Response to 23 Questions - Part 18 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Video Transcripts In Urdu
-
00:00:00 [Unintelligible]
-
00:00:01 [Unintelligible]
-
00:00:05 [Unintelligible]
-
00:00:06 [Unintelligible]
-
00:00:07 [Unintelligible]
-
00:00:08 [Unintelligible]
-
00:00:10 بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مقتدر غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید اس سلسلہ گفتگو میں ہم غامدی صاحب سے ان 23 اعتراضات پر سوالات کر رہے ہیں جو بالعموم ان کے افکار پر پیش کیے جاتے ہیں اور فطرت کا موضوع زیر بحث ہے داڑھی اور پردے کے موضوع کا مکمل کر چکے ہیں فطرت کی بحث کا یہ چھٹا حصہ ہے جو لوگ اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہیں لازمی ترتیب سے ان اقسات کو دیکھیں بہت شکریہ غم صاحب اپ کے وقت کا السلام علیکم وعلیکم السلام ہم سب ہم نے
-
00:00:40 فطرت کی عقلی بحث شروع کی دینیاتی تصور پے بات کی اور پھر اب جو اعتراضات جو اشکالات جو مخمسہ اور سوالات ملوں اپ کے افکار پر اس نتیجے کے اعتبار سے پیش کیے جاتے ہیں اس کو ایک ترتیب سے ہم رکھ رہے ہیں
-
00:00:55 میں اگر اپ کی یاد ہو تو اگلا جو اعتراض ہے اس کو میں پیش کروں اور پھر اس پر اپ کا نقطہ نظر جا رہا ہوں اعتراض پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اپ اکثر اپنی گفتگو میں جب یہ سوال ہوتا ہے کہ ٹائم کیسے ہوگی کیسے پتا چلے گا کون کون سی چیزیں ہیں تو اپ کچھ چیزوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اپ جائیے دیکھئے معاشرے میں ہر جگہ پر اس چیز کو برائی سمجھا جا رہا ہے اس چیز کو بھلائی سمجھا جا رہا ہے اور کوئی شخص نہیں ہوگا جو اٹھے کا کہے گا کہ اؤ میرے گھر میں چوری کر لو او میرے ساتھ ملاوٹ کرو تو یہ جو استدلال ہے اس کے اوپر یہ اعتراض سامنے اتا ہے میں پڑھ دیتا ہوں
-
00:01:32 کہتے ہیں کہ غامدی صاحب دعوی یوں فرماتے ہیں گویا انہوں نے اقوام عالم کا تاریخی مطالعہ کرکے تمام اعداد و شمار جمع کر رکھے ہیں
-
00:01:40 انہوں نے جو اعداد و اتوار اپنے معاشرے سے سیکھے ہیں انہیں بغیر کسی دلیل کے افاقی سمجھ بیٹھے ہیں مثلا
-
00:01:47 موجودہ حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ امت ابراہیمی کی اکثریت شراب پینے سود خوری دو مردوں کے اپس میں شادی کرنے ہیومن رائٹس کے نام پر نجانے کس کس غلاظت کو خیر اور انسانی فطرت کا جائز تقاضا گردانتی ہے
-
00:02:02 تو سالم کا یہ ہے
-
00:02:04 کے جب یہ کہہ دیا جاتا ہے دعوی کیا جاتا ہے تو یہ دعوی تو اپنے حالات کو یا اپنے اردگرد دیکھ کے بعض مسلمانوں کو یا نیک صالح ارواح کو دیکھ کے کر دیا جاتا ہے معاشرے میں تو بہت ساری برائیاں ہیں جن کو اخلاقی قدر سمجھا جاتا ہے میں اس پر بڑی تفصیل سے گفتگو کر چکا ہوں
-
00:02:20 کہ اگر میرے لئے دھیمی رہنمائی موجود نہیں ہے
-
00:02:24 تم میری فطرت کس طرح
-
00:02:27 مجھے کسی چیز کو قبول کرنا یا ترک کرنے کے لئے امادہ کرتی ہے
-
00:02:32 اس پر ہم اس حصے میں گفتگو کر چکے ہیں جب ہم دینیاتی بحث سے قطع نظر کر کے عقلی بنیادوں پر اس معاملے کو سمجھ رہے تھے اس میں میں نے یہ بتایا تھا
-
00:02:43 کے سب سے پہلے کسی چیز کے بارے میں کوئی احساس میرے اندر ہوگا
-
00:02:48 اینی میرے تمام علوم جو میری ذات سے متعلق ہے اور میری ذات کا مطلب ہے انسان سے متعلق ہے وہ سب سے پہلے میرے موضوع کے متعلق سے پیدا ہوتے
-
00:02:58 یعنی میرے پاس جو خواص دیے گئے ہیں وہ خارج سے متعلق ہو یا میرا حادثہ باطنی ہو وہ پہلے اس چیز کو محسوس کرے گا
-
00:03:07 تو اب سوال یہ ہے کہ نیکی اور بدی خیر اور شر
-
00:03:11 ایک اصولی حیثیت سے پوری انسانیت کی میراث کیسے بنتے ہیں پہلے وہ اسی جگہ سے پیدا ہوں گے وہیں سے شروع ہوں گے اس کے بعد میں اس پوری کائنات کا جائزہ لیتا ہوں
-
00:03:23 پوری کائنات کا جائزہ لینے کے لئے کوئی علم بھی ایک ایک فرد کے پاس نہیں جاتا
-
00:03:29 یعنی اس وقت بھی جو انسانی علوم ہے ان میں ایسا نہیں کیا جاتا
-
00:03:33 ہمیشہ اپ کیا کرتے ہیں استقراء کے لئے اپ سیمپل ٹیسٹینگ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں
-
00:03:40 یعنی اپ
-
00:03:41 کسی ایک معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں اپنے گردوپیش کا جائزہ لیتے ہیں اپ کچھ چیزوں کو پڑھتے ہیں جس سے اپ کو بس دوسرے معاشروں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں اس میں سے خواہ وہ سائنسی تحقیق کی چیزیں ہوں یا سماجی علوم کی چیزیں ہوں کون ادمی ہے کہ جو ایک ایک ادمی کے پاس جاکے یہ سب کرتا ہے
-
00:04:01 تو میں نے عرض کیا تھا کہ تمام انسانی علوم میں ایسے کیا جاتا ہے
-
00:04:04 یعنی میرے پاس جیسے ہی ایک احساس پیدا ہوتا ہے
-
00:04:09 تو میں اپنے اس احساس کو لے کر استقراء کے عمل سے گزرتا ہوں اور استقراء کا عمل اگر کسی ایک چیز کے بارے میں بھی یہ کرنے کی شرط عائد کر دی جائے کہ ایک ایک فرد کو اپ دیکھیں گے ماضی میں بھی ایک ایک شخص کو قبر سے اٹھائیں گے کیا ایسے کرتے ہیں اپ
-
00:04:25 اپ پشتو کا کچھ بھی مطالعہ کرتے
-
00:04:28 اپ وہاں کے ادب کا مطالعہ کرتے
-
00:04:30 اپ وہاں کے سماجی علوم کا مطالعہ کرتے
-
00:04:33 اس وقت ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس میں ہماری معلومات بہت غیر معمولی ہو چکی ہیں لیکن قدیم ترین زبانوں میں بھی یہی صورتحال ہے ابن خلدون مطالعہ کر رہا ہے تو ایک بہت بڑے انسانیت کے حصے کا مطالعہ کر رہا ہے
-
00:04:46 یعنی وہ کم سے کم جو مسلم دنیا ہے اس کو نظر ارہی ہے اس کا تجزیہ کرنے کی تو صلاحیت رکھتا ہے تو انسانی علم کے لئے اس کے سوا راستہ ہی کوئی نہیں ہے
-
00:04:56 اب انسانی علم اسی طریقے سے اگے بڑھے گا یہ عرض کیا تھا کہ یہ بات میرے اندر بالج بال خیر و شر کا تصور موجود ہے یہ تو ہر ہر تجربے سے بالکل متحقق ہے
-
00:05:09 میں اپنے بچے کا جائزہ لیتا ہوں تو یہی حقیقت نمایاں ہوتی ہے میں اس کے سیکھنے کے عمل کا مشاہدہ کرتا ہوں یہی حقیقت واضح ہوتی ہے میں اپنے گردوپیش کے انسانوں کو دیکھتا ہوں جن سے مجھے واسطہ پڑا ہے تو یہی چیز سمجھتا ہوں میں پوری انسانیت کے فیصلوں کا مطالعہ کرتا ہوں
-
00:05:26 یعنی اس وقت مثال کے طور پر دنیا میں جو بین الاقوامی قانون ہے
-
00:05:30 رومن لو
-
00:05:31 قانون کی اپنی ایک روایت
-
00:05:34 مسلمانوں کا
-
00:05:35 فیکی قانون ہے ان میں سے کیا ایک ایک چیز کے لئے مجھے ایک ایک فقی کے پاس جانا ہے ان کی تصنیفات موجود ہیں ان کی لکھی ہوئی چیزیں موجود ہیں ان سب چیزوں کو میں پڑھتا ہوں اسی طریقے سے تاریخ
-
00:05:48 تاریخ کی تحقیق کے بہت سے ایسے پہلو جن کا تعلق ارکیالوجی سے ہے
-
00:05:54 جن کا تعلق مختلف قبیلوں کی عادات و اطوار کے متعلق سے ہے ان سب چیزوں کا ہم مطالعہ کرتے ہیں
-
00:06:01 اس لئے یہ بات
-
00:06:03 مجھے یہ بتا دیا جائے کہ کون سے سماجی علم میں بلکہ کون سے سائنسی علم میں جس کو اپ خالص سائنس کہتے ہیں پیور سائنس کہتے ہیں کیا ان میں بھی یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے تو میں نے بڑی تفصیل سے اس کا تجزیہ کر کے بتایا تھا کہ میں ایسے ہی کروں گا لیکن کیا مجھے اسی طرح چھوڑ دیا گیا کیا میرا یہ ہے یا میرا دعوی یہ ہے کہ میں تو اسی رہنمائی میں زندگی بسر کر کے دنیا سے رخ سکوں گا
