Response to 23 Questions - Part 16 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi

Search for your favourite word

Video Transcripts In Urdu

  • 00:00:00 [Unintelligible]

  • 00:00:12 بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مکتبہ غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید ہم اس سلسلہ گفتگو میں 29 اعتراضات کا جائزہ لے رہے ہیں تو پھر وہ مقامی صاحب کے افکار پر پیش کیے جاتے ہیں اس سلسلے کی یہ سولویں نشستہ اور فطرت کا موضوع زیر بحث

  • 00:00:27 فطرت کے موضوع کی چوتھی نشست ہے جو لوگ اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہیں لازما اس سے پچھلی اقساط دیکھیں کیونکہ اس میں بات اگے سے شروع ہوتی ہے گزشتہ نشست میں غامدی صاحب نے بہت تفصیل کے ساتھ

  • 00:00:41 عہد الست سورہ اعراف کی وہ ایت جس کے اندر اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ معاشرے کی بنیاد قیامت کے دن اگر نبی کی ہدایت نہیں بھی پہنچی ہے تو کیا ہوگی اس پر بہت تفصیل سے بات ہوئی تھی اور ہم سے بہت شکریہ اپ کے وقت کا

  • 00:00:54 اواز کرتے ہیں اسی بحث کا اس کو اگے بڑھاتے ہیں

  • 00:00:58 اصل ہماری جو دینی بحث تھی یعنی ہم نے پہلے دو ایک سات میں بہت تفصیل سے مذہب کو ایک طرف رکھ کے

  • 00:01:05 عقلی لحاظ سے سمجھنے کی کوشش کی تھی کہ فطرت چیز کیا ہوتی ہے پھر میں نے اپ سے یہ سوال کیا تھا یہ بتائیے کہ جو چیز ہماری عقل مانتی ہے کیا مذہب بھی اس کو اسی طرح سے پوائنٹ اف ریفرنس بناتا ہے تو اپ نے ایک ایت پڑھی تھی فطرت اللہ ہے پھر دوسری ایت اپ نے تلاوت فرمائی سورہ اعراف کی ایت کی اس میں اپ نے یہ بات بتائی کہ فطرت کو کیسے پوائنٹ اف ریفرنس بناتا ہے قران مجید

  • 00:01:29 ان دو ایات پر

  • 00:01:32 صرف ان دو ایات پر تو ہمارے پاس ایت سے جو اپ نے تشریح کی اپ نے بلکہ سیلف کی عبارات کو بھی پیش کیا اور پھر مولانا مودودی کی تفہیم القران سے طبعی اقتباس پیش کیا میرے پاس ان کے الفاظ کے اوپر کوئی تنقید اپ کے فہم پر موجود ہو ایسی تو کوئی چیز نہیں ہے ضمنی بحثیں ہیں اطلاع کی بحثیں ہیں جو اس سے تصور پیدا ہوتا ہے اس کو ہم اگے زیر بحث لائیں گے میں یہاں سے اج کی صبح اغاز کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دو مقامات ہیں قران مجید کی اس کے علاوہ بھی کوئی مقام ہے الہامی کتاب کے اندر جہاں فطرت کا موضوع زیر بحث ہے وہ پیش کرتا ہوں

  • 00:02:06 لیکن اس سے پہلے میں یہ توجہ دلا دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے جو بحث اب تک کی ہے

  • 00:02:12 اس نے دو چیزوں کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی یعنی فطرت جب قران مجید بیان کرتا ہے تو صرف اتنی بات نہیں کرتا کہ یہ استعداد ہے جو تمہارے اندر رکھ دی گئی ہے

  • 00:02:25 بلکہ اس کو پورے دین کی اساس کے طور پر بیان کرتا ہے ہم نے جب سورہ روم کی ایت کو دیکھا تو اس میں صرف یہی نہیں کہا گیا کہ تمہاری فطرت میں یہ چیزیں بطور استعداد رکھی گئی ہے یہ بتایا کہ پورا دین یہی فطرت ہے اور اس کو پھر امر الہی میں بدل دیا لا تبدیل والے خلق اللہ فطرت ہے یہی سیدھا دین ہے اسی کی پیروی کا تم کو حکم دیا جارہا ہے مثبت طور پر اس کی پیروی کا حکم دیا جارہا ہے منفی طور پر تمہیں روکا جا رہا ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی اس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں

  • 00:03:04 ثانی یہ ہر لحاظ سے گویا موقد کرتی ہے اس بات کو جیسے انبیاء صادقین کے بارے میں فرمایا یعنی ان کی تعلیم انہوں نے جو دین پیش کیا جو دین کی روایتوں نے قائم کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پابند کیا گیا کہ اس کی پیروی کریں

  • 00:03:22 اسی طرح یہ بات جب واضح کی گئی کہ دین کی روایت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابراہیمی دین کی صورت میں ملی ملت ابراہیم کی صورت میں تو اس میں بھی ساتھ ہدایت کی گئی کہ یہ قبروں ملت ابراہیم خلیفہ تو قران مجید میں یہاں بھی یہی طریقہ اختیار کیا اسی طرح ہم نے یہ بات واضح کی کہ عہد انس میں صرف اتنا نہیں کہا گیا کہ یہ تمہاری فطرت میں ایک عہد رکھا گیا ہے کیا یہ واقعہ پیش ایا ہے تمہارے ساتھ اور ہم نے تم سے یہ عہد لیا تھا بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ سب ہوا کیوں تھا

  • 00:03:55 اور اس کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ قیامت کے دن 2,000 ہیں جن کو رفع کرنا مقصود ہے یعنی تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس تو پیغمبروں کی ہدایت نہیں پہنچی تھی ہم اس سے بے خبر تھے ہمیں معلوم نہیں تھا یا یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے ابا نے شرک کی روایت قائم کر دی تھی اور اس کی وجہ سے ہم اس سے اشنا نہ ہو سکے یہ دونوں ازاد پیش نہیں کر سکو گے اس کے سوا بھی کچھ ازار ہو سکتے ہیں جو اللہ تعالی کے ہاں مسنون ہو جائیں گے لیکن جہاں تک ان ازار کا تعلق ہے اس کو رفع کر دیا گیا ہے اس سے یہ بات قران میں واضح کر دی کہ یہ محض ایک استعداد کا بیان نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی اس کو حجت بنا رہے ہیں اس کی بنیاد پر مواخذے کے لئے کہہ رہے ہیں اس کی بنیاد پر موصول ٹھہرا رہے ہیں جواب دے ٹھہرا رہے ہیں یہ صورتحال ہے اس معاملے میں تو یہ دونوں ایات سے متعلق یہ چیز ملحوظ رہے اب اس کے بعد ہم اگے چلتے ہیں اگے قران مجید نے اپ یہ دیکھیے کہ تین مقامات ہیں جس میں اس بات کا ذکر کیا ہے

  • 00:04:59 سورہ القدر کو سب سے پہلے دیکھے

  • 00:05:02 وہاں پر یہ کہا ہے کہ انا خلق الانسان من نقطہ ہے یعنی ہم نے جب انسان کو ایک

  • 00:05:17 مجھ سے پیدا کیا ہے اور اس کے اندر سم و بصر کی صلاحیت رکھتی ہے یہ دیکھیے یہ انسان کو جو اللہ تعالی نے اس کی پیدائش کے ساتھ چیزیں دی ہیں ان کا ذکر کیا ہے اور فرمایا کہ اس کے ساتھ ہی ہم نے اس کو راستہ بھی دکھا دیا

  • 00:05:32 راستہ بھی دکھا دیا ہے یہ کون سا راستہ ہے یہ وہی فطرت کا راستہ ہے اب یہ دیکھیے کہ میں اس میں کوئی منفرد نہیں ہوں یہ بات کہنے میں

  • 00:05:45 یہ سب کچھ کے بارے میں کیا کہتے ہیں

  • 00:05:51 میں نے یہاں پر سبیل کہا ہے اور سورہ بلد میں اگے ہم دیکھیں گے یعنی دونوں راستے دکھا دیے تو سب کے سب ہمارے جو خدما ہیں

  • 00:06:04 اونچی ایک بڑی تعداد

  • 00:06:06 اس بات کو اسی طرح باتیں کرلیا دیکھئے کیسے واضح کرتی ہے

  • 00:06:13 یہ تابعین کروایا ابن زید ہے مجاہد ہے یعنی جمہور تابعین کا مذہب یہ ہے کہ اس سے مراد کیا ہے کہ ہم نے

  • 00:06:24 راستہ بازی کرنی ہے کس چیز کا شر و خیر کا کوئی تصور نہیں کسی کے ہاں کہ اس سے مراد میں استعداد کا رکھنا ہے کہ کوئی اکے بتائے گا کہ خیر یہ ہے اور شر یہ ہے کہ تم پہچان لو گے یہ بتایا کہ یہ راستہ ہم نے واضح کر دیا ہے اس کے بعد یہ دیکھیے

