Response to 23 Questions - Part 19 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Video Transcripts In Urdu
-
00:00:00 [Unintelligible]
-
00:00:12 بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مکتب غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید سلسلہ گفتگو اپ کے علم میں ہے جاری ہے ان 23 اعتراضات پر ہم غامدی صاحب سے ان کے نقطہ نظر پر جوابات پوچھ رہے ہیں اور فطرت کا موضوع زیر بحث ہے
-
00:00:27 اس سلسلے کی 19ویں نشست ہے اور فطرت کے موضوع پر ہم غامدی صاحب سے بات کر رہے ہیں امید ہے یہ فطرت کے موضوع کی اخری نشستوں کی اسلامی اقوام سے ہم سے بہت شکریہ اپ کے وقت کا بہت تفصیل سے ہم نے فطرت کے موضوع پر کئی اقسات میں اپ سے بات کی ہے سلسلہ گفتگو اختتام کی طرف جا رہا ہے اور میں اس وقت اپ سے وہ متفرق سوالات جو بالعموم اپ کے تصور فطرت پر پوچھے جاتے ہیں انہیں کہ کرکے اپ کے سامنے رکھ رہا تھا اج کی نشست کا اغاز اس سوال سے کرتے ہیں کہ کیا کسی زمانے میں اپ نے یہ اصول بیان کیا تھا کہ جو ملت ابراہیم ہے ان کی اکثریت کو سامنے رکھ کر ہم یہ متعین کریں گے کہ انسان کی درست فطرت کیا ہے یعنی استقرار کے اصول میں کیا ملت ابراہیمی کی اکثریت کو سامنے رکھ کر ہم فیصلہ کرسکتے ہیں اس سے پیچھے بڑی تفصیل کے ساتھ میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ انسانی فطرت کے بنیادی مقدمات عالمگیر ہیں ان کے لئے استقراء کا طریقہ بھی یہ ہے کہ اپ ساری دنیا کا جائزہ لیتے ہیں ساری دنیا کا جائزہ لینے کا وہی طریقہ ہوتا ہے جو تمام علوم میں اختیار کیا جاتا ہے اپ کے پاس بہت سی چیزیں براہ راست ہوتی ہیں بہت سی چیزیں تصنیفات سے سامنے اتی ہیں بہت سی چیزیں دنیا کے تحمل سے معلوم ہوتی ہیں ان کی بنیاد پر اپ ایک رائے قائم کرتے ہیں جس وقت اللہ کی کوئی کتاب نازل ہوتی ہے تو اللہ کی کتاب اپنے مخاطبین کو سامنے رکھ کر بات کرتی ہے قران مجید نے جب یہ بات کہی کہ معروف کی پیروی کرو منکر سے اجتناب کرو
-
00:02:02 تمہارے لئے طیبہ حلال ہے وہ تو میں نے کھا سکتے ہو لیکن خواہش سے اجتناب کرو تو اس میں سامنے کون لوگ ہیں
-
00:02:11 وہ اصل میں ضروریت ابراہیم ہے وہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہے
-
00:02:16 تو ظاہر ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں ان کے ہاں کوئی وہم نہیں کوئی بحث نہیں ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں ہوگی
-
00:02:24 وہاں خودبخود متعین ہو جائیگا کہ جب قران مجید
-
00:02:28 [Error: recognition request failed: Bad Request]
-
00:08:31 تم اپنے اندر خیر و شر کا شور رکھتے ہو خیر و شر کا یہ شعور جب تمہارے ادراک میں اتا ہے تو تمہاری عقل اس سے کچھ چیزوں کا استنباط کرتی ہے عقلی استنباط یقینی نہیں ہوتا اس میں احتمالات موجود ہوتے ہیں اس کے بعد میں یہ کہتا ہے کہ یہ جو تمہاری عقل نے استنباط کیا ہے یا جس کی بنا تم اپنے اندر محسوس کرتے ہو یہی وہ چیز ہے جس کو ہم نے اخرت میں ڈال دیا ہے یہی وہ چیز ہے کہ جس کو ہم اپنے انبیاء کے ذریعے سے واضح کر رہے ہیں یہی وہ چیز ہے جس کی ہم منادی کر رہے ہیں تو یہ اصل میں وہی چیز ہے اپ پیچھے سے اس کو بحث کو اٹھائیں کہ انسانی فطرت میں وہ کیا جگہ ہے جہاں سے اللہ تعالی اپنی ہدایت دیتے ہیں ان کو الگ الگ کر کے میں نے کہاں پیش کیا ایک اور سوال وہی ہے کہ یہ جو اخلاقی صحیح ہے انسان جو جدوجہد کرتا ہے خیر و شر کے شعور کے بعد ارادہ اختیار کی صلاحیت کو استعمال کرتا ہے اس کا مقصد اپ نے اپنی کتاب میں تفسیر میں کئی جگہوں پر بیان کیا ہے کہ اس کا مقصد اللہ کی ابدی بادشاہی کا حصول ہے اچھا یہ جو فریض ہے اس کے بارے میں لوگوں نے یہ اعتراض پیش کیا کہ یہ بات تو بڑی خطرناک بات ہے کہ اللہ کی ابدی بادشاہی میں انسان شریک ہوجائے تو ایک طرح سے الوہیت انسانی کا تصور پیش کرنا ہے جو مسیحی متکلمین کہتے ہیں کہ گویا انسان بھی خدا کے برابر اجائے تو اللہ تعالی نے تو قران مجید میں کہیں یہ نہیں کہا کہ انسان جو ہے وہ میری بادشاہی میں شریک ہو جائے گا تو یہ مقصد کیسے اپ نے متعین کیا اس وقت فہمی کی کیا داد دے سکتا ہوں میں یعنی خدا کی بادشاہی سے مراد ہے جنت اچھا وہ ابدی ہے خالدین فیہا بنا خالدین فیہا ودام غیر مجلس
-
00:10:07 اجر و غیر ممنون قران مجید جس جنت کی خوشخبری دے رہا ہے اس کے بارے میں یہ اطلاع بھی دے رہا ہے اس کے ساتھ کہ وہ ابدی ہوگی ایٹرنل ہوگی وہ کبھی ختم نہیں ہوگی اس کا عیش عیش دوام ہے اور وہ بادشاہی ہوگی
-
00:10:22 ہینی وہ معمولی درجے کی نعمتیں نہیں ہے یہاں اگر کوئی بہت بڑا دنیا کا بادشاہ اپنے بارے میں کچھ چیزوں کا تصور کریں تو وہ ایک عام انسان کو وہاں حاصل ہو جائینگے تعبیر سیدنا مسیح علیہ السلام نے اختیار کی مسیحی متکلمین نے اگر اس کا کوئی غلط مفہوم نہیں لیا ہے تو میں اس کا پابند کیوں ہوں میں تو اسے بالکل قران مجید کی روشنی میں دیکھتا ہوں میرے نزدیک انجیل میں جب یہ تعبیر ائی ہے تو دو پہلوؤں سے ائی ہے یعنی ایک اور سبزی بادشاہی کے لئے کہ جو ہمیں جنت میں حاصل ہوگی اور دوسرے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے جو دنیا میں بادشاہی ملنے والی تھی اور وہ بھی اس لحاظ سے ابدی ہے کہ اب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور رسول یا نبی نہیں ائے گا اور وہ قیامت تک اسی طرح سے جاری رہے گی تو یہ دو تعبیریں ہیں جو اختیار کی گئی میں نے یہاں اس کو اور میرے اس بیان سے بہت پہلے بہت سے دوسرے اہل علم میں بھی اسے جنتی کے مفہوم میں اختیار کیا ہے تو اس میں ہرگز کو اس طرح کا فلسفہ مصور بھی نہیں ہو سکتا جو لوگ میرے پورے ڈسکورس سے واقف ہیں میری کتابیں پڑھے ہوئے ہیں جانتے ہیں کہ اس میں یہ تعبیر کس مفہوم میں اختیار کی جاتی ہے اگے بڑھتے ہیں یہ جو تصور ہے
-
