کر دیا ہے مختلف معاملات میں میں اور بڑی دیانت داری سے پوچھنا چاہوں گا اور یہ بطور دلیل نہیں کیا اپ نے سیلف کی بات اپ کی تائید میں لیکن کیا امر واقعہ یہی ہے کہ اس معاملے میں اپ پر مسلسل کو اختلاف نہیں ہے
-
00:35:26 یہی مذہب تھا صحابہ کا
-
00:35:28 یہ مذہب تھا سلف
-
00:35:30 ایسے ہی دیکھتے تھے
-
00:35:31 یہ بعد میں بات چیزیں یونانی منطق کے ذریعے اثر پیدا ہوئی برہان یاد کے بعض مقدمات قائم کیے گئے اس کے نتیجے میں بعض عقلی سوالات پیدا کیے گئے ان کا جواب دینے کے نتیجے میں ہم نے یہ پرائے شگون پر اپنی ناک ک
-
00:35:45 ورنہ تو بالکل واضح بالکل سادہ چیزیں اپ دیکھیں گے میں بعد میں دوسری چیزیں اپ کے سامنے رکھوں گا کہ سلف کیا
-
00:35:52 صحابہ کرام کی تفسیریں کیا
-
00:35:53 ایسی بات کو ایسے ہی
-
00:35:55 ابو ہریرہ فرما رہے ہیں رضی اللہ تعالی عنہ کے اگر یہ روایت پڑھ لو اس میں بھی وہی بات ہے اور یہ ایت پڑھ لو اس میں بیوی بات ہے یہ بات اصل میں تبدیل کر رہے ہیں
-
00:36:05 تیری ماں بھی یہی کہہ رہا ہوں
-
00:36:06 اس سے مراد ہے اسلام
-
00:36:08 لیکن کون سا اسلام وہ اسلام جو علم بہن کے سامنے اتا ہے نہیں وہ اسلام جو اس کی حقی
-
00:36:14 اچھا وہ حقیقت کہہ رہا ہے ہم سے اگے بڑھتے ہیں جس کو اپ نے فرمایا کہ وہ دوسری ایت میں زیر بحث ہے قران مجید کا وہ کونسا مقام ہے یہ اب اس کو ہم ڈیکورٹ کریں گے کہ وہ کیا چیز ہے جو فطرت میں رکھی اجمالا تھی تفصیلا تھی کیا مبادی ہیں وہ کہاں پر زیر
-
00:36:29 قران مجید میں اپ کو اس بات سے واقف ہیں
-
00:36:32 یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی ہے سورہ اعراف میں
-
00:36:36 کہ وہ لوگ کہ جن کا معاملہ
-
00:36:39 پیغمبروں سے وابستہ نہیں ہو سکا یعنی وہ اس دنیا میں پیدا ہوئے
-
00:36:43 وہ جب دس دنیا میں پیدا ہوئے
-
00:36:45 تو ان کے پاس نہ تو کوئی نبوت کی روایت تھی
-
00:36:49 اور نہ انہیں اچھی تعلیم ملی اپنے اواز سے
-
00:36:54 یعنی احباب منتقل کرتے ہیں نہ دین کو
-
00:36:56 دونوں پہنو ہو گئے یہی سوال اج بھی کیا جاتا ہے یہ سوال پوچھا جاتا ہے انبیاء علیہم السلام کی دعوت خاص علاقے تک محدود رہی ہمارے پاس محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہے دنیا میں جہاں جہاں انسان بس رہے ہیں ان سے کس بنیاد پر سوال ہوگا
-
00:37:13 اگر اس مقدمے کو اپ مان لے کہ جب تک پیغمبر کی بات نہیں پہنچے گی اس وقت تک سوال نہیں ہوگا
-
00:37:20 اس کو مار لے تو پھر قران مجید کے اس مقام کو کیا کریں
-
00:37:23 اب یہ سنیے اس میں کیا بیان کیا گیا ہے
-
00:37:25 قران مجید یہ کہتا ہے کہ بنی ادم منظور ہے
-
00:37:33 انس تو برف دیکھو کالو بھلا شہید نا ان تکون یامل قیامہ انا کنا ان ہذا غافلین او تو ہے
-
00:37:54 یہ قران مجید میں اس واقعے کا حوالہ دیا ہے جو انسان کی پیدائش سے پہلے پیش
-
00:38:00 اور اس کو استدلال کے طور پر پیش
-
00:38:03 اپ اس کو پیچھے سے بھی دیکھ لیں اس کو اگے سے بھی دیکھ لیں
-
00:38:07 سرمایہ ہے پیغمبر
-
00:38:09 یہ نے وہ وقت بھی یاد دلاؤ
-
00:38:11 جب تمہارے پروردگار نے بنی ادم کی پشتو سے ان کی نسل کو نکالا
-
00:38:18 اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ ٹھہرایا
-
