Response to 23 Questions - Part 17 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Video Transcripts In Urdu
-
00:00:00 [Unintelligible]
-
00:00:01 [Unintelligible]
-
00:00:04 [Unintelligible]
-
00:00:05 [Unintelligible]
-
00:00:06 [Unintelligible]
-
00:00:08 بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مکتبہ غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید ہم غامدی صاحب سے 23 اعتراضات پر یہ سلسلہ گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں یہ سلسلے کی
-
00:00:18 ستھرے میں نشستہ اور فطرت کا موضوع زیر بحث ہے اور فطرت کے موضوع پر یہ پانچویں نشستیں جس میں افغانی صاحب سے فطرت کے موضوع پر ہونے والے اعتراضات کے بارے میں جواب دے رہے ہیں السلام علیکم سر بہت شکریہ اپ کے وقت کا
-
00:00:32 ہم سب گذشتہ
-
00:00:33 چار نشستوں میں ہم نے بڑی تفصیل سے
-
00:00:36 فطرت کے حوالے سے عقلی تصورات پھر مذہبی ریفرینسز محسوس اس کی بڑی تفصیلی اپ نے گفتگو کی
-
00:00:44 اور اخری ششم گفتگو مکمل ہوئی تھی قران مجید کے وہ تمام مقامات جہاں پر
-
00:00:49 فطرت کے حوالے سے جو دین میں بات زیر بحث ہے اپ نے بتائی اور پھر احادیث بھی زیر بحث ائیں اس کے بعد بات یہاں تک پہنچی تھی کہ اپ کے تصور فطرت پہ جو اعتراضات بلوم کیے جاتے ہیں میں ایک ایک کرکے اپ کے سامنے رکھ رہا تھا
-
00:01:04 سامعین اگر پچھلے سلسلے کو رابطے کلام کے لیے جوڑ لیں تو اخری اعتراض میں نے جو پیش کیا تھا وہ یہ تھا کہ قران مجید کے بہت سارے مقامات پر رسولوں کے دعوت کو بنیاد بنا کر مواخذے کی بات کی گئی میں چاہوں گا کہ ایک منٹ صرف اپ اس پر اپنا موقف دہرا دیں تاکہ پیچھے سے بھاگ جاری ہو
-
00:01:23 میں نے جو کو سرچ کیا ہے اس میں اللہ تعالی کی اسکیم کے تین مراحل کی وضاحت کی
-
00:01:30 پہلا مرحلہ وہ ہے کہ جس میں اللہ تعالی یہ بتاتے ہیں کہ میں نے اپنا دین بلال تمہاری فطرت نصیحت کرتی ہے یہ الہام فطرت
-
00:01:39 اس کے لئے لفظ بھی یہی استعمال کیا ہے
-
00:01:42 اللہ تعالی نے انسانوں کو تمام بنی ادم کو ان کی پشتو سے نکالا ان سے ہر لیا توحید کے معاملے میں خیر و شر کے شعور کے بارے میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ یہ وہ چیز ہے جس میں کوئی عذر مسنون نہیں ہو
-
00:01:58 یعنی یہ عذر مضمون نہیں ہوگا کہ ہم تک بات پہنچی نہیں ہے یا ہمارے اباواجداد نے ایک غلط روایت قائم کی تھی ہم اس کی پیروی میں یہ سب کرتے رہیں دوسرے ہزار ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں قبول کر لیے جائیں لیکن یہ عذر پیش نہیں کیا جا سکے گا یہ دین کی ابتدا ہے
-
00:02:15 اس کے بعد اگلا مرحلہ کیا ہے اگلا مرحلہ یہ ہے کہ پیغمبر اتے ہیں پیغمبروں کے ذریعے سے اللہ تعالی اس ہدایت کی تفصیل کرتے ہیں
-
00:02:23 صرف تفصیل ہی نہیں کرتے بلکہ بہت سی چیزوں کی ٹائم کر دیتے ہیں اختلافات پر رکھا کرتے ہیں
-
00:02:29 یہ معاملہ بھی بہت بعد میں شروع نہیں ہوا یہ پہلے دن شروع کر دیا
-
00:02:34 یعنی انسان کی فطرت یا فطرت میں اللہ تعالی کے الہام اور وحی کا یہ ربط ہے جو قران میں بیان کیا ہے جو کچھ اندر دیا گیا تھا وہ اجمالی تھا اس کو تفصیل میں بدلنے کے لیے ہدایت کی صورت دینے کے لئے اللہ تعالی نے پیغمبروں کے سلسلے کو شروع کیا مرحلہ وہ ہے کہ جس میں اللہ تعالی کسی قوم کا انتخاب کرتے ہیں اور ان کی طرف اپنا رسول بھیجتے ہیں اور رسول کے ذریعے سے جب اخری درجے میں حجت پوری ہوجاتی ہے اس کو اتمام حجت کہا جاتا ہے تو پھر دنیا ہی میں عذاب اجاتا ہے گویا ہر نوعیت کے ازار بلکل ختم ہو جاتے ہیں تو رسولوں کے ذریعے سے جو حجت تمام کی جاتی ہے یہ قطع عذر کے لئے اس کے بعد کوئی بات کہنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی تو یہ تین مراحل ہیں جو اللہ تعالی نے قران مجید میں بیان کیے ہیں ان سے انسان کی فطرت وحی اور رسالت ان کا باہمی ربط بالکل متعین ہو کے سامنے اجاتا ہے جو ایات اپ نے پیش کی ہیں وہ اس تیسرے مرحلے سے متعلق سے متعلق ہے ہدایت سے متعلق ہے اللہ کے خصوصی قانون کو بیان کرتی ہیں کہ جب ہم اس دنیا میں کسی قوم کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کی عدالت لگا دیں گے تو یہ فیصلہ کرنے کے بعد ہم رسول بھیجتے ہیں ان کے اندر سے رسول اتا ہے ان کی زبان میں ان سے گفتگو کرتا ہے ان کی ام القران اس کو مبعوث کیا جاتا ہے پھر اس قوم کے لئے کوئی عذر کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اگر ہم سے بھی اپ نے فرمایا کہ عہد الست کی جو ایت ہے سورہ اعراف میں اس میں
-
00:04:10 جو 1000 لوگ پیش کر سکتے تھے اللہ میاں نے وہ خود بتا دیے ہیں کہ کل تم یہ نہ کہنا کہ رسول کی دعوت نہیں پہنچی تو اس لئے میں توحید کو نہیں مانتا اس پر ایک اعتراض بھی کیے جاتے ہیں کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ جو لوگ ہیں وہ جھوٹ بول رہے ہو اس لئے کہ اللہ تعالی نے قران مجید میں یہ کہا ہے کہ اے جنوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس کچھ رسول تم میں سے ہی نہیں ائے تھے جو کہ تم پر میری ایات کو پڑھ پڑھ کر سناتے اور تمہیں تمہارے دل کی ملاقات سے ڈراتے تھے تو وہ جن و انس کہے گے ہم اپنی جانوں کے خلاف گواہی ہم نے اپنی جانوں کے خلاف گواہی دی یعنی ہمارے پاس اللہ کے رسول ائے تھے تو اس ایت میں تو یہ بیان ہوا کہ اللہ تعالی نے ہر جگہ ہر وقت رسولوں کا انبیاء کا سلسلہ جاری فرمایا تو یہ جو ایت ہے اس میں تو ایک ایسا عذر جس کو جس کو ہم یہ مان رہے ہیں کہ ممکن ہے ہو سکتا ہے کہ رسول نہ ہیں اور لوگوں نے عذر دیا ہو قران تو کہتا ہے کہ ہر جگہ رسول میں نے بھیجی ہے کہ اس میں پہلا مرحلہ وہ تھا جس میں ہر قوم کی طرف رسول بھیجے گئے قران مجید ظاہر ہے کہ مختلف گروہوں مختلف قوموں سے خطاب کر رہا ہے قران کے خطاب کے سلیب بھی سمجھنا چاہیے اپ یہ دیکھیے بارہا بنی اسرائیل سے خطاب کر کے کہا جاتا ہے تو میں اس جرم کا ارتکاب کیا اس کا جرم کا ارتکاب کیا جرم کا ارتکاب کسی ایک بستی میں یہ چند لوگوں نے کیا ہوتا ہے تو یہ اس کی اسالیب ہیں جن میں وہ بات کرتا ہے تو یہاں پر بھی ایک عمومی بات کی گئی کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے ہدایت کا اہتمام کیا قومی حیثیت سے یہ ہدایت ان تک پہنچائی گئی پہلے مرحلے میں ہر قوم میں رسول بھیجے گئے پھر ضروریت ابراہیم کا انتخاب کیا گیا ایک خاص علاقے میں ان کو اباد کر کے توحید کے مراکز بنائے گئے اور ان کے ذریعے سے یہ دعوت پہنچائی گئی اور اخری پیغمبر ائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ذریعے سے گویا قیامت تک کے لئے اللہ کی حجت کا اہتمام کر
-
00:06:06 یہ پوری اسکیم ہے اس پوری اسکیم کی بنیاد پر بھی اللہ تعالی پوچھیں گے ظاہر ہے کہ اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی ہوسکتا ہے کوئی جنگل میں کسی اور قوم میں کسی دور دراز علاقے میں کھڑا ہوکے یہ کہہ دے کہ مستقل یہ بات نہیں پہنچی تھی
-