00:11:39 معروف اور منکر ہے اس کے بارے میں جو اعتراضات ہیں وہ مل سکتی ہے اپ کے سامنے رکھتا ہوں متفرق اعتراض ہیں پہلا یہ سوال کیا گیا ہے کہ یہ جو نیکی کے بارے میں اپ کہتے ہیں کہ نیکی اور بدی کا شعور اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے تو قران مجید کی سورہ بقرہ کی ایت 177 وہ مقام ہے جو اس تصور کی نفی کرتی ہے میں وہ ایت اپ کے سامنے پڑھ دیتا ہوں یہ ایت کا ترجمہ ہے کہ خدا کے ساتھ وفاداری محض یہ نہیں کہ تم مشرق اور مغرب کی طرف رخ کر لو بلکہ وفاداری ان کی وفاداری ہے جو اللہ پر یوم اخرت پر فرشتوں پر کتابوں پر نبیوں پر صدق دل سے ایمان لائے اور اپنے مال اس کی محبت کے باوجود قرابت مندوں یتیموں مسکینوں مسافروں سائلوں اور گردن چھڑانے پر خرچ کریں اب یہاں پر تو جو قران مجید کی ایت ہے وہ بتا رہی ہے کہ نیکی کیا ہے نیکی یہ نہیں ہے کہ اپ مشرق کی طرف رخ کرلیں بلکہ نیکی وہ ہے جس کو اللہ نیکی قرار دے تو اسی ضمن میں یہ مثالیں میں پیش کر دوں کہ بظاہر ہمیں لگتا ہے کہ کسی بچے کو ذبح کرنے کا حکم دینا یہ نیکی تو نہیں ہے لیکن ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر عمل کیا تو وہ نیکی بھی بن گئی باعث اجر بھی بن گئی ان کی یاد میں اج تک قربانی بھی ہوتی ہے تو قران مجید کا یہ مقام تو بتا رہا ہے کہ نیکی وہ جو اللہ نیکی کی فطرت کو الگ الگ کرلیا سیدنا ابراہیم کے معاملے کا ہم الگ سے جائزہ لیں گے پہلے اس ایت کو دیکھیے یہ اس ایت میں تو وہ مولوی نہیں ہے مسئلہ ہی میرے بحث میں اگر اپ اس کے سیاق میں رکھ کے ایت کو دیکھیں تو وہاں یہ ہے کہ مراسم عبودیت یا رسول یا جو ایک فارم اختیار کی جاتی ہے مذہب میں ایک صورت اختیار کی جاتی ہے کیا وہ نیکی ہوتی ہے
-
00:13:18 یہ وہی مضمون ہے جو قربانی کے باب میں قران مجید میں واضح کیا ہے یہ فرمایا کہ یعنی یہ جب تم ایک جانور کو ذبح کرتے ہو تو تمہارا خیال یہ ہے کہ اس کا گوشت اور اس کا خون اللہ کو پہنچتا ہے
-
00:13:37 تقوی پہنچتا ہے جو تمہارے دل میں موجود ہوتا ہے تو یہ حقیقت کو بیان کیا ہے کہ نیکی کی حقیقت کیا ہے وہ نیکی کا میرے باطن سے اٹھے خواہ وہ میری فطرت سے اٹھے خواہ وہ اللہ کے کسی حکم کے نتیجے میں نیکی قرار دی جائے اللہ کا کوئی امر بن جائے یا اللہ کی کسی نہی کے نتیجے میں اس سے بچنا نیکی بنے ہر صورت میں اس کی حقیقت پیش نظر ہوگی یہ اس ایت کا موضوع ہے چنانچہ اس کو اس کے سیاق میں رکھ کے دیکھیے تو وہ اصل میں قبلے کی بحث ہے قران مجید اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ یہ جو تم نے ایک بڑا مسئلہ بنا دیا کہ قبلہ وہ ہونا چاہیے یا یہ ہونا چاہیے مشرق ہونا چاہیے یا مغرب ہونا چاہیے یہ تو فوم ہے سورۃ ہے اس کی حقیقت پر نگاہ رکھو چنانچہ دیکھئے میں نے اپنی تفسیر میں اس پس منظر میں ایت کو رکھ کر اس کا ترجمہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے اج تو اپ نے پڑھ دی میں نے اس کا ترجمہ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے وفا کا حق مذہب کی کچھ رسمیں پوری کر دینے سے ادا ہو جاتا ہے یہ ہے اس کا پس منظر اس پس منظر کو پہلے میں نے واضح کیا ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے وفا کا
-
00:14:49 نیکی کا حق یہ مذہب کی کچھ رسمیں پوری کر دینے سے ادا ہو جاتا ہے بالعموم مذہبی لوگوں کے ہاں یہ تصور پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی فارم کو کسی رسم کو اصل سمجھ لیتے ہیں اس کی نفی کرتے ہوئے قران مجید یہ کہتا ہے کہ اللہ کے ساتھ وفاداری صرف یہ نہیں کہ تم نے نماز میں اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کر لیا یہ بحث ہے بلکہ وفاداری تو ان کی وفاداری ہے جو پورے دل سے اللہ کو مانے
-
00:15:18 یہ میں ایمانداری پورے دل سے اللہ کو مانے اور قیامت کے دن کو مانے اور اللہ کے فرشتوں کو مانے اور اس کی کتابوں کو مانے اور اس کے نبیوں کو مانے اور مال کی محبت کے باوجود اسے قرابت مندوں یتیموں مسکینوں مسافروں اور مانگنے والوں پر اور لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں خرچ کریں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوۃ ادا کریں اور وفاداری تو ان کی وفاداری ہے کہ جب عہد کر بیٹھیں تو اپنے اس عہد کو پورا کرنے والے ہو اور خاص کر ان کی جو تنگی اور بیماری میں اور جنگ کے موقع پر ثابت قدم رہنے والے ہوں یہی ہیں جو اللہ کے ساتھ اپنے عہد وفا میں سچے ہیں اور یہی ہے جو فی الواقع پرہیز گار ہیں یعنی گویا مذہب کی حقیقت کیا ہے مذہب کن چیزوں کو بنیاد بنا کر نیکی اور خیر لوگوں کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا تقابل رسوم کو نیکی سمجھنے والوں سے کیا گیا ہے فطرت کے مقابلے میں اللہ کا حکم زیر بحث ہی نہیں ہے اور بار بار توجہ دلا چوکا ہوں کہ میری فطرت یہ سب چیزیں بالاجمال پیدا کرتی ہے اس کے بعد پیغمبر اتے ہیں اور وہ اکر میری فطرت میں جو کچھ بھی نہیں اجمال ہے اس کی تفصیلات کرتے ہیں یہ اس کی تفصیلات بیان کریں وہ یہ کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے حکم دیا بظاہر اپ اپنی فطرت پر اس حکم کو پرکھنے میں جو اعتراض کیے جاتے ہیں وہ یہ تو نیکی کا عمل بن ہی نہیں سکتا کہ اپ بچے کو ذبح کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں لیکن اپ نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں کیا تو وہ نیکی قرار پائی سمجھ لیجئے پہلی تو یہ کہ حکم کہاں دیا ہے
-
00:16:56 یعنی قران مجید نے اس کو بیان کیا ہے
-
00:17:00 قران مجید میں دو تین جگہ پر بیان ہوا ہے کس جگہ یہ ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے کہا کہ میں نے ایک ایت اتاری تھی اور میں نے وہی کرکے حکم دے دیا تھا ابراہیم کو ایسی تو کوئی بات ہی نہیں ہے ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا
-
00:17:14 خواب محترم ال وجہین ہوتے ہیں انہیں حقیقت پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے اور ان کی تعبیر بھی ہو سکتی ہے سیدنا یوسف علیہ السلام کا خواب دیکھ لیجئے بادشاہ کا خواب دیکھ لیجئے
-