  • 00:06:41 اس کی دلیل کے طور پر ہمارے ہاں انڈیا کثیر ہے یعنی یہ چونکہ روایت پر مبنی تفسیر ہے تو اس لئے میں یہ عرض کر رہا ہوں اس کے بعد پھر وہ تمام چیزیں نقل کرتے ہیں جو اس سے پہلے ہم دیکھ چکے فطرت کی بحث میں یعنی یہ بتاتے ہیں کہ یہ وہی چیز ہے جس کا ہم اس سے پہلے ذکر کر چکے ہیں یہ سورہ دہر

  • 00:07:01 اب سورہ دہر کے بعد اپ سورہ غلط کو دیکھیے اس میں وہی نہ ہو نجدان کے الفاظ ہیں یعنی اس میں بھی بات انہی جگہوں سے شروع کی ہے جو انسان کی پیدائش کے ساتھ اس کو ملتے ہیں یعنی ہم نے کیا کیا ہے اب ذرا دیکھیے پیچھے سے بات کہاں سے ہوئی ہے

  • 00:07:21 کیا ہم نے انسان کو دو انکھیں نہیں دی کہ ان کی چیزوں کو دیکھے زبان نہیں دی کہ اس کی گواہی دے دو ہوٹ نہیں دیے کہ جب کھولے تو حق کو پہچان کر ان کی شہادت دے اور ہم نے اس کو دونوں راستے نہیں دکھا دیے یہاں پر بھی یہ دیکھیے کہ جلیل القدر تابعین بلکہ صحابہ تک کی اس معاملے میں جو تفسیر نقل ہوئی ہے وہ کیا ہے

  • 00:07:48 یعنی وہ دونوں راستے کیا ہیں خیر کا راستہ اور سر کا راستہ بڑے جلیل قدر تابعین کی پوری فہرست تعبیر ابن کثیر نے دی ہے سب کے سب یہی رائے رکھتے تھے یعنی راستے سے کیا مراد ہے کہتے ہیں خیر و شرط کا راستہ یعنی کوئی اس کو بحث نہیں جا رہا میں یہ عرض نہیں کر رہا کہ اس سے مختلف تفسیریں نہیں ہیں میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ جو بات ہم کہتے ہیں جو بات میرے جلیل قدر استاذ امین احسن اصلاحی نہ لکھی ہے یا جس چیز کو ہم فطرت کے مقدمات کے طور پر بیان کر رہے ہیں وہ کوئی ایسی منفرد رائے نہیں ہے اس سے پہلے سلف کے ہاں وہ چیز پوری طرح موجود ہے اب اس کے بعد ائیے سورہ شمس میں جس میں

  • 00:08:29 اس بات کی تفصیل کر دی گئی وہاں کیا ہے یعنی ہم نے نفس کا تزکیہ کیا نفس کو بنایا سنوارا اس کو ہر لحاظ سے درست کیا اور جب درست کیا تو کیا کیا یعنی اس کے اندر یہ چیز الہام کر دی کہ وہ چاہے گا تو اپنے پورے شعور کے ساتھ اپنے اختیار سے شروع کا راستہ اختیار کرلے گا اور چاہے گا تو اپنے اختیار سے تقوے کا راستہ اختیار کرلے گا پوری بات واضح کر دی کہ اس کا شعور دیا گیا ہے اس چیز کو سمجھنے کی صلاحیت دی گئی ہے اس کو انسان کے اندر ودیعت کر دیا گیا ہے اور پھر اس کے بعد اس کا نتیجہ بیان کر دیا گیا تو اس کے بعد چونکہ یہ چیز تمہارے اندر موجود ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تم اگر اپنے نفس کو پاکیزہ بناؤ گے وہی تزکیہ جو دین کا مقصود ہے تو فلاح پاؤ گے اور اگر اپنے اپ کو الودہ کر لو گے اپنے نفس کو الودہ کرو گے تو پھر اس کا نتیجہ بھی بیان کر دیا جس طرح وہاں یہ بیان کیا ہے کہ اس کی بنیاد پر جو کچھ تمہارے اندر ودیت ہے تم مصروف ٹھہرائے جاؤ گے اس سے نتائج نکلیں گے اس کے لئے جواب میں ٹھہرایا جائے گا یہاں بھی بالکل وہی بات کی اور یہاں یہ دیکھیے

  • 00:09:58 کیا ہمارے جو علماء ہیں یہ میں نے پھر عرض کیا کہ یہ ابن کثیر ہے اور یہ روایات کو جمع کر دیتے ہیں تابعین کی روایات صحابہ کی روایات ان کا اپنا جو اسکول ہے وہ بھی روایت کا اسکول ہے اس میں کوئی یکی خیال نہ کرے کہ یہ کوئی معتزلی ہے یا یہ کوئی عشری نقطہ نظر کے اس طرح کے لوگوں میں سے جو کلامی بحثیں کرتے ہیں لیکن یہ جو کچھ بیان کررہے ہیں جو کچھ منقول ہے جو کچھ صحابہ جو قدمہ جو کچھ تابعین کی اراء موجود ہیں اس کو یہ نقل کر رہے ہوتے ہیں زیادہ تر اسی کو نقل کرتے ہیں یعنی کلامی مباحث ان کے ہاں اس طرح نہیں ہوتے جس طرح بازی کیا ہوتے ہیں یا جس طرح زمخشری اپنے اعتدال کی باتیں بیان کرتے ہیں یہ تو تفسیر ماثور جس کو اپ کہتے ہیں نہ صحابہ کی تفسیر تابعین کی تفسیر اس کو جمع کر دیتے ہیں زیادہ تر اپنی بھی رائے دیتے ہیں اختلافات بھی بیان کرتے ہیں لیکن زیادہ تر ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے تو اب یہ دیکھیے کہ نفس نماز پر کیا لکھتے ہیں لکھتے ہیں خلق ایک خلق ہے اور اس کے بعد دلیل کے طور پر کیا پیش کی ہے اللہ تعالی نے جب اس نفس کو بنایا اور اس کو ہر لحاظ سے درست کیا اور یہ ایک ایسی واضح فطرت پر قائم کر دیا گیا تو یہ اصل میں اسی بات کا بیان ہے جو اس سے پہلے سورہ روم میں زیر بحث ا گئی اور وہاں انہوں نے اس کا حوالہ دیا اچھا اس کے بعد رسالت میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے نقل کرتے ہیں دلیل کے طور پر پہلی کیا ہے یعنی ہر بچے کی پیدائش اصول میں فطرت پر ہوتی ہے یہ وہاں واضح کر چکے ہیں کہ ہمارے سلف اس سے مراد کیا لیتے تھے اسلام اور نہ ہی اپ کی خدمت میں گزارش کر چکا کہ وہاں اسلام سے مراد ظاہر ہے کہ یہ نماز روزہ نہیں ہے یہ شریعت نہیں ہے اس سے مراد ہے وہ اسلام جو انسان کی فطرت کے اندر ہے تو کیا یہ اسلام سے اس لفظ کی تفسیر کی جا سکتی ہے اگر یہ میچ استعداد کا بیان کے شعور کے ساتھ انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کے بعد دیکھیئے

  • 00:12:00 اگے چل کے یہ کہتے ہیں

  • 00:12:02 ابن عباس کی رائے ہے اس کے بارے میں کیا ہے شر کو واضح کر دیا

  • 00:12:12 تانی خود ابہام نہیں ہے یہ محض کوئی استعداد کا بیان نہیں ہے خیر و شر کے راستے واضح کیے گئے ہیں اس میں پھر تابعین کی اراء بیان کرتے ہیں کہ ان کا نقطہ نظر بھی اس معاملے میں یہی رہا ہے یعنی گویا یوں سمجھ لیجئے کہ ہر لحاظ سے ایک چیز کو بالکل متعین کر دیتے ہیں کہ یہ طریقہ ہے جو اس اللہ پروردگار عالم نے انسان کی ہدایت کے لئے اختیار کیا ہے تو اس سے اپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہم اس معاملے میں کہتے ہیں وہ ایسا نہیں ہے کہ سلف کے نقطہ نظر سے بالکل ہٹا ہوا ہے بلکہ سلف میں بھی صحابہ میں بھی تابعین میں بھی خطبہ میں بھی اس کے قائدین موجود ہیں اور وہ بیان کرتے ہیں اس کو قران مجید کی ایک واضح ہدایت ہے اب ذرا اج کے زمانے کو دیکھ لیجئے یہ مولانا سید عمر صاحب مودودی ہیں اس سے پہلے میں اپ کو اہل انست کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ انہوں نے کس خوبصورتی کے ساتھ