-
00:06:28 یہ تو وہ ادمی بات کرے کہ جو یہ مانتا ہو کہ انسانیت کی ابتدا جب کی گئی تو ایک لمبے عرصے تک انسانوں کو ایسے چھوڑ دیا گیا
-
00:06:37 میں نے اپ کو تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ پہلے ہی مرحلے میں یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ نبوت
-
00:06:44 نبوت کیوں ہے اسی لئے ہے کہ انسان اس عمل سے اگر گزرے گا تو اس میں صدیاں لگ جائے
-
00:06:50 اس میں مطالعہ کے ذرائع بعض موقع پر مفقود ہوں گے ان کو پیدا کرنا پڑے گا اس میں تو ابن بطوطہ کی طرح کوئی ادمی ہو سکتا ہے کہ سامان سفر باندھ کے چلے تو اس کے بعد بھی صحیح نتائج تک نہ پہنچ سکے
-
00:07:02 تو علم کے اس ذریعے کے سپرد انسان کو کرنے کے بجائے اللہ تعالی نے رہنمائی فرما دی
-
00:07:07 جو چیز بتانی مقصود ہے وہ یہ نہیں ہے کہ انسان اس طریقے سے اپنی فیصلوں پر پہنچ جائے گا
-
00:07:14 نہیں یہ بتانا مقصود ہے کہ انسان کو پینا پیدا کیا گیا ہے اس کی فطرت میں کچھ چیزیں بالاجمال رکھ دی گئی ہیں اس کا احساس اس کا حادثہ باطنی اس کے شعور کو منتقل کر دیتا ہے
-
00:07:26 جب یہ منتقل ہو جاتا ہے تو اس کے بعد اس کو علم بنانے کے لئے استقرار سے گزرنا پڑتا ہے
-
00:07:32 یعنی میرے لئے تو میرا حادثہ باطنی حجت
-
00:07:36 میں نے باہر نکلتا ہوں اور میری انکھ مجھے بتاتی ہے کہ میرے سامنے پتھر پڑا ہوا ہے تو میں راستہ تبدیل کرلیتا ہوں اس کے لئے تو استقراء کی ضرورت نہیں ہے تو میرا حادثہ باطنی مجھے رہنمائی کرے گا خیر و شر کے بارے میں اپنی زندگی سے متعلق اتنی رہنمائی بہت کافی میں اسی کی رہنمائی میں چلوں گا میں نے یہ عرض کیا ہے کہ جب اس کو علم بنانا پڑے گا علم بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اپ اسے علم کے درجے تک پہنچا کہ اپ لوگوں کو کہتے ہیں کہ تم بھی اسے قبول کرو اس کے لئے استقرار کی ضرورت ہے استقراء کی یہ ضرورت اس طرح نہیں پوری ہوتی کہ ایک ایک فرد کے پاس جاتے ہیں اپ ہمیشہ انسانوں کے کچھ نمونے لے لیتے ہیں
-
00:08:14 کچھ چیزیں اپ براہ راست حاصل کرتے ہیں اپ نے دیکھا ہوگا اب بھی تحقیق کیسے کی جاتی ہے کچھ چیزیں بلواسطہ حاصل کرتے ہیں اپ کے پاس تاریخ بھی ہوتی ہے علوم بھی ہوتے ہیں قبائل کی روایتیں بھی ہوتی ہیں ان سب چیزوں پر ایک نظر ڈال کر اپ ایک نتیجہ اس کرتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ نتیجہ ہر حال میں ٹھیک ہوگا ہو سکتا ہے کل تنقید ہو تو میں نے عرض کیا کہ تنقید تو میرے مشاہدات پر بھی ہوگی تنقید میرے استقرار پر بھی ہوگی تو اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ یہ عمل انسانی سطح پر ہوگا تو ایسے ہی ہوگا
-
00:08:44 اور یہ کبھی حتمی اور یقینی نہیں ہوگا
-
00:08:47 لیکن اللہ تعالی نے اس کا اہتمام کیا کہ چونکہ میں جواب دہ ہو گیا ہوں
-
00:08:52 مجھے موصول ٹھہرا دیا گیا ہے بعض چیزوں کے بارے میں مجھے موت کے بعد جواب دینا ہے اور موت کو موخر نہیں کیا جاسکتا ہزاروں سال کے لئے تو پہلے دن نبوت شروع ہو گئی
-
00:09:03 اصل میں جس چیز کی تردید کی جارہی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ انسان کو نبوت کی ضرورت نہیں تھی
-
00:09:10 تردید اس کی کی جا رہی ہے کہ نبوت کی ضرورت اس لئے نہیں تھی کہ انسان اندھا ہے
-
00:09:16 یعنی اس کی فطرت میں بہت سی چیزیں بلی زبان موجود ہیں اس کو وہ خود تفصیل میں تبدیل کر لیتا ہے اس میں غلطی کا امکان بھی نہیں ہوتا اب نبوت کی ضرورت ہے تاکہ اسے حتمی نتائج تک پہنچائے کن معاملات میں ان معاملات میں جس کے لئے وہ جواب دیتا رہ جائے جو دو مثالیں یہاں پر زیر بحث ائیں ان مثالوں کو سامنے رکھ کر اگر یہ کہا جائے مثلا ہمیں دیکھتے ہیں کہ دین ابراہیمی کی روایت میں مسیحی ہے اس وقت دنیا میں اربوں کی تعداد میں ہے شراب نوشی کرتے ہیں ان کے ہاں کوئی پرابلم نہیں ہے اس طرح ہم دیکھتے ہیں شادی کا انسٹیٹیوشن تباہ ہو چکا ہے گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا ایک تصور ہے تو کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جیسے ہی اپ الہامی روایت سے ہٹتے ہیں اور محض اپنی عقل و فطرت کی روشنی میں کام کرنا شروع کرتے ہیں تو وہی حالت ہوتی ہے جو مسیحیوں نے اس وقت پیدا کرتی ہے بہت سے معاملات میں یہ حالت ہوگی اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا لیکن یہ جو نتائج اخذ کیے جارہے ہیں یہ بالکل ناقابل یقین
-
00:10:12 ہنی ایسا نہیں ہے کہ خاندان کے ادارے کے بارے میں یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا یا ہم جنس پرستی کو اصل قرار دے دیا گیا ہے کیا ایسا ہوا ہے دیکھیے یہ ساری بحثیں اس وقت مغرب میں اصول پر ہو رہی ہیں کہ کیا ہم انسان کی جبلتوں کے اظہار پر سوسائٹی کی طرف سے پابندی لگا سکتے ہیں یا نہیں
-
00:10:34 داسی ہو رہی ہے یعنی ہم اصل میں اس بحث کو بھی اس کے حدود سے اگے بڑھ کے شروع کر دیتے ہیں
-
00:10:40 یہ بحث ہو رہی ہے ایسا نہیں ہے کہ خاندان کا ادارہ ختم ہوگیا ہے یعنی چین میں لوگوں نے شادیاں کرنی چھوڑ دیں
-
00:10:47 ملائیشیا میں اپ رہے ہیں وہاں چینیوں کے درمیان میں رہے ہیں وہاں بہت سی دوسری قوموں کو ہم نے دیکھا ہے وہاں ہندوؤں کی بہت سی جماعتیں موجود تھیں وہ وہاں صدیوں سے اباد ہیں بس اور بعض وہ ہیں کہ جو ہجرت کر کے گئے ہیں کیا اپ نے دیکھا کہ ان سب میں شادی کا ادارہ ختم ہو چکا ہے
-
00:11:03 اپ اس وقت امریکہ میں رہ رہے کیا یہی صورتحال ہے یہاں پر کی شادی کا ادارہ ختم ہو چکا ہے یعنی یہ باتیں جو ہے یہ موبائل گاہ کر کے کہی جاتی ہیں انسان چونکہ ارادہ اور اختیار لے کے ایا ہے اس کا سوئے استعمال بھی کرتا ہے اس کے نتیجے میں انحرافات پیدا ہوتے
-
00:11:19 اور میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ یہ انحرافات کس درجے میں ہوتے ہیں مثلا اپ ایک بڑے معاملے کا جائزہ لیں
-
00:11:25 وہ بڑا معاملہ ہے انسان کے اندر خیر و شرک و شعور
-
00:11:29 اس وقت عالمی سطح پر ہم خیر و شر کے اس شعور کی بنیاد کے اوپر معاملات کر رہے ہیں
-
00:11:36 مجھے یہ بتائیے کہ یہ قیدیوں کے معاملے میں یہ لوگوں کو سزائیں دینے کے معاملے میں یہ بنیادی حقوق کے معاملے میں جتنی بحثیں ہیں ان کی اساس
-
00:11:46 فطرت کے اخلاقی شعور کے سوا کہاں پائی جاتی ہے
-
00:11:49 اتنا بہت کچھ ہے جس کے اوپر اتفاق موجود ہے اپ نے کیا کیا اپ نے اختلاف کی کچھ چیزیں اٹھائیں اور ان کو اٹھا کر یہ بحث کرنا شروع کر دی کہ انسان تو اس کو شعور نہیں رکھتا
-
00:12:00 ان چیزوں پر بھی بحث ہو رہی ہے
-
00:12:02 ان پر بھی گفتگو جاری ہے
-
00:12:04 لیکن مجھے اس سے متاثر ہونے کی کیا ضرورت ہے میرے پاس خدا کی ہدایت موجود ہے اگر کہیں انسان اپنے انحراف کے نتیجے میں بڑی خرابی پیدا کر دیں گے تو میرے پاس تو وہ مر جا موجود ہے میں اللہ کی کتاب کو اٹھاؤں گا اور اٹھا کر لوگوں کو توجہ دلاؤں گا کہ تم اس میں غلط راستے پر جا رہے ہو کیونکہ میرا مقدمہ یہ نہیں ہے کہ انسان کو اگر چھوڑ دیا جائے اس کی فطرت ہی کے ہاتھ میں تو وہ لازما صحیح نتائج تک پہنچے گا موم صحیح نتائج تک پہنچ