00:17:26 پیغمبروں کے خواب میں بھی یہ دونوں سورتیں موجود ہوتی ہیں یعنی انھیں حقیقت پر محمول کرنا ہے یا ان کی تعبیر کرنی ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے خواب روایتوں میں بیان ہوئے ہیں جن کی خود اپ نے تعبیر بتائی تو دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں تو اس لیے پہلی چیز تو یہ ہے کہ کوئی حکم اس طرح کا دیا ہی نہیں جاتا
-
00:17:46 لیکن برصغیر تنزل اپ اس کو چھوڑ دیجئے اپ کہتے ہیں کہ فلاں چیز خیر ہے اور فلاں چیز شر ہے کیا یہ مطلب ہوتا ہے
-
00:17:54 خیر و شر کے کچھ تصورات متعلق بھی ہیں لیکن بہت سی چیزیں تعلقات کے حوالے سے خیر و شر بنتی ہیں میں اپنے بیٹے کو دیکھتا ہوں کہ اس نے ایک بیہودہ حرکت کی ہے میں اس کو اس پر ڈانٹ دیتا ہوں ہو سکتا ہے تعلیم کے طور پر تھپڑ مار دو باپ کے حوالے سے یہ خیر ہے
-
00:18:16 اگر میری کسی غلطی کو دیکھ کر بیٹا یہی کام کریں تو شاید دنیا کے اندر ہر خیر و شر کو اس طرح مطلق طریقے سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کے ریلیشن اس کی نسبت کو سامنے رکھ کے دیکھا جاتا ہے اسی طرح بعض موقعوں کے اوپر خیر و شر کے دو تصورات متصادم ہو جاتے ہیں ان میں بھی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس وقت کونسی چیز ہے جس کو ترجیح دینی ہے مشہور مثال ہے جو عام طور پر دی جاتی ہے کہ اگر کوئی اپ سے پناہ لینے ارہا ہے اس کے پیچھے ڈاکو لگے ہوئے ہیں کسی عورت کی وہ عصمت پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو اپ کیا کریں گے اس موقع پر جھوٹ بولیں گے سچ بولیں گے تو ظاہر ہے کہ یہ ساری چیزیں اپنے اپنی نسبتوں کے لحاظ سے دیکھنا پڑے گی نہ تو یہاں یہ دیکھنا پڑے گا کہ میرا کسی کو مارنا اور اللہ کا کسی کو مارنا یہ دونوں یکساں ہیں میرا کسی کو مارنا اپنے حدود سے تجاوز کرنا ہے اللہ سے بغاوت کرنا ہے اللہ تعالی کی اسکیم میں مداخلت کرنا ہے اس لئے وہ بڑا جرم ہے شرک کے بعد سب سے بڑا جرم قتل کو قرار دے دیا گیا ہے اگر کوئی باپ بیٹے کو قتل کر دے تو اس سے بڑا جرم کیا ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالی تو روز موت دیتا ہے
-
00:19:25 اور فرشتوں سے کہتا ہے کہ جاؤ فلاں کو مار دو ہواؤں سے کہتا ہے زلزلے سے کہتا ہے طوفانوں سے کہتا ہے موت تو ہزار طریقے سے اتی ہے تو اللہ کی نسبت سے کسی چیز کو دیکھا جائے گا تو اس کی نوعیت اور ہوگی بندوں کی نسبت سے دیکھا جائے گا تو بالکل اور ہوگی تو وہاں تھوڑی دیر کے لئے اپ مان لیں پھر سبیل تنزل کہ اللہ تعالی نے براہ راست سے حکم دے دیا الفاظ میں دے دیا تاویل کی بھی گنجائش نہیں تھی تب بھی اللہ نے حکم دیا بہت خوبصورت اپ نے مثال دی اس میں اچھا اگلا جو اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا جو دینی تصور ہے دینی فہم ہے قران و سنت کو پڑھنے کے بعد وہ یہ ہے کہ نیکی چلیں طے ہوگئی نیکی کیا ہے اپ کی فطرت پر موجود ہے اطلاق میں تفصیلات شریعت نے بتا دیں لیکن نیکی پر اجر اس وقت ملے گا کہ جس وقت نیکی خدا کی منشا کی یاد میں اس کی تائید میں اس کے اس کو خوش کرنے کے لئے اگر کوئی شخص مثلا اٹھتا ہے وہ کہتا ہے جی میں غریبوں کی مدد کرتا ہوں اس سے مجھے بات نہیں مسترد ملتی ہے تو مذہبی دینی اسلامی لحاظ سے تو اس کی یہ نیکی اللہ کے قابل قبول تو نہیں ہوگی نیکی تو تب ہے کہ جب اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہوں تو فطرت کا یہ تصور نیکی بدی کا اس وقت موثر ہوگا نتیجے کے لحاظ سے جب وہ ایمان باللہ کے اندر سے گزر کے جائے گا اگر اس کو پیغمبروں کی دعوت نہیں ملی
-
00:20:40 اگر اس کے اہل و عیال میں بھی کوئی پیغمبروں کو جاننے والا نہیں ہے اس تک پیغام نہیں پہنچا تو جو اس کی فطرت شہادت دے رہی ہے اس میں اگر وہ اپنے رب سے یہ توقع کرتا ہے کہ میں یہ نیکی کا کام تیری خوشنودی کے لئے کر رہا ہوں کیوں نہیں اجر ملے گا اسے
-
00:20:57 اللہ تعالی نے قران مجید میں 10 جگہ کہا ہے کہ وہ کسی عمل کرنے والے کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا
-
00:21:03 تو ایمان فطرت کے تقاضے سے پیدا ہوا
-
00:21:07 ایک ادمی نے اللہ کو مانا اس نے اس کا نام کوئی رکھ لیا
-
00:21:11 [Error: recognition request failed: Bad Request]
-
00:25:35 یعنی وہ چیزیں ہیں کہ جو انسانوں کے نزدیک بھلائی کی چیزیں سمجھی جاتی ہیں یہ وہی اصول ہے جس کی ہم تنقید کر چکے کہ میرے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے اس کے بعد یہ استقراء کے عمل سے گزرتا ہے دنیا میں جو چیزیں بنائی کی چیزیں مان لی جاتی ہیں عالمگیر صداقت کے طور پر ان کو معروف کہتے ہیں عربی زبان میں بھی یہی ہے ہم عربی زبان میں جو الفاظ استعمال ہوں گے ان کو کسی دوسرے مفہوم میں نہیں لے جاسکتے منکر کیا ہے
-
00:26:05 یعنی وہ چیز کے دو برائی ہے برائی سمجھی جاتی ہے انسان اس کو برائی مانتے ہیں تو معروف اور منکر کی تعبیرات قران میں اس مفہوم میں استعمال ہوئی ہے اس سے اگے بڑھ کر قران اس کی بنیاد پر جو دستور قائم ہو جاتا ہے کسی سوسائٹی میں اس کو بھی معروف کہتا ہے یعنی بھلائی کے کسی تصور سے اطلاع کے لحاظ سے ایک دستور ایک قاعدہ بن گیا چنانچہ اپ دیکھیے اللہ کے حکم اور اس میں کیا فرق ہے قران مجید سے جب قران نے یہ کہا کہ تم جس وقت دنیا سے رخصت ہوتے ہو تو معروف کے مطابق وصیت کر دیا کرو جو سوسائٹی کا عرف ہے اور اس کے بعد اللہ تعالی نے ایک پورا قانون دے دیا تو اپ ظاہر ہے کہ وہ معروف اب اس قانون میں تبدیل ہوگیا یعنی اللہ تعالی نے اس کی بنیاد پر ایک قانون ہے تو پوری کی پوری جو اللہ تعالی کی ہدایت ہے وہ اصل میں اسی طرح کھڑی ہے اینی معروف اور منکر کے وہ تصورات جو انسانی فطرت میں موجود ہیں ان پر کھڑا کرکے اللہ تعالی معروف میں اپنا امر دیتے ہیں اور منکر میں اپنی نہیں نازل کرتے ہیں تو اللہ کی نسبت سے اب جو موضوع الفاظ ہوں گے وہ ہوں گے عوام میں اور نواہی یعنی اللہ نے کن چیزوں کو حکم بنا دیا اور کن چیزوں سے ہم کو روک دیا تو ممنوعات کے لئے نواحی اور جن چیزوں کو اللہ تعالی نے واجب کیا ہے یا ان کو مستحب کی حیثیت سے لوگوں کو بتایا وہ سب کے سب عوام میں لیکن ان کی بنیاد کس چیز پر کھڑی ہے وہ کھڑی ہے معروف اور منکر میں اسی تصور پر جو