00:38:21 اس سے پوچھا تھا یہ واقعہ پیش ایا انسانیت کے ساتھ
-
00:38:25 اس سے پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں
-
00:38:28 انہوں نے جواب دیا ہاں اپ ہی ہمارے رب ہیں ہم اس کی گواہی دیتے
-
00:38:34 یہ ایت کیوں لیا گیا یہ واقعہ کیوں پیش
-
00:38:37 اللہ تعالی نے یہ سوال کیوں پوچ
-
00:38:39 اس کا جواب دیا ہے یہ ہم نے اس لئے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس بات سے بے خبری رہے
-
00:38:47 اینی کسی پیغمبر کی دعوت ہم تک نہیں پہنچی ہمیں یہ بات بتائی نہیں گئی قیامت کے دن یعنی اپ دیکھیے کہ صرف یہ نہیں بیان کیا کہ میں نے تمہارے ساتھ یہ معاملہ کیا تھا
-
00:38:58 یہ بیان کیا ہے کہ اس کی بنیاد پر قیامت کے دن حجت قائم ہوگی اور تم موصول ٹھہرایا جائے
-
00:39:07 ارے یہ کہا کہی یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس بات سے بے خبری رہے یا اپنا یہ عذر پیش کرو یا اپنا یہ عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی
-
00:39:19 اور ہم بعد کو ان کی اولاد ہوئے
-
00:39:22 یعنی یہ جو کچھ بھی ہمے دین کی میراث ملی وہ اپنے ابا و اجداد سے ملی تو ہم کیسے حقیقت کو جانتے
-
00:39:28 اللہ تعالی اس عذر کو قبول نہیں کر رہے
-
00:39:31 پھر کیا اپ غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے وہ بات کہی کہے نا
-
00:39:38 تو فرمایا ہم اسی طرح اپنی ایتوں کی تفصیل کرتے ہیں اس لئے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو اور اس لئے کہ وہ رجوع کریں
-
00:39:45 گویا پوری کی پوری بات یہاں بھی دیکھیے کوئی قران مجید میں قصر نہیں چھوڑی جا سکتا تھا اس کو بھی بیان کر دیا جا سکتا تھا یہ واضح کیا کہ توحید کا شعور تم لے کے ایا
-
00:39:57 یہ واضح کیا کہ یہ ایک واقعہ تھا جو تمہارے ساتھ
-
00:40:00 یہ واضح کیا اس وقت ہم یہ بحث نہیں کر رہے کہ اس واقعے کی نوعیت کیا تھی یہ ہماری یادداشت سے کیوں محو کیا لیکن فرمایا کیا ہے فرمایا ہے کہ یہ ہم نے سب اس لئے کیا تاکہ تم
-
00:40:13 اس واقعے کی بنیاد پر موصول قرار
-
00:40:16 تم سے پوچھا جائے
-
00:40:17 یہ تمہاری فطرت میں بلیت
-
00:40:19 اپ یہ دیکھئے کہ میں تو بار بار یہ کہہ رہا ہوں نہ کہ یہ واقعہ
-
00:40:23 استاذ امام امین احسن اصلاحی بھی اس کو ایک واقعے کے طور پر
-
00:40:26 مولانا سید عبداللہ صاحب مودودی نے بھی اس کو ایک واقعہ کے طور پر مانا ہے اور تفہیم القران میں اس کے دلائل دیے
-
00:40:32 لیکن ہمارے یہاں عام طور پر ہمارے اسلاف اس کو فطرت کے بیان کے طور پر بھی لیتے
-
00:40:39 ویا ایک تمثیل ہے دونوں میں کوئی فرق واقع
-
00:40:41 یعنی ایک صورت میں یہ ہوا کہ واقعہ پیش ایا اور دوسری صورت میں یہ ہوگا کہ یہ درحقیقت فطرت کے اندر جو علم دیا گیا ہے
-
00:40:49 لیکن نتیجہ تو ایک ہی ہے
-
00:40:54 یہ بات کہ میں تمہارا پروردگار ہوں
-
00:40:57 میری معرفت کی بنیاد تمہارے باطن میں رکھی
-
00:41:01 اور اور صرف اتنا نہیں کہا کہ یہ استعداد ہے جو رکھ دی گئی ہے پیغمبر ائیں گے وہ اس استعداد کی بنیاد پر اپنی دعوت پیش کریں گے قران مجید یہ کہہ رہا ہے کہ تم میرے سامنے قیامت میں کھڑے ہو کر یہ عذر نہیں پیش کرو گے کہ ہمارے پاس پیغمبر نہیں ائے گا ہم تو اس سے بے خبر ہی رہے
-