00:06:22 یعنی اس تمام اپنی جگہ اور اس عذر کا امکان اپنی جگہ تو دونوں چیزیں الگ ہیں بالکل میں نے اپ سے اسی لئے عرض کیا کہ تینوں مراحل کا احاطہ کرتا ہے پرانے مجید کا پورا فلسفہ یعنی جن لوگوں تک کوئی دعوت نہیں پہنچی جن کو ایک غلط روایت ملی جو ان ابا کے ہاں پیدا ہوئے جو شرک پر تھے ہندوستانی پر نگاہ ڈال کے دیکھ لیجئے یعنی کم سے کم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بعد تو کوئی اثار ہے ہی نہیں نبوت کی نہ صرف یہ کہ اشعار نہیں ہے بلکہ قران کی اسکرین سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی نہیں سکتے یہ صورتحال ہے اس میں جو لوگ پیدا ہو رہے ہیں دور دراز علاقوں میں ان کے پاس ذرا دیکھیے کیا پہنچا ہے ان کے پاس ان کے بارے میں بھی بتا دیا کہ جو کچھ میں نے فطرت میں الہام کیا اس کی بنیاد پر پوچھوں گا یعنی توحید توحید کا کیا مطلب ہے اینی میں ایک مخلوق ہوں اور مخلوق کی حیثیت سے میری عقل میری فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ میرا خالق ہونا چاہیے ایک خالق کا تقاضا تو میرا یہ مشاہدہ کر رہا ہے لیکن شرک کے لئے کوئی استدلال موجود نہیں تو اللہ تعالی نے اس چیز کو بیان کیا اور خیر و شر کے نام کو بیان کیے اب اس کے بعد یہ اہتمام تو موجود ہے کہ نبی ا رہے ہیں رسول ا رہے ہیں دعوت پیش کر رہے ہیں کتابیں دنیا میں موجود ہیں اطلاع پہنچائی جا رہی ہے سوال اس کے بارے میں بھی ہوگا لیکن یہ بتا دیا ہے کہ کوئی ادمی قیامت کے دن اگر کھڑا ہوکے یہ کہے گا تو اللہ تعالی اس کی حجت پیش کر دے تو یہ جو ایات پوری بات یہ ہے
-
00:07:52 تو یہ جو ایات ہیں یہ ان لوگوں سے مکالمہ کر کے کہی جا رہی ہیں جن کے پاس ال ریڈی رسول ا چکے ہیں اور ان کو کہا جا رہا ہے کہ رسول تو تمہارے پاس ائے تھے تم نے کیوں نہیں مانا یعنی ان سے متعلق نہیں ہے یہ ایک طبقہ وہ ہوگا اور ہوسکتا ہے وہ دو ہوں چار ہو 10 ہوں ہزاروں ہوں کہ جن کا مکالمہ نقل ہوا ہے سورہ اعراف میں بہت سے لوگ ہوں گے کہ جو الہام خیر و شر کے عمومی تصور کی بنیاد پر موصول ہو جائیں گے لیکن دنیا میں خدا نے جو پیغمبروں کا اہتمام کیا اس کی بنیاد بھی سوال ہوگا اب ہر ادمی اگے سے جواب دے گا نہ جن تک پیغمبر ائے ہیں اس کا اعتراف کریں گے جن کو عہد انست میں اللہ تعالی نے پابند کیا اس کا اعتراف کریں گے جن کے اندر الہام خیر و شرم اس کا اعتراف کریں گے تو ہر ہر ادمی کو جو کچھ دیا گیا ہے اس کی بنیاد پر اس سے پوچھا جائے گا اس کو بطور اصول سورہ مائدہ میں بیان کیا ہے یعنی اللہ تمہیں اسی مے ازمائے گا جو اس نے تمہیں دیا ہے جتنا علم مجھے ملا ہے اس کے لحاظ سے پوچھا جائے گا تو پوری اسکیم یہ ہے جو پرانے مجید میں بیان کی ایت کے اندر
-
00:08:59 چیز یا مضمون زیر بحث ہے اس پر ایک اعتراض نہیں کیا جاتا ہے
-
00:09:03 کہ اس کی بنیاد پر جتنی بڑی بات کہی جا رہی ہے کہ فطرت
-
00:09:08 کے اندر وہ شعور موجود ہے جس کی بنیاد پر قیامت میں مواخذہ ہوگا اگرچہ لوگ یہ عذر پیش کریں کہ ہم تک رسولوں کی دعوت نہیں بھی پہنچی یہ ہمارے اباؤ اجداد جو ہیں وہ شرک پر تھے
-
00:09:18 سوال یا اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ یہ اتنی بڑی خبر بھی تو ہمیں وحی نے دی یعنی اگر یہ قران میں ایت نہ اتی تو ہمیں تو یہ پتہ بھی نہیں ہوتا ہمارے ساتھ کوئی ایسا رس کا معاملہ بھی ہوا ہے یا ہم سے کوئی فطرت کی بنیاد پر قیامت میں توحید کی بنیاد پر مواخذہ ہوگا بھی یہ سارا تصور بھی تو وہی نے بتایا کہ تمہاری فطرت میں ڈالا تھا اگر یہ قران میں نہ اتا انسانوں کو تو پتہ ہی نہیں ان کے ساتھ امام بڑی تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں کہ جو کچھ ہماری فطرت میں موجود ہے اس کا ظہور کس طریقے سے ہوتا ہے
-
00:09:47 وہ کیسے ہمارا علم بنتا ہے اور اس میں ہم کس جگہ کھڑے ہوتے
-
00:09:51 ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالی اپنی کتاب نازل کر رہے ہیں تو حقائق کی طرف توجہ دلارہے ہیں یہ قران مجید نے بتایا کیا ہے یہ عجیب بات کی جارہی ہے کہ قران نے بتایا نہیں بتایا کیا ہے یہ بتایا کہ تمہاری فطرت میں موجود ہے
-
00:10:05 یہ بتایا کہ تمہارے اندر ہمیں خیر و شر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قران ہمیں توجہ دلا رہا ہے کہ اپنے باطن پر نگاہ ڈال کے دیکھو
-
00:10:13 اپنے گریبان میں جھانکو
-
00:10:15 تمہاری اپنی شخصیت کے اندر ہماری ہدایت موجود ہے اس لئے تو میں نے عرض کیا کہ قران کہتا ہے کہ میں ذکر ہوں میں یاد دہانی ہوں میں تو جو کچھ تم جانتے ہو اسی کو یاد دلانے کے لئے اسی کے بارے میں تمہیں متنبہ کرنے خبردار کرنے کے لئے ایا ہوں تو یہ سارا فلسفہ پرانی بتائے گا
-
00:10:34 یعنی قران کے بتانے سے جو کچھ فطرت میں ودیعت ہے وہ ایک واقعہ کے طور پر سامنے اگیات کے اندر جو چیزیں موجود ہیں میں بڑی تفصیل سے دو نشستوں میں گفتگو کرکے اپ کو بتا چکا ہوں کہ میں کیسے اس کے شوہر تک پہنچتا ہوں وہاں میں واقع نہیں جانوں گا واقعہ بتا کر تو اصل میں مجھے اپنی فطرت کی طرف توجہ دلائی گئی اندر جان کے دیکھو
-
00:10:59 اور وہ اندر جھانکنے کا عمل کیسے ہوتا ہے میں نے اپ سے عرض کیا کہ میرے سارے علم کی بنیاد اسی پر ہے اور جب میں اس طریقے سے کسی چیز کو دریافت کر لیتا ہوں تو میری دریافت کی حجت تجھ پر قائم ہو جاتی ہے یہ پیغمبر جب اکے کتے ادھر کر دیتے ہیں تو پوری قوم کا اجتماع ہو جاتی ہے
-
00:11:17 اللہ تعالی کی طرف سے جب پیغمبروں کی دعوت پہنچ جاتی ہے تو انسانوں کے ازار ختم ہوجاتے ہیں لیکن جس وقت میں خود اپنا علم دریافت کرتا ہوں تو اپنے علم کی حجت مجھ پر قائم ہوجاتی ہے اسی کو بیان کیا ہے کہ جو حجت تمہارے اندر سے قائم ہوتی ہے اگر اس کے خلاف بھی امن کرو گے تو تم تم اپنے نفس سے غیرت کرو جس طریقے سے میرے ساتھ معاملہ کیا وہ تو ایک شاہکار ہے فلسفیانہ فکر کا
-
00:11:47 یعنی اپ دیکھیے کہ کس طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ سب انسانوں کو جب میں نے امتحان میں ڈالا ہے تو کس کس طرح سے ہدایت کا اہتمام کیا ہے اب وہ ہدایت جتنی مفسر ہوتی جائے گی جواب دہی بھی اتنی مفصل ہوتی جائے گی جتنی مجمل ہوتی جائے گی جواب دہی میں بھی اقبال پیدا ہو تو چلا جائے گا اور جتنی وہ سطح پر ہوگی کہ جہاں دریافت کرنے کا عمل مجھے کرنا ہے اتنا ہی میرے بعد وہ 1000 جو قلت علم کی بنیاد پر ہوں گے قلت تدبر کی بنیاد پر ہوں گے عدم طلبہ کی بنیاد پر ہوں گے وہ مصروف ہونا شروع ہو جائیں گے اور جیسے جیسے مجھ پر حقائق واضح کر دیے جائیں گے اللہ کی کتاب میرے ہاتھ میں پکڑا دی جائے گی اتنا ہی میں زیادہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہوگا کہ اب میں پوری بات کو سمجھوں اور پوری بات پر عمل کرکے دکھاؤ تو اس لحاظ سے اگر اپ دیکھیں تو بڑا غیر معمولی اہتمام کیا ہے اس پروردگار نے جیسے مجھے امتحان میں ڈالا ہے نہیں یہ جو اشکال ہے کہ اگر قران میں یہ بیان نہ ہوتا تو ہم لوگ جو نتیجہ ہے اس تک اپنی فطرت کی بنیاد پر پہنچ جاتے داخل کا علم ہمارا تجربہ استقرار لوگ ہم مخلوق ہیں خالق کا تصور شرک سے دوری ہے سب پیدا ہوجاتی ہے بس ہمیں یہ نہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے سب کو جمع کرکے یہ عہد لی ہے اور یہ قران مجید میں صرف بیان ہوا ہے ہو سکتا ہے اس سے پہلے بھی پیغمبر نے بیان کیے کے زمانے سے لوگوں کی روایت کے اندر موجود رہا ہو یعنی یہ بات تم قران میں جب وہ اخری کتاب کے طور پر ایا تو دہرائیے ایسا تو نہیں کہ واقعہ اس وقت پیش ایا جب قران نازل ہوا
-
00:13:19 کہنے سے پہلے ہی بیان کیا ہے لیکن سب کو فرق نہیں پڑتا ہے قران تو اصل میں یہ بتا رہا ہے کہ تمہاری فطرت میں جو کچھ ہے جس کو تمہیں دریافت کرنا ہے اس کی بنیاد کیا ہے تو اس طرح گویا وہ فلسفیانہ فکر جس میں ہم طعنت نہیں مارتے رہتے جس میں ہم دائیں بائیں معلوم نہیں کہاں کہاں سرگرداں ہوتے اس کو بالکل صحیح جگہ پر قائم کردیا گیا فلسفے کی تاریخ میں دہراؤں تو اپ یہ دیکھیے کہ یہی وہ بنیادی سوالات
-
00:13:47 یعنی کیا میں صفے سادہ ہوں
-