انسانی فطرت کے اندر ہے اب ظاہر ہے کہ وہ اس کی بنیاد ہے اور یہ عوامل نواحی دونوں مل گئے مل کے پیغمبروں کے ذریعے سے جو تصویر بنی ہمارے علماء اس کو اس طرح بیان کرتے تھے لیکن اس کی تنقید کر کے دیکھیئے نہ کیا چیز ہے تو میرے نزدیک تو اس میں کبھی غلط مبس پیدا نہیں کرنا چاہیے معروف منکر مسلمات ہوتے ہیں ان کی بنیاد پر جب اللہ کا حکم اتا ہے پیغمبروں کے ذریعے سے تو وہ عوامل اور نواہی ہوتے ہیں اور ان کو ان ہی اصطلاحات سے ہمیشہ بیان کرنا چاہیے اگے بڑھتے ہیں جو متفرق اعتراضات ہیں وہ تصور خرونوش سے متعلق ہے یعنی اللہ تعالی نے جو انسان کی فطرت میں طیب اور خبیث کا ایک فرق اور شعور رکھا ہے سوال یہ ہے کہ سور خون مردار اور خدا کے سوا کسی کو ذبح کرنا جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع ہے اس کے علاوہ کی تعین انسانی فطرت کرتی ہے یہ کہنا اعتراض ہی کیا گیا ہے کہ یہ جو اسٹیٹمنٹ ہے کہ یہ جو سور خون مردار خدا کے سوا کسی کو ذبح کرنا ہے یہ اصل میں انسان کو حلت و حرمت کا اختیار دینا ہے اور گویا شارح کی جگہ پر کھڑا کر دینا قران مجید کی ایک ایت ہے سورہ الانعام کی میں پڑھ دیتا ہوں اس میں اس تصور کی مکمل نفی کر دی گئی ہے کہ انسان کے پاس کسی چیز کی حلت و حرمت کا کوئی اختیار نہیں ہے یہ ایت ہے یہ مشرک اب کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرکت دے نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو کسی چیز کو حرام ٹھہراتے یہاں پر بلا حرم نہ من شیئین کے الفاظ ہیں تو اعتراض یہ ہے کہ یہ نفی کی سیاق میں اگر نکرہ ہے تو یہ عموم پر دلالت کرتا ہے یعنی ایتیں بتا رہی ہے کہ انسان کے پاس کسی بھی چیز کو حرام قرار دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے تو پھر ابھی کیسے کہتے ہیں کہ صرف یہ چار چیزیں باقی تو انسان جانتا ہے کہ میں نے کہاں بیان کیا ہے کہ انسان کے پاس اختیار اگیا ہے کہ وہ حرام قرار دے اور حلال قرار دے یہ بتایا ہے بھائی کہ قران مجید میں خورونوش کی حرمتوں کو اور حلقوں کو بیان کرنے کی قران مجید میں ابتدا یہاں سے کی ہے کہ لوگوں سے کہا ہے طیبات حلال ہے وہ کھاؤ اور خبائث ممنوع ہے قران نے کہا ہے یہ کیوں کہا ہے
-
00:29:52 یہ بتایا کہ اس لئے کہا ہے کہ انسانی فطرت بڑی حد تک خبائث سے بھی واقف ہے اور طیبہ سے بھی واقف ہے ورنہ قران مجید ایک فہرست بنا تھا اور یہ کہتا ہے کہ یہ طیبات ہے اور یہ خواہش ہے ایسا کیوں نہیں کیا یعنی قران مجید کے اس اسلوب کو حکم دینے کی اس انداز کو سمجھانے کے لیے یہ بتایا ہے یہ یوں نہیں ہے کہ قران مجید میں یہ چیزیں ممنوع قرار دی ہیں اب میں کچھ چیزوں کو ممنوع قرار دینے جا رہا ہوں اللہ تعالی نے یہ کہا ہے یہ ایتیں جہاں ائیں ہیں جہاں چار چیزوں کا ذکر ہے ذرا پڑھیے ان کو نکال کے وہ شروع یہاں سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے جن چیزوں کو طیب قرار دے کے حلال قرار دیا ہوا ہے ان کو کھاؤ ان میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے تو پہلے بالاجمال ایک بات کہی دیکھیے جس وقت اللہ تعالی کہیں گے معروف کو اختیار کرو اور منکر سے اجتناب کرو تو یہ اس کا مطلب کیا اللہ حکم دے رہا ہے لیکن اس حکم کا شعور اس کے لئے منکر کیا ہے اور معروف کیا ہے یہ میں جانتا ہوں میں جانتا ہوں ورنہ اللہ تعالی یہ اسلوب اختیار نہ کرے اللہ تعالی قران مجید کس زبان میں نازل کر رہے ہیں عربی زبان میں اپ جانتے ہیں تب نازل کر رہے ہیں اگر دنیا میں کوئی قوم عربی نہیں جانتی تھی
-
00:31:08 اگر رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم بھی عربی نہیں جانتی تھی تو پھر یہ قران عربی میں نازل ہو سکتا تھا اس سے پہلے اللہ تعالی نے جو کتابیں نازل کیں قوموں کی زبان میں نازل کی قران مجید کے بارے میں بھی یہ کہا کہ یہ اپ کی قوم کی زبان میں ہے یہ اپ کی زبان میں ہے کیوں کہا
-
00:31:26 اس لئے کہ وہ زبان میں
-
00:31:28 کسی بات کو پہنچانے کی صلاحیت مخاطبین کے پاس موجود ہے یہی معاملہ جو ہے یہ معروف اور منکر کا ہے یہی معاملہ طیبہ تو خبائث کا ہے جس وقت اپ زبان بول رہے ہوتے ہیں تو اس میں ایسے الفاظ بھی ہوتے ہیں جو تعین کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ فلاں جانور ہے یا یہ فلاں چیز ہے اور وہ الفاظ بھی ہوتے ہیں کہ جو پوری کیٹیگری کو بیان کر دیتے ہیں تو اگر اس کیٹیگری کا شعور اپ کے اندر نہیں اس پوری سیرف کو اپ نہیں جانتے تو یہ لفظ استعمال کیسے کیا جا سکتا ہے اگر میرے مخاطبین ہیں وہ اس بات سے واقف ہی نہیں ہے کہ چیزیں خوبصورت بھی ہوتی ہیں اور بدصورت بھی ہوتی ہیں تو میں یہ جملہ بول سکتا ہوں کہ ادمی کو خوبصورت چیزیں اپنے گھر میں لانی چاہیے لفظ میں اس اعتماد کے ساتھ بولتا ہوں کہ میرے مخاطبین خوبصورت کی ایک سیلف سے یا کیٹیگری سے واقف ہے تو یہ بات ہے جو میں نے اپنی کتابوں میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالی کو اس کی ضرورت نہیں پڑی کہ وہ معروف اور منکر کی فہرست بنائیں یا وہ طیبہ تو خبائث کی فہرست بنائیں کیونکہ مخاطبین ان سے بالاجمال واقف ہے بالعموم غلطی نہیں کرتے تو اس وجہ سے اللہ تعالی نے پہلے اجمالی حکم دیا اس کے بعد جہاں اشتباہ کا امکان تھا وہاں پر اپنی شریعت دے دیں یہ بتائیں یہ یوں نہیں ہے کہ اللہ نے یہ چیزیں حلال قرار دے دیں یہ حرام قرار دے دی اب میں کچھ کرنے جا رہا ہوں وہ اللہ کا حکم ہے جس کی وضاحت کر رہا ہوں اللہ اور اللہ کے رسولوں کا حکم اگر اللہ اور اللہ کے رسولوں کا حکم نہیں ائے گا تو طیبہ تو خبائث کے بارے میں جو میرا ایک فطری علم ہے اس پر میں عمل کروں گا بغیر یہ اس طرح ہے بولے ہوئے یعنی میں وہاں حرام حلال کی اصطلاحی نہیں بولوں گا کیونکہ یہ اصطلاحات یہ تعبیر ہے یہ تصورات یہ کہ یہ میرے پروردگار کا حکم ہے یہ تو پیغمبرا کے بتائیں گے لیکن اگر پیغمبر نہیں ائے دنیا میں یا پیغمبروں کی دعوت مجھ تک نہیں پہنچی تو میری فطرت میں یہ چیز موجود ہے کہ میں کچھ چیزوں کو اچھا سمجھ کے اختیار کروں گا کچھ چیزوں کو برا سمجھ کر ان سے اجتناب کروں گا کھانے پینے میں بھی یہ شعور میرے اندر موجود ہے تو بتایا یہ جا رہا ہے کہ یہ شعور عالمگیر ہے اس کے اطلاق میں غلطیاں ہوتی ہیں اللہ تعالی نے عربوں کیسے احساس یا شعور کو سامنے رکھ کر طیبہ کو خبائث کے الفاظ جو جنرل الفاظ ہیں وہ استعمال کر دیے ہیں کیونکہ مخاطبین اس بات سے واقف ہے اور چونکہ مخاطبین واقف ہیں تو اگے یہ سمجھایا ہے کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم بھی اگر کسی چیز کے بارے میں وضاحت کر رہے ہیں تو اسی فطرت کی وضاحت کر رہے ہیں جس طریقے سے قران مجید کو اگر اپ کھولیں گے اور وہاں پر اپ مثال کے طور پر سورہ بنی اسرائیل میں احکام عشرہ پڑھنا شروع کر دیں تو اپ دیکھیں گے کہ وہاں یہ تکبر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ بڑا جرم ہے