-
00:12:33 وہ عام طور پر اتفاق کرے گا وہ بالجمال چیزوں کو سمجھے گا وہ اطلاعات میں غلطیاں بھی کرے گا اور اسی سے بچانے کے لئے تو اللہ تعالی نے نبوت کا سلسلہ جاری کر دیا ہوا ہے اچھا اگے بڑھتے ہیں ہم سب یہ بھی اپ نے بات فرمائی کہ جو استقراء ہے انڈکشن ہے یعنی یہ اپ کی گفتگو میں بار بار یہ لفظ سننے کو ملتا ہے یہ فطرت کی بحث ہوتی ہے
-
00:12:54 اس پر ایک بڑا اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ جو عمل ہے اس عمل کے نتیجے میں جو علم حاصل ہوتا ہے وہ ایک غیر یقینی علم ہے میں اقتباس پڑھتا ہوں اپ کے سامنے اور کوشش کرتا ہوں کہ وہ جو بات ہے کمیونیکیٹ ہو سکے
-
00:13:09 یہ لکھتے ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ اگر خیر و شر کا فیصلہ استقرار پر چھوڑ دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خیر و شر کبھی متعین ہی نہیں ہو سکتے
-
00:13:17 کیونکہ
-
00:13:18 راجر بیکن وہ شخص ہے جس نے حصول علم کے لئے وحی کے بجائے استقرار پر زور دینے کی مہم کا اغاز کیا اور اس سے لے کر اج تک
-
00:13:27 کوئی بڑے سے بڑا فلسفی بھی مسئلہ استخارہ یعنی پرابلم اف انڈکشن کو حل نہیں کر سکا
-
00:13:34 استقرائی طریقہ علم کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس سے حاصل ہونے والا علم نہ تو حتمی ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے کسی بات کے اس کا اثبات ممکن ہے
-
00:13:43 بلکہ یہ علم ہمیشہ زنی اور ارتقائی ایولوشنری ہوتا ہے چنانچہ خیر و شرک کا تعین استر استقراء کے حوالے سے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خیر و شرق کسی متعین اور افاقی حقیقت کا نام نہیں ہے بلکہ زمانے اور مکان کا پابند ہے دوسرے لفظوں میں خیر و شرع کذافی یعنی ریلیٹو تصورات ہیں نہ کہ کوئی ایپس تصورات ہے ایک طرف تو ہمیشہ اپ کا دعوی ہے کہ خیر و شر ابدی حقائق کا نام ہے اور دوسری طرف وہ انہیں جاننے کے لئے ذریعہ استقرار کو قرار دیتے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس سے کوئی فہرست مرتب ہو سکتی ہے تو یہ پوچھتے ہیں کہ مسئلہ استقراء کا پھر اپ کے پاس کیا حل ہے اگر اس کا حل یہ ہے کہ وحی کی روشنی میں ہم اس کا تعین کریں گے تو اس کا مطلب تو پھر یہ ہوگا کہ پھر ہم فطرت اور فطرت کی تعیین کے اندر جا ہی نہیں رہے ہم تو جہاں پر پھنس جاتے ہیں تو وہاں پر وہی کو لے اتے ہیں ورنہ مذکرہ پے چلتے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ دوائی کس نے کیا تھا کہ استقرار کے نتیجے میں حتمی نتائج پیدا ہو جاتے ہیں
-
00:14:40 میں نے بڑی تفصیل سے اپ کو یہ بتایا ہے کہ میرے پاس وہی ذریعہ علم میسر ہے
-
00:14:46 یعنی اگر اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی نہ ہو تو میں مجبور ہوں کہ اسی راستے کو اختیار کر وہ رہنمائی تو ہوگئی ہے کہ رہنمائی تو ہوگئی نہ اصل سوال تو یہ ہے کہ وہ رہنمائی کس دائرے میں ہوئی ہے
-
00:14:58 کہاں ہوئی ہے یعنی یہ چیز زیر بحث ہے کیا ایک اندھے کو انکھیں دی گئی ہیں
-
00:15:04 یار ایک بینا کو کسی دوراہے پر بتایا گیا ہے کہ ادھر نہیں جاؤ گے ادھر جاؤ گے
-
00:15:10 رہنمائی کی نوعیت زیرے بحث
-
00:15:13 اپ نے جہاں سے بات شروع کی تو میری کتاب میزان شروع ہوتی ہے کہ دین اللہ تعالی کی ہدایت ہے جو اس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی پھر اس کی تفصیلات پیغمبروں کے ذریعے سے بتائیں
-
00:15:26 تو یہاں بائسی ہو رہی ہوتی ہے کہ انسانی فطرت کہاں تک رہنمائی کرتی ہے
-
00:15:31 یہ تو باس ہی نہیں ہے تم حتمی نتائج نکال دیتی ہے تو میں نے یہ بہت مذاق سے اپ کو بتایا اس پچھلی ساری گفتگو میں کہ اگر میرے پاس وحی کی رہنمائی نہ ہوتی تو اپنی ذات کے لئے تو ظاہر ہے کہ میں اس علم پے اعتماد کروں گا جو میں براہ راست حاصل کرتا ہوں یعنی میرا حادثہ باطنی جن چیزوں کی طرف رہنمائی کرے گا میں اس میں جاؤں گا کیوں کسی دوسرے شخص کے پاس لیکن اگر مجھے اسی چیز کو علم بنانا ہوگا تو پھر علم بنانے کے لئے میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے اس کے سوا کہ میں اس تجربے کو بار بار دہرائے ہوئے دیکھو میں استقرار کر کے پوری انسانیت میں اس کا مشاہدہ کروں میرے علم میں جو معلومات ائے ان کی بنیاد پر ایک نتیجہ اخذ کروں اس میں کیا چیز حاصل ہوگی اس میں جو چیز حاصل ہوگی وہ ضمنی ہی ہوگی
-
00:16:17 یہ کہاں کس نے ہے کبھی یقینی ہوجائے گی وہ زنی ہوگی وہ ارتکائی بھی ہوگی
-
00:16:22 اس لئے کہ انسانی علم کی نوعیت یہ واقعی ہوئی ہے اللہ تعالی نے انسان کو علم دینے کا طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ وہ نقد و نظر کے نتیجے میں اگے بڑھتا ہے اس میں ایک خاص طرح کی جدلیات قائم رہتی ہے اس میں ایک طرف سے اگر چیز سامنے اتی ہے تو اس کو جیسے ہی ہم متعین کرتے ہیں اس کا کوئی خرابی نمایاں ہوجاتا ہے اور انسان اس طریقے سے اگے بڑھتا چلا جاتا ہے
-
00:16:47 تو انسان کا علم ارتکائی بھی ہوگا انسان کا علم زنی بھی ہوگا ایک بہت محدود سا دائرہ ہے جس کے اندر ہم یقینیات کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور وہ بھی اپ جانتے ہیں کہ بڑی حد تک پیور سائنس ہے
-
00:17:00 یعنی سماجیات کے معاملے میں جو کچھ بھی ہم کہیں گے عمرانی علوم سے متعلق جو بیان بھی ہم دیں گے وہ ایسا ہی ہوگا
-
00:17:08 دیکھیے اگر ہمارے پاس وحی نہ ہوتی تو پھر ہم کیا کرتے ہیں ینی کیا ہم اندھے تھے دیکھ نہیں سکتے تھے ہمیں جو حادثہ دیا گیا ہے خواہ وہ باطنی ہے خواہ وہ ظاہری ہے وہ جن چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہمیں عقل دی گئی ہے اس سے ہم نتیجہ نکالتے اور اپنی زندگی کو اس کے لحاظ سے ترتیب دیتے میں اپنی زندگی کو اپ اپنی زندگی کو اگر ہمیں اجتماعی سطح پر کوئی فیصلہ کرنا ہوگا تو وہی ارتقا کا طریقہ اور اگر اس کو فیصلہ کون بنانا ہوگا تو وہی طریقہ جو انسانیت میں بالاخرہ اختیار کیا جمہوریت کا طریقہ
-
00:17:40 یار یہ اکثریت کی رائے کو ہم اجتماعی سطح پر فیصلہ کن قرار دے دیں گے
-
00:17:45 دیکھیے انسان کو کیا مسائل درپیش ہے وحی کو اپ ایک طرف رکھ دیں نبوت کو ایک طرف رکھ دیں انسان کو تمام مرحوم میں کیا مسئلہ درپیش ہے پہلی چیز کہ میرے پاس ذریعہ علم حقیقت میں میرے حواس ہے خواہ وہ ظاہری ہے یا وہ بات نہیں ہے جب مجھے وہ چیز ان سے حاصل ہو جاتی ہے یعنی ہوا سے باطنی کے ذریعے سے حاصل ہو جائے حواس ظاہری کے ذریعے سے حاصل ہو جائے میں اس کو علم بنانے کے لئے استرا کی اول میں ڈالوں گا استقرار کے عمل میں ڈالنے کے نتیجے میں مجھے جو کچھ حاصل ہوگا وہ ضمن غالب ہے
-
00:18:14 کوئی حتمی چیز نہیں ہوگی اور اس ظن غالب کو میں بیان کروں گا اس پر نقد و نظر کا ایک عمل جاری ہو جائے گا اس سے ارتقائی طور پر میرے علوم میں مفید چیزیں اگے بڑھتی چلی جائے گی اور کمزور چیزیں پیچھے ہٹتی چلی جائے گی
-
00:18:30 یعنی میرے سارے علوم ایسے ہی پیدا ہوتے ہیں اگر مجھے کوئی اجتماعی نظم پیدا کرنا ہے میں فرق تھا تو فیصلے کا اختیار میرے پاس تھا اگر مجھے کوئی اجتماعی نظم پیدا کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ انسان کی ضرورت ہے تو وہاں پر جمہوریت کا اصول