  • 00:13:04 اور کس تفصیل کے ساتھ یہ بیان کیا ہے کہ وہ عہد کیا تقاضے پیدا کرتا ہے اس سے کونسا علم ہمیں حاصل ہوتا ہے اور ہم اس کی بنیاد پر کس طرح جواب دے ٹھہرائے جائیں گے یہاں دیکھئے بہت سی چیزیں بیان کرنے کے بعد یہ الہام کیا ہوا ہے ظاہر ہے اس الہام کے بہت سے پہلو ہیں پھر اس کے بعد یہ کہتے ہیں ان دونوں حیثیتوں کے علاوہ یہ تفہیم القران ہے اور یہ سورہ شمس کی تفسیر ہے ان دونوں حیثیتوں کے علاوہ انسان کی اور حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک اخلاقی وجود اور اس حیثیت سے بھی اللہ تعالی نے اسے خیر و شر کا امتیاز اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا اب یہ دیکھیے خیرو شرق کا امتیاز اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا ہے یہ امتیاز و احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کو ہم میرے پاس لاچکے کے کس طرح جب ہمارا احساس ہمارے لئے علم کی بنیاد بنتا ہے تو اگے استقراء سے وہ کیسے عالمگیر صداقتوں میں بدل جاتا ہے

  • 00:14:09 یہ امتیاز ہو احساس ہے ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیر و شر کے تصورات سے خالی نہیں رہا ہے

  • 00:14:19 اور کوئی ایسا معاشرہ تاریخ میں کبھی پایا گیا ہے نہ پایا جاتا ہے جس کے نظام میں بھلائی اور برائی پر جزا اور سزا کی کوئی نہ کوئی سورۃ اختیار نہ کی گئی ظاہر ہے یہ اجمالی علم ہے اس کو بیان کر رہے ہیں اس چیز کا ہر زمانے ہر جگہ اور ہر مرحلہ تہذیب و تمدن میں پایا جانا اس کے فطری ہونے کا شرعی ثبوت

  • 00:14:43 اور مزید بنائیے اس بات کا ثبوت بھی ہے

  • 00:14:47 ایک خالق حکیم و دانہ نے اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا کیونکہ جن اجزاء سے انسان مرکب ہے اور جن قوانین کے تحت دنیا کا مادی نظام چل رہا ہے ان کے اندر کہیں اخلاق کے ماخذ کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی

  • 00:15:04 اس کا مطلب ہے کہ یہ سراسر اس پروردگار کا الہام ہے یعنی یوں نہیں ہے کہ اپ یہ بتا سکتے ہیں کہ انسان کے جو زندگی پیدا کرنے والے اجزاء ہیں ان کی تعلیم سے جو چیز ایسے لباٹری میں وجود پذیر ہو جاتی ہے

  • 00:15:20 بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک مادی وجود کو تو

  • 00:15:25 زمین پر پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے لیکن یہ الہام خیر و شر کے اسمان سے اتا ہے تو یہ اللہ کی وحی ہے یہ اللہ کا الہام ہے اس کو الہام ہے کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ دین کی پہلی ہدایت ہے اس کا ماخذ بھی پروردگار ہے اس میں میرے اندر اس کو ڈالا ہے انسان کی حیثیت سے اور اس کو میں لے کے پیدا ہوتا ہوں اب یہ دیکھیے کہ یہ تو قران مجید یعنی قران مجید میں کس طریقے سے پہلے یہ بتایا کہ پورا دین فطرت پر مبنی ہے پھر یہ بتایا کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے پھر یہ بتائیں کہ ظاہر ہے یہی سیدھا دین ہے پھر عہد انس کا حوالہ دیا اور واضح کیا اس بات کو کہ توحید کے معاملے میں انسان موصول اور جواب دہ ہے اگرچہ اس کو پیغمبروں کی ہدایت نہ پہنچی ہو اور اسی طرح یہاں یہ بتایا کہ خیر و شر کا معاملہ بھی یہی

  • 00:16:17 یعنی یہ جو اخلاق کی خیر و شر ہے جس میں ہم یہ فیصلہ سناتے ہیں کہ یہ چیز صحیح ہے یہ چیز غلط ہے اخلاقی لحاظ سے غلط ہے اس کو بھی اللہ تعالی نے انسان کے اندر دیت کیا ہے اور انسان اس چیز کو لے کے پیدا ہوا ہے اور جب وہ اس کو لے کے پیدا ہوا ہے تو وہ اس چیز کا شعور رکھتا ہے اور اس کی بنیاد پر اپنی زندگی کا لائحہ عمل بناتا ہے اور جب بناتا ہے تو اپنے شعور کی بنیاد پر جواب بھی ٹھہرایا جاتا ہے اپ یہ دیکھئے دنیا میں بھی ہم اسی بنیاد پر انسان کو جواب دیتا رہتے ہیں اللہ تعالی کہتے ہیں میں قیامت میں بھی اسی بنیاد پر جواب میں ٹھہراؤں گا اگر تم اپنے اس نفس کا تزکیہ کرتے ہو اسے پاکیزہ بناتے ہو تو اس کا صلہ فلاح ہے اور ظاہر ہے قران جب فلاں کہتا ہے تو اس کا مطلب ہے خدا کی ابدی بادشاہی جنت یہ خدا کی ابدی بائی کی طبیعت جنت کے لیے ہے یہ کیوں اختیار کی جاتی ہے اس لیے اختیار کی جاتی ہے کہ وہاں اپ کو عبدیت حاصل ہوگی قران جگہ جگہ یہ کہتا ہے کہتا ہے تو وہ نعمت کبھی ختم نہیں ہوگی خالدین فیہا ابدا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ بادشاہی ہے کیونکہ وہی تو وہ جگہ ہے کہ جہاں پر لکھی ہے جو چاہو گے تم کو مل جائے گا اس سے بڑی بادشاہی کیا ہو سکتی ہے تو خدا کی جنت اسی کے صلے میں ملے گی اسی کو قران فلاں سے تعبیر کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اگر اپنے نفس کو الودہ کر بیٹھو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پھر وہاں خائب و خاسر ہو کر رہ جاؤ گے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو ہم نے پوری بنیاد واضح کی ہے کہ اس طرح نہیں ہے کہ انسان

  • 00:17:48 پینا نہیں ہے دیکھ نہیں سکتا

  • 00:17:52 اس کو تو انڈا پیدا کیا گیا ہے نہ اس کے پاس سماں بصر کی صلاحیتیں ہیں نہ اس کے پاس کوئی عقل ہے نہ وہ چیزوں کا فیصلہ کرسکتا ہے بس پیغمبر ہی اکے اس کو بتاتے ہیں کہ کیا چیز خیر ہے اور کیا شر ہے قران مجید اس کے بالکل برخلاف یہ کہتا ہے کہ اندر بھی ایک علم موجود ہے یہ بھی خدا کا الہام ہے

  • 00:18:12 اور اس الہام پر مبنی کرکے پھر اللہ تعالی اپنی شریعت دیتے ہیں پیغمبر اکے اصلاح کرتے ہیں اختلافات کا فیصلہ کرتے ہیں یہ باہمی ربط ہے جو اللہ تعالی کے فطری الہام اور وحی میں قران میں قائم کیا یہ بات اگر قران مجید کی حد تک واضح ہو گئی تو میں چاہتا ہوں کہ ہم اس گفتگو کا خاتمہ اس حدیث پر کریں جس پر رسالت کو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس بات کو بہت خوبی کے ساتھ واجب ہے اپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر جو کچھ ہم نے قران مجید کے ان پانچ مقامات سے سمجھا ہے اور جب ہم اس کو ایک ترتیب سے سمجھتے ہیں تو ایک تصور ذہن میں پیدا ہوتا ہے سلف کی اراء اور متفرق مقامات پر کہیں وہ تو ہم نے دیکھنی ہے کہ نہیں جو فہم ڈویلپ ہوا ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں یا نہیں کرتے یہ اپ بتانا چاہ رہے ہیں اس سے پہلے بھی بعض روایات کی طرف توجہ دلائی ابن کثیر نے توجہ دلائی یہ بتایا ہے کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وضاحت کی ہے کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وضاحت کی ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو اللہ تعالی فرماتے ہیں حدیث قدسی ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا ہے انہوں نے غلط راستے پر لے جاتے ہیں یہ سب باتیں اس سے پہلے بھی قران مجید کے حوالے سے اور حدیث کے حوالے سے میں پیش کر چکا ہوں لیکن یہ بڑی جامع تعبیر ہے جس میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ہر لحاظ سے واضح کر دیا اور میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم نصوص کی بحث یعنی قران مجید کیا کہتا ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں اس کو اس روایت پر ختم کریں یہ بھی ایک نظر اس کے اوپر ڈال لیجئے