-
00:34:15 اور بعض چیزوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایسی چیزیں نہیں تم ان کے قریب جاؤ یہ قران کا بیان بھی بیان فطرت ہے یعنی جو کچھ انسان کی فطرت جانتی ہے سمجھتی ہے اسی کو اللہ تعالی بیان کر رہے ہیں ہر جگہ نیا حکم نہیں ہوتا بلکہ فطرت کے اندر موجود کسی چیز کی تائید کی جاتی ہے تاکید کی جاتی ہے قران مجید میں کئی مقامات پر نماز کا حکم بیان ہوا ہے اپ مجھے یہ بتائیے کیا ہر مقام پر نیا حکم مانیں گے تنقید کر کے کسی جگہ بھی ابتدائی حکم نہیں ہے بلکہ جو نماز رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کر دی ہے اس کی تاکید کی جارہی ہے تو چیزیں تاکید کے طور پر کہی جاتی ہے وضاحت کے طور پر کہی جاتی ہے وہ پائی کہاں جاتی ہے وہ چیزیں وہ فطرت میں پائی جاتی ہے تو قران میں بھی بیان ہو گئی تو یہ کہا جائے گا یہ بیان فطرت ہے تو میں نے حدیثوں کے اندر جو بعض چیزیں ائی ہیں ان کے بارے میں بتایا کہ یہ بیان فطرت ہے اگر کسی حدیث میں یہ کہا جائے گا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو یا قران میں یہ ایت اگئی کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو تو یہ بیان فطرت ہی ہے فطرت کہنے کا مطلب اللہ کی کتاب سے باہر جانا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ وہ بات جو اللہ تعالی کہہ رہے ہیں یہ ایسا نہیں ہے کہ وہی نہ اتی تو ہمیں معلوم نہ ہوتی یہ بات تو معلوم معروف تھی اس میں انسان غلطی کرتا ہے کوتاہی کرتا ہے اطلاق میں خرابی پیدا کرتا ہے اللہ تعالی کبھی تاکید کرتے ہیں کبھی اس کی تائید کرتے ہیں کبھی اس کی کسی غلطی پر متنبہ کرتے ہیں ان چیزوں کو ان کی اصل میں جاننا یہی دین میں تفکر ہے اپ نے کی ہے اگلے جو دو تین اعتراض ہیں اسی سے متعلق ہیں یہ جو فطرت کے اندر طیب اور خبیث کا ایک شعور ہے اور انسانی فطرت تباہ کرتی ہے جو خبائث ہیں ان سے ایک اعتراض ہی کیا گیا کہ اس تصور پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر بیٹھے ہیں اور اپ کے سامنے گو جو ہے وہ لائی گئی ہے اور اپ نے کہا بھائی میں تو یہ نہیں کھاتا تو رسول اللہ کی فطرت میں تو اس سے پاک کیا لیکن یہ فطرت کی عبادت سے وہ خبیث تو نہیں بنتی باقی صحابہ نے اس کو میں نے کہا کب بن جاتی ہے یعنی میتھ یہ بتا رہا ہوں کہ انسانی فطرت میں وہابی موجود ہے اور انسانی فطرت طیب کا احساس بھی رکھتی ہے اگر اس کے پاس اللہ کی ہدایت نہیں ائے گی تو اسی جگہ پر کھڑی ہوگی یعنی اس پر کوئی حکم نہیں لگائے گی لیکن کچھ چیزوں کو پسند کرے گی کھانے کے لئے کچھ کو نہیں کرے گی اب اللہ تعالی کی وہی ائی وہ یہ بتا دے گی کہ فلاں فلاں چیزیں حلال ہے فلاں فلاں چیزے حرام ہے تو حرمت حلت کا تو فیصلہ اللہ ہی نہیں کرنی ہے لیکن وہ فیصلہ جب سنایا جائیگا تو فیس بنا کے سنانے کی ضرورت ہے نہیں صرف یہ کہہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہ طیبہ ہے اور یہ خبائث ہے اور طیبہ تو خبائث میں سب ایک درجے کے نہیں ہوتے
-
00:36:55 میں نے اپ خبائث میں چلے جائیے خبائث میں بعض چیزیں عبادت کی جگہ پر ہوتی ہیں بعض چیزیں اس سے اگے بڑھ کے کراہت کی جگہ پر چلی جاتی ہیں اور بعض چیزیں اس سے بہت اگے بڑھ کے حرمت کی جگہ پر چلی جاتی ہیں تو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کی جگہ پر اس کو رکھا اور یہ کہا کہ میں حرمت کا فیصلہ نہیں کرتا یہی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو پورے دین کے بارے میں دی ہے
-
00:37:18 کو بڑی مشہور روایت ہے جس میں فرمایا ہے کہ الحلال بین والحرام بین بین ہما مشتبہات یعنی حلال بھی واضح ہے حرام بھی واضح ہے اس کے درمیان میں کچھ مشتبہ چیزیں ہوتی ہیں یہ مشتبہ چیزوں کے بارے میں کیا ہوتا ہے یعنی انسان کی عقل انسان کا علم انسان کی فطرت ان کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہی ہوتی مشتمل کا کیا مطلب ہے ایک پہلو سے دیکھیے تو معلوم ہوگا طیب ہے دوسرے پہلو سے دیکھیے تو معلوم ہوگا خبیث
-
00:37:46 فیصلہ نہیں کر پا رہے تو حضور نے بتایا کہ اس میں حرمت کا رجحان رکھو یعنی ممانعت کو ترجیح دو اس سے اللہ کی نافرمانی سے بچے رہو گے تو اب یہ بتائیے کہ جو ادمی وہاں ممانعت کو ترجیح دے گا کسی مشتبہ چیز میں وہ اپنی طرف سے دین بنا رہا ہے تو اسی طرح فطرت کا معاملہ ہے یعنی جو چیزیں فطرت میں ہوں گی ان کو ہم ان کی جگہ پہ رکھ کے دیکھیں گے ان کے بارے میں حرمت حلت کے الفاظ ہی نہیں ہوں گے وہاں وہی ہوگا کہ کچھ لوگ کچھ چیزیں کھاتے ہیں کچھ لوگ کچھ چیزیں نہیں کھاتے اس کا اندازہ اس سے کر لیجئے نا کہ ہمارے ہاں سیٹ پال کے بعد مسیحیوں کے لئے ہر چیز جائز کر دیے ختم کر دی گئی اس وقت ڈھائی ارب سے زیادہ تعداد ہے کیتھلک مشینوں کی سیٹ پال کے زمانے سے یہ طے ہو گیا کہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے ان کا شریعت بنی اسرائیل کے لئے تھے ختم ہوگئی
-
00:38:40 [Error: recognition request failed: Bad Request]
-
00:42:58 کھانے اور پینے میں بھی طیب اور خبیث سے واقف ہے بلی جمال واقف یہ نہیں کہ اس کی تفصیلات کو جانتی ہے اس کے اطلاقات کو جانتی ہے اجمالی چیزوں کا اطلاق انسان اپنے ماحول کے لحاظ سے کر رہا ہوتا ہے پیغمبر اتے ہیں وہ مخاطب کرتے ہیں اپنے مخاطبین کے سامنے جو کچھ پہلے سے متعین ہوتا ہے اس کی تفصیل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے اندر صرف ان چیزوں کو موضوع بناتے ہیں جہاں کوئی اجتماع ہوتا ہے تو یہ بتایا ہے میں نے کہ یہ قران کیوں کہتا ہے کہ ہم نے تو چار ہی چیزیں حرام کی ہیں اس کا پس منظر ہی ہے کہ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ طیبات کو تم نے کھانا ہے خبائث سے اجتناب کرنا ہے طیبات سے متعلق کچھ اشتباہ تھا اس کو ہم نے دور کر دیا ہے باقی تو تم خود فیصلہ کر لو گے اج کے دور میں اگر کوئی شخص کھڑا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے میں استقراء کے اصول پے کھانے پینے کی چیزوں میں انسان کی فطرت کن چیزوں سے ہوا کرتی ہے کہ ان کو وہ مرغوب سمجھتی ہے طیب لیتان سمجھتی ہے تو مثلا وہ تو اگر امریکہ میں اج استخرا کرتا ہے تو بلکہ دنیا میں بھی اپ لے لیں تو ڈھائی ارب کے قریب لوگ سور کو فطرت کی اجازت کے تحت کھا رہے ہیں تو پھر وہ استقرار کے نتیجے میں تو وہ ایک ایسا جانور جو دین میں ممنوع ہے اس کو پیغمبر مبعوث ہوا کہ یہ کام کرنے کے لیے اٹھے گا یہ مفروضہ کیا ہے ہر انسان شخصی طور پر کوئی فیصلہ کر لیتا ہے وہ فیصلے اسی طرح ہوں گے جب وہ ایمان قبول کرے گا اللہ کے پیغمبروں کو مانے گا تو پھر اس سارے مقدمے کو اس کے سامنے رکھا جائے گا یہ جو میں نے بیان کیا ہے وہ کیوں جا رہا ہے استقرار کرنے کے لئے اس وقت دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں عربوں کی تعداد میں لوگ کون نکلا ہے اس سے استقرار کے لئے لوگ اپنی اپنی روایت کے لحاظ سے چیزیں کھانے نہ کھانے کا فیصلہ کرنا ہے میں یہ بتا رہا ہوں کہ انسان کے اندر جس طرح معروف منکر کا ایک ابتدائی شعور موجود ہے اسی طرح طیب اور خبیث کا بھی کھانے کے معاملے میں ایک شعور موجود ہے اسی شعور پر بنا رکھ کے اللہ تعالی نے اپنا احکام دی ہے مجھے کیوں کرنا ہے یہ کام اور کیوں کروں گا میں پیغمبر نہیں ہوں رہنمائی ملے گی اس کے لحاظ سے کروں گا اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے غلطی تو اللہ کی کتاب کو سمجھنے میں بھی ہو سکتی ہے یعنی مجھے یہ کیوں کرنا ہے میں حلال حرام دینے لوگوں کو قرار دینے کے لئے کیوں اٹھا ہوں پیغمبر اس مقصد کے لیے ائے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے یہ بتائیں اکے کہ اللہ تعالی بعض چیزوں کے کھانے کو ممنوع قرار دے رہے ہیں کس اصول پر قرار دے رہے ہیں یہ زیر بحث ہے ان کے خبیث ہونے کی وجہ سے یہ اس کی قلت ہے جو بیان کی جا رہی ہے اس کی بنیاد واضح کی جارہی ہے اور یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب پیغمبر یہ بات کہتے ہیں تو انسان سمجھ لیتا ہے اس بات کو اس کو یوں سمجھیے کہ انسان میں عقل دی گئی ہے چیزوں کو کیٹگ بھی کرتی ہے ان کو مختلف جگہوں پر رکھ کر ان سے استنباط بھی کرتی ہے کلیات کو جزیات میں بھی بدلتی ہے جزئیات سے کلیات بھی نکالتے یہ موجود ہے انسان کے اندر عقل لیکن یہ عقل یہ تقاضا تو پیدا کر دیتی ہے کہ میں ایک مخلوق کو میرا کوئی خالق ہونا چاہیے یہ تو پیغمبر نے اکر بتایا ہے کہ خالق ہے تقاضا تو پیدا کر دیتی ہے عقلی تقاضا پیدا کر دیتی ہے کہ خیر و شر کی عدالت میرے اندر لگی ہوئی ہے یہ عدالت انسانیت کے لئے بھی لگنی چاہیے کوئی نتیجہ نکلنا چاہیے کسی کو ہاتھ پکڑنا چاہیے یہ ہو جائے گا یہ واقعہ میں ہوگا کس نے بتایا کہ اللہ کے پیغمبر تو اسی طریقے سے طیب اور خبیث کا جو میرا شعور ہے وہ اجمالی ہے
-
00:46:40 سوال پیدا کرتا ہے یہ بتایا کس نے اکے کہ اللہ تعالی یہ کہتے ہیں کہ خبائس سے اجتناب کرنا ہے پیغمبروں نے تو میں انسانی فطرت اور پیغمبروں کی دعوت کب تعلق واضح کر رہا ہوں اللہ تعالی کی دعوت کے مقابل میں کوئی دوسرا دین کا ماخذ نہیں تلاش کر رہا یہ میری بات ہی غلط سمجھا رہی ہے حنابلہ کے نزدیک ہم پڑھتے ہیں تاریخ لکچر میں ہاتھی جائز ہے شوافع کے نزدیک گھوڑے کھانے جائز ہیں اسی طرح مالکیہ جو ہے وہ حشرات الارض کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کو کھانے میں کوئی تردد نہیں ہے تو اب مثلا ہمارا جب ان سے خود مسلمانوں کے گروہوں میں مسالک میں اختلاف ہوگا تو ہماری بینائی استدلال کیا ہوگی کہ ہم ان کو بتائیں کہ ہاتھی کھانا جائز نہیں ہے گھوڑا کھانا جائز نہیں متعین کر دیے ہیں اصول ان کو سامنے رکھ کے توجہ دلائیں گے پھر عرض کردوں کہ طیبہ تو خبائث کا معاملہ جہاں واضح ہوگا وہاں بھینس کی ضرورت نہیں ہے یہاں اشتباہ ہوگا وہاں وہ پرنسپل موجود ہے مثلا جانوروں کے بارے میں قران مجید نے متعین طور پر بتا دیا کہ صرف بہیمۃ الانعام ہے جن کو اللہ نے جائز قرار دیا ہے یہ واضح ہوگیا کہ درندے کسی حال میں بھی نہیں کھانے درندے خان سمندر میں ہوں یا خشکی میں ہو ان سے اجتناب کرنا ہے اب یہ کہ فلاں جانور درندہ ہے فلاں نہیں ہے
-
00:47:57 اس کا فیصلہ اطلاقی طور پر انسانوں ہی نہیں کرنا
-
00:48:02 اسے کیا بتا جایگی اللہ تعالی جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ہو گیا
-
00:48:07 یعنی یہ متعین ہو گیا کہ ہمیں اپنے کھانے پینے کے معاملے میں بعض چیزوں کا لحاظ رکھنا ہے اور بعض چیزیں اس میں حرمت اور حلت کے درجے کی بھی ہیں تو تحریم تحلیل حلال قرار دینا حرام قرار دینا اللہ ہی کا کام ہے میں یہ بتا رہا ہوں کہ اللہ تعالی نے تمام طیبات کو حلال قرار دیا ہے تمام خبائث کو ممنوع قرار دیا ہے طیبات اور خواہش کا فاصلہ انسانی فطرت بالعموم درست کرتی ہے یہ بتا رہا ہوں اسی لئے یہ جامع الفاظ استعمال کیے اس لئے اللہ تعالی نے حلت اور حرمت بیان وہی کر رہے ہیں جامع الفاظ استعمال کیے ہیں جہاں اشتباہ تھا وہ اللہ نے واضح کر دیا ہے عالمگیر اشتباہ کو اللہ تعالی نے خود واضح کر دیا جہاں کہیں اور اطلاقی چیزیں پیش ائیں گی ان کو ہم ان اصولوں کو سامنے رکھ کے واضح کرلیں گے مثال کے طور پر یہ بات کہ درندے کون سے ہیں مثال کے طور پر کیک چرندے کون سے ہیں مثال کے طور پر حشرات و لفظ کس کے تحت اتے ہیں یہ ساری چیزیں اخلاقی ہیں ہمیں کوئی بحث بھی ہو جائے