00:13:50 کیا میں ایک لوح سادہ ہوں کیا میں ٹیبل اسا دنیا میں اتا ہوں کیا میرے باطن کے اندر بالکل علم نہیں دیا گیا یہ ایک سوال تھا نا قران نے جواب دیا گیا سارا علم اصل میں تمہارے اندر موجود ہے وہ بالکل ہے اسی اجمال کی تفصیل ہوتی ہے تمہارے تمام علوم میں اور یہی صورتحال مذہبی حقائق کی بھی اسی طرح تمہارے باتوں سے شروع ہوتے ہیں تو یہ پرانے مجید میں جس چیز کو میں برسوں میں دریافت کرتا اس کی پوری کی ساری جتنی چیزیں بیان کر دی ہے قران کو پیش کرنے کا مقصد کیا تھا بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ جب ہم اپنی سادہ فطرت پر کھڑے ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیتے ہیں کہ اللہ کی کتاب ہمارے پاس نہیں ہے پیغمبر موجود نہیں پھر ہم کیا کریں گے ہم جب اگئی ہدایت تو ظاہر بات ہے کہ وہ چیز جو میرے اندر تھی اس کی حقیقت معلوم ہو گئی جس چیز کو میں پہلے امکانات کی صورت میں دیکھ رہا تھا وہ میرے سامنے حقیقت بن کے ا گئی
-
00:14:48 [Unintelligible]
-
00:14:49 اگے بڑھتے ہیں اچھا یہ اگلی جو ایت ہے وہ نفس محمد
-
00:14:57 اس میں نفس کا لفظ ایا ہے یہ جو لفظ ہے نفس کا اس سے مراد فطرت کیسے لیا گیا ہے یعنی اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ نفس سے مراد تو ابن تیمیہ کا ایک قول بھی انہوں نے لکھا ہے مختلف ناقدین اس کو نقل کرتے ہیں کہ نفس سے مراد روح ہے جو کہ انسانی جسم میں تدبیر کرتی ہے مثلا انسان کا نفس
-
00:15:17 جب کہ روح اس کے جسم کے اندر ہوتی ہے جو خدا کے اذن سے داخل ہوتی ہے فطرت انسانی اور نفس انسانی میں بہت فرق ہے
-
00:15:25 سوال یہ کیا گیا ہے اعتراض بھی رکھا جاتا ہے وہ یہ کہ فطرت الگ چیز ہے اور نفس الگ چیز ہے جب یہ کہا کہ وہ نفس مما سواہا تو اللہ تعالی یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے تمہاری روح میں یہ چیز ڈالی اور روح کیا ہے روح تو امر الہی ہے اور وہ امر الہی پیغمبروں کے ذریعے موقف ہوتا ہے
-
00:15:43 پہلی بات تو یہ ہے کہ صحیح نہیں ہے
-
00:15:46 یہ نفس رو ہے
-
00:15:47 نفس روح ہرگز ہمارا استعمال نہیں ہوئے قران مجید ایک بار دوسرے یہ کہ ہم نے کیا کہا ہے کہ نفس سے مراد فطرت
-
00:15:55 نسخہ اپ کی شخصیت
-
00:15:57 یہ بتایا گیا ہے کہ یہ شخصیت جب تصویر کے مراحل سے گزری نفس نماز پوری بات یہ ہے اور فطرت کا زیر بحث اتی ہے تقوی فطرت کی ہم اس سے پہلے وضاحت کر چکے کہ جب بھی کوئی مخلوق وجود میں ائے گی اس مخلوق کو کن اوصاف و خصال کے ساتھ پیدا کیا جائے گا یہ اصل میں اس کی فطرت ہے
-
00:16:20 یہاں بتایا گیا ہے کہ جس وقت ہم نے نفس کا تزکیہ کیا
-
00:16:25 یعنی نفس کو بنایا سوارہ اس کو اس کی جگہ تک پہنچایا روح تو امر ربی کے طور پر اتی ہے اور اپ کو شخصیت عطا کرتی ہے روح اصل میں انے کے عمل کا بیان ہے اس کو بیان کیا ہے کہ یہ درحقیقت خدا کی طرف سے ایک امر صادر ہوتا ہے اور اس کے بعد تمہاری شخصیت کا شور ہوجاتی ہے تمہارے اندر سمو بصر و فواد کی صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہے اس سے جو چیز منتقل ہوتی ہے وہ نفس ہے
-
00:16:55 یہ شخصیت جو اس مادی کالج میں اللہ تعالی کی طرف سے ڈالی جاتی ہے اس شخصیت کے تصویر کے موقع کے اوپر کیا کیا اس کو دیا گیا ہے تو جو دیا گیا ہے اس کا نام فطرت ہے نفس کو دیا کیا گیا یعنی نفس گواہی دیتا ہے اور دیکھیے یہ قسم کی درجے میں ہے نفس گواہی دیتا ہے جیسا اس کو سنوارا یعنی اگر تم نفس پر غور کرو گے تو وہ بتائے گا کہ تمہیں گواہی دیتا ہے اس بات کی
-
00:17:27 اس کے تصویر کی گواہی اس کے وجود کی گواہی اس کے شعور کی گواہی ہے
-
00:17:32 اور یہ دوائی کیوں ہے تقوی کہ ہم نے اس کے اندر خیر و شرک کا شعور ودیعت کر دیا ہے اور اس کی بنیاد پر اگے مسولیت بیان کی ہے جس نے اس کو سنوارا وہ فلاں پائے گا اور جس نے اس کو الودہ کر لیا وہ نامراد ہوکر اللہ تعالی نے بیان کر دی ہے دو جملوں کے اندر وہاں بھی دیکھیے پوری بات بیان کی ہے یعنی سوال گو اٹھائے جا رہے تھے نہ کیا ہماری فطرت میں کوئی چیز ودیت ہے توحید کا اقرار ودیعت اور جواب دیا کہ توحید کا اقرار محض کوئی استعداد نہیں ہے محض اس اقرار کی بنیاد پر میں تمہیں موصول ٹھہراؤں گا جواب میں ٹھہراؤں گا اور ان دو صورتوں میں تم کوئی عذر نہیں پیش کر سکو گے کہ میں نے یہ چیز ابا سے لی ہے یا مجھ تک کوئی اطلاع نہیں پہنچی تھی یہاں کیا کہا تمہارے اندر جو خیر و شر کا شور دیا گیا ہے اور میں نے عرض کیا تھا کہ اسی کی وضاحت دوسری جگہ پے ہوئی
-
00:18:27 اپ یہ دیکھیے جہاں کا ہے نہ وہ سبیل تو وہاں کیا کہا ہے ہمہ شاکرم ایماں کا پورا یعنی جب راستہ تمہیں ہم نے بتا کر بھیجا ہے اور پیدا کیا ہے تو پھر تمہارے اوپر ذمہ داری ہے کہ اب کفر اختیار کرو یا
-
00:18:41 شکر گزار بندے بن کر رہا ہوں دونوں راستے تم پر واضح کر دیے ہیں یہاں یہ بتایا ہے کہ اس کے نتیجے میں تم موصول ٹھہرائے جاؤ تو دیکھیے کیا بیان کیا ہے یہ وہ بنیاد ہے جس سے اصل میں دین شروع ہوتا ہے اس کے بعد یہ جو کچھ اجمال ہے اس کی تفصیل وحی کے ذریعے سے ہوتی ہے الہام فطرت سے ابتدا ہوتی ہے وہی اس کی تفصیلات کرتی ہے ہدایت کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے اور پھر اس کے بعد جب نبیوں میں سے کچھ لوگوں کو رسولوں کی حیثیت سے منتخب کیا جاتا ہے تو وہ دنیا میں اس درجے میں حجت پوری کر دیتے ہیں کہ کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہتا اور ان قوموں کو جن قوموں کے اندر وہ مبعوث ہوتے ہیں اسی دنیا میں خدا کی عدالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ پوری بات ہے اگر ہم علم کلام کی بھول بدلیں گے اس سے نکل کے قران مجید کی روشنی میں دیکھیں کہ وہ اپنا فلسفہ کیسے بیان کرتا ہے اپنی حکمت کیسے بیان کرتا ہے یہ قران کی حکمت ہے جو انبیاء کے ذریعے سے دی گئی اشکال کو میں دوبارہ سے دہراتا ہوں اور اپ اس عبارت میں مجھے بتائیے گا نہیں جو سوال اٹھا تھا ورنہ اس میں اعتراض یہ ہے کہ جی یہاں نفس سے مراد فطرت نہیں روح ہے تو ہم یا اپ کے نزدیک
-
00:19:57 نفس کا یہاں کیا ترجمہ ہے انسان کی شخصیت شخصیت یعنی انسان کی شخصیت جس کو ہم انسان کہتے ہیں وہ نفس ہے کیا کہا ہے قران مجید میں جب فرشتے اتے ہیں موت کے وقت میں اخری جو الفاظ ہو تم اپنی شخصیت ہمارے حوالے کرو وہ ہماری جو اصل ذات ہے یہ جو میں کہتی ہے
-
00:20:17 یہ جو اپنا شعور رکھتی ہے یہ ہے اس کو کان نفس کہتا ہے یہ منتقل کیسے ہوتی ہے
-
00:20:24 اس کا طریقہ قران نے بتایا وہ نفس روح کی صورت میں منتقل ہوتی ہے یعنی وہ کیا راستہ ہے جس سے یہ ہمارے اس قالب میں اتی ہے ہمارے اس مادی کالج میں ہمارے جسم میں اتی
-
00:20:36 یعنی جسم کے بارے میں قران بتاتا ہے کہ یہی زمین کے اجزاء سے بنایا جاتا ہے اس کی جب تکمیل ہو جاتی ہے یہ پورا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالی کی طرف سے یہ پھونکی جاتی ہے کیا چیز پھونکی جاتی ہے یعنی ایک پھونک پھونکی جاتی ہے نفق تو پی ہے اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے نفس
-
00:20:55 کا تصفیہ ہوجاتا ہے یعنی وہ پایہ تکمیل کو پہنچ کر پوری سورت میں اپ کو مل جاتا ہے اس نفس کے اندر اللہ تعالی نے کیا رکھا ہے تو اس کی یہ کس نے کھایا ہے کہ نفس کی طرف ٹھیک ٹھیک اگے بڑھتے ہیں ایک اعتراض اسی ایت پر ہے اس تصور پے یہ اٹھایا جاتا ہے کہ جب اپ نے بھی یہ بات فرمائی بھی کہ وہ پوری بات کرتے ہیں کہ یہ خیر و شر کا الہام انسان کو کیا گیا اس کی شخصیت میں ودیعت کیا گیا اور پھر اس کی تفصیلات وحی کے ذریعے ائیں تو اعتراض ہی کیا جاتا ہے کہ جب اگر ایت کو پڑھیں تو اس میں تو علامہ فضول رہا تھا تو ہم نے اعلان کردیا فضول یہاں پر یہ جو تہدید کی جاتی ہے کہ تفصیل وحی کے ذریعے ہوگی یہ تو عمومی یا اصولی طور پر اللہ تعالی نے فضول اور تقوی کی بتائی ہے تو ایت کے اندر یہاں کون سا قرینہ موجود ہے کہ اپ اس کی تخصیص کرکے کچھ عرصہ وہی کی طرف موڑ دیتے ہیں باقی جو ہے وہ یہ کیا کرنا ہے میں نے اپ کو بتایا کہ ہمارے یہاں صحابہ کرام میں سے بہت سے جلیل القدر صحابہ اسی طریقے سے تابعین میں سے بہت سے مفسرین ایسے ہی سمجھتے ہیں اور یہ بالکل ٹھیک