00:41:18 اور یہ بات تو واقعی ہے تو تم سہی نہیں ہو سکتی کیا میں تمہیں اکثر ہوگا مواخذہ ہوگا اس کا نتیجہ بیان کیا ہے اس میں بھی کچھ چیزیں سن لیجئے
-
00:41:27 انسان کو اس دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا گیا ہے میں نے لکھا ہے اس
-
00:41:31 اس لئے یہ واقعہ تو اس کی یادداشت سے محو کر دیا گیا ہے لیکن اس کی حقیقت اس کے صفحہ قلب پر نقش اور اس کے ناخنہ دماغ میں پیوست
-
00:41:41 اسے کوئی چیز بھی مہم نہیں کر
-
00:41:43 چنانچہ ماحول میں کوئی چیز مانے نہ ہو اور انسان کو اسے یاد دلایا جائے تو وہ اس کی طرف اس طرح لپکتا ہے جس طرح بچہ ماں کی
-
00:41:52 ذرا ہال ہے کہ اس نے کبھی اپنے اپ کو ماں کے پیٹ سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا
-
00:41:57 یہ مثال اس لیے دی ہے کہ یہ واقعہ بھی انسان کی یادداشت سے محو ہوتا ہے لیکن یہ ایک واقعہ ہے
-
00:42:04 وہ ہوتا ہے اسی کی بنیاد پر ماں کے حقوق قائم ہوتے ہیں
-
00:42:07 اور اس یتیم کے ساتھ لپکتا ہے جیسے کہ وہ پہلے ہی سے اس کو جانتا تھا وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کا یہ اقرار اس کی ایک فکری احتجاج کے تقاضے کا جواب تھا کہ اس کے اندر ہی موجود
-
00:42:19 یعنی انسان جس وقت
-
00:42:21 اللہ تعالی سے متعارف ہوتا ہے
-
00:42:23 اس کے سامنے خدا کی معرفت کے دلائل رکھے جاتے ہیں تو اس کا باطن اس طریقے سے اس کو قبول کرتا ہے اس نے اسے پا لیا ہے تو اس کی نفسیات کے تمام تقاضوں نے بھی اس کے ساتھ ہی اپنی جگہ پا
-
00:42:35 اس کے جو نتائج بیان کیے ہیں قران مجید نے اس کی بنیاد پر میں تم سے مواخذہ کروں گا ورنہ تو بیان یہ ہونا چاہیے تھا کہ یہ دیکھو میں نے تمہاری فطرت میں یہ رکھا ہے لہذا پیغمبر کی دعوت ائے تو تم مکلف ہو کے اس کو قبول
-
00:42:49 وہ ایک دوسرا پہلو
-
00:42:51 پیغمبر کی دعوت میں اس لئے قبول کی جائے گی کہ تمہاری فطرت کے اندر اس کے بنیادی مقدمات موجود ہے لیکن یہاں تو قران مجید میں ساری بساطیوں نے
-
00:42:59 اس کی بنیاد پر موصول ٹھہرائے جاؤ
-
00:43:02 اس کی بنیاد پر پوچھا جائے
-
00:43:04 میں قیامت میں یہ عذر قبول نہیں کروں گا کہ ہمیں ابا کی روایت ملی تھی مشرقی کر رہے
-
00:43:10 میں اس کو قبول نہیں کروں گا کہ تم کہو گے ہم تم سے بے خبر رہے چنانچہ اس پر بھی میں نے اس کے مقتضیات کو واضح کیا
-
00:43:17 یعنی جہاں تک توحید اور بدی حالات فطرت کا تعلق ہے ان کے بارے میں مجردی سکرار کی بنا پر یعنی یہ جو اقرار لیا گیا
-
00:43:27 بنی ادم کا مواخذہ
-
00:43:30 پوچھا جائے گا ان
-
00:43:31 اون سے ناراض کے لیے کسی کا یہ عذر خدا کے ہاں مسمو نہیں ہوگا یعنی سونا نہیں جائیگا کہ اسے کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی یا اس نے یہ انحراف خارجی اثرات کے نتیجے میں اختیار کیا
-
00:43:44 دونوں ادھر رکھتے تھے میرے ماحول میں یہ چیز موجود تھی دونوں کی نفی کر دی
-
00:43:50 اور اس کے ذمہ دار اس کے باپ دادا اور اس کا ماحول ہے قران کا ارشاد ہے کہ انسان کے باطن کی یہ شہادت ایسی قطعی ہے کہ ہر شخص مجرد شہادت کی بنا پر اللہ کے حضور میں جواب دے
-
00:44:05 یہ قران مجید کا بیان ہے اب یہ دیکھئے کہ یہ میں نے اپ کو قران مجید کی ایات
-
00:44:10 قران مجید کا ترجمہ بتا
-