  • 00:19:46 پہلے میری بات عرض کردوں کہ یہ جو روایت ہے اس پر ہم کام کر چکے ہیں اس کو ہمارے ہاں جو حدیث پر کام ہے اس میں لوگ دیکھ سکتے ہیں یہ مسند احمد کی روایت ہے اور 176 ستمبر ہے

  • 00:20:00 اس کا متن وہاں سے لیا گیا ہے اب ذرا سنیے

  • 00:20:03 علی ابن عباس بن سامان علی انصاری

  • 00:20:06 الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صراط المستقیم

  • 00:20:13 والا جنت سراط سوران

  • 00:20:16 شینا بابو مفتی

  • 00:20:21 واہ بھابھی صراط دائمی یعقوب

  • 00:20:24 ای الناس

  • 00:20:25 [Unintelligible]

  • 00:20:31 فائزہ ارادہ یک تو شہید کال وحی کا لاتفہ

  • 00:20:38 ائینہ کا ان تختہ ہو

  • 00:20:40 والسلام الاسلام مستوران حدود اللہ

  • 00:20:45 غلب بابول وفد کہاں محارم اللہ کتاب اللہ

  • 00:20:52 وہ گائی مین فوکس سراط

  • 00:20:54 واعظ اللہ فی قلب کل مسلم ٹھیک کافی تفصیل سے ترجمہ سنیے بکواس بن سمان

  • 00:21:04 رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

  • 00:21:09 اللہ تعالی نے سیدھے راستے کی مثال دی ہے

  • 00:21:13 اس کے دونوں اطراف دو دیواریں کھنچی ہوئی ہیں صراط مستقیم کی سیدھے راستے کی یعنی وہ راستہ جس کو پیغمبر بتانے ائے ہیں سیدھے راستے کی مثال دی ہے کہ اس کے دونوں طرف دو دیواریں کھینچی ہوئی ہیں دونوں میں دروازے کھلے ہیں

  • 00:21:29 جن پر پردے پڑے ہوئے

  • 00:21:31 راستے کی ابتدا میں پکارنے والا پکار رہا ہے راستے کی پناہ میں کہ لوگو سب اندر ا جاؤ اور راہ چھوڑ کر کرا نہ چلو

  • 00:21:41 پینی سیدھے راستے پراؤ اور راستے کے اوپر بھی ایک منادی ہے یہ دیکھئے راستے کی ابتدا میں ایک پکارنے والا پکار رہا ہے اور راستے کے اوپر بھی ایک منادی ہے چنانچہ کوئی شخص اگر دروازوں کا پردہ کچھ بھی اٹھانا چاہتا ہے تو وہ پکار کر کہتا ہے خبردار پردہ نہ اٹھانا اس لئے کہ اٹھاؤ گے تو اندر چلے جاؤ گے

  • 00:22:03 اب یہ دیکھیے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم اس تمثیل کی وضاحت کرتے ہیں سو یہ راستہ اسلام ہے

  • 00:22:09 اچھا دیواریں اللہ کے حدود ہیں

  • 00:22:12 کھلے ہوئے دروازے اس کی قائم کردہ حرمتیں ہیں

  • 00:22:17 [Unintelligible]

  • 00:22:18 راستے کی ابتدا میں پکارنے والی وہ خدا کی کتاب ہے

  • 00:22:23 کاہے نہ کے راستے کی ابتدا میں پکارنے والا ہے اور اوپر سے پکارنے والا خدا کا وہ واحد ہے جو ہر مسلمان کے دل میں

  • 00:22:32 دل میں

  • 00:22:33 اور اوپر سے پکارنے والا منادی خدا کا وہ واعظ ہے جو ہر مسلمان کے دل میں

  • 00:22:39 یہ حدیث کا ترجمہ ہے یہ نہیں اس کا ترجمہ نقشب نفس میں نے اپ کو سنا دیا اور اسی پر پھر میں نے ایک نوٹ لکھا ہے یہ ٹھیک اسی حقیقت کا بیان ہے جو قران مجید سے وہ نفس والا

  • 00:22:55 اور نفس اور جیسا اسے سنوارا پھر اس کی بدی اور نیکی اسے سدھاری کے الفاظ میں بیان فرمائی یعنی یہ روایت گویا تفسیر ہے قران مجید کے اس بیان کی مطلب یہ ہے کہ جس طرح خدا کا الہام

  • 00:23:11 قران ہے قران مجید اللہ کی وحی ہے اسی طرح کا ایک الہام خدا نے انسان کی فطرت میں بھی کیا ہے

  • 00:23:19 چناچہ دین کی ہدایت وہ اسلم اپنے خالق کی طرف سے لے کر اتا ہے

  • 00:23:24 قران اسی ہدایت کی یاد دہانی ہے اور دونوں میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ فطرت میں جو کچھ بالاجمال ودیت ہے

  • 00:23:34 قران اس کی تفصیل کر دے یعنی جو باہمی تعلق ہے وہ کیا ہے وہ الہام جو ہماری فطرت میں ہے وہ برج مال

  • 00:23:42 کین یو اس میں چیزوں کی تفصیل نہیں ہے تائید نہیں ہے تہدید نہیں ہے اور قران اس کی تفصیل کر دیتا ہے تاہم فطرت کی یہ ہدایت

  • 00:23:51 خدا کی منادی اسی وقت بنتی ہے جب انسان اپنے دل و دماغ کو مسلمان بنا لی

  • 00:23:57 یعنی جس وقت انسان اپنے اندر ایک قلب سلیم پیدا کرتا ہے تو پھر یہ منادی وہ سنتا بھی ہے اس پر کان بھی ڈرتا ہے یہ سب کچھ ہے اس کے اندر لیکن اس کو سننے کے لئے ایک تلاوت کی ضرورت ہوتی ہے اور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شرح فرما دیا یہ بتا دیا کہ اس طریقے سے اللہ تعالی نے دو اہتمام کیے ہیں فطرت کی ہدایت یہ ایک اہتمام ہے اور اس کے بعد پیغمبر اور پیغمبروں کے ذریعے سے جو کتاب نازل کی ہے یعنی قران وہ ایک دوسرا ذریعہ ہے ہمارے پاس جائے اور پرانی ہے اب میں یہ چاہتا ہوں

  • 00:24:32 کیا اپ چند الفاظ بھی سن لیجئے کہ جن میں اس سارے مقدمے کا میں نے خلاصہ کیا ہے یہ سورہ شمس ہے اور یہ میری تفسیر البیان

  • 00:24:42 میں نے یہ لکھا ہے یہ جو کہا ہے نا وہ نفس والا اور نفس اور جیسا اسے سوارہ

  • 00:24:48 یہ تصویر کا نتیجا بیان ہوا

  • 00:24:51 اللہ تعالی نے جس طرح انسان کو دیکھنے کے لئے انکھیں اور سننے کے لئے کان دیے یہ دیکھنے کے لئے انکھیں اور سننے کے لئے کام پیدائش کے ساتھ ملے

  • 00:25:02 [Unintelligible]

  • 00:25:03 بالکل اسی طرح نیکی اور بدی کو الگ الگ پہچاننے کے لئے ایک حادثہ اخلاقی بھی عطا فرمائے

  • 00:25:10 اللہ تعالی اسی طرح اس کو بیان کرتے ہیں یعنی یہ تم سنی بنائے گئے ہو بصیر بنائے گئے ہو تمہیں میں نے بینا بنایا ہے دیکھنے والا بنایا ہے یہ دیکھنا میں اشیاء کا دیکھنا نہیں ہے بلکہ چیزوں کو دیکھنا ان کے اندر اترنا ان کی حقیقت کو سمجھنا یہ وہ شعور ہے جس کو اللہ تعالی اپنی بہت بڑی عنایت کے طور پر ذکر کرتے ہیں وہ محض ایک حیوانی اور عقلی وجود ہی نہیں ہے اس کے ساتھ ایک اخلاقی وجود بھی

  • 00:25:36 اس کے معنی یہ ہیں کہ خیر و شر کا امتیاز اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے دل و دماغ میں اعلان کردیا گیا ہے بعض دوسرے مقامات پر یہی حقیقت ہم نے اسے خیر و شر کی راہ سجا دی اور ہدایت نجدین ہم نے

  • 00:25:59 کیا اسے دونوں راستے نہیں سجائے یہ الفاظ میں واضح کی گئی ہے یہی مقامات ہیں جن کو اس سے پہلے میں اپ کو پڑھ کے سنا چکا یہ امتیاز و احساس ایک عالم بھی حقیقت ہے

  • 00:26:12 ادم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دینے کے بعد اس کی لاش چھپانے کی کوشش کی تھی تو ظاہر ہے کہ احساس گناہ کی وجہ سے کی تھی

  • 00:26:24 چناچہ برے سے برے ادمی کی گناہ کرتا ہے تو پہلے مرنے میں اسے چھپانے کی کوشش