-
00:18:46 کار فرما ہو جائیگا یعنی اکثریت جوکتا کر دے گی وہ فیصلہ ہو جائے گا اس وقت بھی اپ کیا کرتے ہیں یعنی اگر مثال کے طور پر قران مجید کی کسی ایت کی تعبیر میں کسی فقہی حکم کی تعبیر میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اپ دو ہی راستے اختیار کرتے ہیں یا کوئی عدالتی نظام بنائے گئے وہاں استدلال کریں گے اور پھر اخر میں اگر پانچ دس بیٹھے ہوئے ہیں تو تین کا فیصلہ نافذ ہوگا اور اگر اپ کو پارلیمنٹ میں یہ بحث کرنی ہے تو اکثریت کا فیصلہ نافذ العمل ہو جائے گا وہاں اپ کی سہول پر کھڑے ہیں اسی اصول پر کھڑے ہیں کہ اپ کے پاس یہ راستے ہی تین ہیں یعنی یا اپ کا حادثہ باطنی اور حادثہ ظاہری تجربے اور مشاہدے کے ذریعے سے اپ کو کوئی مجموعہ حقائق فراہم کرے گا یا استقراء اس کو علم کے ایک تصور میں بدلے گا اور یا پھر اس کے بعد اپ کو اجتماعی فیصلہ کرنا ہے تو اپ اکثریت کے اصول پر کرلیں گے تو میں اسی راستے کو اختیار کروں گا انسانیت میں بھی یہی راستہ اختیار کیا ہے لیکن مجھے اللہ تعالی نے پہلے دن سے اپنی رہنمائی سے نواز دیا ہے کن معاملات میں نوازا ہے
-
00:19:49 وہ معاملات میں نہیں نوازا کہ جن میں یہ سفر جاری رکھوں اس میں ایک زن کے بعد دوسرے زن میں مبتلا ہوتا رہوں تراشیدم پرستیدم شکستم کی ایک دنیا پیدا کر دو کوئی قیامت نہیں اجائے
-
00:20:02 لیکن جس معاملے میں قیامت اجائے گی جہاں میں وہ غلطی کر ڈالوں گا جو میرے لئے مہلک ہوگی دنیا میں اور اخرت میں وہاں میری رہنمائی کر دی گئی لیکن وہ رہنمائی فطرت کے اسی مطالبے پر مبنی ہے اسی اجمال کی تفصیل ہے
-
00:20:18 یعنی جس وقت وہ رہنمائی مجھے ملتی ہے تو میں اپنی فطرت میں اس کی بڑی محکم بنیادیں دریافت کر لیتا ہوں اور اس کے نتیجے میں گویا بالکل وہی سورۃ پیدا ہو جاتی ہے کہ میں پانی خود تو نہیں بنا سکتا تھا لیکن پیاس کی جو حدت میں محسوس کر رہا تھا جب مجھے پانی ملا تو یہ اندازہ ہو گیا کہ اس کو وہی بجا سکتا
-
00:20:39 ایک تو یہ چیز جو ہے مجھے وحی کے بارے میں ایک عقلی اطمینان عطا کرتی ہے میری فطرت اس سے سرشار ہوتی ہے اور ان دونوں کے اس باہمی تعاون کے نتیجے میں دین میرے لئے ایک ایسی حقیقت بن جاتا ہے کہ جس کو میں اپنی ذات سے اجنبی نہیں
-
00:20:56 یہ بات ہے جو میں بتانے کی کوشش کر رہا ہوں اس میں حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرا ہی موقف اپنے طور پر طے کرکے اس کے بارے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں
-
00:21:06 پہلے یہ تو تب ہوتا کہ میں نے یہ کہا ہوتا کہ فطرت رہنما ہے مجھے وحی کی ضرورت نہیں ہے میری فطرت حتمی نتائج نکال لے گی اس سے یہ فیصلے ہو جائیں گے میں اسی کی رہنمائی میں کام کروں گا مغربی فکر میں یہ طے کیا گیا کہ ہم عقل کی بنیاد پر جدیدیت یہی ہے عقل کی بنیاد پر انسانیت کو اگے لے سکتے ہیں
-
00:21:26 اس میں ہمیں کوئی پرابلم نہیں پیدا ہوگا ہم بہت بڑے بڑے فیصلے کر سکتے ہیں ہم بہت بڑے بڑے نیریٹیو وجود میں لا سکتے ہیں چنانچہ اپ دیکھیے کہ جدیدیت ہے جس نے فاشزم کمیونزم مارکسیزم اور اس طرح کے بہت سے عزم پیدا کیے
-
00:21:41 اس پہ ہم نقد کرتے ہیں نہ
-
00:21:43 تنقید کرتے ہیں اس کے اوپر تو یہ بات تو ایک مغربی فلسفے کی حیثیت سے کہی گئی سوال یہ ہے کہ میں نے یہ موقف کام بیان کیا
-
00:21:51 میں تم سے وقت کو واضح کر رہا ہوں جو میرے انسان ہونے اور خدا کی وحی میں پہلے دن سے موجود ہے
-
00:21:59 جب وہ چیز وہ بیج میرے اندر ہے وہ بیج نسلوں اور پانی کی کچھ سراہیت بھی رکھتا ہے وہ اپنے برگ و بار بھی نکالتا ہے لیکن جیسے ہی وہ برگو باہر نکالتا ہے تو اسے ایک باغبان چاہیے
-
00:22:11 اور وہ وحی ٹھیک اچھا امجد یہ اپ نے ابھی چونکہ موضوع سوال میرا استخراج سے متعلق ہے اس پر بڑے ضمنی سوالات ہیں لیکن ابھی اپ نے ایک ذکر کیا کہ جب مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو پھر ہم وہاں پر اکثریت کو دیکھتے ہیں یہ قران مجید کی ایک ایت ہے جو اس میں اجتماعی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوتا
-
00:22:31 اجتماعی زندگی کے بارے میں
-
00:22:33 یعنی میں اپنے لئے نہیں دیکھوں
-
00:22:35 مجھے انسانوں کے مابین فیصلہ کرکے اس کو قانون کی صورت دینی ہے وہاں انسانوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تینوں سٹیپس کو الگ الگ رکھیے
-
00:22:43 میرا فیصلہ میرے لئے
-
00:22:46 میرے حواس کی بنیاد پر حاصل ہونے والے علم کے نتیجے میں
-
00:22:50 قتل کر دیتی ٹھیک ہے وہ میرے لئے
-
00:22:53 میں اس کو علم بنانا چاہتا ہوں اب انسانوں کو بتاؤں گا نا تو یہاں میں محض اپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان نہیں کر سکتا یہاں استقراء کے نتیجے میں علم کی بنیادیں ڈالی جائیں گی وہ نقد و نظر کے مختلف مراحل سے گزرے گا اور اس کے بعد ایک عمومی زنی قبولیت حاصل کرے گا
-
00:23:11 اور یہ مسئلہ جب درپیش ہوگا کہ انسانوں کی اجتماعیت میں قانون کی سطح پر فیصلہ کرنا ہے تو وہاں جمہوریت کے اصول کو اختیار کروں گا یہ سب کب ہے جبکہ میرے پاس مذہب کی رہنمائی موجود نہیں ہے اگر وہ رہنمائی مجھے مل گئی ہے اور میں نے اس کو قبول کر لیا ہے تو جہاں جہاں وہ رہنمائی مجھے میسر ائے گی فیصلہ کن ہوتی چلی جائے اس میں بھی ہم یہی کر رہے ہوتے ہیں کہ مثلا ہم نے سیمپلز لیئے ہیں ان سیمپل میں دیکھتے ہیں کہ جو میجارٹی ہے جو اکثریت ہے جو غالب عنصر ہے وہ کیا ہے تو ایک قران کی ایت پیش کی جاتی ہے اس اصول کے خلاف کہ جو استقراء میں اپ کی دیکھ رہے ہوتے ہیں سیمپل کر کے بھائی کون سی چیز ہے جو ڈومینٹن سورہ انعام کی اس میں کہا گیا اگر تم زمین میں اکثریت کی پیروی کرو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے تو یہ کہا ہی جاتا ہے کہ یہ جو پورا منہاج ہے یہ طریقہ ہے کہ جس میں اپ دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ کیا کر رہے ہیں یہ انسانوں کی تاریخ کا مطالعہ میں اقوام کیا کرتی رہیں تو قران تو اس کے اوپر خلاف ایک بات کہتا ہے کہ اکثریت کے چکر میں جاؤ گے تو گمراہ ہو جاؤ گے قران یہ کس معاملے میں کہہ رہا ہے
-
00:24:12 یعنی کیا عمرانی علوم کے بارے میں کہہ رہا ہے
-
00:24:15 کیا سماجی سائنس کے بارے میں کہہ رہا ہے
-
00:24:18 کیا اپ کی جو پیور سائنس ہے ان کے بارے میں یہ بات کہہ رہا ہے قران مجید مذہبی حقائق میں یہ بات کر رہا ہے
-
00:24:24 یعنی قران کا موضوع یہ ہے کہ انسان چونکہ ارادہ و اختیار لے کے ایا ہے
-
00:24:30 انسان کے اندر ایک بہت بڑی قوت ہے جو اس کی جبلتوں سے تشکیل پاتی
-
00:24:36 اس کی خواہشات ہیں اوسکی رغبات ہیں اس کی جو بلی تقاضے ہیں یہ چیزیں پوری قوت کے ساتھ زور کرتی
-
00:24:43 اس کائنات کے خالق نے اس کو امتحان میں ڈالا ہے نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ وہ عقل کے فیصلے اور وہ شریعت کے فیصلے اور وہ دین کے فاصلے جب سنتا ہے تو وہ اس کی جبلتوں پر پابندی عائد کرتے ہیں انسان اپنی ذات میں ازادی چاہتا ہے چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت بڑی اکثریت ان عقلی فیصلوں کو اور اگر وہ اللہ تعالی کی وحی کے ذریعے سے پیغمبر دے تو ان کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں یہ بات ہے جو قران نے کہی ہے تو اس کا فاصلہ کون کرنے کے لئے جا رہا ہے اکثریت کے پاس
-
00:25:17 یعنی یہ بات کہ میرے لئے دین کیا ہے مذہب کیا ہے توحید کیا ہے کیا اس کے اوپر میں یہ بات کرنے کے لئے جارہا ہوں
-
00:25:26 اس میں اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے کہ اکثریت ان معاملات میں چونکہ کچھ پابندیاں لگتی
-
00:25:33 کچھ ضبط پیدا کرنا پڑتا ہے اپنے اپ کو ڈسپلن میں رکھنا پڑتا ہے اپنی جبلتوں کے معاملے میں عقلی فاصلے قبول کرنے پڑتے ہیں تو اکثریت اس معاملے میں انحراف پر کھڑی ہوتی ہے اگر ان کی پیروی کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم اللہ کی ہدایت سے محروم ہو جاؤ گے جو تمہیں پیغمبروں کے ذریعے سے دی جا رہی ہے اس بات کی چیز ہے
-
00:25:54 قران مجید کو پڑھتے وقت دیکھنا چاہیے کون سی بات کس باب میں کس سلسلے میں کہاں کہی جا رہی ہے اس کے لئے بے شمار شواہد ہیں سیدنا نوح علیہ السلام اپنی قوم میں بھیج جاتے ہیں
-
00:26:04 اس وقت کی پوری انسانیت کم و بیش وہاں پے اپنی نمائندگی پا رہی ہے وہ اس قوم میں 950 سال بسر کرتے ہیں چند لوگ ہیں جن کو نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں اس لیے اس کے لیے تو کسی استدلال کی ضرورت نہیں یعنی میں پوری پیغمبروں کی تاریخ جو قران نے بیان کی ہے اس کی بنیاد کے اوپر یہ عرض کر سکتا ہوں کہ قران کا یہ بیان 100 فیصد درست ہے
-
00:26:25 لیکن اس کی وجہ کیا ہے
-
00:26:27 اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ باب وہ ہے کہ جس میں انسان کو اللہ تعالی نے امتحان میں ڈالا ہے انسانوں کی بہت بڑی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ اس امتحان میں جبلتیں جن چیزوں کا تقاضا کر رہی ہیں ان کے اوپر پابندیاں لگتی
-
00:26:42 دیکھیے بات یہ ہے کہ یہ پوسٹ ماڈرنزم جس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی حد تک ہم اس کے دور میں جیتے رہے
-
00:26:50 اگر چہ اب خاتمہ ہو رہا
-
00:26:52 لیکن جدیدیت کے بعد یہ پیدا ہوا تو اپ اگر اندازہ کریں کہ اس کا سارا استدلال کہاں سے پھوٹتا
-
00:26:58 وہ ازادی کے اسی احساس سے پھوٹ
-
00:27:01 ہینی جس وقت نیریٹیو وجود میں اتے ہیں وہ مذہبی ہوتے ہیں تو بعض اوقات پوری پوری قوموں کا احاطہ کر لیتے ہیں
-
00:27:08 مثلا اس نریٹیو نے کہ انسان نے ایک ازلی گناہ کیا تھا اس کی پاداش میں اس کو جس صورتحال سے سابقہ درپیش تھا اللہ تعالی نے اپنے بیٹے کو بھیجا کہ وہ اپنی جان دے کر انسان کے اس گناہ کا کفارہ بن جائے اس نیریٹیو نے
-
00:27:25 ہزاروں قوموں پر اپنا اختیار قائم کر لیا
-
00:27:28 یہ نیریٹیو پوری رومی سلطنت کا نیٹو بن گیا
-
00:27:32 اج بھی اپ اندازہ کیجئے کہ اگر انسانوں کی تعداد کو اپ شمار کریں تو سب سے بڑا گروہ اسی نریٹیو پر کھڑا
-
00:27:40 تو ظاہر ہے کہ اس نیریٹو کی پابندی کرے گا نہ انسان اسی طریقے سے مارکسیزم ایک نیریٹیو ہے
-
00:27:47 کین یو اس کے نتیجے میں اپ نے پورے انسانی تاریخ کے عمل کی ایک تعبیر کی اور اس تعبیر کے بارے میں ایک نقطہ نظر قائم کر کے گویا انسان کے مستقبل کو اس نریٹیو کے حوالے کر دیا
-
00:27:58 تو یہ چیز جو تھا یہ جدیدیت میں پیدا کی یا قدیم کلاسیکی مذہبی تصورات میں پیدا کی ان دونوں نے جو نتائج نکالے وہ نتائج اینسان کے لئے بہت غیر معمولی طور پر مخلق نتائج
-
00:28:11 ان ہلاکتوں کو جب انسان نے دیکھا تو انہوں نے کہا کہ اس سے نجات پا نی چاہیے اب جب واپس سے نجات پائیں گے تو دو چیزوں سے نجات حاصل ہوجائے گی یعنی مذہب سے نجات ہوگی اور عقلی تقاضوں سے بھی نجات ہوگی کیونکہ یہی دونوں نیریٹو میں تبدیل کرنے کا عمل کرتے رہے ہیں انسان کی پوری تاریخ میں تو اپ جبلتوں کے حوالے ہو جائیں
-
00:28:30 دولتوں کے حوالے ہو جائینگے تو ظاہر ہے کہ اس سے بڑی ازادی کیا ہو سکتی تو چنانچہ اخلاق
-
00:28:35 کراچی جنسی معاملات میں کچھ ضبط یہ ساری چیزیں بالکل ہوا میں اڑ جائیں
-
00:28:40 تو اب دیکھو گے پوسٹ ماڈرنزم اسی لئے کہتا ہے کہ اپ چھوٹے ڈائریکٹریز میں اجائیں
-
00:28:45 یہ ہم اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے پیدا کرلیں گے یعنی سچائی
-
00:28:50 اور یہ چیزیں پے ابدی حقیقت نہیں رکھتیں اس لئے کہ جیسے ہی اپ جبلت کی سطح پر اتی ہیں تو یہ ساری چیزیں ختم ہونی شروع ہوجاتی ہیں
-
00:28:58 یہ میں اس کا گفتگو نہیں کرنا استدلال کی غلط ہے یہ بتا رہا ہوں اپ کو کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں جبلتوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ازادی چاہتا ہے کیوں چاہتا ہے اس کے خالق نے اسے اس امتحان میں ڈالا ہے کہ ادھر جبلتیں پوری قوت سے چاہیں گی کہ وہ ازادی کے ساتھ عمل کرے ادھر تمہارے باطن میں دی گئی رہنمائی جو عقل کی صورت میں ہے وہ کہے گی کہ اپنے اپ کو
-
00:29:27 ڈسپلن
-
00:29:29 اسی کو قران اپنی اصطلاح میں تقوی کہتا ہے یہ کہے گی اور یہی بات جو ہے پیغمبرا کے کہیں گے تو اگر اپ غور کر کے دیکھیں کہ عقل ایک سطح کے اوپر اور پیغمبر ایک دوسری سطح کے اوپر یہی کام کر رہے ہیں یعنی وہ جبلتوں کو تنظیم میں لاتے
-
00:29:45 جبلتوں کے حدود بتائین کرتے
-
00:29:47 ان کے کام کرنے پر کچھ پابندیاں لگاتے ہیں یہی مسئلہ ہے تو چونکہ انسانی جبلتیں ازادی چاہتی ہیں تو بالعموم ان چیزوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہیں یہ بات ہے جو قران مجید یہاں کہہ رہا ہے اس کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اگر اپ ان کی جبلتوں کو چیلنج نہ کریں
-
00:30:04 تو اس کے نتیجے میں جو علوم پیدا ہوتے ہیں ان میں اصول بالکل ٹھیک
-
00:30:08 ایسے ہی ہو
-
00:30:10 اور یہاں پر بھی کیا صورتحال ہے یعنی یہ فلسفہ بنا دینا تو بہت اسان ہے لیکن انسان سے جب اپ گفتگو کرتے ہیں
-
00:30:18 یعنی انسان سے میری مراد اب کوئی فلسفی نہیں ہے کوئی حکیم نہیں ہے بلکہ جب انسانوں سے اپ گفتگو کرتے ہیں تو وہ ان معاملات کے بارے میں بھی صداقت کی وہی چیزیں قبول کرنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں جن کو مذہبی حقائق کہا جاتا
-
00:30:33 ٹھیک بھابھی بھی صورتحال
-
00:30:35 میں نے اپ سے عرض کیا ہے کہ اخلاقیات کی ساری بنیادیں اس کے باوس کے لوگ ملاوٹ کرتے ہیں اس کے باوس وسط کے وہ قتل کرتے ہیں اس کے باوس کے وہ لوگوں کے مال پر قبضہ کرتے ہیں لیکن جس وقت اپ علم کی سطح پر ان کو زیر بحث لاتے ہیں تو انسان قبول کرتا ہے کہ ہاں بالکل ایسے ہی ہونا چاہیے
-
00:30:52 ارام سے یہ جو ابھی باتیں ہوئی یہاں پے
-
00:30:56 [Unintelligible]
-
00:30:57 جو ذریعہ علم ہے استقراء کا انڈکشن اس سے جو نتیجہ یا علم ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ یقینی طور پر زنی علم ہے اور وہ ارتقا پذیر بھی ہے یعنی اس کے اندر ایک تبدیلی یا تغیر بھی ا سکتا ہے
-
00:31:10 یہ جو مقدمہ ہے فلسفے کی سطح پر تو چلیں یہ مقدمہ اپ نے قبول کرلیا لیکن میرا سوال اپ سے یہ ہے کہ اس مقدمے کو سامنے رکھ کر دعوی کیا جاتا ہے کہ اج ایک نتیجے تک پہنچے ہیں کل ہو سکتا ہے بالکل نتیجہ مختلف ہو جائے تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ جو کہتے ہیں اس میں استقراء اس کے اندر ایولیوشن ہے اس کے اندر ارتقا ہے تو مجھے یہ بتائیے کہ کن کن چیزوں میں فطرت کے مطالعے میں استخارہ کی روشنی میں ارتقاء پیدا کیا یہ ہوا کہ دنیا میں اپ استقرار کے نتیجے میں دیکھنے کے ذریعے سے دیکھنے گئے ہیں کہ جی ملاوٹ کو لوگ کیا سمجھتے ہیں تو پچھلے 200 سال میں کوئی تبدیل ہوگیا ہو ظلم تبدیل تبدیلی کے وقت معاملات ہیں ان میں کوئی بحث ہی نہیں ہے
-
00:31:51 جن کے بارے میں ایک عمومی اتفاق ہے بلکہ وہ عالمی سطح کے اتفاق میں تبدیل ہوگئے
-
00:31:56 یعنی یہ بات کہ انسانوں کے درمیان جو بنیادی اخلاقیات ہیں وہی ہے کہ جو قوموں کو وہی ہے کہ جو حکومتوں کو وہی ہے کہ جو عدالتوں کو وہی ہے کہ جو اپ کی اقوام متحدہ کو جماعت بخش رہی ہے
-
00:32:10 تو یہ اس کا مثبت پہلو ہے اپ اس میں کچھ بحثیں ایسی ہیں اور وہ ویسے وہ کونسی ہیں وہی ہے کہ جن میں انسانی جبلتوں کو غیر معمولی پابندی قبول کرنی پڑتی ہے ان کے بارے میں کچھ گفتگو بھی شروع ہو گئی اطلاق میں بھی اختلاف ہو رہا ہے اور وہ اختلاف بھی ابھی کس سطح پر زیر بحث
-
00:32:28 وصل میں اس سطح پر زیر بحث نہیں ہے کہ انسانوں کے درمیان جنسی تعلق کی اصل اثاث یہ ہے کہ وہ تو ہونا ہی اصل میں باہم ہونا ہم جنس پرستی کی بنیاد پر ہونا چاہیے یہ نہیں زیر بحث زیر بحث یہ ہے کہ اگر ایسا ہو تو کیا معاشرے کو اس میں مداخلت کر
-
00:32:44 یہ وہ دائرہ ہے کہ جس کے اندر معاشرہ یہ ریاست مداخلت کرے گی یہ بحث ہے
-
00:32:49 اس وقت بھی یہی بحث
-
00:32:51 اس سے زیادہ کوئی بحث نہیں ہے اس سے اگے کی جو بحثیں ہیں وہ بہت چھوٹی چھوٹی عقلیت کر رہی ہوتی ہیں یعنی بعض لوگ جن کے ہاں کچھ علم ذہنی عیاشی کی صورت اختیار کرلیتا ہے ویسی بحثیں کرتے رہتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہوتی تاہم میرے لئے یہ کس لحاظ سے کوئی تشویش کی بات
-
00:33:10 بات یہ ہے کہ جب یہ بحث ہوگی تو میرے پاس فکری رہنمائی کے نتیجے میں جو اصول موجود ہیں وہ بھی گفتگو کرنے کے لئے ہے اور وہ گفتگو ہوگی انسانوں کے درمیان اور میرے پاس میرا مذہب بھی موجود ہے جس نے میری رہنمائی کر دی ہوئی ہے میں تو بار بار یہ گزارش کر رہا ہوں کہ یہاں کوئی پیرل ذریعے علم ہے جو تجویز کیا جا رہا ہے یہ بتایا جا رہا ہے کہ انسان کے پاس جو علم کے ذرائع موجود ہیں ان ذرائع علم ہی پر مذہب میں اپنی تعلیم کی بنیاد رکھی
-
00:33:40 یعنی وہ انسان کو کوئی خارج سے چیز لا کے اس کا پابند نہیں کر رہا بلکہ میری فطرت میں وہ داعیات موجود ہے اور وہ علم اجمال میں موجود ہے جس کی نشونما جب ہوتی ہے تو کبھی جھاڑ جھنکار بھی اگاتے ہیں
-
00:33:54 کبھی جو چیز اگتی ہے وہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں بھی ناکام دہرا رہی ہوتی ہے تو اس کی تراش خراش اور اس کو صحیح رخ دینے کا کام مذہب کرتا ہے تو باہمی تعلق بیان کیا جا رہا ہے ایک چیز کو دوسری چیز سے انڈیپنڈینٹ کر کے نہیں دکھایا جا رہا تھا کہ
-
00:34:12 ہم انسان سے جب سوال کرتے ہیں اور سب سے پہلا عمل تو ظاہری بات ہے میں فطرت اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر اپنا ذاتی احساس کی بنیادی لکھوں گا کہ مجھے کیا چیز اچھی لگ رہی ہے کیا چیز ایسی ہے جس کو میں خیر محسوس کرتا ہوں اس فلسفے پے جو انڈکشن کے پروسیس کے اوپر جب اپ کہتے ہیں کہ سیمپل ہم لیں گے اس پے کوئی زنی سوالات ہیں پہلا سوال یہ ہے کہ کس کی فطرت اصل ہونے کا اعتبار ہوگا فرد کی یا گروہ کی یعنی جس کی فطرت کو معیار مانا جارہا ہے ایا وہ ایک قبل از معاشرہ بطور اکیلا فرد موجود ہے یا کسی معاشرے میں بسنے والا تاریخی فرق سیمپل اپ لینے گئے ہیں تو کس کا ہے
-
00:34:50 اینی دیکھی ہے نہ اپ ایک مقدمہ خود قائم کریں تو ہمیں کچھ لینا پڑے گا نہ کہ اس کا لے کے اسی اسی طریقے سے یہ معاملہ اگے بڑھے گا جس طرح ہمارے علوم میں بڑھتا ہے کہ پہلے میرے مشاہدے سے اور میرے تجربے سے جو حقائق میرے سامنے ائیں گے میں نے عرض کر دیا نا کہ مشاہدہ اور تجربے کے لفظ سے یہ مراد نہ لیجئے کہ وہ اشیائی کا ہوتا ہے صرف میرے پاس ایک حادثہ ہے بات نہیں بھی موجود ہے تو میرے پاس تو مجموعہ ہے حقائق ائے گا اس کو میں شعور دیگر کو منتقل کروں گا
-
00:35:21 یعنی دوسرے انسانوں کا اس کے نتیجے میں میرے سامنے کچھ نتائج فکر ائیں گے ان کی بنیاد پر نظریات قائم ہوتے
-
00:35:29 جب وہ قائم ہوں گے تو کوئی تنقید کرنے والا بھی پیدا ہو جائے گا تو نقد و نظر کا یہ عمل ہے جو اس کو نکھارتا چلا جاتا ہے
-
00:35:36 اور میں نے عرض کر دیا کہ اگر فرض کر لیجئے کہ کسی مرحلے کے اوپر اجتماعی سطح پر کوئی فاصلہ کرنا ہوگا تو وہاں معیار کب بنایا گیا ہے وہاں فصل نزا کا طریقہ ایجاد کیا گیا ہے
-
00:35:48 اسی لئے میں نے بار بار توجہ دلائی کہ جمہوریت حق و باطل کا فاصلہ نہیں کرتی
-
00:35:54 وہ اجتماعی سطح پر نزا کا فیصلہ
-
00:35:57 کیونکہ مذاق کے لئے ہمارے پاس
-
00:36:00 کوئی ایسی رہنمائی موجود نہیں ہوتی کہ جو اسمان سے ائے یہ کہے کہ جہاں اختلاف ہو گیا ہے وہاں صحیح بات یہ ہے تو وہاں ہم نے اکثریت کے حصول کو قبول کر لیا ہے جمہوریت کے اصول کو قبول کر لیا معیار بنایا کب جا رہا ہے
-
00:36:14 یعنی جس طرح سے انسانی علوم دنیا میں موجود ہے ایسے ہی میرا یہ لمبی ہوگا لیکن جس وقت مجھے اللہ کی رہنمائی مل گئی یا مل جاتی ہے تو اب میں ایک حتمی بات کہنے کی پوزیشن میں ا جاتا ہوں لیکن وہ جو میں حتمی بات کہتا ہوں وہ بھی کس چیز پر مبنی ہوتی ہے میرے قران کے فہم پر
-
00:36:33 میرے سنت کے فہم پر
-
00:36:35 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے کی نسبت سے کسی روایت کے فہم پر
-
00:36:39 ان میں سے ہر چیز پر گفتگو ہو سکتی ہے اور بحث ہوسکتی اور اختلاف ہو سکتا ہے
-
00:36:45 تو اصل میں اپ کے پاس اختلاف کو دور کرنے کا ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جو مجھے مجبور کر دے کہ میں فلاں بات کو قبول کر
-
00:36:53 یعنی اللہ کی کتاب بہت بڑی رہنما ہے اور اللہ کی کتاب حتمی حجت کے طور پر نازل ہوئی ہے لیکن سمجھنا تو اس کو مجھے ہی ہے
-
00:37:01 تو انسان کی حیثیت سے بہت سے ایسے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر میں سمجھنے میں غلطی کھاتا
-
00:37:07 کبھی قلت تدبر اس کا باعث بن جاتی ہے کبھی کل تیل میں اس کا باعث بن جاتی ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ کونسی چیز ہے کہ جس میں حتمی فیصلے کے لئے اپ کو کوئی چیز میسر ہو گئی
-
00:37:18 رہنمائی
-
00:37:20 حتمی فیصلے کے لئے رہنمائی قران کی صورت میں موجود ہے سنت کی صورت میں موجود ہے پھر حدیث کے بارے میں ہم ہمیشہ سے یہ بحث کرتے رہے ہیں مسلمانوں کا پورا علم یہ بحث کرتا رہا کہ اپ کو ضنی علموں سے حاصل ہوتا ہے بلکہ پہلے تو خود اس کا وجود ایک ضمنی چیز
-
00:37:37 پھر اس سے جو کچھ اپ استنباط کریں گے وہ ایک گندی چیز
-
00:37:40 تو اس لئے یہ دنیا ایسے ہی ہے اس کو اسی طرح قبول کرکے اپ چلتے ہیں
-
00:37:46 جب اپ اس کو قبول کر کے چلتے ہیں تو اس میں اصل میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا جو پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے میرے پاس جہاں کی رہنمائی ہوگی فطرت کی رہنمائی ہے تو مجھے اس کتاب فطرت کو بھی پڑھنا ہے
-
00:37:59 اس میں بھی اختلاف ہو جائیگا اور میرے پاس اگر مذہب کی رہنمائی ہوگی تو محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر وقت میسر نہیں ہوں گے مجھے جو بات اپ کی طرف سے پہنچی ہے وہ کتاب میں پہنچی ہو وہ سنت میں پہنچی ہو وہ روایات میں پہنچی ہو اس سے رہنمائی حاصل ہوگی فیصلہ پھر مجھے ہی کرنا مختصر سمجھ جاتا ہوں اور اس پر اپ کمنٹ کریں پھر اس سلسلہ جو سوالات ہیں تراز ان کو اگے بڑھاتے ہیں ابھی جو ایک بات ہوئی یہاں پر زور اس پر دیا جا رہا ہے جو اعتراضات کو میں دیکھ رہا ہوں اور اپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں کہ یہ جو ذریعہ علم ہے یہ ضمنی ہے اس میں قطعیت نہیں ہے اس کے اندر حتمیت نہیں ہے یہ ڈیفینس نہیں ہے میں اپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب اپ مذہبیات کی دنیا میں یہ بات کرتے ہیں کہ قطعی دلالہ کے متعین معنی متکلم کی ایک منشا تو وہاں پر یعنی یہاں پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ ناقص ذریعہ علم ہے اور وہاں پر یہ اعتراض کیا جارہا تھا کہ اپ قطعی بنا رہے ہیں اس کو بھی زنی رکھیں تب مسلمانوں کا سارا علم اسی تشویش میں مبتلا ہے
-
00:38:58 دیکھئے وہاں پے یہی پیسے ہو رہی ہیں مثال کے طور پر اپ شادی کو پڑھیے تو انہوں نے دین کی حجت کو قطعی بنانے کے لئے پھر استقرائی کا اصول اختیار کیا
-
00:39:07 یعنی اپ اگر غور کر کے دیکھیں تو اپ کے ہاں جو ایک بڑا ادمی اصولین میں پیدا ہوا ہے اس نے استقرائی کا طریقہ اختیار کیا کم و بیش شاہ ولی اللہ بھی یہی طریقہ اختیار کرتے
-
00:39:18 کینو کو کیسے اختیار کیا کہ مذہبی حقائق قران میں بھی بیان ہوں گے سنت میں بیان ہوں گے روایتوں میں بھی موجود ہوں گے مسلمانوں کے تامل میں بھی ہوں گے ایک اجماعی فہم میں بھی ہوں گے جب ان تمام ذرائع سے ایک چیز کے بارے میں اطمینان ہو جائے گا کہ یہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دین کی حیثیت سے دی گئی ہے تو اس کو ہم قطعی مان لیں گے اب اس کو قطعی ماننے کے بعد وہ اگے کیا کہتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ تو قطعی ہوگئی اس کے بعد باقی سب چیزوں کے لئے اسلحے قطعی کی طرف رجوع ضروری ہوگا
-
00:39:48 تمہارا بھی بالکل وہی طریقہ اختیار کیا گیا
-
00:39:50 یا ہم جب یہ کہتے ہیں کہ قران مجید کی یہ حیثیت ہے کہ اس میں متکلم نے اپنی بات اس اسلوب میں کہہ دی ہے کہ وہ ایک حتمی حجت کی حیثیت اختیار کر گئی ہے قران میزان اور فرقان ہے وہ فیصلہ کن اتھارٹی بن کر ایا ہے اس کو ہمیں سمجھنا ہے وہ سارے اسباب فراہم ہیں قطعی دلالہ ہونے کا مطلب کیا ہے وہ سارے اسباب فراہم ہیں کہ ہم حتمی نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں لیکن سمجھنے والا کون ہے انسان
-
00:40:19 اور غلطی کے توجو کیا ہوں گے امام فرائض ہیں یہاں قطعی دلالہ کی بحث کی ہے تفاسیر کے مقدمات میں وہاں دونوں چیزوں پر انگلی رکھ دی
-
00:40:28 یعنی بائس کیا چیز بنتی ہے اختلاف کا
-
00:40:31 قلت تدبر یا قلت ال
-
00:40:33 یعنی میں اس پے غور کرنے کے لئے گیا میرے علم میں کسی دائرے میں کوئی کمی رہ گئی تھی وہ اثر انداز ہوگا
-
00:40:40 میں کسی لفظ کے بارے میں استفسا نہیں کر سکا کہ اس کے معنی کے کیا پہلو ہو سکتے ہیں مجھے کسی جملے کی تعریف کو سمجھنے کے لئے جو ضروری علم چاہیے تھا اس میں کوئی چیز میراث میں ناقص مل گئی
-
00:40:52 اور اسی طرح سے میں متنبہ نہیں تھا میں غفلت میں تھا میں کسی تعصب میں مبتلا ہو کر دیکھ رہا تھا قلت تدبر یعنی جس درجے میں جس اعتماد کے ساتھ اور جس انعامات سے مجھے غور کرنا چاہیے تھا میں اس کا حق ادا نہیں کر سکا تو یہ ساری چیزیں میری طرف ہے وہاں بھی بحث یہ نہیں ہے کہ جو ادمی بھی اٹھے گا اور وہ قران کی طرف رجوع کرے گا حتمی نتیجہ نکال کے لے ایا
-
00:41:16 یہ تو امی نے کہا جارہا تو اسی طرح انسانی فطرت کے مطالعہ میں بھی ہم اسی چیز میں گزریں گے انسانی فطرت میں بھی بہت سی چیزیں اتنی مہکم ہے کہ وہ عالمی سطح پر مانی
-
00:41:27 اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو نظام پڑی ہوئی ہوتی ہیں ان پر بحث ہوتی رہتی ہے ان میں ظاہر ہے کہ میں اپنے لئے فیصلہ کروں گا تو اپنے تجربے اپنے مشاہدے اپنی استدلالی طاقت کی بنیاد پر کروں گا اور جب مجھے اس کو علم بنا کے دوسروں کو سکھانا اور بتانا ہوگا تو استرا کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے اس شادی بھی اس سے مختلف کوئی راستہ نہیں ایجاد کر سکے اور اگر مجھے اس سے اگے بڑھ کر اس کو کسی جگہ قانون کی حیثیت دینی ہوگی اور کسی اجتماعی نظم میں اس کو ایک قاعدے کی حیثیت سے نافذ کرنا ہوگا تو پھر وہی سوال پیدا ہوگا اور اس میں اکثریت کی رائے حاصل کرنی پڑے گی ایک اور مختصر تبصر فرمائیے گا جو ایت میں نے اپ کے سامنے پڑھی تھی کہ اکثریت کی پیروی کرو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے تو ہماری مذہبی روایت میں تو باقاعدہ ایک ماخذ دین کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اجماع امت تو وہاں پر یہ ایت یاد نہیں اتی ہے لوگ کوئی رائے قائم کیجئے یہ کہا جائے گا کہ نہیں یہ نقطہ نظر جمہور کے خلاف ہے وہ جمہور وہ جمہوریت جس کی ہم بات کرتے ہیں وہ اپ کی ساری فک میں اپ کے تمام تر فیصلوں میں ہر جگہ حوالے کے طور پر موجود ہیں اور اگر لوگوں کا اجماع ہو جائے تو پھر تو ظاہر ہے کہ اپ گردن زدنی ہے اگر اپ نے اس سے اختلاف کرلی ہے یعنی کسی اصول کے بارے میں صرف یہ ہوتا ہے کہ بعض موقعوں پر ہم انتہا پسندی اختیار کر لیتے ہیں
-
00:42:49 مثلا میں بھی اس بات کو بڑی اہمیت دوں گا کہ اہل علم ایک بات کو اتفاق سے سمجھ رہے ہیں تو مجھے دس مرتبہ اس پر غور کرنا چاہیے لیکن وہ ساتھ میں اجرت نہیں مان
-
00:42:59 اچھا اسی طرح جمہور کی رائے ہوگی تو میں 10 مرتبہ اپنے کسی تفرق پر غور کرنے کے لئے تیار ہو جاؤں گا بار بار اس پر نظر ڈالوں گا لیکن اس کو حتمی حجت نہیں سمجھوں گا اپ جمہوری بنیاد کے اوپر کسی ملک میں کسی قوم میں فیصلہ کریں گے تو وہاں پر بھی یہ کہوں گا کہ یہ فیصلہ نافذ العمل ہوگا ضروری نہیں کہ میں اس سے اتفاق کر
-
00:43:21 تو اس وجہ سے یہاں پر بھی یہ تنقید موجود رہے گی اس کو روکا نہیں جا سکتا
-
00:43:26 جو بنیادی بات میں بار بار سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں یہ ہے کہ علم جب انسانی سطح پر ہوگا تو ان مراحل سے گزرے گا
-
00:43:33 یہ صرف اللہ تعالی ہے کہ جو کسی چیز کا حتمی فیصلہ کرتے ہیں لیکن جب وہ فیصلہ سنا دیا جائے گا تو پھر اس کے فہم میں وہی صورتحال پیدا ہو جائے سہولت دیگر کی بات کی تھی میرا جو ایک حادثہ ہے باطنی ہے اس سے میں ایک نتیجہ اخذ کرتا ہوں پھر میں اس کو شیئر کرتا ہوں تو سوال
-
00:43:55 میرا ایرم شروع ہی سے ہوتا ہے اسی چیز کو کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور میں تجربہ کا شعور کی فضا پیدا ہو گئے لوگوں نے کہا کہ ہم
-
00:44:06 چیزوں کو تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر مانیں گے یا نہیں مان
-
00:44:10 تو ابتدا یہیں سے ہوتی
-
00:44:12 اپ اس کے بعد یہ کہ تجربہ اور مشاہدہ ہی فیصلہ کن ہوگا نہیں وہ بڑے مراحل سے گزرتا ہے اور اس میں عقلی استنباط کے مرحلے بھی ا
-
00:44:20 وہ اس وقت اپ کے پیور سائنس میں بھی ا
-
00:44:23 اپ روک نہیں سکتے
-
00:44:24 تو انسانی علم کی تحلیل کر کے دیکھئے کہ وہ کیسے جاتا ہے یہ تمام سوالات یہاں سے پیدا ہو رہے ہیں کہ اپ نے اپنی مذہبی روایت کو سامنے رکھ کر انسانوں کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا شروع کر دیا کہ میرے پاس ایک حتمی معیار موجود ہے تمہارے پاس موجود نہیں ہے اپ کے پاس ایک اللہ تعالی کی طرف سے حتمی رہنمائی موجود ہے
-
00:44:46 ایک فیصلہ کن چیز موجود ہے لیکن اس کو سمجھنے کے عمل میں اسی طرح کے اختلافات ہوئے ہیں ہونگے ہوتے رہیں
-
00:44:55 سوال ہے جو اعتراض ہے وہی ہے کہ جب میں شعور ہے دیگر کی طرف جاتا ہوں تو وہ دوسرا فرد اگر تو مثلا کال مارکس ہے یا ایڈم سمتھ ہے یا جان ریال ہے یا ایک اللہ کا پیغمبر ہے اب ان افراد کے سامنے جب میں شیئر کرتا ہوں وہ اپنے تصورات بھی رکھتے ہیں تو شعور دیگر سے میں اپنے ذاتی تجربے یا اپنے مشاہدے اپنے حواس سے بات نہ کے ذریعے جو چیز مجھے حاصل ہوئی ہے وہ تو جا کے پھر وہ الٹا سرکل ہو جائے گا وہ شخص اپنے لحاظ سے بتائے گا کہ اس کو کیسے ان کے سامنے استغرا ان کے سامنے بات رکھنے کا نام نہیں ہے یہ خود اسی طریقے سے اپنی اراء دے رہے
-
00:45:31 اچھا یعنی وہ بھی خبریں دیگر کریں گے وہ سب یہی کر رہے
-
00:45:34 یعنی ان کے ہاں بھی بنائے استدلال کیا ہے وہی چیزیں ہوگی یعنی یا وہ اپ کو تجربے اور مشاہدے کا ایک نیا مجموعہ ہے حقائق فراہم کر دیں گے
-
00:45:43 یہ اپ کے تجربے اور مشاہدے کا نقس واضح کر دیں گے یا استقراء کے عمل میں جو اپ نے کیا ہے خادمی اور خرابی کی نشاندہی کر دیں گے یا استنباط کے مرحلے میں ا کر اپ سے یہ کہیں گے کہ مجموعہ حقائق تو بالکل درست ہے اس کی ترتیب بھی صحیح ہے اور اس کو کیٹیگریز بھی صحیح طریقے سے کیا گیا ہے لیکن نتیجہ نکالنے میں یہ غلطی ہوگئی ہے یعنی اپ نے مقدمات کی ترتیب ٹھیک رکھی ہے اور نتیجہ ٹھیک نکالا ہے تو انہی چیزوں پر بحث ہو رہی ہے
-
00:46:12 یعنی جدیدیت بحث کر رہی ہے نہ چیزوں پر فلسفی بحث کر رہے ہیں یا نہیں چیزوں کے اوپر علم کے اپ کے پاس ذرائع ہی یہی ہے
-
00:46:20 انیس سے اپ کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور یہ نتیجہ انہی تمام مراحل میں موجود ہوتا ہے یعنی بعض چیزوں کے بارے میں عمومی اتفاق عالمی سطح پر ہو چکا ہوگا
-
00:46:31 اس وقت بھی میں اپ کو یاد دلاؤں یہ بنیادی حقوق ہیں
-
00:46:35 ان کے بارے میں بھی دو تعبیریں ہیں جو اس وقت بھی اقوام متحدہ کی میز پر پڑی ہوئی ہیں
-
00:46:40 ایک وہ ہے کہ جو کیپٹلزم کے تحت یا لبرلزم کے تحت جو سوسائٹی کے حلقے منظم ہوئے ہیں ان کی ہے اس میں سیاسی حقوق کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے دوسری جانب سوویت بلاک تھا
-
00:46:53 اور اب جی ابھی موجود ہے تو ان کے ہاں معاشی حقوق زیر بحث ہے
-
00:46:58 یہ بحث ایک بہت بڑی بحث ہے کہ انسان کو پراپرٹی کا یا ملکیت کا حق اگر دے دیا جائے تو کیا یہ حق دوسروں کے لئے اذیت کا باعث تو نہیں بن جاتا
-
00:47:10 بیس باقی ہے نہ اس طرح کی بحثیں کسی جگہ بھی روکی نہیں جاسکتی اپ اس میں نتیجہ کیسے نکالتے ہیں اپ دیکھیے وہی ایک عمل ہے اس کے سوا اپ کے پاس راستہ کوئی نہیں ہے اپنی ذات کے لئے اپ کا تجربہ اور مشاہدہ وہی اپ کا رہنما ہوتا ہے اس کی بنیاد پر اپ فیصلہ کرتے ہیں علم بننے کے لئے استرا کا عمل علم بننے کا نتیجہ یہ نہیں ہے کہ وہ علم بن کے حتمی حجت ہو گیا ہے استقرار کا عمل میں بھی کر رہا ہوں ایڈم سمتھ بھی کر رہا ہے یا کال مارکس بھی کر رہا ہے دوسرے لوگ بھی کر رہے ہیں وہ اپنے نتائج اپ کے سامنے لا رہے ہیں ان کے درمیان میں بھی ایک جدلیات برپا ہوتی ہے اس پر بحث مباحثے کے نتیجے میں کچھ چیزیں قبول عام حاصل کر رہی ہوتی ہیں کچھ چیزیں نہیں کر رہی ہوتی اور پھر عرض کردوں گا کہ ریاست کی سطح پر فیصلہ کرنے کے لئے اپ کو پھر جمہوریت کا سہارا لینا پڑے اپ کے وقت کا یہاں ہمارے فلیم کا وقت ختم ہوتا ہے بہت تفصیل سے اج ہم نے بڑی دلچسپ موڑ پے گفتگو کا اختتام ہورہا ہے افتتاح کے حوالے سے فطرت کے حوالے سے یہ بحث جاری ہے اور وہ 23 اعتراضات دن میں فطرت زیر بحث ہے اس کو ہم لے کے چل رہے ہیں ان شاء اللہ اگلی نشست میں مزید اعتراضات ہم سب کے سامنے رکھیں گے بہت شکریہ اپ
-
00:48:15 [Unintelligible]
-
00:48:16 [Unintelligible]
-
00:48:19 [Unintelligible]
Video Transcripts In English
Video Summry
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 01:04 فطرت کی تعیین کیسے ہو گی؟ 09:39 کیا الہامی روایت کو چھوڑنے سے انسان فطرت کی رہنمائی سے بھی دور ہو جاتا ہے؟ 12:52 استقرا سے ظنی اور ارتقا پذیر علم حاصل ہوتا ہے۔ 23:42 قرآن کے ارشاد کہ اکثریت کی رائے گمراہ کن ہے سے کیا مراد ہے؟ 31:07 فطرت کے مطالعے میں کن کن چیزوں میں عملا ارتقا ہوا ہے؟ 34:26 فطرت کی تعیین میں فرد معیار ہو گا یا گروہ؟ 38:38 فطرت کی تعیین کے طنی ہونے پر اعتراض، تو قرآن کے قطیع الدلالہ ہونے پر لوگ کیوں اعتراض کرتے ہیں؟ 42:27 اگر اکثریت کی رائے گمراہ کن ہے، تو اجماع امت کی کیا حیثیت ہے؟ 44:07 استقرا سے عملا کیا مراد ہے؟ 48:23 اختتامیہ
Video Transcripts In Urdu
Video Transcripts In English
Video Summary
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 01:04 فطرت کی تعیین کیسے ہو گی؟ 09:39 کیا الہامی روایت کو چھوڑنے سے انسان فطرت کی رہنمائی سے بھی دور ہو جاتا ہے؟ 12:52 استقرا سے ظنی اور ارتقا پذیر علم حاصل ہوتا ہے۔ 23:42 قرآن کے ارشاد کہ اکثریت کی رائے گمراہ کن ہے سے کیا مراد ہے؟ 31:07 فطرت کے مطالعے میں کن کن چیزوں میں عملا ارتقا ہوا ہے؟ 34:26 فطرت کی تعیین میں فرد معیار ہو گا یا گروہ؟ 38:38 فطرت کی تعیین کے طنی ہونے پر اعتراض، تو قرآن کے قطیع الدلالہ ہونے پر لوگ کیوں اعتراض کرتے ہیں؟ 42:27 اگر اکثریت کی رائے گمراہ کن ہے، تو اجماع امت کی کیا حیثیت ہے؟ 44:07 استقرا سے عملا کیا مراد ہے؟ 48:23 اختتامیہ
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 01:04 فطرت کی تعیین کیسے ہو گی؟ 09:39 کیا الہامی روایت کو چھوڑنے سے انسان فطرت کی رہنمائی سے بھی دور ہو جاتا ہے؟ 12:52 استقرا سے ظنی اور ارتقا پذیر علم حاصل ہوتا ہے۔ 23:42 قرآن کے ارشاد کہ اکثریت کی رائے گمراہ کن ہے سے کیا مراد ہے؟ 31:07 فطرت کے مطالعے میں کن کن چیزوں میں عملا ارتقا ہوا ہے؟ 34:26 فطرت کی تعیین میں فرد معیار ہو گا یا گروہ؟ 38:38 فطرت کی تعیین کے طنی ہونے پر اعتراض، تو قرآن کے قطیع الدلالہ ہونے پر لوگ کیوں اعتراض کرتے ہیں؟ 42:27 اگر اکثریت کی رائے گمراہ کن ہے، تو اجماع امت کی کیا حیثیت ہے؟ 44:07 استقرا سے عملا کیا مراد ہے؟ 48:23 اختتامیہ