00:44:12 بالکل وہی بات ہے یعنی جس طرح سورہ روم میں کہا کہ یہ تو تمہاری فطرت ہے دین
-
00:44:17 وہ کیا تھا اصل میں توحید یہاں بتایا کہ یہ تمہاری فطرت کیسے بنی
-
00:44:22 پورا پراسیس بینک
-
00:44:23 اور یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ اس کی بنیاد پر تم موصول ہو اس کی بنیاد پر جواب دہ ہو یہ جو نقطہ نظر ہے اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا یہی نقطہ نظر ہے جو ہمارے اہل علم نے اختیار کیے
-
00:44:35 اس کو بھی دیکھ لی ہمارے جو سیلف ہیں ہمارے جو صحابہ تابعین ہیں بزرگ ہیں مفسرین ان کی بات
-
00:44:41 انہوں نے کیا یہی نقطہ نظر اختیار کیا اسی چیز کو وہ بیان کرتے ہیں یا اس سے مختلف کوئی بات ہے کہ جو انہوں نے بیان فرمائی ہے اس کو بھی دیکھ لیجئے ابن کثیر
-
00:44:51 میں اس لئے اسی پے اکتفا کر رہا ہوں کہ اس میں حقیقت میں
-
00:44:55 سلف کی تفسیر بیان
-
00:44:57 انیس میں باقی چیزیں تیرے بحث نہیں ہوتی
-
00:44:59 اب یہ جو واکیا ہے یعنی جس طرح میں نے وہاں اپ کو قران مجید کی ایات سنائیں ان کا ترجمہ سنایا میں نے جو اس کی شرح کی ہے وہ بتا
-
00:45:08 اب یہ دیکھیے کہ یہ کیا کر رہا ہے وہی ایات یعنی وہی سورہ اعراف کی ایات یہ ایات 172 سے 174 تک
-
00:45:16 کیا لکھتے ہیں
-
00:45:19 اللہ اطلاع دے رہا ہے کیا انا استخراج ضروری ہے
-
00:45:24 کہ اللہ تعالی نے بنی ادم کو ان کی
-
00:45:28 پشتو سے نکالا شاہدین اعلان حسین
-
00:45:31 اوکے اپنا وجود پر انہیں گواہ ٹھہراتے ہوئے کس بات کا گواہ
-
00:45:36 ان للہ ربہم وملک کہ اللہ ان کا رب ہے وہی ان کا بادشاہ ہے لا الہ الا اللہ
-
00:45:45 اور اس بات پر گواہ ٹھہراتے ہوئے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں
-
00:45:49 اب یہ کیوں کہ نقطہ نظر دوسرا رکھتے ہیں کہ یہ فطرت کا بیان ہے تو کہتے ہیں
-
00:45:57 یعنی یہ بات گویا اس چیز کو بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا اس فطرت پر
-
00:46:05 ان کی تخلیق کس کے اوپر ہوئی ہے اور اس کے بعد کیا کرتے ہیں اسی ایت کا حوالہ دیتے
-
00:46:10 یعنی یہ دیکھا اپ کہیں کہ وہاں انہوں نے حوالہ دیا اس ایت کے ساتھ اور یہاں اس ایت کا دونوں ایک ہی بات ہے تو کہتے ہیں کہ کالا تالا فاکین وجہ تو خلیفہ فطرت اللہ التی فطر
-
00:46:25 اگے دیکھی ہے کہ بالکل وہی بات ہے جو انہوں نے بیان کر دی اس کو بھی اپ لے لیں اور اس کے بعد یہ دیکھیں کہ ہمارے اپنے زمانے میں اب استاذ امام ہے اپ ایک مدرسہ فکر کی بات کر سکتے ہیں
-
00:46:37 لیکن
-
00:46:38 اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے
-
00:46:41 کے مولانا سید ابن علی صاحب مودودی
-
00:46:43 تو ہماری
-
00:46:45 ایک روایتی
-
00:46:47 علمی
-
00:46:48 پس منظر تعلق
-
00:46:50 اب اس میں دیکھیے کیا لکھتے ہیں
-
00:46:52 یہ والا مودودی کی طرح
-
00:46:55 اس ایت میں وہ غرض بیان کی گئی وہی ایت
-
00:46:58 وہی سورہ اعراف کی ایات جو میں نے ابھی پڑھی اپ کو ان کا وہی ترجمہ انہوں نے کیا اس ایت میں وہ غرض بیان کی گئی ہے جس کے لیے ازل میں پوری نسل ادم سے اقرار لیا گیا تھا
-
00:47:10 اور وہ یہ ہے
-
00:47:12 یہ انسانوں میں سے جو لوگ اپنے خدا سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اس جرم کی پوری طرح ذمہ دار قرا