  • 00:26:29 اور اس کی مثال کیا ہے یہ جو قابیل و ہابیل کا واقعہ ہے

  • 00:26:35 یہی معاملہ نیکی کا

  • 00:26:37 انسان اس سے محبت کرتا ہے اس کے لئے اپنے اندر عزت و حرام کا احترام کے جذبات پاتا ہے اور اپنے لئے جب بھی کوئی معاشرت پیدا کرتا ہے اس میں حق و انصاف کے لئے لازما کوئی نظام قائم کرتا ہے یہ اس امتیاز خیر و شر کے

  • 00:26:52 ارے بھلائی اور برائی خیر و شرم چارج ہے خیر و شر کی فطری ہونے کا شرعی ثبوت ہے

  • 00:26:59 اس میں شبہ نہیں کہ برائی کے حق میں انسان بعض اوقات بہانے بھی تراش لیتا ہے لیکن جس وقت کا راستہ ہے اسی وقت جانتا ہے کہ یہ بہانے وہ اپنی فطرت کے خلاف تراشنا ہے اس لئے کہ وہی برائی اگر کوئی دوسرا اس کے ساتھ کر بیٹھیں تو بغیر کسی تردد کے منہ سے برائی ٹھہراتا اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بنتا

  • 00:27:21 یہ خلاصہ ہے کہ اللہ کی کتاب وہ بات کیسے بیان کرتی ہے

  • 00:27:26 روایت تو میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم کس طرح دی ہے

  • 00:27:31 ہمارے یہاں کی جو علمی روایت ہے اس میں اس کو کس طرح سمجھا گیا ہے

  • 00:27:36 اس میں نے وہ تمام فوائد اپ کے سامنے رکھ دیے

  • 00:27:40 خلاصہ کیا ہے جو میں سب نے فطرت پر کی ہے جو نقطہ نظر میں نے مختلف جگہوں پر بیان کیا ہے ایسا نہیں ہے کہ میں اس میں منفرد ہوں اس کے پیچھے یہ ساری علمی روایت موجود بہت شکریہ اپ نے بڑی تفصیل سے قران مجید کے وہ تمام مقامات پیش کر دیے

  • 00:27:59 اور میں چونکہ ظاہری بات ہے میں اس نشست میں اعتراضات کا جائزہ لے رہے ہیں جو جو کچھ اپ کے تصورات کے اوپر لکھا گیا ہے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں بھی اس کو پڑھتا ہوں

  • 00:28:09 تو یہ جو ایات اپ نے پیش کی ہیں ان ایات میں جو اپ نے الفاظ کا ترجمہ کیا ہے یا مثلا ایت کے اندر جو جو باہمی ریلیشن ہے چیزوں کا وہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہاں پر نفس سے مراد کیا ہے خیر سے مراد کیا ہے فضول سے مراد کیا ہے عہد الست میں باقی جن سے کیا مراد ہے خود بھی اپ نے اس کی تفصیل سے وضاحت کر دی کہ سیلف کیا کہتے ہیں لیکن اس کے اوپر تو کوئی اعتراض میرے پاس نہیں ہے کہ میں یہ بتاؤ کہ اپ نے ایت کا ترجمہ ٹھیک نہیں کیا اس طرح ہم نے اپ کو یاد ہوگا کہ پردے کی بھینس کے اندر کچھ الفاظ کے اوپر اختلاف ہو گیا تھا کہ بھائی یہاں پر غزوہ بدر سے مراد کیا ہے ان کے اطلاقات پے

  • 00:28:46 وہ تو یہاں پر نہیں ہے لیکن

  • 00:28:48 ان ایات کو جب اپ پڑھتے ہیں اس سے اپ کا ایک فطرت کا تصور بنتا ہے ایک نظام فکر بنتا ہے

  • 00:28:55 اس نظام فکر پر البتہ میرے پاس بہت زیادہ اعتراضات ہیں اور میں چاہتا ہوں میں ان میں سے ایک ایک کا جواب دوں گا لیکن میں پھر اپنی بات دہرانا چاہتا ہوں یا نہیں کیا میرے معترضین قران مجید کی ان ایات کو ان احادیث کو موضوع بنا کر یہ بتاتے ہیں کہ ان کے ترجمے میں نے کوئی غلطی کی ان کا مدعا بیان کرنے میں غلطی کی ان میں جو بات بیان کی گئی ہے اس میں غلطی اپ کیسے واضح کریں گے اپ یہ بتائیں گے یہاں لفظ کا مطلب ٹھیک نہیں بیان کیا گیا جملے کی تعریف کو ٹھیک نہیں سمجھا گیا سیاق و سباق میں وہ بات نہیں بیان ہوئی ایسے ہی کریں گے نا تو اگر اس طرح کی کوئی چیز بھی ہے تو اعضا ہے کرم پہلے اسے موضوع بنا لیں گے یعنی کسی بھی معترض نے کیا یہ بتایا ہے کہ قران مجید کی یہ تفسیر جو ہم کر رہے ہیں یہ تفسیر میں نے پہلی بار نہیں کی

  • 00:29:43 میں اپ سے یہ عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں اسلاف میں بھی موجود ہے میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ مولانا سید عمران صاحب مودودی جیسے صاحب علم میں دور حاضر میں بیان کی ہے میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ میرے جلیل القدر استاذ مولانا امین احسن اصلاحی نے تدبر قران میں ان کو اسی طرح سمجھا ہے اور اب میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ میں نے بھی اسی چیز کو بیان کیا ہے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے اور خاص طور پر میزان میں دین کا پورا مقدمہ یہیں سے اٹھایا ہے یہ جو پوری بات ہے یہ محض کوئی عقلی مقدمات کا مجموعہ نہیں ہے کوئی فلسفہ نہیں ہے جو گھر میں بیٹھ کے بنا دیا گیا ہے یہ قران مجید کے نصوص ہیں ان نصوص میں کوئی صاحب علم کہہ سکتا ہے کہ بات کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے وہ کیسے بتائے گا ظاہر ہے وہ نفس کی بحث کرے گا وہ تاریخی جملہ کی بحث کرے گا وہ سیاق و سباق کی بحث کرے گا اس طرح کی کوئی چیز اس کے خلاف اگر موجود ہو تو میں سب سے پہلے یہ چاہوں گا کہ اس کو موضوع بنا دیں اس کے بعد جتنے اعتراضات ہیں میں ان کے لئے حاضر ہیں اپ نے پیش کی ہیں اس کو تو جو معترضین ہیں وہ بھی ان ایات کو ظاہری بات ہے قران کی ایات ہیں ایات مانتے ہیں ترجمہ بھی کرتے ہیں

  • 00:30:53 ان کے اوپر کوئی لفظی اشکال کے ترجمہ ٹھیک نہ کیا ہو جملے کی تعریف کیسے اپ کو سب اپ اس طرح کی کوشش تو میرے پاس پیش کرنے کے لئے نہیں ہے لیکن البتہ ان کو مان کر جو تصور بنتا ہے یا جو اطلاق میں صورتحال ہے جس کی جو تفصیل ہے اس کے اوپر بہت بڑے اعتراضات ہیں تو پہلے سوال جواب میں ویسے تو میں سوال کرتا ہوں اپ نے مجھ سے سوال کیا ہے تو پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ ایت کے اوپر تو کوئی اس طرح کی چیز نہیں ہے میرے پاس اور وہ خود بھی اپ نے جو کہ خود واضح کر دی کہ سیلف کا اس میں کیا نقطہ نظر ہے البتہ

  • 00:31:24 اب ہم اگے بڑھتے ہیں اس بھینس کو دینیاتی ینی عقلی پہلو سے شروع کی مذہبی نصوص پوائنٹ اف ریفرنس سے اپ نے ان کو بتایا

  • 00:31:31 اب میں وہ تمام اعتراضات میں ترتیب اپ کے سامنے رکھوں گا

  • 00:31:36 کہ جو اپ کے تصور فطرت کے اوپر پیدا ہوتا ہے یہ ایت کو پڑھنے کے بعد پیدا ہوتا ہے اعتراضات میں سے ایک ایک کا جواب بھی ہوگا اور اس میں جتنی نشستیں بھی ہوں گی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن میں نے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا اس میں کوئی وہاں ہے یعنی میرا نقطہ نظر عقلی لحاظ سے کیا ہے قران مجید کے نصوص کی بنیاد پر میں کیا بات کر رہا ہوں اور وہی کا اور اس الہام کا یعنی جو فطرت کا علم ہے ان کا باہمی ریلیشن کیا سمجھتا ہوں باہمی تعلق کیا سمجھتا ہوں یہ بات واضح ہوگئی تو اب میرے نزدیک یہ اصل دین ہے