-
00:22:04 بالکل اسی طرح اپ یہ دیکھیے کہ جو ایت ہم نے سورہ اعراف کی موضوع بحث بنائی جس میں عہد انس کا ذکر ہے یعنی باقاعدہ مکالمہ ہوا ہے
-
00:22:15 کس سے ہوا ہے
-
00:22:16 انسانی نفوس سے ہوا تو نفوس سے مکالمہ ہوا اور اس کے نتیجے میں اس شعور کی خبر دی گئی جس کے ساتھ انسان پیدا ہوا
-
00:22:24 پیچھے جیسی کی کیا سوال ہے یعنی پوری بات بیان کر دی گئی ہے پوری بات جتنی بیان کی گئی ہے اس سے زائد ہے کھرب بھی ہم اس میں داخل نہیں کرتے یہ بات کہ جب انسان کو اس طرح تخلیق کر دیا گیا اس کی فطرت میں یہ چیزیں الہام کر دی گئی تو اب نبوت ائے گی یہ تو خود قصہ ادم میں بیان ہو گیا تو ائمہ جاتی ہے اب اس کے بعد میری ہدایت اتی رہے گی یہ بیان ہوگیا کہ خود ادم کو ہم نے پیغمبر بنایا تو ظاہر ہے پیغمبر جب بنایا گیا یعنی ان سے غلطی ہوئی اس پر انہوں نے توبہ کی پھر ان کا استفاق ہوا اور میں پیغمبری کے منصب پر فائز کر کے دنیا میں بھیج دیا گیا تو وہاں جنت میں یعنی وہ جو باغ تھا جس میں ان کو رکھا گیا اصل میں ان کی فطرت کا ظہور ہوا ہے اس فطرت کے ظہور کے بعد
-
00:23:07 جب وشعور سامنے اگیا ہے تو اب اللہ تعالی نے ان کو وحی سے نوازا ہے تو یہ بات تو خود قران نے ساری بیان کر دی ہے اس میں مجھے کیا کہنا اس کی ایک مرحلے کو بیان کر دی
-
00:23:19 اعتراض یہ ہے کہ یہ جو ایت ہے ہم جب یہ کہتے ہیں قران میں فلاں جگہ یہ بیان کیا وہاں جگہ یہ بیان کیا اب اس کو ہم سمجھیں گے تو مکمل بات سمجھ میں ائے گی ایت کے اندر اعتراض ہی کیا جاتا ہے بھئی غامدی صاحب سے زائد سے یہ برامد کرتے ہیں تو ان کے اصول کے مطابق تو اس میں یہاں پر وحی کو کہیں سے داخل ہی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں تو صرف یہ بیان کر دیا کہ ہم نے تو انسان کی شخصیت میں خیر و شرط ڈال دیا وہی کو خیر و شرط تو بھیج دے کے نہیں اتی تفصیلات بتاتی ہیں اس کی تعین کرتی ہے اس کو ہر لحاظ سے واضح کر دیتی ہے اس کے اطلاقات بتاتی ہے اپ کو یعنی یہ جو بات جتنی بیان کی گئی ہے اس سے زائد کا ہی کرتی سوال یہ کہ وہ یہاں تو زیر بحث نہیں ہے کہ یہ تو ایسے ہی ہے کہ اچھا یہ بتائیے کہ عہد انس کا یہاں ذکر ہوا ہے وہاں پر کیا ہے تو وہاں بھی بتا دیا گیا کہ تم یہ نہ کہو کہ کہیں ہمیں بتایا نہیں گیا تھا اب وہ جو بتانے کا عمل ہے قصہ یاد ہے یہ کس نے کہا ہے کہ جو بات بیان کی جارہی ہے وہ ساری کی ساری یہاں بیان ہوگئی اتنا حصہ یہاں بیان ہوا ہے وہ یہاں سے لیا جا رہا ہے باقی پرانے مجید پوری بات بیان کرتا ہے تو اللہ کی پوری کتاب کو سامنے رکھ کر دین کی خدمت کو سمجھیں گے یا ایک ایک ایت کو ہر ادمی لے اڑے گا
-
00:24:38 اگے بڑھتے ہیں اچھا یہ جو ایت ہے اس پر ایک بڑا بنیادی اشکال یا اعتراض ہی کیا جاتا ہے کہ چلیں اپ کا یہ مقدمہ تھوڑی دیر کے لئے ہم مان لیتے ہیں
-
00:24:51 کہ انسان کو خیر و شر میں تمیز کرنے کا شعور دیا گیا ہے لیکن یہ تو شعور ہے اچھے اور برے کو الگ الگ کیٹیگریز کے طور پر سمجھنے ہیں ایک چیز بلیک ہیک چیز وائٹ ہے انسانی یہ سمجھتا ہے کہ بلیک کانسی ہے وائٹ کونسی ہے لیکن اس میں کونسی اختیار کرنی ہے میں اقتباس پڑھنا چاہوں گا اپ کے سامنے
-
00:25:13 یہ ایک ناقد انہوں نے لکھا ہے کہ اس ایت کو بنیاد بنا کر غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کے لئے اللہ تعالی نے انسان کو اخلاقی حادث عطا فرمائے اور اسی احساس کی بنا پر
-
00:25:23 ایک برے سے برا ادمی بھی جب گناہ کرتا ہے تو اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے
-
00:25:27 اور اگر اس کی خاطر حیلے بہانے تراشتے بھی پڑے تو اپنی فطرت
-
00:25:32 ان چیزوں کو یہ بہانہ تراشنے کو اپنی فکر کے خلاف پاتا
-
00:25:36 مزید فرماتے ہیں کہ انسانوں کی ہر معاشرت میں کسی نہ کسی تصور حق و انصاف کا پایا جانا بھی ظاہر ہے کہ انسانی نفس میں خیر و شر کا احساس عالمگیر ہے لیکن
-
00:25:45 اس حادثہ اخلاقی کے باوجود چونکہ انسانی اعمال تصورات خرچہ میں تفاوت اختلاف کا امکان ہو سکتا ہے لہذا اللہ تعالی نے ایسے بڑے اختلافات کو رفع کرنے کے لئے اپنے رسولوں کے ذریعے سے وہی پہنچا دی اعتراض ان کا یہ ہے
-
00:26:00 [Unintelligible]
-
00:26:01 غلطی غامدی صاحب سے یہاں پر یہ ہوئی ہے کہ اپنے دعوے کے اثبات کی خاطر جو قرانی ایت انہوں نے پیش کی ہے وہ کسی بھی طرح اس کی دلیل نہیں بن سکتی کعبے توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس ایت میں یہ کب کہا ہے کہ خیر و شرع کی تعین بھی نفس انسانی کے ذریعے ہو سکتی ہے اس ایت میں صرف اتنی خبر دی ہے کہ اصل خیر و شر جو بھی ہو ہم نے نفس انسانی میں ودیت کر دیا ہے اور بس
-
00:26:23 لیکن خیر و شر کے معافی جو بھی تصور ہے یعنی کسی عمل کے خیر ہونے کا کیا اصول ہے شر ہونے کا کیا اصول ہے توہین کیسے کی جائے گی یہ سب کچھ تو یہ ایت بتاتی نہیں ہے قران مجید کی بے شمار ایات ہیں
-
00:26:37 تو اسی مضمون کو واضح کرتی ہو اور بتاتی ہیں کہ خیر و شر حق کو انصاف عدل و ظلم کا واحد حتمی ذریعہ صرف اور صرف وہی ہے نماز پڑھنی ہے شراب نہیں پینی ان سب کی تعین میرا نفس نہیں کر سکتا جس کے بارے میں غامدی صاحب کا یہ دعوی ہے کہ اس میں خیر و جان رکھ دیا ہے خلاصہ ان کے سوال کا میں کر دیتا ہوں یہ کہاں اس ایت میں کہا گیا ہے اس میں تو زیادہ سے زیادہ چلے مان بھی لیں اپ کی بات کہ خیر کو بھی جانتا ہے انسان سر کو بھی جانتا ہے خیر و شر کی طرف مائل اس نے کہا ہونا ہے یہ تو کہیں بھی نہیں بیان ہوا ہے کہ پوری کی پوری ایت کی کسی نے تحریر کی ہے
-
00:27:16 کیا جو سورہ اعراف کے اندر عہد الست ہے اس کے اگے جو اللہ تعالی نے حجت کے اہتمام کے لئے گفتگو کی ہے اس پر بھی کوئی انہوں نے بات بیان کی ہے دونوں جگہ پوری بات بیان ہوئی اور دیکھیں کیا بیان ہوئی ہے وہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ توحید کا اقرار تم نے کیا تھا اس کی بنیاد پر تم مصروف ٹھہرائے جاؤ
-
00:27:35 سوال یہ کیسے موصول ٹھہرایا جائے اگر توحید کا کوئی اقرار
-
00:27:40 یہ بتاتا ہی نہیں کہ یہ اختیار کرنا ہے اور یہ نہیں اختیار کرنا تو موصول کیسے ہو جائے گا کہ اللہ تعالی پھر کس بنیاد پر حجت تمام کرے گا وہ جو واقعہ ہے جو پرانے مجید میں بیان کیا ہے وہ واقعہ کیا ہے اس پر اللہ تعالی اتنا بڑا نتیجہ نکال رہے ہیں یہاں یہ کہہ رہے ہیں کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ خیر و شر تو ہم عام طریقے سے اس کی تعبیر کرتے ہیں وہ تو پوری بات بیان کرتی ہے یعنی اس کے اندر یہ الہام کیا گیا ہے کہ کس طرح نافرمانی کرو گے خدا کی اور کس طریقے سے اپنے اپ کو اللہ کے حدود کا پابند بناؤ گے
-
00:28:21 پوری بات بیان کی گئی ہے خیرو شرط تو اصل میں اس کا بڑا ناقص ترجمہ ہے جو بات بیان کی گئی فضول رہا وہ تقوی یعنی نفس جس وقت اللہ کی نافرمانی کی طرف جاتا ہے غلط راستے کی طرف جاتا ہے جب وہ شر کو اختیار کرتا ہے تو اس کی حقیقت اس پر الہام کی گئی ہے اور جب وہ تقوی اختیار کرتا ہے یعنی اللہ کے دیے ہوئے ڈسپلن کے اندر انا چاہتا ہے اس کی حقیقت حرام کی گئی ہے اور اگے کیا ہے یہاں بھی مسولیت بیان ہوئی ہے اس پوری بات کو سامنے رکھ کر کرنا کیا چاہیے معترضین کو فجورا ہوا تقوی کی پوری تعریف کریں
-
00:29:01 الفاظ کا بتائیں کیا مطلب ہے یہ بتائیں ان کو الہام کرنے کا یہاں ذکر کیوں ہوا ہے یہ بتائیں اگے کا دفنا منظور کا کیا مفہوم ہے یہ بتائیں کہ جو سورہ اعراف میں بات کہی گئی ہے اس کے بعد مسولیت کیسے پیدا ہوگئی ہے یہ بتائیں کہ اللہ تعالی نے جو یہ کہا ہے کہ تمہاری فطرت ہے جس کے اندر میں نے دین رکھا ہے یہ ساری باتیں کہ صرف یہ بیان کرنے کے لئے اللہ تعالی نے کہی ہے کہ میں نے بس تمہارے اندر کوئی خیر شر نہیں سکتا ہے اس کا احساس ڈالا ہے یہی احساس ہے جس کا اپ عالمگیر سطح کے اوپر ضرور دیکھ رہے ہیں اس وقت پوری دنیا سے جواب گفتگو کرتے ہیں مجھے یہ بتائیں کہ جب اپ نے یہ کہنا ہوتا ہے کہ امریکہ نے فلاں معاملے میں ظلم کیا ہے صدام حسین نے یہ غلط کام کیا ہے فلاں شخص نے لوگوں پر ستم توڑا ہے فلاں عدالت نے غلط فیصلہ دیا ہے