گی تھوڑی بہت طیب اور خبیث کے حوالے سے سوال ہے جو عام ذہن میں اٹھتا ہے اور اپ کو جو تصور فطرت جس کو اپ کہتے ہیں کہ قران کا تصور فطرت ہے اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بھائی یہ چین ہے اس میں اربوں لوگ بستے ہیں وہ کیڑے بھی کھاتے ہیں کتے بھی کھاتے ہیں چوہے بھی نہیں بھی کھا جاتے ہیں تو اگر اپ انسان کی فطرت کو اپ نے اگر مہر مان لیا اس بات کو قبول کرتے ہوئے تو یہ تو دیکھیں فطرت انسان کو یہاں تک لے جاتی ہے تو دین ہی اور شریعت ہی کو معیار سمجھا جائے بہت تفصیل سے اپ نے جواب دیا لیکن میں طلاق کے سوال پوچھ رہا ہوں کہ اس کا اپ کیا جواب دیں گے کہ چین کے اندر ہزاروں لوگ کیوں کتے بلی کھاتے ہیں کہ یہ معلوم ہو گیا اس کے نتیجے میں کہ انسان جس وقت مختلف حالات سے دوچار ہوتا ہے تو اس میں بعض چیزوں کے ساتھ ایک تعلق پیدا کر لیتا ہے وہ اس کے لیے حفاظت بن جاتی ہے یعنی یہ بات کہ کچھ چیزیں طیب نہیں ہیں
-
00:49:58 کچھ چیزیں خبیث ہیں کہ ان کے ہاں بھی موجود ہے طیبہ تو خبائث کے فرق سے وہ عاری نہیں ہے یہ موجود ہے یہ اطلاق میں اختلاف ہو رہا ہے تو اطلاق کا اختلاف تو میرے ہاں بھی ہوگا حلال شبہ میں بھی ہوگا ابھی ہم نے ذکر کیا مثلا حشرات و نرس کے بارے میں کس اصول کو اپلائی کریں گے کوئی چرندے بھی نہیں ہے تو اختلاف ہو جائے گا اللہ کی ہدایت براہ راست نہیں پہنچی ان کے ظاہر ہے کہ یہ چیزیں اس طرح سے مشتمل ہو گئیں جہاں کہیں کوئی چیز مشتبہ ہوئی ہے وہ اخلاق میں اختلاف ہے لیکن اپ چینیوں سے مل کے دیکھیے میں اپ سے چینیوں کے درمیان میں رہے ہیں وہ ان ساری چیزوں کا تصور رکھتے ہیں لیکن اس کے لئے وہ الفاظ نہیں بولتے جانوروں کے بارے میں بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ کھانے کے نہیں ہیں یہ تصورات موجود ہیں ڈرائیور بھی چینی رہے کچھ دیر تک تو ہم سے پوچھا کہ یہ اپ کے ہاں جو رشتوں کی حرمت ہے تو انہوں نے کہا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اس کو پامال کرنے کا اب ظاہر ہے کہ وہ اس زبان میں بات نہیں کر رہے جو مذہب کی زبان ہے ہمارے ہاں کچھ ہمارے ہاں کچھ تعبیریں ہیں نہ ہم مذہبی پس منظر میں بولتے ہیں یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اگر میں مذہبی پس منظر میں گفتگو نہ کر رہا ہوں تو میں زیادہ وہی بات کروں گا جو رسالت میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی کہ میں یہ چیز پسند نہیں کرتا تو یہ پسند ناپسند کون سی چیزیں موضوع ہے کون سی موضوع نہیں ہے یہ وہ لوگ بھی ایسے ہی مانتے ہیں اسی طرح جانتے ہیں لیکن اطلاق میں اگر ہمارے فقہاء اختلاف کر سکتے ہیں تو چینی کیوں نہیں کر سکتے ہو یہ طیب نہیں ہم پہلے توجہ کیوں دلائینگے پہلے ان کے سامنے اللہ کی دعوت پیش کریں گے ان کے ساتھ اسلام کی ابتداء یہاں سے کرنی ہے سب سے پہلے یہاں سے گفتگو کی تھی اللہ کے رسول نے یہ بتایا تھا ہمیں شراب کے بارے میں یعنی جس سے جس سے متعلق قران کہتا ہے کہ شیطان ایک عرصے تک مؤخر کر کے گفتگو کی سیدہ عائشہ نے بیان کیا ہے نہ کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہاں سے اپنی دعوت کی ابتدا کر دیتے تو کوئی نہ مانتا پہلے لوگوں کو توحید بتائیے پیغمبروں سے واقف کرائیے پھر یہ بتائیے کہ اللہ کے دین کے بنیادی تقاضے کیا ہیں جب اپ ان چیزوں پر ان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوں گے تو وہ فطرت بیدار ہو گی جس کو بیدار ہونا چاہیے جس وقت وہ بیدار ہوگی تو بہت سے فیصلے وہ بھی خود کرنا شروع کر دے گی تو جو لوگ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین تھے وہ چینی نہیں تھے حضور کی بعثت وہاں نہیں ہوئی
-
00:52:25 اپ کے مخاطبین کے ہاں جو طیبات و خبائث کی تفریق موجود تھی قران نے اس کو مان کر اگے بات کی ہے اگر مثال کے طور پر اخری پیغمبر چینیوں میں اجاتے
-
00:52:38 ان چیزوں کی بات کر دیتے اسی طرح وضاحت کرتے جس طرح وہاں مشتبہات کی وضاحت کی ہے سور بھی تو بہت سے لوگ کھاتے ہیں نہ تو اللہ تعالی نے بتایا اور یہ بتایا کہ کس بنیاد پر اس کو ممنوع قرار دیا جارہا ہے تو اس لئے جو بات میں واضح کر رہا ہوں وہ ہے ہی نہیں جس پر تنقید کی جا رہی ہے میں تو یہ بتا رہا ہوں کہ اللہ تعالی کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے کوئی نئی زبان ایجاد کرے انسانوں کو زبان کا ذوق اللہ نے دے کے بھیجا ہے وہ موجود ہے ان کے اندر وہ زبان ایجاد کر لیتے ہیں وہ بولتے ہیں وہ زبان ابلاغ کا ذریعہ بنتی ہے اس سے حجت پوری کی جاسکتی ہے تو اللہ تعالی انہی کی زبان کو منتخب کرتے ہو اس سے گفتگو کر دیتے ہیں اسی طرح میں بتا رہا ہوں کہ اللہ تعالی کو معروف اور منکر کی فہرستیں بنا کے دینے کی ضرورت نہیں ہے نہ پیغمبروں کو انسان کے اندر ان دونوں چیزوں کا شعور موجود ہے اس پر بنیاد رکھ کے وہ اپنے مخاطبین کے لحاظ سے چیزوں کی وضاحت کر دیتے ہیں اسی طرح بتا رہا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں طیبہ تو خبائث کا شعور انسانوں کے اندر موجود ہے جو اس وقت مخاطبین ہوں گے پیغمبر کے ان کے ہاں اس شعور کو جس طرح وہ اطلاقات میں بدلا ہوا سامنے رکھ کر اللہ تعالی اپنی بات کر لے تو یہ قران مجید نے یہ طریقہ کیوں اختیار کیا ہے اس کی وضاحت ہے یہ دین سے باہر کوئی دین کا ماخذ تلاش کرنے کا عمل نہیں کوئی رشتہ سات نشستوں میں فطرت کے موضوع پر بہت تفصیل سے اپ کا نقصان نظر عقلی سوالات پھر دینی استدلال اور پھر اس کے اوپر جو تفصیلی اشکالات اور باقی متفرق اعتراضات سب اپ کے سامنے رکھے ہم بھینس کے خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں اخر میں میں یہ چاہوں گا کہ ایک تبصرہ اپ کے سامنے رکھوں اور اس تبصرے کی روشنی میں اپ کی جو پوری گفتگو ہے جو ہم نے سات سات میں کی ہے فطرت کے حوالے سے اس کا ایک خلاصہ پیش کر دیں تبصرہ یہ ہے کہ دو ہی راستے ہیں پہلا میں اپنی زندگی کے ہر حصے میں شاعر ہی کے حکم کا پابند ہو یہ سورۃ ہر قسم کی سیکولرائزیشن کا امکان ختم کر دیتی ہے کیونکہ یہاں ہر حکم کا ریفرنس پوائنٹ بہرحال شاعرہ کا قول ہوگا دوسری صورت ایک قسم کی دینی سیکولرائزیشن کا جواز پیدا کرتی ہے یعنی شراب کو چند محدود سے معاملات میں محدود کر کے باقی سارا میدان عقل و فطرت کے ہاتھ کھلا چھوڑ دیا جائے اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ خلا پھر حاضر و موجود سوشل سائنسز سے پر کیا جاتا ہے غامدی صاحب کے تصور فطرت اصل میں دینی سیکولرائزیشن کی راہ ہموار کرتی کو سامنے رکھ کر گفتگو کرنے کا انداز ہے اس سے مکمل اشتراک کرنا چاہیے
-
00:55:20 میری طرف سے نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مجھے پتھر کو سجدہ کرنا پڑے مجھے اللہ کی کتاب اور رسول کی ہدایت دیکھنی ہے وہ کیا ہے تو اپ اگے بڑھے اور بتائیں کہ تم نے جس چیز کو یہ کہا ہے کہ وہ دین میں نہیں ہے وہ دین میں ہے ہنی اس طرح کے تبصرے سے کوئی چیز تبدیل نہیں ہو جائے گی یہ جو میں نے ساری گفتگو کی ہے یہ اپ کے خیال کے مطابق میں نے قران مجید سے باہر کھڑے ہوکی کی قران مجید کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ طیبہ تو خبائث کے الفاظ استعمال کر رہا ہے قران مجید کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ معروف اور منکر کے الفاظ استعمال کر رہا ہے یہ توجہ دلائی ہے کہ وہ ان کی فہرستیں نہیں بیان کر رہا یہ توجہ دلائی ہے کہ ان کو بنیاد بنا کر اپنی بات کہہ رہا ہے تو اگر کسی چیز کو جو میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ دین کا موضوع نہیں ہے اپ اس میں داخل کرنا چاہتے ہیں ڈال دیں اس کو لیکن میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا نے مجھے ایک زندہ فطرت دی ہے مجھے خود خدا نے بتایا ہے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ضد کی یہ دین سارا تمہاری فطرت پر کھڑا ہے اور یہ کہا ہے کہ فطرت پر مبنی یہ دین ہی ذلک دین القیم ہے اس پر ہم تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں میں اپنی اس فطرت کو نہ صرف کے خود جانتا ہوں میں کہ میرے رب نے بھی اسی کی شہادت دی ہے تو اس لئے میں اس کی پیروی کروں گا لیکن کہاں تک وہاں جہاں میرے رب کا حکم نہیں ائے گا جب میرے رب کا حکم میرے سامنے اجائے گا تو پھر سب کچھ سرنڈر ہے میں یہ بتا رہا ہوں کہ میرے پروردگار کا کوئی حکم بھی میری فطرت کے خلاف نہیں ہے اور تمام احکام تمام عوامل تمام نواحی میری فطرت کے تقاضوں کے اوپر مبنی ہے یہ دین کا فلسفہ ہے اس کو خود قران مجید نے بیان کیا ہے اس کی وضاحت کر رہا ہوں اور اس کا لازمی نتیجہ کیا ہے وہ یہ کہ اپ کو جو کچھ ثابت کرنا ہے اس کو اللہ کی کتاب سے ثابت کرنا ہوگا یا پیغمبر کے ارشاد سے ثابت کرنا ہوگا اس سے بڑھ کر اپ کوئی نتیجہ سامنے رکھیں اس سے تو یہ ہو جائے گا اس سے تو ہو جائے گا ہوا کریں
-
00:57:21 اسمان گر جائے زمین پھٹ جائے لیکن دین تو وہی ہے کہ جس کو اللہ کے پیغمبروں نے دین بتا دیا اپ کے تصورات سے دین نہیں بنے گا دین قران مجید کے نصوص سے بنے گا پیغمبر کے ارشادات سے بنے گا اور میں نے اسی پر اس کی بنا رکھی ہے ہم نے ناظرین گزشتہ سات نشستوں میں فطرت کے موضوع پر غامدی صاحب پر جو اعتراض کیے جاتے ہیں وہ 23 اعتراضات جن میں فطرت تیسرے نمبر کا اعتراض تھا بہت تفصیل سے گفتگو کی ان شاء اللہ ائندہ انے والی نشستوں میں ایک نئے موضوع اور نئے اعتراض کے ساتھ اپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے ہم سب بہت شکریہ اپ کے بعد
-
00:57:58 [Unintelligible]
Video Transcripts In English
Video Summry
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 00:59 کیا آپ کی یہ رائے رہی ہے کہ ملت ابراہیم فطرت کی تعیین میں معیار ہے؟ 04:49 خیر وشر کے شعور کی بنا حکم الہی ہے یا کچھ اور؟ 09:13 خدا کی ابدی بادشاہی کے معنی 11:37 سورہ بقرہ کی آیت 177 یہ بتاتی ہے کہ نیکی وہ ہے جسے اللہ نیکی قرار دے۔ 16:36 حضرت ابراہیم کی قربانی کے بارے میں۔۔۔ 19:57 نیکی تو وہی باعث اجر ہو گی جو اللہ کی رضا کے لیے کی جائے نہ کہ اپنی فطرت کے لیے۔ 24:48 معروف اور منکر سے کیا مراد ہے؟ 28:17 خورد و نوش میں حلت و حرمت کا معاملہ 39:05 سواری کے جانوروں کا معاملہ 47:02 فقہی مسالک میں اختلاف کا معاملہ 49:14 چین میں کتے اور کیڑے کھانے کا معاملہ 54:05 شریعت کو بعض معاملات تک محدود کرنے کی کوشش کا اعتراض 57:38 اختتامیہ
Video Transcripts In Urdu
Video Transcripts In English
Video Summary
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 00:59 کیا آپ کی یہ رائے رہی ہے کہ ملت ابراہیم فطرت کی تعیین میں معیار ہے؟ 04:49 خیر وشر کے شعور کی بنا حکم الہی ہے یا کچھ اور؟ 09:13 خدا کی ابدی بادشاہی کے معنی 11:37 سورہ بقرہ کی آیت 177 یہ بتاتی ہے کہ نیکی وہ ہے جسے اللہ نیکی قرار دے۔ 16:36 حضرت ابراہیم کی قربانی کے بارے میں۔۔۔ 19:57 نیکی تو وہی باعث اجر ہو گی جو اللہ کی رضا کے لیے کی جائے نہ کہ اپنی فطرت کے لیے۔ 24:48 معروف اور منکر سے کیا مراد ہے؟ 28:17 خورد و نوش میں حلت و حرمت کا معاملہ 39:05 سواری کے جانوروں کا معاملہ 47:02 فقہی مسالک میں اختلاف کا معاملہ 49:14 چین میں کتے اور کیڑے کھانے کا معاملہ 54:05 شریعت کو بعض معاملات تک محدود کرنے کی کوشش کا اعتراض 57:38 اختتامیہ
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 00:59 کیا آپ کی یہ رائے رہی ہے کہ ملت ابراہیم فطرت کی تعیین میں معیار ہے؟ 04:49 خیر وشر کے شعور کی بنا حکم الہی ہے یا کچھ اور؟ 09:13 خدا کی ابدی بادشاہی کے معنی 11:37 سورہ بقرہ کی آیت 177 یہ بتاتی ہے کہ نیکی وہ ہے جسے اللہ نیکی قرار دے۔ 16:36 حضرت ابراہیم کی قربانی کے بارے میں۔۔۔ 19:57 نیکی تو وہی باعث اجر ہو گی جو اللہ کی رضا کے لیے کی جائے نہ کہ اپنی فطرت کے لیے۔ 24:48 معروف اور منکر سے کیا مراد ہے؟ 28:17 خورد و نوش میں حلت و حرمت کا معاملہ 39:05 سواری کے جانوروں کا معاملہ 47:02 فقہی مسالک میں اختلاف کا معاملہ 49:14 چین میں کتے اور کیڑے کھانے کا معاملہ 54:05 شریعت کو بعض معاملات تک محدود کرنے کی کوشش کا اعتراض 57:38 اختتامیہ