  • 00:32:10 یعنی دین کی بنیاد اللہ تعالی نے میرے اندر رکھی ہے یہ بالجمال رکھی ہے اسی کی تصویر اسی کی یاد دہانی یہ انبیاء علیہم السلام کرتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی بنیاد حقیقت میں کیا بنی ہے اللہ تعالی نے جو وہ بنیاد قائم کی تھی یعنی وحی اور الہام کے تعلق سے سیدنا ادم علیہ السلام سے جو بنیاد قائم کی تھی اس میں اختلافات ہیں جن کو رفع کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری کیا گیا یہ بات بھی قران مجید نے شرعی محسوس میں بیان کر دی واحدہ فخت نفو

  • 00:32:48 اختلافات پیدا ہوئے اور دوسری جگہ بقرہ میں یہ کہا تو بات اللہ النبیین مبشرین و منذرین اور اس میں ایت کا خاتمہ اس پر کیا ہے کہ ان کے ساتھ ہم نے کتابیں نازل کیں کس لئے تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کر دے تو میری پوری بات واضح ہو گئی اب اس کے بعد میں اعتراضات کا جواب دونگا سب سے پہلا جو اعتراض کیا جاتا ہے ان تمام ایات سے جو انٹرپریٹیشن جو تصور جو مفہوم اپ نے اخذ کیا وہ اعتراض یہ ہے کہ یہ ایتیں برحق ہیں ان سے کوئی اختلاف نہیں ان میں بات اللہ میاں نے کر دی ہے

  • 00:33:25 لیکن قران مجید صرف ان ایات پر مشتمل نہیں ہے قران کا ایک بڑا حصہ ہے 6,000 ایات ہیں

  • 00:33:32 تو قران مجید کے ایسے بے شمار مقامات ہیں کہ جن کو نظر انداز کیا ہے غامدی صاحب نے محض عنایات کو پڑھتے ہوئے اور تصور فطرت بناتے ہوئے

  • 00:33:43 ان میں سے چند ایتیں میں اپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں

  • 00:33:46 پہلا اعتراض یہ ہے کہ قران مجید نے مواخذے کی بنیاد

  • 00:33:51 محض فطرت کو قرار نہیں دیا بلکہ معاشرے کی بنیاد پیغمبروں کی دعوت پیغمبروں کی ہدایت اور پیغمبروں کی بعثت کو قرار دیا ہے اللہ تعالی نے کہا ہے سورہ یونس میں اللہ تعالی نے کہا ہے کے لئے اللہ یکون الناس للہ اللہ تعالی نے کہا ہے کہ بے شمار مقامات ہیں بتایا ہے کہ رسول کو بھیجتے ہیں تو سوال کرتے ہیں رسول کا انکار کرو گے تو عذاب ائے گا

  • 00:34:20 سوال میرا یہ ہے اپ سے کہ یہ تصور و فطرت جب اپ اخذ کر رہے تھے کہ جی مواخذے کی بنیادی ہے تو قران مجید تو ہر جگہ اعتراض ہی کیا جاتا ہے کہ یہ بتا رہا ہے کہ رسول رسول ائیں گے ان کی دعوت کا انکار ہوگا تو اللہ پوچھے گا تو وہ ایتیں اپ نے فطرت کے تصور میں بیان کرتے ہوئے کیوں نہیں پڑھی قران مجید

  • 00:34:40 تو جب اپ پڑھتے ہیں

  • 00:34:42 تو اپ یہ دیکھتے ہیں کہ کون سی بات کس محل میں کہی گئی ہے دیکھیے ایات کو نہیں اٹھایا جاتا

  • 00:34:49 جہاں کہیں کوئی ایت ائی ہے وہاں اس سے کس بات پر استدلال کیا گیا وہ پوری بات سمجھی جائے گی نہ تو یہ جتنے مقامات کی طرف اپ نے اشارہ کیا ہے اپ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو نظر انداز کیا

  • 00:35:01 میں نے ہی تو اپنی پچھلی ساری زندگی میں پچیس تیس سال سے اس اصول کو واضح کیا ہے جس کو یہ ایات بیان کریں یعنی وہی قانون اتمام حجت

  • 00:35:13 اللہ تعالی نے قران مجید میں یہ بتایا ہے کہ انسان کو میں کس کس پہلو سے ہدایت دیتا ہوں کس کس پہلو سے اس کے لئے ہدایت کا اہتمام کرتا ہوں اور پھر میں جواب دہی میں کس کس انداز سے اس کو اپنے سامنے موصول ٹھہراتا یہ پوری بات بیان ہوئی ہے تو دیکھیے اب ہم اس جگہ سے بات شروع کرتے ہیں جہاں سے میں نے اس کو پیش کیا پہلی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جن تک اللہ تعالی کی ہدایت پیغمبروں کے ذریعے سے نہیں پہنچی جن کے پاس اس سے پہلے شرک کی ایک روایت موجود ہے جن تک کسی پیغمبر نے اکے بات نہیں پہنچائی یا پیغمبر کی بات کو پہنچنے کے ذرائع دستیاب نہیں ہو سکے ان لوگوں کے معاملے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں وہ تمہاری فطرت میں جو کچھ میں نے وصیت کیا ہے اس پر پوچھو تو یہ بتا دیا کہ توحید کے معاملے میں تم یہ عذر نہیں پیش کر سکو گے کہ کوئی پیغمبر نہیں ایا کہہ سکو گے کہ ہمارے ابا نے شرک کی روایت قائم کر دی تھی

  • 00:36:08 خیر و شر کا جو اجمالی پہلو ہے یعنی جس میں اپ خیر کو خیر و شر کی حیثیت سے سمجھتے بھی ہیں اس کے مطابق شعوری فیصلے بھی کرتے ہیں اور پھر اپنے اپ کو جواب دہ بھی ٹھہراتے اس کو اللہ تعالی نے بنیاد بنایا ہے اپنے تمام مقدمات کی اور یہ کہا ہے کہ قیامت تک کا تصور اصل میں جس شہادت سے شروع ہوتا ہے وہ نفس لوامہ کی شہادت اور اس بات کا خاتمہ کہاں کیا ہے یہ بنیاد ہے اس کے بعد اگے کیا ہوتا ہے اگے ہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو عقل دی

  • 00:36:47 انسان کے گرد و پیش میں انفس و افاق کی نشانیاں ہیں یہ سب ذریعہ دعوت ہے ان سے بھی اللہ کا پیغام پہنچ رہا ہے

  • 00:36:55 اور ان سے اگے بڑھ کر پھر نبیوں کا سلسلہ ہے

  • 00:36:59 ائی لو یو کے ذریعے سے اللہ تعالی کیا کر رہے ہیں

  • 00:37:03 کا مطلب یہ ہے کہ اب اپ کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا

  • 00:37:09 یعنی جب اللہ کے پیغمبر نے اکے وضاحت کردی تو ادھر پیش کرنے کی گنجائش ختم ہوگئی اب پھر ایک مرتبہ سمجھ لیجئے وہ ازار جو پیغمبروں کے نہ انے پر پیش کیے جاسکتے تھے ان کی نفی کرتی یہ بتا دیا کہ یہ میں نے ہی سنوں گا قیامت میں کہ پیغمبر کی بات نہیں پہونچی تھی

  • 00:37:28 یہ میں نے سنوں گا کہ اپ اان یہ روایت قائم کر دی تھی خیر و شر کے معاملے میں اور توحید کے معاملے میں تم محض اسے الہام فطرت کی بنیاد پر مصروف ٹھہرایا جائے لیکن بہت سے عذاب تم پھر بھی پیش کر سکتے ہو تم کہہ سکتے ہو کہ مجھے تو طلبہ نہیں ہے

  • 00:37:47 میں خبردار نہیں ہوں پیدا ہوئے تھے روٹی کمانے میں پڑے ہوئے

  • 00:37:51 بچوں کو پالنے میں پڑے ہوئے

  • 00:37:54 کبھی اس کا خیال نہیں ہے کسی نے کہا بھی نہیں کہ اس کا خیال کرنا چاہیے کہاں تحقیق کرنے کے لئے بیٹھتے ان میں سے کوئی عذر اس وقت ختم ہو جائے گا جس وقت پیغمبر اجائے گی اس کو کہا جاتا ہے اتمام حجت یعنی گویا اللہ تعالی نے وہ حجت جس کا اہتمام کیا ہے اس پوری دنیا میں وہ اپنے کمال کو پہنچ گئی کوئی بات کہنے کی بات نہیں رہی یہ وہ چیز ہے جس کو بیان کیا ہے اپ یہ دیکھیے کہ وہ سورہ نساء میں جب یہ پوری تفصیل کر دی ہے کہ ہم نے پیغمبر بھیجے اور ان کے ذریعے اس ہدایت کو واضح کیا اور اختلافات کو دور کر دیا اور ہر چیز کی تفصیلات بیان کر دیں تو پھر کہا کیوں ہم نے یہ کیا یعنی نبیوں کا سلسلہ ہوا پھر رسولوں کا سلسلہ ہوا اس لئے ہوا کہ لہذا یہ کون ہے تاکہ ان رسولوں کے بعد کسی کے پاس کوئی عذر پیش کرنے کے لئے باقی ہے