-
00:29:54 یہ ساری گفتگو انسانی فطرت کی بنیاد پر ہو رہی ہوتی ہے اس کو بیان کر رہا ہے قران مجید
-
00:29:59 یہ کس طرح کی تنقید
-
00:30:02 ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایات کو بتایا جاتا اور میں نے اپ کو بتایا ہے کہ اس کو اسی طرح سمجھا ہے ہمارے ہاں سلف میں صحابہ کرام میں سے بہت سے بزرگوں نے تابعین میں سے بہت سے بزرگوں نے اور اس کے بعد مولانا سید عبداللہ صاحب مودودی کے اقتباسات میں نے اپ کے سامنے رکھے ہیں استاد امام نے ایسے ہی سمجھا ہے اچھا ابن تیمیہ کا میں ذکر اس لئے نہیں کرتا کہ وہاں بہت سی دوسری بحث کلامی نوعیت کی لیکن انہوں نے بھی اس کو بنیاد بنا کر بہت سی چیزیں کہی ہیں سب لوگ کہہ رہے ہیں کہ کیا اللہ تعالی نے فطرت میں ڈالا ہے تم لوگ الفطرہ کا کیا مطلب بیان کر رہے ہیں
-
00:30:37 اسلام
-
00:30:38 اپ مجھے بتائیں کہ یہ کیا ہے یعنی جو اجمال اپ بیان کر رہے ہیں اپ کے ہاں تو اس کی تفسیر کرنے والے لوگ اتنا بڑا لفظ بول رہے ہیں میں نے تو صرف خیر و شاعر کہا ہے وہ کہتے ہیں اسلام تم لوگوں کو 2017 کا مطلب ہے یوں نہ دو الاسلام
-
00:30:56 وہ اسلام اور مثالیں کیا دیے ہیں نماز
-
00:31:00 یہ زیر بحث کہاں
-
00:31:01 یہ کون کہتا ہے کہ وہ لوگ کہ جن تک کسی پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی جن کو اللہ تعالی کا پیغام نہیں پہنچایا گیا ان سے نماز کے بارے میں پوچھا جائے
-
00:31:11 دکان نے خود بتا دیا کہ خیر و شر کا جو عمومی الہام ہے یا اجمالی علم ہے ان کی مسولیت اس کی بنیاد پر ہے اور جو توحید ان کے اندر ہم نے ڈال دی ہے اس کی بنیاد پر وہ جواب دے ٹھہرائے جائیں گے پھر عرض کر دوں گا جتنا جتنا ملتا جائے گا اس کے لئے تو جواب دہ ہوتے چلے جائیں گے تو جب پیغمبر کی دعوت پہنچ جائے گی پیغمبر کی ہدایت پہنچ جائے گی اس کے لئے جواب میں ٹھہرائے جائیں گے اللہ تعالی علم پہلے دیتا ہے اس کا بعد میں ہے ہماری مذہبیت علم بعد میں دیتی ہے پوچھنا پہلے شروع کر دیتی تو اللہ تعالی نے تو ایک ایک مرحلے کو واضح کیا ہے اور اگر ادمی میں بصیرت ہو اور وہ جو ہمارے ہاں کے علم کلام کی روایات ہیں ان سے اوپر اٹھ کر اللہ کی کتاب کے اندر اتر کر دیکھے تو اس سے اندازہ ہو کہ ایک ایک سوال کا جواب دے دیا فلسفے کی پوری ما بعدت طبیعت کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا ہے اور بتایا میں نے ایسے انسانوں کو بنایا ہے
-
00:32:08 شناختی سے کیا تعلق
-
00:32:10 یہ مجھے بتائیے کہ یہ بحث کی کونسی چیز ہے کھانے میں اچھی ہے کون سی کھانے میں بری ہے ان کی ایک ہے تعین اور تفصیل اور اطلاق یہ تو ہمیشہ ایسے ہی ہوگا کہ پیغمبر اکے کریں گے لیکن ان کے موادی کیا ہیں
-
00:32:24 ان پر ہم اگے چل کر جب اپ کی بحث اٹھائیں گے تو میں عرض کروں گا کہ یہ جو مذہبی چیزیں ہیں جیسے طیبات و خبائث کا فرق ہے یہ کس بنیاد پر ہے فطرت کہاں تک رہنمائی کرتی ہے پیغمبروں کی ضرورت کہاں پڑتی اس کو تفصیل سے ہم دیکھتے ہیں تفصیل سے دیکھیں گے یعنی یہ اصل میں اب وہ ہدایت زیر بحث ائے گی جو پیغمبروں کے ذریعے سے ملتی ہے یہاں دعوی یہ نہیں کیا جا رہا ہے کہ ساری جو پیغمبروں کے ذریعے سے ہدایت ملتی ہے وہ فطرت میں وصیت کر دی گئی بتایا یہ جا رہا ہے کہ دین کی ایک بنیاد ہے وہ کیا ہے توحید اور خیر و شرکت شعور یہ انسان کی فطرت میں دیا گیا ہے پیغمبروں نے اکے اس کی تفصیل کرکے اس کو ایک باقاعدہ شریعت میں بدلا ہے یہ تو کبھی اج تک میری زبان سے لفظ نہیں نکلا کہ شریعت فطرت میں طبیعت کی گئی جو میرے حقوق کی بحث ہے اس میں اصرار کر رہا ہوں کہ فلاں فلاں روایتیں بیان فطرت ہے بیانی شریعت نہیں ہے شریعت کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کے ذریعے سے اپ جو کچھ بتایا جا رہا ہے تو جو انبیاء کے ذریعے سے بتایا جا رہا ہے اسے فطرت میں ثابت ہی تب کیا جا رہا ہے کہ اپ اس کی بنیاد پر معاوضہ کریں کہ جب ہم دنیا میں بات کرتے ہیں تو ہم اسی چیز کا حوالہ دیتے ہیں کہ فلاں نے ظلم کیا فلاں انصاف کیا اس پر ایک تفصیلی اقتباس میں پڑھوں گا اس سے پہلے ایک مختصر سوال وہ یہ ہے کہ ایک حدیث ہمارے ہاں صحیح مسلم میں ہے ٹھیک روایت ہے
-
00:33:44 وہ حدیث ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا اللھم اتی نفسی تقوی
-
00:33:51 یا اللہ میرے نفس کو تقوی دے اور تو ہی ہے جو تزکیہ کرنے والا ہے بہترین تزکیہ کرنے والا ہے
-
00:33:57 اعتراض ہی کیا گیا ہے اپ کی جو ایت کی انڈرسٹینڈنگ پر تو یہ پوری کی پوری اس لئے غلط ہے کہ اس لئے خود روایت میں اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں اللہ کو کہ یا اللہ تو میرے نفس میں تقوی دے اگر غامدی صاحب کی انٹرپریٹیشن جو عائد کی ہے پہلے سے نفس میں تقوی اور شرم موجود تھا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہنے کی کیا ضرورت ہے اللہ سے تو مجھے کچھ وقت اچھی عربی سیکھنے کے لئے بلکہ عربی کیا دنیا کی کوئی زبان سیکھنے کے لئے صرف کرنا چاہیے میں روز دعا کرتا ہوں
-
00:34:29 ہوا کرتا ہوں
-
00:34:31 تو پروردگار ہم کو سیدھی راہ دیکھا یہ سیدھی راہ مجھے مل بھی چکی
-
00:34:37 الحمدللہ میں مسلمان ہوں اس کے باوجود دعا کرتا ہوں
-
00:34:41 یعنی یہ جو عربی زبان میں الفاظ بولے جاتے ہیں وہ مدارج میں بولے جاتے ہیں پروردگار یہ جو میرے اندر تو نے تقوی ودیعت کیا ہے میرے شعور میں اس کو ڈال دے
-
00:34:53 اس کے حقائق مجھ پر واضح کر رہے اس کی تفصیلات سے مجھے اگاہ کر دیں یہ بڑی خوبصورت دعا ہے اس کا اس سے کیا تعلق ہے اور پھر یہی ہے کہ روایت کو قران کی روشنی میں سمجھا جائے گا یا یہ دعا کے ذریعے سے پورے کے پورے قران مجید کو باطل قرار دیا جائے
-
00:35:10 قران مجید میں دس مقامات پر یہی سورت
-
00:35:13 اب اس کو اندازہ کیجئے کہ کوئی ادمی اس سے یہ استدلال کرے کہ قران کہتا ہے یا ایھا الذین امنو امنو امنو کہا ہے نہ پھر حکم دیا جا رہا ہے تو عربی زبان میں جو فیل ہوتے ہیں وہ ابتدائی فعل کے لئے استعمال ہوتے ہیں فیصلہ فعل کے لیے استعمال ہوتے ہیں نتیجہ فعل کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان کے مدارس کو سمجھنا چاہیے تو یہاں اصل میں جو تقوی یہاں دیکھیے تقوی ہاجر نفس کا تقوی ہے وہی زیر بحث ہے کہ پروردگار مجھے اس کا شعور دے
-
00:35:43 میں اس کا علم حاصل کروں یہ وہ طلبو ہے جو خدا کی طرف سے ہوتا ہے اسی کو تو ذکر کہا ہے اسی کو ذکر کہا ہے اسی اصول کے اوپر ہر نماز میں ہم کہتے ہیں
-
00:35:55 یعنی جو کل ہدایت تھی اج اس کے کوئی مزید اطلاقات ہے تو وہ اس پر واضح ہو اگر کہیں کوئی چیز اجمال میں رہ گئی ہے تو پروردگار اس کی تفصیل دے اس کو کہتے ہیں بلاغت کی اصطلاح میں تجرید یعنی جیسے جیسے اپ فعل استعمال کرتے چلے جاتے ہیں پچھلی چیز خود بخود موقد ہوتی جاتی ہے اور اگے اس کی تجوید ہوتی چلی جاتی
-
00:36:15 موسم دعا کرتے ہیں تو اسی وجہ سے یہ بحث کی جاتی ہے کہ صراط المستقیم میں جب اپ ہدایت پر نہیں ہوتے تو یہ ہدایت کی دعا ہے جب اپ ہدایت پر ا جاتے ہیں تو ہدایت پر ثبات کی دعا ہے اسی طرح یہ دعا ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی قران مجید اتنے سیری الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ
-
00:36:34 صالحہ محفوظ ہے سیری ترین الفاظ میں کہہ رہا ہے توحید ہم نے تمہارے اندر ڈالی ہوئی ہے اور یہ کیا ستم ظریفی ہے مجھے یہ بتائیے کہ وہ حضرات جو ختم نبوت کی ایت کو چھوڑ کر دائیں بائیں سے نبوت کے اس بات کی ایات پڑھتے ہیں وہ کس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں
-
00:36:54 جہاں کوئی چیز زیر بحث ہے اس کو سمجھیے روایات کے اندر یا حدیثوں کے اندر جو بات بیان ہوئی ہے اس کو عربی زبان اس کے ادب کو سامنے رکھ کے جاننا چاہیے دعائیں ہم کرتے ہیں روز دعائیں کرتے ہیں بہت
-
00:37:07 ایام کہتے ہیں پروردگار مجھے نیک بنا دے کوئی ادمی اس سے استدلال کرے کہ جیسے ہی ہم دعا کرتے ہیں ثابت ہو جاتا ہے پہلے دیکھ نہیں
-
00:37:14 [Unintelligible]
-
00:37:15 روز اس طرح کی دعائیں کرتے ہیں مجھے نیک بنا دے مجھے صالح بنا دیں مجھے یہ بتائیے اپ کے ہاں جو نماز میں دعا رکھی گئی ہے حضرت ابراہیم کی کیا دوا ہے ربی جلنی مقیم الصلاہ پروردگار مجھے نماز کا اہتمام کرنے والا بنا دے روز نماز پڑھنے والا
-
00:37:35 کرتے رہیے دعا اس موقع پر دعا کا مطلب کیا ہوتا ہے
-
00:37:39 ہیلو صحیح ہے استدلال کرینگے کہ اس سے پہلے نماز ہو کیسے سکتی ہے کیونکہ دعا تو اجاتی ہے
-
00:37:44 [Unintelligible]
-
00:37:45 اس کی مذہبان دے سکتا ہوں روایت سے یہ پتہ چل گیا میں 1 منٹ کے لئے اگر مان لوں تھوڑی دیر کے لئے کہ جو اعتراض کیے جارہا ہے کہ اگر تقوی پہلے سے ہوتا تو رسول اللہ یہ کیوں کہتے چلے رسول اللہ نے کہہ دیا تقوی مل گیا تو وہ جو ایت میں الفاظ ہیں کہ ہم نے الہام کی تو ان کا ہم کیا کریں گے اس کے مبادی وہاں سے طے کریں گے جب وہ چیزیں وہاں سے طے ہو جائیں گی اس کے بعد عربی ادب زبان اس کی عبادت کو سامنے رکھ کر روایتوں کو بھی سمجھیں کہ دوسری ایات کو بھی سمجھیں گے
-
00:38:20 10 جگہوں پر ایات کے اندر وزن متقین جو کہا ہے
-
00:38:26 وزن متقین ماما مجھے یہ بتائیے کہ یہ ہم اپنی اولاد کے بارے میں کہتے ہیں تو ہماری اولاد کے اندر تقوی پہلے موجود ہوتا ہے تب بھی کہتے ہیں نہیں ہوتا تب بھی کہتے ہیں یہ دعائیں جو ہم کرتے ہیں یہ دعائیں روز کی جاتی ہیں اور جس وقت یہ دعائیں کی جاتی ہیں تو یہ ماضی کی نفی نہیں کر رہی ہوتی بلکہ یہ اس سے اگے سوار استقامت تعلق ان چیزوں کو بیان کرتی ہے اس کے لئے عربی زبان عربی زبان کا دنیا کی ہر زبان کو پڑھنا چاہیے کہ اس میں کس طرح سے افعال استعمال کیے جاتے ہیں اللہ میری اولاد کو نیک بنا تو اس کا مطلب تو نہیں کالا چور ہے پہلے چور ہے استدلال کے طریقے کیا ہے
-
00:39:09 اگے بڑھتے ہیں
-
00:39:11 ان سب
-
00:39:12 ہمارے پاس وقت بھی کم ہے 10 منٹ باقی ہیں
-
00:39:15 ابھی جو اپ نے بات فرمائی تھی کہ یہ جو ایت ہے علامہ فضل الرحمان
-
00:39:20 اسی کو اس میں جو حقیقت بیان ہوئی ہے ہم روزمرہ مشاہدہ کرتے ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر لوگ کہتے ہیں بھئی ظلم مت کرو یہ نہ کرو
-
00:39:28 اس پر ایک اقتباس میں اپ کو پڑھ کے سناتا ہوں اور پھر سوال رکھتا ہوں اپ کے سامنے
-
00:39:33 تو لکھنا ہے کہ غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ ہر معاشرت میں حق و انصاف کا کوئی نہ کوئی تصور موجود ہوتا ہے ان کے دعوے کے حق میں سرے سے کوئی دلیل نہیں ہے
-
00:39:41 بس یہ نہیں ہے کہ خیر و شر انسانی نفس میں موجود ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا انسانی ذرائع سے خیر و شر کی تعین ممکن ہے یا نہیں
-
00:39:50 دوسرے لفظوں میں حق و انصاف عدل و ظلم کا درست تصور کیا ہے اس کی تعین کیسے ہوگی
-
00:39:55 ان سب کی چوکی دلیل سونیا کی بنیادی اصولوں پر مبنی ہے لہذا خالصتا
-
00:40:01 عمرانی اتی نقطہ نگاہ سے غامدی صاحب کی ذلیل کا جائزہ لیا جائے تو غامدی صاحب کا یہ موقف ثابت نہیں ہوتا وہ ایسے کہ تمام انسانی معاشروں میں حق و انصاف کے کسی نہ کسی تصور کا پایا جانا اس بات کی لازمی دلیل نہیں بن سکتی کہ حق و انصاف کا تصور فطری ہے کیوں لکھتے ہیں کہ ہیگل باکس فرائیڈے کے مطابق خیر و شر اور حق کو انصاف وغیرہ جیسے تمام تصورات درحقیقت معاشرتی تعلقات اور ان کے نتائج میں کام قائم ہونے والی معاشرتی درجہ بندی یعنی سوشل اسٹرکچر کی پیداوار ہے یعنی عدل و انصاف کا سوال ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دو افراد کے تعلق کے بعد حقوق و فرائض کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے جب یہ تعلق قائم نہ ہو تو وہ حقوق و فرائض کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے دوسرے لفظوں میں ماہر عمرانیت کے مطابق حق اور انصاف کا تصور بذات خود ایک خاص طریقے سے موجودہ انسانی کے اظہار کے بعد پیدا ہوا ہے نہ کہ یہ تصور پہلے سے انسانی فطر پر موجود ہے سوال ان کا یہ ہے کہ دنیا میں حق و انصاف تو کہیں پایا ہی نہیں جاتا حق کو انصاف تو انسان اپنے اپنے لحاظ سے اپنے اپنے معاملات اوقات میں طے کر لیتے ہیں ایک چیز امریکہ کے لئے کوئی انصاف ہے ایران کے لئے ظلم ایران کے لیے کون صاف ہے امریکہ کے لئے ضروری ہے کہ جو بڑے بڑے فلسفی ہیں انہوں نے جب حق کو انصاف یا خیر و شر کے بارے میں گفتگو کی ہے تو انہوں نے اس کو انسان کے تجربے اور تحمل پر محمول کیا ہے یہ تو حقیقت کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ہے
-
00:41:33 موجود تو مان لیا گیا
-
00:41:34 اپ کو انصاف کے تصورات موجود ہیں ہر معاشرے میں موجود ہیں اپ کی تمام عدالتی نصاب کسی کے اوپر کھڑا ہے تمام تحریکیں اس پر اٹھ رہی ہیں سارا دن اپ جب بیٹھے ہوتے ہیں اور اپ لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیالات کر رہے ہوتے ہیں تو اسی بنیاد پر کر رہے ہوتے ہیں کسی انسان پر تبصرے کی بنیاد یہی ہوتی ہے فلاں شخص نے ٹھیک بات کی فلاں نے ٹھیک بات نہیں کی فلاں نے میرے ساتھ زیادتی کر ڈالی فلانے غبن کیا فلاں نے ملاوٹ کی فلاں نے میرا حق مار لیا فلاں نے میرے اوپر زیادتی کی یہ ساری باتیں ایسی اصول پر بولی جارہی ہوتی ہے انسان کے اندر یہ چیز کب اتی ہے
-
00:42:08 یہ فلسفی اس پر گفتگو کر رہا ہے جب معاملہ ہوتا ہے تب اتی وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اصل میں انسان کا تامل ہے صدیوں کا جس سے اس نے سیکھا ہے یہ کوئی فطرت کے اندر چیز موجود نہیں ہے تو یہ تو فلسفہ بیان ہو رہا ہے نا وجود کا انکار کہاں ہو رہا ہے
-
00:42:25 بات یہ ہے کہ حق کو انصاف کے تصورات موجود ہیں عالمگیر سطح پر موجود ہیں تمام عدالتی نظام اس پر کھڑے ہیں تمام دساتیر اس پر کھڑے ہیں انسانوں کے معاملات اور تعلقات میں تمام تبصروں کی بنیاد نہیں ہے اپ کسی جگہ حقوق فرائض کی بحث کرتے ہیں وہ فوری طور پر اسی عالمگیر صداقت کے اوپر اپ کے تمام تصورات کی گواہی دیتی ہے یہاں بحث یہ ہو رہی ہے ماہرین عمرانیت کے ہاں یا فلسفیوں کے ہاں کہ یہ چیز کیا انسان نے تعمل سے سیکھی ہے یا اس کی فطرت کے اندر موجود ہے یہ بحث یہ ہے اس کا میری بات سے کیا تعلق
-
00:43:02 یعنی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ انسان کی فطرت کے اندر موجود ہے یہ بات اللہ تعالی نے بتا دی اللہ تعالی نے بتا دی ہے اور پھر اس کے بعد اپ یاد کریں جس وقت ہم مذہب میں داخل ہونے سے پہلے گفتگو کر رہے تھے تو میں نے اپ سے یہ عرض کیا تھا کہ یہ سارا مقدمہ جو فلسفے نے قائم کیا ہے بے بنیاد مقدمہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو پیدا ہوتے دیکھتے ہیں یعنی مجھے سیدنا ادم علیہ السلام کے زمانے سے جا کے وہاں پر فوسلز کے ریکارڈ کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے بچہ میرے گھر میں پیدا ہوتا ہے اس کے اندر حصے جمالیات کہاں سے اتی ہیں اس کے اندر اخلاقی شعور کہاں سے اتا ہے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مارانا سید ابن مولوی صاحب نے وہ بڑی درست بات لکھی ہے کہ یہ درحقیقت ہو نہیں سکتا کہ ایک چیز بالکل ہے میرے اندر موجود نہ ہو اور تعاون اس کو پیدا کر