-
00:47:19 انہیں اپنی صفائی میں انہیں اپنی صفائی میں نہ تو لاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ صادق نسلوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ ہو سک
-
00:47:32 گویا بالفاظ دیگر اللہ تعالی اس ازلی عہد و میثاق
-
00:47:38 یعنی وہ جو ہماری پیدائش سے بھی پہلے لیا گیا اس ازلی عہدوں میں میثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوع انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر
-
00:47:50 نو انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الہ واحد اور ربی واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور اس بنا پر یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص کامل بے خبری کے سبب سے
-
00:48:05 کامل بے خبری کے سبب تھے یا یہ گمراہ ماحول میں پرورش پانے کے سبب سے اپنی گمراہی کی ذمہ داری سے بالکل یا بری ہو
-
00:48:14 یہ انہوں نے بنیاد بنائی اس کے بعد ظاہر ہے ایک سوال پیدا ہوتا ہے یہ جو میثاق ہے اس کی یاد کیوں محروم کر دی
-
00:48:21 [Unintelligible]
-
00:48:29 ذرا سنیے اس
-
00:48:31 اس کا جواب یہ ہے
-
00:48:33 کہ اگر اس میثاق کا ن
-
00:48:35 انسان کے شعور اور حافظے میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجا جانا سرے سے فضول ہو جاتے
-
00:48:45 کیوں کہ اس کے بعد تو
-
00:48:47 اس ازمائش کو امتحان کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے یعنی جس میں انسان کو
-
00:48:54 لہذا
-
00:48:55 اس نقش کو شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا
-
00:49:00 لیکن وہ تخت شعور
-
00:49:02 سب کانشیئس مائنڈ اور وجدان ان ٹیوشن میں یقینا محف
-
00:49:07 اس کا حال وہی ہے اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت شعوری اور وجدانی علوم کا حال ہے تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے اج تک جو کچھ ظہور میں ایا ہے وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالکل ہی موجود تھا
-
00:49:29 یہی وہ باس ہے جو ہم کر
-
00:49:30 یار اس طرح ہمارے تمام علوم پیدا ہوتے ہیں یہ چیز بھی اسی طرح ہے اپ کے اندر
-
00:49:36 خارجی محرکات اور داخلی تحریکات میں مل جل کر اگر کچھ کیا ہے اگر کچھ کیا ہے یعنی یہ علوم باہر نہیں پڑے ہوئے
-
00:49:45 اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالکل تھا یعنی جو پوٹنسی کے اندر تھا اسے
-
00:49:52 وہ سامنے اگ
-
00:49:54 یعنی علم اپ کے اندر موجود
-
00:49:56 باقی سارے علوم بھی اسی طرح پیدا ہوئے
-
00:49:59 غزل دیا
-
00:50:00 اس فرق کے ساتھ کہ مذہب جیسے ہی بنیاد بناتا ہے تو اللہ کے پیغمبروں کی ہدایت سامنے اج
-
00:50:07 یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم کوئی تربیت کوئی ماحولی تاثیر اور کوئی داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی جو اس کے اندر بالکل موجود نہ ہو ہرگز پیدا نہیں
-
00:50:20 یعنی یہ بات کہ انسان کو خارج سی چیزیں ملتی ہے اس کی نفی کر رہے
-
00:50:25 اور اسی طرح یہ سب موثرات اگر تمام زور بھی صرف کردیں اپنا تمام زور بھی صرف کردیں
-
00:50:32 تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ان چیزوں میں سے جو انسان کے اندر بالکل موجود ہے کسی چیز کو قطعی بحث کر
-
00:50:40 یعنی نہ خارجی تحریکات اپ کو کوئی نادر چیز دے سکتی ہے جس کو بالکل اپ کے اندر نہیں رکھا گیا اور جو کچھ بالکل اندر رکھ دیا گیا ہے کوئی دنیا کی طاقت اس کو محو نہیں کر
-
00:50:51 دونوں چیزوں کے بارے میں بیان کر کے کہتے ہیں زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کر سکتے ہیں یعنی خارجی محرکات
-
00:50:58 زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کر سکتے ہیں
-
00:51:01 وہ صرف یہ ہے
-
00:51:03 اسے اصل فطرت سے منحرف کردے
-
00:51:06 پرویزن پیدا کر
-
00:51:08 لیکن وہ تمام وہ چیز تمام تحریفات و تم خاک کے باوجود
-
00:51:14 تمام تعریفات کے باوجود یعنی انحراف پر امادہ کرنے والی چیزیں مسخ کر دینے والی چیزیں
-
00:51:21 کے باوجود اندر موجود رہے
-
00:51:24 ظہور میں انے کیلئے زور لگاتی رہے
-
00:51:27 اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لئے مسترد رہے گی یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہمارے تمام طاقت شعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے
-
00:51:37 یہ ساری بحث جو ہم نے پیچھے کی ہے وہ اصل میں اسی اجمال کی تفصیل خلاصہ کر دیا خلاصہ کر دیا اس
-
00:51:43 گدھے وہ سب ہمارے اندر بالکل ا موجود ہے یعنی یہ سارے علوم
-
00:51:47 یہ حیاتیا دونوں اپ نے دریافت کیے ہیں وہ سب ہمارے اندر بالکل وہاں موجود ہے اور ان کے موجود ہونے کا یقینی ثبوت
-
00:51:57 ان چیزوں سے ہمیں ملتا ہے جو بالفعل ہم سے ظاہر ہوتی
-
00:52:02 ان سب کے ظہور میں انے کے لئے یعنی غلط فہمی یہ ہوتی ہے نہ کہ یہ خود بخود کیوں نہیں اجاتی ان سب کے ظہور میں انے کے لئے خارجی تصویر یاد دہانی تعلیم و تربیت
-
00:52:13 اور تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے
-
00:52:15 اور جو کچھ ہم سے ظاہر ہوتا ہے وہ گویا درحقیقت خارجی اپیل کا وہ جواب ہے جو ہمارے اندر کی بالکل موجودات کی طرف سے ملتا ہے
-
00:52:25 بالقوہ موجودات جو موجود چیزیں رکھ دی ہے اللہ تعالی نے یہ اصل میں اس کا جواب ہوتا ہے
-
00:52:33 ان سب کو اندر کی غلط خواہشات اور باہر کی غلط تاثیرات دوا کر پردہ ڈال کر منحرف اور مسخ کرکے کلعدم کر سکتی ہیں مگر بالکل معلوم نہیں کر سکتی
-
00:52:46 اور اسی لئے اندرون نہیں احساس اور بیرونی سہی دونوں سے اصلاح اور تبدیلی ممکن ہوتی
-
00:52:52 وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ نہ ہو تو اصلاح اور تبدیلی کا عمل ہی نہیں ہو سکتا
-
00:52:57 انسان رسپان نہیں کرے گا اس کو
-
00:52:59 ٹھیک ٹھیک یہی کیسی ہے یہ پہلے انہوں نے علوم کی بنیاد واضح کی ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت اور خالق کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل
-
00:53:14 [Unintelligible]
-
00:53:15 یعنی وہ علم جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت اور خالق کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے اس کے موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں زمین کے ہر خطے میں ہر بستی اور ہر پست اور ہر نسل میں ابھرتا رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت
-
00:53:37 اسے محو کر دینے میں کامیاب نہیں ہو
-
00:53:40 اس کے مطابق حقیقت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی وہ ابھر کر بالفعل ہماری زندگی میں کارفرما ہوا ہے اس میں صالح اور مفید نتائج ہی پیدا
-
00:53:50 اس کو ابھرنے اور ظہور میں انے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لئے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضرورت
-
00:53:57 وہ خارج سے ایک اپیل ہوگی چنانچہ انبیاء علیہم السلام اب دیکھیے رفت واضح کرتے
-
00:54:03 چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور قطب اسمانی اور ان کی پیروی کرنے والے داعیان حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے
-
00:54:12 یعنی وہ کیا کرتے ہیں وہ خارجی تحریک پیدا کرتے
-
00:54:16 وہ تذکیر کرتے ہیں وہ یاد دہانی کراتے
-
00:54:19 اب اس پر وہ متفرق کرتے ہیں اسی لئے ان کو قران میں مذکر یاد دلانے والے ذکر یاد تذکرہ یاداشت اور ان کے کام کو تذکیر یاد دہانی کے الفاظ سے تعبیر کیا
-
00:54:34 جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء اور کتابیں اور داعیان حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے
-
00:54:42 بلکہ اسی چیز کو ابھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھی
-
00:54:48 نفس انسانی کی طرف سے ہر زمانے میں
-
00:54:51 اس تسخیر کا جواب بصورت لبیک ملنا اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندر فی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی اواز پہچان کر جواب دینے کے لئے بنایا
-
00:55:04 یہ انہوں نے پورا استدلال بیان کیا ہے اور نفی کی ہے اس بات کی یہ محض استعداد ہے پورا علم
-
00:55:10 یہ اندر موجود ہے بالکل ہے لیکن اس کو خالی تحریک چاہیے
-
00:55:15 پھر اسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشات نفس اور تعصبات اور شیاطین جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات میں ہمیشہ دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسق کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک دہریت الحاد زندہ اور اخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا رہا ہے لیکن ذلالت یعنی گمراہی کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اسی لئے تذکیر و تجدید کی کوششوں سے ابھارنے میں کامیاب
-
00:55:56 یہ ایک مفصل بیان میں نے اپ کو اس لئے سنایا کہ یہ بات کہ میں نے کوئی نادر بات کہنی ہے کوئی نئی بات کہہ دی ہے ہماری پوری علمی روایت اس کے پیچھے
-
00:56:06 میں نے اپ کے سیلف اسکو کیسے دیکھتے ہیں
-
00:56:09 اب ظاہر ہے کہ ابن کثیر اگے صحابہ کے اقوال نقل
-
00:56:13 حدیثیں نقل
-
00:56:15 یہ بتائیں کہ کیا چیز ہے جو اپ کے اندر رکھی گئی ہے اور قران مجید کی عنایات کی شرح میں اپ کو یہ سمجھائیں گے کہ اصل میں توحید کا وہ علم ہے جس کو انسان اپنے باطن میں لے کر ایا
-
00:56:28 ٹھیک ہے ہم سب اپ نے بہت تفصیل سے بلکہ مولانا مودودی کا جو اقتباس پڑا ان کے نقطہ نظر سے کوئی اختلاف کرے یا اتفاق کرے لیکن جو زور بیان ہے ان کے قلم میں وہ بھی بے مثال ہے
-
00:56:39 بہت تفصیل سے اپ نے جو دوسری ایت ہے پہلے سے تھا پے اپنا نقطہ نظر بیان کیا اس پر جو سوالات اعتراضات علوم اٹھائے جاتے ہیں میں نے اپ کے سامنے رکھے
-
00:56:49 دوسری یے عہد الست کے ماخذہ کی بنیاد اللہ تعالی نے فطرت میں موجود توحید کے شعور کو قرار دیا ہے اس پر اپ نے اپنی بات بیان کی لیکن اس پر بھی بہت سارے اعتراضات ہیں جو کیے جاتے ہیں اور وقت چونکہ ہمارا یہاں پر ناظم ختم ہو رہا ہے انشاء اللہ اگلی نشست میں ہم غامدی صاحب کے سامنے وہ سارے اعتراضات رکھیں گے پھر معاوضے کی بنیاد توحید ہے اور فطرت کے اندر موجود ہے تو پھر اللہ تعالی نے قران میں جابجا کیوں یہ ذکر کیا ہے کہ ہم نے رسول بھیجے رسولوں کے ذریعے ہم نے اتمام حجت کیا اور پھر ان کے بعد ہم عذاب لے کر اتے ہیں اور پھر سورہ بقرہ میں وہ ایت ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ فطرت کا یہ دیا وحی کی لو اور وحی کی تخت اور وحی کے اقدام کے بغیر روشن نہیں ہو سکتا یہ سارے اعتراض انشااللہ غمزہ اگلی نشست میں اپ کے ساتھ زیر بحث لائیں گے اب تک اپ کے وقت کا بہت شکریہ
-
00:57:34 [Unintelligible]
-
00:57:35 [Unintelligible]
-
00:57:39 [Unintelligible]
Video Transcripts In English
Video Summry
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 01:00 گزشتہ سے پیوستہ 03:34 کیا حضرت آدم کے پاس صحیح اور غلط کا کوئی معیار نہیں تھا؟ 07:10 حضرت آدم و حوا نے شرم وحیا سے اپنے جسم ڈھانپے یا خوف سے؟ 12:51 کیا قرآن نے کہیں انسانی فطرت کو معیار بنانے کا حکم دیا ہے؟ 25:00 سورہ الروم کی آیت کے بارے میں امام ابن تیمیہ کی رائے 31:06 قرآن یہ بھی تو کہتا ہے کہ اپنی پیدایش کے وقت انسان کچھ نہیں جانتا تھا۔ 35:15 کیا انسانی فطرت کے فہم کے معاملے میں آپ کی رائے سلف سے مختلف ہے؟ 37:06 قرآن میں فطرت کے مقتضیات کہاں زیر بحث آئے ہیں؟ 45:39 فطرت کے مقتضیات کے بارے میں سلف کی رائے۔ 57:48 اختتامیہ
Video Transcripts In Urdu
Video Transcripts In English
Video Summary
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 01:00 گزشتہ سے پیوستہ 03:34 کیا حضرت آدم کے پاس صحیح اور غلط کا کوئی معیار نہیں تھا؟ 07:10 حضرت آدم و حوا نے شرم وحیا سے اپنے جسم ڈھانپے یا خوف سے؟ 12:51 کیا قرآن نے کہیں انسانی فطرت کو معیار بنانے کا حکم دیا ہے؟ 25:00 سورہ الروم کی آیت کے بارے میں امام ابن تیمیہ کی رائے 31:06 قرآن یہ بھی تو کہتا ہے کہ اپنی پیدایش کے وقت انسان کچھ نہیں جانتا تھا۔ 35:15 کیا انسانی فطرت کے فہم کے معاملے میں آپ کی رائے سلف سے مختلف ہے؟ 37:06 قرآن میں فطرت کے مقتضیات کہاں زیر بحث آئے ہیں؟ 45:39 فطرت کے مقتضیات کے بارے میں سلف کی رائے۔ 57:48 اختتامیہ
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 01:00 گزشتہ سے پیوستہ 03:34 کیا حضرت آدم کے پاس صحیح اور غلط کا کوئی معیار نہیں تھا؟ 07:10 حضرت آدم و حوا نے شرم وحیا سے اپنے جسم ڈھانپے یا خوف سے؟ 12:51 کیا قرآن نے کہیں انسانی فطرت کو معیار بنانے کا حکم دیا ہے؟ 25:00 سورہ الروم کی آیت کے بارے میں امام ابن تیمیہ کی رائے 31:06 قرآن یہ بھی تو کہتا ہے کہ اپنی پیدایش کے وقت انسان کچھ نہیں جانتا تھا۔ 35:15 کیا انسانی فطرت کے فہم کے معاملے میں آپ کی رائے سلف سے مختلف ہے؟ 37:06 قرآن میں فطرت کے مقتضیات کہاں زیر بحث آئے ہیں؟ 45:39 فطرت کے مقتضیات کے بارے میں سلف کی رائے۔ 57:48 اختتامیہ