  • 00:38:49 بنیادی ہدایت دینے کے لئے نہیں اتے اتمام ہدایت کرتے ہیں اور اتمام حجت کرتے ہیں خدا کی حجت ہم لے کے پیدا ہوتے ہیں خدا کی حجت سب و بصر کی صلاحیتیں پیدا کرتی ہے خدا کی حجت انفس و افاق کی نشانیاں پیدا کرتی ہیں لیکن یہ حجت اپنے کمال پر پہنچ جاتی ہے اس کا اہتمام ہو جاتا ہے جب اللہ کسی پیغمبر کو مبعوث کر دیتے ہیں اور اگر کسی قوم میں کسی رسول کو مبعوث کر دیا جائے یعنی ایک تو یہ ہے نا کہ رسولوں کی دعوت پہنچ گئی

  • 00:39:20 رسولوں کی پیش کردہ کتاب پہنچ گئی اس وقت جو صورتحال ہے اس میں یہی ہے نا کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اطلاع پہنچ گئی معلوم ہو گیا یہ پتہ چل گیا کہ قران جیسی ایک کتاب موجود ہے یہ معلوم ہو گیا کہ اس سے پہلے تورات زبور انجیل بھی نازل ہو چکی ہیں لیکن کسی کو یہ موقع میسر اگیا کہ اللہ نے اس قوم کے اندر سے رسول اٹھا دیا جس کا وہ فرض ہے جیسے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عرب میں ہوئی جس طرح کے سیدنا صالح کی بعثت ان کی قوم میں ہوئی سیدنا ہود کی بعثت ان کی قوم میں ہوئی سیدنا نوح کی بحثیت ان کی قوم میں ہوئی تو یہ جو رسول کا کسی قوم کے اندر ا جانا ہے اور اکر گویا رسول کی حیثیت سے یہ دعوت پیش کر دینا ہے یہ وہ موقع ہے کہ جس کے بعد خدا کی عدالت زمین پر لگ جاتی اس کو سب سے بڑھ کر میں نے ہی واضح کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ قران مجید بھی ایک رسول کی سرگوش کا انتظار ہے جس وقت خدا کا رسول زمین پر اجاتا ہے کسی قوم میں رسول مبعوث کر دیا جاتا ہے کہ قران مجید کو کیسے بیان کرتا ہے وہ یہ کہتا ہے تم پر یہ غیر معمولی احسان ہوا ہے کہ تمہارے اندر اللہ کے رسول اگیا ہے اللہ کے رسول نے اکر تمہارے اندر سے اٹھ کر تمہاری زبان میں تمہارے اندر کھڑے ہو کر خدا کی معیت کے ظہور کے ساتھ تم تک خدا کا دین پہنچا دیا اب کیا جواب دو گے اتمام حجت کا اصول ہے جن ایتوں کا اپ نے حوالہ دیا وہ بیان نہیں ہے سورہ یونس یہ کہتی ہے کہ ہم ہر قوم میں ایک زمانے میں رسول بھیجتے رہے سیدنا ابراہیم سے پہلے یہی طریقہ تھا ہر قوم میں ایک رسول بھیجتے رہے ہیں اور کیا طریقہ تھا جس وقت رسول ا جاتا ہے کسی قوم میں تو چونکہ اخری درجے میں حجت پوری ہوجاتی ہے تو اس لئے اس قوم کے لئے خدا کی عدالت زمین پر لگ جاتی ہے ایک قیامت صغری برپا ہو جاتی ہے پھر اس قوم کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے قوم کا فاصلہ کر دیا جاتا ہے اور ذرہ برابر ظلم اس پر نہیں کیا جاتا یہی بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے

  • 00:41:26 یعنی ہم کبھی عذاب نہیں نازل کرتے کسی قوم پر جب تک اس کے اندر ایک رسول مبعوث نہیں کر لیتے اسی وجہ سے اس وقت ہم خرابی میں مبتلا ہوتے ہیں پیغمبروں کا انکار کرتے ہیں اللہ تعالی کا انکار کرتے ہیں عذاب نہیں اتا رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کا دروازہ کیوں بند ہوا ہے اس لئے کہ عذاب کا قانون یہی ہے کہ رسول ایگا جس طرح سیدنا نور نے اکے اپنے اپ کو گویا نچوڑ دیا

  • 00:41:53 قران مجید بیان کرتا ہے میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لعنت باخیر نقشہ کرنا مومنین تو جب اللہ کے رسول اتا ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ رسول کا انا ہی کوئی معمولی درجے کی بات نہیں ہے رسول کی شخصیت میری اپ کی شخصیت نہیں روح اوازیں پیغمبر معجزات اس کے ساتھ اللہ تعالی کی معیت کا ظہور ہوتا ہے یہ ساری چیزیں مل کر قطع عذر کردیتے یعنی اس کے بعد کسی کے پاس غرب باقی نہیں رہتا جس قوم میں رسول کی بعثت ہوتی ہے اس پر پھر اسی دنیا میں اللہ کا فیصلہ نافذ ہو جاتا ہے وہ لوگ جو ماننے والے ہیں ان کو نجات حاصل ہوتی ہے ان کو برتری حاصل ہوتی ہے ان کو غلبہ حاصل ہوتا ہے اور وہ لوگ جو منکرین ہیں وہ زمین سے یا مٹا دیے جاتے ہیں یا محکوم بنا دیے جاتے ہیں ان کے لیے غلامی اور محکومی کی سزا ہے یہ قران مجید میں پورا قانون بیان کیا ہے اس لئے ان ایات کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے یہ ایات میں یہ بتاتی ہیں کہ اللہ کی ہدایت کیسے ملتی ہے یہ بتاتی ہیں کہ اللہ کی حجت کیسے اتی ہے یہ تو یہ بتا رہی ہیں کہ یہ حجت جب اس درجے میں پوری ہوجاتی ہے تو پھر اللہ کا عذاب اجاتا ہے تو باہمی ریلیشن جو ہے یعنی الہام کا الہام فطرت کا وحی کا وہ یہ ہے کہ وہ اجمال کے ساتھ دین دیتا ہے اور پیغمبر اکے فصل نزاعت بھی کرتے ہیں یہاں کے اختلافات ہو سکتے تھے اس کو دور کر دیتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ کی حجت پوری کردیتے ہیں تو یہ جو مذہب خلاصہ کر لیتے ہیں پہلے اعتراض پہ جو اپ کا جواب ہے ان اعتراض میں نے اپ کے سامنے یہ رکھا تھا کہ قران مجید کے بہت سارے مقامات یہ بتا رہے ہیں کہ پیغمبر کی امد پیغمبر کی دعوت پیغمبر کے احکام کی عدم تعمیل قیامت میں مواقع کا باعث بنے گی تو یہ مواخذہ ان لوگوں کا ہے کہ جن میں پیغمبر ایا ہے چونکہ پیغمبر اتا ہے تو پھر اس قوم کے ساتھ خدا کا خاص قانون تسکین ہے اس پر معاملہ کیا جاتا ہے اس کا فطرت کی ایت سے متعلق فطرت کی ایات سے کوئی تعلق ہے نہ اللہ کی ہدایت کو یہ بیان کر رہی ہیں یہ تو یہ بیان کر رہی ہیں اپ ان ایات کو نکال کے دیکھیے جہاں جہاں یہ ہے کہ جو ہدایت تمہیں ملی ہے اگر تم اس ہدایت کے خلاف ورزی کرتے ہو تو اللہ کے رسول تمہارے درمیان میں اگیا ہے اللہ کا رسول اگیا ہے تو اب عذاب کے لئے جلدی نہ بچاؤ فیصلہ ہوگا تمہارا دنیا کے اندر تو گویا پوری بات یہ ہے کہ اللہ نے اپنے دین کی ہدایت میرے اندر ڈالی میرے اندر ودیعت کی میرے اندر الہام تھی

  • 00:44:16 رسولوں کے ذریعے سے اور یہ پہلے دن سے سلسلہ شروع ہو گیا یعنی پہلا انسان یہ فطرت بھی لے کے ایا اور پہلا انسان وہی سے مشرف بھی ہوا اس کو پیغمبر بنا دیا گیا اس طرح دونوں کا ریلیشن بنا یعنی میری فطرت میں وہ تقاضے پیدا کیے بالجمال و ہدایت میرے اندر رکھی گئی مجھے سمو بشر کی صلاحیتیں دے کر اس ہدایت کو سمجھنے اور پڑھنے کا شعور دیا گیا مجھے عقل جیسی نعمت سے نوازا گیا جو چراغ راہ ہے اور پھر منزل تک پہنچانے کے لیے اللہ کے رسول بھیج دیئے گئے الہام کا الہام فطرت کا یہ بنیادی تعلق ہے اسی کو قران بیان کرتا ہے جس وقت اللہ کے رسول اگئے لیکن نبی اتے ہیں وہ دعوت دیتے ہیں پیغام پہنچاتے ہیں وہ اپنی بات کہہ دیتے ہیں لیکن جب رسول ا جاتا ہے تو حجت پوری ہوجاتی ہے یہ اتمام حجت کا قانون ہے جس کو بیان کرنے والی ایتیں اپ نے پڑھ کے سنائی ہے جہاں جہاں نکالیے وہاں موضوعی یہ ہے