-
00:43:52 میری زبور جو یہاں ہم فلسفیوں کے ساتھ اختلاف اس میں کر رہے ہیں اور یہ اختلاف علم و عقل کی بنیاد پر بھی کر رہے ہیں استدلال کے ذرائع کی بنیاد پر بھی کر رہے ہیں اور اخر میں جا کر اپنی کتاب کی بنیاد پر بھی کر
-
00:44:07 یہ زیر بحث نہیں ہے کون سا فلسفی یہ کہتا ہے کہ تصورات موجود نہیں
-
00:44:12 [Unintelligible]
-
00:44:13 کارڈ میں تو کھڑے ہو کر یہ کہا تھا کہ اوپر تاروں بھرا اسمان ہے اور نیچے میرا اخلاقی وجود ہے اخلاقی وجود یا جمالیاتی حس اس سے انسان پہچانا جاتا ہے
-
00:44:24 اس کی نفی کون کرتا ہے
-
00:44:25 رہی یہ بات کے ٹائم کرنی ہے یا اطلاق کرنا ہے پیغمبر کرتے ہیں
-
00:44:32 یعنی وہ بنیاد قائم کرنی ہے اللہ تعالی نے
-
00:44:36 اللہ تعالی کی بات کے جواب میں اپ ہیگن اور کاٹ کا حوالہ دیں گے
-
00:44:40 اور دوسرا یہ ہے کہ جو وہ استدلال کر رہے ہیں اس استدلال کا مجھے محاکمہ کرنے کا حق نہیں ہے اس میں نفی کس چیز کی ہو رہی ہے جو بات میں نے بیان کی وہ کیا چیز بیان کی ہے یہ بیان کی ہے کہ ہیگل کانٹ سب نے وہ بات مان لی ہے جو اللہ تعالی کہہ رہا ہے میں نے یہ بیان کیا ہے کہ انسان کا عالم بھی احساس ہے عالمگیر احساسات کا جب استقرار کیا جاتا ہے تو فلسفیوں کے نام نہیں لیے جاتے وہ انسان کو دیکھا جاتا ہے
-
00:45:06 جب میں یہ کہتا ہوں کہ انسان ایک حیوان عاقل ہے
-
00:45:09 اس کے لئے مجھے کوئی پینسل سے پوچھنا تھا انسان کے اندر حصے جمالیت ہے اس کے لئے میں کسی فلسفی کے پاس جاؤں گا یہ تو میرا روزمرہ کے مشاہدہ ہے میں دیکھتا ہوں کہ جانور پھولوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں میں کیا کرتا ہوں
-
00:45:25 میں دیکھتا ہوں کہ میرے لئے نظر نوازی کے سامان کیا چیز ہوتے ہیں اور دوسرے حیوانات کے لئے کیا ہوتے ہیں تو میں نے اپ کو بڑی تفصیل سے بتایا تھا کہ میرا علم کیسے پیدا ہوتا ہے
-
00:45:35 کریں گے اب اس کی بنیاد کیا ہے میں نے یہ عرض کیا کہ یہ میرے مشاہدے کی بنیاد پر بھی فطرت ہے اور یہ اللہ تعالی نے جس طرح کے بیان کیے اس کی بنیاد پر بھی فطرت ہے اللہ تعالی نے صرف اتنا ہی بیان کیا پورے دین کے بارے میں کہا ہے کہ فطرہ ہے
-
00:45:56 مجھے ایک تعجب ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو مذہبی پس منظر رکھتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ ان ایات کو پڑھتے ان ایات پر غور کرتے ان کے ذریعے قران مجید جن برتر حقائق کی خبر دے رہا ہے ان کی تشریح و تفسیر کرتے اور ان فلسفیوں کو یہ بتاتے ہیں کہ کان گرم کر کے کہ دیکھو اس کائنات کا خالق کس طرح تمہاری فطرت کو بیان کر رہا ہے اور ہم اس کی نبوی میں بات کر رہے ہیں تو جب یہ کہا جاتا ہے کہ جمالیات کا حادثہ موجود ہے انسان کے اندر جب یہ کہا جاتا ہے حادثہ اخلاق کی موجود ہے تو یہ میرا تجربہ ہے میرا مشاہدہ ہے اور استقرار کے نتیجے میں یہ ایک عالم گیر صداقت اس کے تصورات دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں دنیا کا سارا نظم اسی کے اوپر قائم ہے اس کے لئے مجھے کسی فلسفی سے کیا پوچھنا اس وقت اس کے وجود کا تو کوئی انکار ہی نہیں کرتا یہ پیدا کیسے ہوا ہے بحث یہ ہے ظہور کیسے ہوتا ہے اس کا یہ بحث ہے تو اس میں ہم یہ کہتے ہیں کہ مشاہدہ بھی یہی کہتا ہے کہ انسان بالکل اپ سے لے کے ایا ہے اور قران بھی یہی کہتا ہے کہ فلاں ہم اپ فجورا تقوی سوال جو میں نے اخری بات کی تھی اس کو ایک اور اقتباس سے میں بیان کرتا ہوں یہ جو اپ کہتے ہیں کہ عالمگیر سطح پر بھی یہی ہوتا ہے اس پر یہ اعتراض ہے کہ غامدی صاحب کا یہ کہنا بھی بے معنی ہے کہ ہر شخص گناہ کے کام کو چھپاتا ہے اس کے لیے جھوٹی دلیلیں تراشتا مسئلہ ہے کہ اگر ایک شخص ہے معاشرے کے تصور خیر و شر میں کوئی عمل برا
-
00:47:16 ہے ہی نہیں تو وہ اسے کیوں چھپائے گا مثلا اشتراکی تصور خیر کے مطابق اپنی سگی بہن سے نکاح کر لینا کوئی گناہ کا کام نہیں ہے اب اگر کوئی شخص
-
00:47:25 اس طرح کی تصور خیر پر مسمم
-
00:47:28 ایمان رکھتا ہے تو وہ اس عمل کو کیوں چھپائے گا بلکہ وہ تو ایسے لوگوں کو بیوقوف کہے گا جو اپنی خوبصورت بہن کو چھوڑ کر کسی دوسرے سے بیاہ دیتے ہیں یعنی یہ کہنا جو یہاں پر یہ صحیح بہن سے نکاح نہیں کر رہی شریعت کا مسئلہ ہے
-
00:47:42 پہلے یہ پیغمبروں نے اکے بتایا محرمات کی فہرست تو انہوں نے بتائی پہلے دیکھنا تو چاہیے کہ کس چیز پر گفتگو ہو رہی ہے وہ خیر و شر جو معاشرتی اعتبار سے خیر و شر قرار پاتے ہیں اس کے لئے کچھ مقدمات چاہیے ہوتی ان سے استدلال کیا جاتا ہے
-
00:47:59 کیا چیز ہے کہ جس کو اپ بنیاد بنا کے یہ بات کریں گے پہلے اس کو تو طے کر لیں یہاں کیا شریعت بیان کی جا رہی ہے کہ ساری کی ساری ودیعت کر دی گئی ہے پہلے شراب کی مثال دے دی
-
00:48:09 یہ نماز کی تو نماز کی مثال دے دی
-
00:48:13 خیرو سر کے تصورات عالم گیر تصورات ہے کون سے پہلے وہ دیکھا جائے گا
-
00:48:19 یعنی دنیا میں اس میں اختلاف ہو گیا ہے کہ اپ کسی کی حق تلفی کریں اور حق تلفی کی جو متعین سورتیں ہیں ان کے بارے میں کوئی اختلاف ہو گیا جان مال ابرو کے خلاف زیادتی کے بارے میں اختلاف ہو گیا اطلاق کی صورتوں میں اختلاف ہوتا ہے اور اختلاف ہونے سے کیا قیامت اجائی کے ساتھ بحث کروں
-
00:48:37 اس کو بتاؤں گا تمہارے مقدمات کیا ہے وہ جب یہ کہے گا تو اس کے ساتھ گفتگو ہوگی مجھے یہ بتائیے اگر قران مجید ہمارے پاس موجود ہے وہی موجود ہے
-
00:48:46 اس کی تعبیر میں اختلاف نہیں ہوتی ہے یہ جو اپ کے مختلف مسالک ہے اپس میں بحث نہیں کرتے یہ کیا چیز ہے اختلاف کی مثال دینے سے مراد کیا ہے
-
00:48:57 اختلاف تو انسان کیا کرتا ہے کتاب کو سمجھنے میں اختلاف کرتا ہے پیغمبر کی ہدایت کو پانے میں اختلاف کرتا ہے فطرت کی کتاب کو پڑھنے میں اختلاف کرتا ہے اس سے کیا کیا بتائی جاتی ہے لیکن ریفرنس کس چیز کا دیتے ہیں یعنی جب میرے اور ابو حنیفہ کے مابین میرے اور شافعی کے مابین میرے اور احمد بن حنبل کے مابین اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے اختلاف ہوگا تو مرجا کیا بنے گا اس بات کو کہ خود میں نے یا مدرسہ فراہی نے اصول کے موبائل کو جس طریقے سے دیکھا ہے اس میں ہم ایک پوری روایت سے بعض چیزوں میں اختلاف کر رہے ہیں تو اختلاف نہ کس چیز میں ہو رہا ہے قران کو سمجھ نہیں رہا
-
00:49:34 قران تو موجود ہے قران مجید کے محتاج کو سمجھنے میں چونکہ اختلاف ہو گیا حدیث کے مدعا کو سمجھنے میں ابھی میں نے اپ کے سامنے حدیثیں رکھی ذرا پھر یاد کیجئے
-
00:49:50 دائرہ اس کا ایک مودا ہے نہ یہ بات ہے اس میں اختلاف نہیں ہو سکتا
-
00:49:55 میں نے اپ کے سامنے وہ روایت رکھی اس کو ابن کثیر نے بھی بیان کیا ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو خلفاء پیدا کیا ہے
-
00:50:02 یعنی بالکل ٹھیک دینے حریف پر پیدا کیا ہے ان کو موضوع بنائیے نہ اپ مذہب میں کھڑے ہوئے گفتگو کر رہے ہیں سمجھائیے ان حدیثوں کا مطلب کیا ہے بتائیے قران کی ان ایات کے معنی کیا ہیں
-
00:50:13 پہلے گفتگو اس پر ہونی چاہیے
-
00:50:15 اس کے لئے یہ عرض کیا جا رہا ہے کہ قران یہاں اسی حقیقت کو بیان کر رہا ہے جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں
-
00:50:23 اس لئے ترتیب ہم نے بحث کیے رکھی تھی کہ پہلے مذہب کا حوالہ دیے بغیر میں نے اپ کو یہ بتایا تھا کہ ہم اپنی فطرت کو کیسے اپروچ کرتے ہیں اور ہمارے اپروچ کرنے کا طریقہ اسی طرح ہوگا یعنی پہلے ہمارے ہاں وہ چیز تجربے اور مشاہدے میں اتی ہے تجربہ اور مشاہدہ ظاہر ہے کہ ایک موضوعی چیز ہوتی ہے وہ پہلے میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے پھر استقرار کے نتیجے میں وہ کبھی عالمگیر بن جاتا ہے کبھی اس میں اختلافات متعین ہو جاتے ہیں پھر اختلافات متعین ہوتے ہیں تو اگلی بحث پیدا ہوتی ہے اصل کیا ہے استثنا کیا ہے استثناء ہے تو کیوں پیدا ہو گیا ہے تو اختلاف کسی چیز میں ہو جانے سے کیا فرق پڑتا ہے معلوم محرمات کی ایات کے بارے میں میں اپ کو نکال کے دکھاتا ہوں صحابہ کرام کے اختلافات
-
00:51:04 تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محرمات کا صحیح تصور ہی غائب ہوگیا اپنی جگہ ایک عالمگیر صداقت ہے کہ محرمات کے ساتھ نکاح نہیں ہونا چاہیے ہیں کون کون سی کہاں تک پھیلنا اس سلسلے کو
-
00:51:17 ماں کے بارے میں عالمگیر اتفاق ہے
-
00:51:20 اگر کسی جگہ فرض کیجئے کسی انحراف کا اپ ذکر کر دیں گے تو وہ ایسے ہی ہے کہ جس طرح سے اپ کو میں لے جاؤں شفا خانہ ہے امراض دماغی میں تو میں عقل سے محروم لوگ اپ کو دکھا دوں اس سے انسان میں عقل کی تفریح ہو جائے گی انسانی علوم حتمی نہیں ہوتے کبھی بھی وہ ہمیشہ زنی ہوتے ہیں اور ارتقائی عمل میں جاری ہوتے ہیں ان کو حتمی چیز کیا بنا دیتی ہے بھئی رضائی ماں کی حرمت کر دی تو یہ کام ہے تو پہلے ازراہ کرم چیزوں کو الگ الگ کیجئے وہ کون سی چیز ہے جس کا ذکر فطرت کے باب میں کیا جارہا ہے اور وہ کونسی چیزیں ہیں کہ جو فطرت کے مقدمات پر مبنی کرکے پیغمبرا کے بتاتے ہیں جو میں نے ابھی یہاں پر اپ کے سامنے رکھا بھی تھا اگرچہ وہ سوال بالکل واضح ہے کہ اگر ایران یہ کہتا ہے کہ امریکہ ظالم ہے اور امریکہ یہ کہتا ہے ایران ظالم ہے تو دونوں کے تصور میں ظلم موجود ہے وہ اطلاق غلط کر سکتے ہیں لیکن ظلم یہ بھی معلوم ہے کہ ظلم کیا چیز ہوتی ہے یہ بھی معلوم ہے کہ ظلم نہیں ہونا چاہیے یہ بھی معلوم ہے کہ ظلم ایک بہت بری چیز ہے یہ بھی معلوم ہے کہ عدل پر دنیا کو قائم ہونا چاہیے سب متفق ہے اب اطلاعات میں اختلاف ہو رہا ہے کہ فلاں چیز ظلم ہے یا نہیں ہے اور یہ دیکھئے کہ دوسرا یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ ظلم ہے اور میں کروں گا
-
00:52:36 وہ یہ کہنا یہ ظلم نہیں ہے
-
00:52:38 یہ فلاں چیز کا بدلہ ہے فلاں جرم کی سزا دی جا رہی ہے
-
00:52:42 یہی اطلاق کی بحث ہوتی ہے ایک لاکھ کی بحث کہہ رہی ہوتی اپ اشتہاد میں نہیں کرتے
-
00:52:47 باخدا کے دین کا اطلاق کیا جاتا ہے کہ صورتحال کے اوپر اپ بحث کر کے بتاتے ہیں ایک ادمی یہ کہتا ہے کہ سود یہ جوا ہے یہ قران کی مختلف توجیہات سے کر رہا ہوں کہ کیا اختلافات یہاں ختم ہو جاتے ہیں یعنی جب وہی اجاتی ہے تعین ہو جاتا ہے اس کے بعد کوئی اختلاف نہیں ہوتا
-
00:53:05 یہ جو اختلاف کیا جا رہا ہے اس وقت میں کہہ رہا ہوں قران کی ان ایات کا یہ مطلب ہے اپ اختلاف کر رہے ہیں کہ قران کی ان ایات میں یہ بات نہیں کہی گئی اختلاف سے یہاں بھی ہو گیا
-
00:53:15 اختلاف کو بنیاد بنا کے اس کا انکار کردیا کہ قران کوئی چیز ہی نہیں ہے
-
00:53:21 تم فطرت ماخذ ہے فطرت کی طرف رجوع کریں گے انسانی علوم جو کچھ بھی ہے وہ جب باہر ہوں گے یعنی دوسری چیزوں کے علوم تو اشیاء سے پیدا ہوں گے اور اشیاء سے خود بخود نہیں پیدا ہوں گے میرے اندر کا جو اضطراری علم ہے وہ ان سے رد پیدا کرتا ہے تو پیدا ہوتے ہیں بالکل اسی طرح سے جب انسانی علوم کا ذکر ہوگا تو وہ انسانی فطرت کے متعلق کا نام ہے اس مطالعے میں کچھ مبادی ہوتے ہیں کچھ اصول ہوتے ہیں کچھ چیزیں عالم گیر صداقت بن جاتی ہے اس میں بحث جاری ہوتی ہے اور ان میں اختلافات ہوتے ہیں لیکن اختلافات کی مثالیں دینے سے کیا ہوگا میں اس طرح کی ہزاروں مثالیں دے دیتا ہوں جو خود ہمارے یہاں قران کی تعبیر میں ہوئی ہے ہمارے ہاں تو صورتحال یہ ہے کہ قران کی ایک ایک ایت کے بارے میں مان لیا گیا ہے کہ دس دس تصویریں ہو سکتی اپ فرمائیے
-
00:54:05 ٹائم کدھر رہی
-
00:54:07 یہ تو ہم ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ قران مجید میں اللہ کا نقشہ ایک ہی ہوتا ہے
-
00:54:11 یہ ہماری قلت علم ہوتی ہے قلت تدبر ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ہم غلطی کرتے ہیں تو تعلق پیدا ہو جاتا
-
00:54:17 جی جی یہ کپڑا دلچسپ پہلو خان صاحب کے ہم ایک طرف پے کہا جا رہا ہے کہ وہی تعین کرتی ہے اور پھر وہی خود کیا ہے اس کی انٹرپریٹیشن میں خود اختلاف ہو جاتا ہے یعنی میں کہہ رہا ہوں اپ فجرہ تقوی میں یہ بات بیان کی گئی اپ کہتے ہیں یہ بات بیان کی گئی ہے
-
00:54:35 استدلال ہے نہ تو یہی استدلال میں ہیگل سے کروں گا یہ کان سے کروں گا
-
00:54:40 یہ نیٹ سے کروں گا
-
00:54:42 یہ کسی بڑے سے بڑے فلسفی سے کروں گا یہی میں اشتراکی سے کروں گا استدلال کرنا ہے نہ مجھے لیکن ریفرنس کیا چیز بنے گی مذہبیات میں ریفرنس بنے گا قران اور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
-
00:54:54 اور
-
00:54:55 علوم میں انسانی علوم میں کیا چیز ریفرنس میں نے کی فطرت
-
00:54:59 اخذ موجود ہے دونوں جانب ماخذ سے استدلال میں اختلاف ہوگا اختلاف سے استدلالات کیسے کرسکتے ہیں کسی چیز کی نفی بہت بہت شکریہ یہ ہماری نشست کا وقت ختم ہوتا ہے اور ان شاء اللہ ہم ائندہ نشست میں فطرت کے حوالے سے مزید جو اشکالات ہیں وہ اپ کے سامنے لے کر ائیں گے اب تک اپ کے اوپر بہت شکریہ
-
00:55:21 [Unintelligible]
-
00:55:24 [Unintelligible]
Video Transcripts In English
Video Summry
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ ۔ پچھلی گفتگو کا خلاصہ 04:10 عہد الست کی آیت کے بارے میں ایک سوال 09:00 ہمیں تو عہد الست کی خبر بھی وحی ہی سے ملی ہے۔ 14:56 سورہ الشمس کی آیت میں نفس سے کیا مراد ہے؟ 21:16 سورہ الشمس کی آیت میں خیر و شر کے شعور کے الہام کی نوعیت۔ 24:47 کیا خیر و شر کی تعیین صلاحیت اور خیر کی طرف میلان بھی نفس انسانی میں موجود ہے؟ 33:36 روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب دعا کے بارے میں وضاحت 39:22 حق و انصاف کا تصور فطری ہے یا انسان کے تعامل اور تجربات سے وجود میں آیا؟ 47:09 اشتراکی تصور خیر میں بہن سے شادی کرنے کی مثال 52:15 خیر و شر کے اطلاق میں اختلاف کی ایک مثال۔ 55:24 اختتامیہ
Video Transcripts In Urdu
Video Transcripts In English
Video Summary
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ ۔ پچھلی گفتگو کا خلاصہ 04:10 عہد الست کی آیت کے بارے میں ایک سوال 09:00 ہمیں تو عہد الست کی خبر بھی وحی ہی سے ملی ہے۔ 14:56 سورہ الشمس کی آیت میں نفس سے کیا مراد ہے؟ 21:16 سورہ الشمس کی آیت میں خیر و شر کے شعور کے الہام کی نوعیت۔ 24:47 کیا خیر و شر کی تعیین صلاحیت اور خیر کی طرف میلان بھی نفس انسانی میں موجود ہے؟ 33:36 روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب دعا کے بارے میں وضاحت 39:22 حق و انصاف کا تصور فطری ہے یا انسان کے تعامل اور تجربات سے وجود میں آیا؟ 47:09 اشتراکی تصور خیر میں بہن سے شادی کرنے کی مثال 52:15 خیر و شر کے اطلاق میں اختلاف کی ایک مثال۔ 55:24 اختتامیہ
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ ۔ پچھلی گفتگو کا خلاصہ 04:10 عہد الست کی آیت کے بارے میں ایک سوال 09:00 ہمیں تو عہد الست کی خبر بھی وحی ہی سے ملی ہے۔ 14:56 سورہ الشمس کی آیت میں نفس سے کیا مراد ہے؟ 21:16 سورہ الشمس کی آیت میں خیر و شر کے شعور کے الہام کی نوعیت۔ 24:47 کیا خیر و شر کی تعیین صلاحیت اور خیر کی طرف میلان بھی نفس انسانی میں موجود ہے؟ 33:36 روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب دعا کے بارے میں وضاحت 39:22 حق و انصاف کا تصور فطری ہے یا انسان کے تعامل اور تجربات سے وجود میں آیا؟ 47:09 اشتراکی تصور خیر میں بہن سے شادی کرنے کی مثال 52:15 خیر و شر کے اطلاق میں اختلاف کی ایک مثال۔ 55:24 اختتامیہ