  • 00:45:12 کہ تم ازاد کے لئے جلدی مچا رہے ہو وہ عذاب جس کی خبر تمہیں دی جا رہی ہے

  • 00:45:17 ہم جب تک رسول نہیں بھیج رہے تھے عذاب نہیں لایا کرتے لوگ استغفار کر رہے ہو تو یہ عذاب نہیں ایا کرتا یعنی دنیا میں جو اللہ کا عذاب اتا ہے کبھی قران مجید کو کھول کر پڑھیے جو قوم نوح پر ایا جو قوم عاد پر ایا جو قوم ثبوت پر ایا جو رسالت میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم پر ایا جس کا ذکر سورہ توبہ کرتی ہے جس پر اسی وجہ سے بسم اللہ الرحمن الرحیم میں لکھی جاتی وہ اللہ کی عذاب کس سورہ ہے تو سب رسولوں کی قوموں کے اوپر اس عذاب کا فیصلہ ہوا قران مجید اس کو استدلال کے طور پر پیش کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ ہم نے ایک قیامت صغرہ ایک چھوٹے پیمانے کی قیامت یہ برپا کر کے دکھائیں اب بھی قیامت کا انکار کرتے ہو استدلال ہے اس کا اس موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں جس پر ہم گفتگو کر رہے ہیں اللہ کی ہدایت کیسے ملتی ہے اور پھر اپنی تفصیلات کے ساتھ خدا کے پیغمبروں سے چاہوں گا اپ یہ واضح کر دیں یہ بات تو چلیں اپ کی سمجھ میں اگئی کہ یہ رسولوں کے ساتھ خاص قانون تھا اس کو قران مجید نے بیان بھی کیا کہتا ہے اور سورۃ توبہ کا وعدہ دیا اس وجہ سے ہر جگہ یہ واضح ہوگیا لیکن اس سے ایک اور غلط فہمی لوگ پیدا ہی کرتے ہیں کہ جب اپ یہ کہتے ہیں کہ یہ قانون ان کے ساتھ خاص تھا

  • 00:46:34 اس میں جو وہ دعوت دے رہے ہیں اس میں تو ظاہری بات ہے فطرت کے چیزوں کو بھی متوجہ کر رہے ہیں ان کی دعوت مقامی یا قوم کے لحاظ سے خاص نہیں ہے دعوت تو عالمگیر ہے نہ ان کی دعوت اور ہدایت عالمگیر ہے لیکن وہ دعوت ہوتی کیا ہے یعنی جو کچھ اپ کی فطرت میں ودیعت ہے اس کی تفصیلات ہوتی

  • 00:46:51 وہ کبھی اس بولات سے بات شروع نہیں کرتے کبھی یہاں سے بات شروع نہیں کرتے کہ تم تو اندھے ہو ہم تمہیں بتانے کے لئے ائے ہیں وہ یہ کہتے ہیں جو تمہارے پاس موجود ہے اؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں اس میں تم غلطی کہاں پر بتا دیا کہ حوالہ کیا دیتے ہیں اس طرح بیان کی رسالت میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی تفصیل اور بڑی خوبصورت تمثیل ہے یعنی اپ اس کو دیکھیے اس کے اندر اتر کر کہ اللہ کے محرم ہیں یہ اسلام ہے یہ صراط مستقیم ہے لیکن اس صراط مستقیم پر متوجہ صرف ہم ہی نہیں کر رہے قران بھی کر رہا ہے اللہ کی کتابیں بھی کر رہی ہے پیغمبر بھی کر رہا ہے اور تمہارے باطن کے اندر ہمارے لئے جو واحد اللہ تعالی نے دے کر تمہیں بھیجا وہ بھی کرنا ہے اس وائرس کی اواز سننے کے لئے البتہ یہ ضروری ہے کہ ادمی اپنے دل کو مسلمان بنائے یعنی یہ اواز سننے کے لئے ضروری ہے اواز ارہی ہے شعور موجود ہے

  • 00:47:45 جب انسان اس شور سے کام نہیں لیتا تو پیغمبر اسے متنبہ کرتے ہیں توجہ دلاتے بیدار کرتے ہیں اسی لئے اپنی دعوت کو قران ذکر اور زکرا کہتا ہے یہ یاد دہانی ہے اور اس میں جو چیزیں بیان کی جاتی ہیں وہ اپ پورے کے پورے کانٹینٹ کا مشغولات کا جائزہ لیں دو ہی نوعیتیں ہوتی ہیں یعنی اپ جو اجمال تھا اس کی تفصیل کی جا رہی ہوتی ہے اور یا جو اختلافات پیدا ہوتے ہیں ایک اجمالی دعوت ظاہر ہے کہ جس وقت اپ اس کو متعلق کرتے ہیں تو انسان چونکہ ارادہ اور اختیار لے کے ایا ہے وہ اختلافات پیدا کر لیتا ہے تو وہ فصل وضاحت کرتے ہیں یعنی اختلافات کا فیصلہ کر دیتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیں کہ اس معاملے میں صحیح بات وہ ہے جو ہم تمہیں بتا رہے ہیں اب سب یہاں پر ہماری نشست کا وقت ختم ہوتا ہے بہت طویل اعتراضات کی فہرست ہے اور میں چاہوں گا کہ ان شاء اللہ اگلی انے والی نسلوں میں فطرت سے متعلق ان مباحث کو زیر بحث لائیں ہم غامدی صاحب سے جو 23 فکری اعتراضات میں ان کے افکار پر کیے جاتے ہیں اس میں فطرت کا موضوع یہاں پر زیر بحث ہے اس سلسلے کی 16 نشستیں انشاللہ ائندہ نشست میں مزید سوالات اور ہم سب کے سامنے رکھیں گے اب تک اپ کے وقت تک بہت شکریہ

  • 00:48:51 [Unintelligible]

  • 00:48:53 [Unintelligible]

Video Transcripts In English

Video Summry

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 02:05 سورہ الروم اور سورہ الاعراف کے علاوہ بھی کوئی مقام ہے جہاں فطرت کا موضوع زیر بحث آیا ہے؟ 18:41 فطرت کے بارے میں ایک اہم روایت 28:02 فطرت کے بارے میں اس رائے پر ہونے والے اعتراضات سے پہلے۔۔۔ 33:22 قرآن نے مؤاخذے کی بنیاد فطرت کو نہیں بلکہ پیغمبروں کے دعوت کو قرار دیا ہے۔ 46:21 کیا اللہ کے رسولوں کی دعوت عالمگیر ہوتی ہے یا اپنی قوم کے ساتھ خاص ہوتی ہے؟ 48:38 اختتامیہ

Video Transcripts In Urdu

Video Transcripts In English

Video Summary

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 02:05 سورہ الروم اور سورہ الاعراف کے علاوہ بھی کوئی مقام ہے جہاں فطرت کا موضوع زیر بحث آیا ہے؟ 18:41 فطرت کے بارے میں ایک اہم روایت 28:02 فطرت کے بارے میں اس رائے پر ہونے والے اعتراضات سے پہلے۔۔۔ 33:22 قرآن نے مؤاخذے کی بنیاد فطرت کو نہیں بلکہ پیغمبروں کے دعوت کو قرار دیا ہے۔ 46:21 کیا اللہ کے رسولوں کی دعوت عالمگیر ہوتی ہے یا اپنی قوم کے ساتھ خاص ہوتی ہے؟ 48:38 اختتامیہ

▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 02:05 سورہ الروم اور سورہ الاعراف کے علاوہ بھی کوئی مقام ہے جہاں فطرت کا موضوع زیر بحث آیا ہے؟ 18:41 فطرت کے بارے میں ایک اہم روایت 28:02 فطرت کے بارے میں اس رائے پر ہونے والے اعتراضات سے پہلے۔۔۔ 33:22 قرآن نے مؤاخذے کی بنیاد فطرت کو نہیں بلکہ پیغمبروں کے دعوت کو قرار دیا ہے۔ 46:21 کیا اللہ کے رسولوں کی دعوت عالمگیر ہوتی ہے یا اپنی قوم کے ساتھ خاص ہوتی ہے؟ 48:38 اختتامیہ

Related Videos
1
Response to 23 Questions - Part 15 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 15 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 14 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 14 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 13 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 13 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi