Response to 23 Questions - Part 20 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi

Search for your favourite word

Video Transcripts In Urdu

  • 00:00:00 غامدی صاحب سے 23 اعتراضات پر گفتگو کا سلسلہ جاری ہے تاریخ پر 2 پردے پر 10 اور فطرت پر سات ایک سات میں مفصل گفتگو کرنے کے بعد اب سود کا موضوع زیر بحث ہے سود کے اوپر اج ہم غامدی صاحب سے بہت اہم سوالات کریں گے جو بالمومن کی مذہبی فکر پر پیش کیے جاتے ہیں سود ان کے نزدیک کیا ہے سود کی تعریف انہوں نے کیسے متعین کی ہے سود دینا ان کے نزدیک کیوں حرام نہیں ہے اسی طریقے سے بینکنگ کے بارے میں مارگیج ٹون لون نیشنل سیونگ بینک میں نوکری اور پرائز بانڈ اور وہ سارے اعتراضات جو سود کے حوالے سے غامدی صاحب کی فکر پر بھی ریموو پیش کیے جاتے ہیں ایک ایک کر کے رکھیں گے 23 اعتراضات کی سیریز جاری ہے دیکھیے حربت کو غامدی سینٹر کے پیج سے بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مکتبہ غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید ہم ان 23 اعتراضات پر غامدی صاحب سے گفتگو کر رہے ہیں جو بالعموم ان کے مذہبی فکر پر پیش کیے جاتے ہیں داڑھی پر دو پردے پر 10 اور فطرت پر سات ایک سات میں مفصل طویل گفتگو کرنے کے بعد اب ہم سود کے اوپر ا چکے ہیں اور سود کے حوالے سے غامدی صاحب کے افکار پر جو تنقید کی جاتی ہیں وہ واپس اپ کے سامنے رکھیں گے یہ اس سلسلے کی بیسویں نشست ہے ان سب السلام علیکم بہت شکریہ اپ کے وقت کا وعلیکم السلام تفصیل سے بات کی داڑھی سے اغاز کیا سلسلہ اعتراضات 2023 جو اشکالات ہیں فکری سوالات ہیں اپ کے مذہبی افکار پر پیش کیے جاتے ہیں اپ کے سامنے ایک ایک کر کے رکھ رہے ہیں اور مقصد اس کا بالکل یہ ہے کہ کوئی جواب الجواب کوئی مناظرانہ طور پر کسی کو کارنر کرنا ہرگز نہیں بلکہ ایک علمی اسلوب علمی انداز میں وہ علمی استدلالات جو اپ کے مذہبی فکر پر پیش کیے جاتے ہیں اپ کے سامنے رکھیں اور اپ کے فکری سفر کو کیسے اپ نے اگر کوئی نقطہ نظر اپنایا ہے اس کی بنیادوں کو نظام فکر کو سمجھیں سود کا موضوع شروع ہو رہا ہے سود کے بارے میں اپ بھی جانتے ہیں ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہاں چند وہ چیزیں جن میں بہت اساسیت پائی جاتی ہے سود ان میں سے ایک چیز ہے اب سود کے حوالے سے جو اپ پر اعتراض کیا جاتا ہے اس میں تاثر یہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سود کا معاملہ ایک بالکل متفقہ معاملہ ہے قران مجید میں صراط سے لکھا ہوا ہے لیکن غامدی صاحب نے شاید اس معاملے میں بھی کوئی مختلف یا منفرد رائے قائم کر دی ہے ایک ایک کر کے سارے استعداد دینی رجحانات فکری اور اطلاقی سوالات سب میں اپ کے سامنے رکھوں گا لیکن سب سے پہلا سوال میرا اپ سے یہ ہے کہ سود اپ کی نظر میں ہے کیا جو سود قران مجید میں بیان ہوا سود کی تعریف اپ کی نظر میں کیا ہے اور سود کے بارے میں جو حرمت ہے قران میں اس میں کوئی اپ کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے یا اپ وہی بات کہتے ہیں جو باقی علماء کہتے ہیں کہ سود کی تعریف کی جائے

  • 00:03:02 یہ چیز تو اصطلاحات کے بارے میں ہوتی ہے

  • 00:03:05 قران مجید میں اس کے لئے ربا کا لفظ استعمال کیا

  • 00:03:09 اپ بار بار اردو زبان میں اس کے لئے سود کا لفظ استعمال کر رہے ہیں یہ بالکل درست ہے

  • 00:03:15 یعنی جس چیز کو اردو زبان میں اپ سود کہتے ہیں اسی کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں اسی کو اردو میں سود کہتے ہیں تو اس لئے یہ عربی زبان کا ایک عام لفظ ہے

  • 00:03:29 جیسے اردو زبان کا ہے کام لفظ کے لیے لغت کے برابر کی جاتی ہے

  • 00:03:35 تعریف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ایک عام لفظ استعمال کیے قران مجید میں اپ کہتے ہیں چوری بری بات ہے اپ کہتے ہیں خبر بری بات ہے اپ کہتے ہیں ملاوٹ بری بات ہے اپ کہتے ہیں کم تولنا بری بات ہے

  • 00:03:49 یہ ساری چیزیں کسی تعریف کا تقاضا نہیں کرتی

  • 00:03:53 اس کے لئے جو الفاظ بھی استعمال کیے جائینگے وہ عربی زبان کے ہوں گے تو عرب سمجھتے ہوں گے

  • 00:03:59 اردو زبان کے ہوں گے سمجھتے ہوں گے ہمارے ہاں جن لوگوں نے قران مجید کے ترجمے کیے ہیں کیا انہوں نے کوئی متعین تعریف کرکے اور لفظ ایجاد کیا

  • 00:04:10 انہوں نے اس کے ترجمے میں وہی لفظ رکھ دیا ہے جو ہمارے ہاں اردو زبان میں برصغیر میں اس کے لئے مستعمل چنانچہ شاہ عبدالقادر کا ترجمہ حنبلی میں ترجمہ میں شمار ہوتا ہے

  • 00:04:23 اپ کے پاس اگر ہو تو خود نکال کے پڑھ لیجئے اس میں سود

  • 00:04:28 طیبہ کے نیچے اسی طرح لکھا ہوا ہے جس طرح عربی زبان کے کسی لفظ کے نیچے اپ ترجمہ کے طور پر کوئی لفظ لکھ دیتے ہیں

  • 00:04:37 میں اپ کے سامنے باقی کچھ لوگوں کے تراجم بھی رکھ دیتا ہوں یہ میرے سامنے اس وقت مولانا سید عبداللہ صاحب مودودی کی تفسیر تفہیم القران ہے سورہ بقرہ میں یہاں یہ ایات زیر بحث ائی ہیں اس کا ترجمہ کر رہے ہیں

  • 00:04:52 اور ایت کیا ہے الذین یقولون ربا لا یقومون لا الا کما یقوم الذی یتخبطہ

  • 00:05:01 ترجمہ کیا ہے مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں

  • 00:05:04 ان کا حال اس شخص کیسا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر باولا کر دیا ہو تو یہاں لفظ رواں استعمال ہوا مولانا سید مولانا صاحب مودودی نے اس کا ترجمہ کیا کیا سود کھاتے ہیں

  • 00:05:20 کسی تعریف کی ضرورت نہیں محسوس کی نیچے جو نوٹ لکھا ہے وہ بھی سن لیجئے وہ لکھتے ہیں اصل میں لفظ رباع استعمال ہوا ہے

  • 00:05:28 جس کے معنی عربی میں زیادتی اور اضافے کے ہیں اصطلاحا اہل عرب

  • 00:05:34 اس لفظ کو زائد رقم کے لئے استعمال کرتے تھے جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وصول کرتا ہے

  • 00:05:46 اگے کیا ہے لکھتے ہیں اسی کو ہماری زبان میں سود کہتے ہیں

  • 00:05:50 یعنی جس کو ہمارے ہاں سود کہا جاتا ہے اسے عربی زبان میں ربا کہا جاتا ہے یہی صورت حال اپ یہ دیکھیے کہ دوسرے مترجمین کی ہے

  • 00:06:01 اپ ایک ایک ترجمہ نکالتے چلے جائیے پیر کرم شاہ صاحب برادری کا ترجمہ نکال لیجئے اپ کسی اور صاحب علم کا ترجمہ نکال لیجئے وہ جب اس کو اردو زبان کے قارئین کے سامنے رکھیں گے تو ربا کے لفظ کے نیچے سود کا لفظ لکھتے ہیں ٹھیک

  • 00:06:17 جی بالکل ایسے ہی ہے جس طرح میں نے اپ سے عرض کیا کہ اگر کہیں قران مجید میں سارے کا لفظ لکھا ہوا ہے یہ زانی کا لفظ لکھا ہوا ہے تو یہ لغت کا مسئلہ ہے اس کا ترجمہ بتا دیا جائیگا تو عربوں کے ہاں بھی یہ بالکل معروف معلوم چیز تھی سود کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو اسلام کے زمانے میں ایجاد ہوئی اور اس کا نام رکھنے کی ضرورت تھی یا اس کے لئے کوئی اصطلاح وجود میں لانے کی ضرورت تھی وہ لفظ تھا تو پہلے وجود میں ا چکا تھا اصطلاحات ہی تو پہلے وجود میں ا چکی تھی اپنا ایک متعین معلوم معروف مفہوم رکھتی تھی اسی میں اس کو استعمال کیا گیا

  • 00:06:51 تو اب یہ دیکھیے کہ ہمارے یہاں سود کا لفظ کس چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے

  • 00:06:57 قرض پر منفرد کا مطالبہ کیا جائے تو اس کو سود کہتے ہیں اچھا میں بھی اس بات سے واقف ہوں اپ بھی واقف ہیں حامی بھی واقف ہیں ہر ایک بھی واقف ہیں کہ زندگی میں جو معاملات پیش اتے ہیں اس میں ایک قرض لینے کا معاملہ بھی ہے میری کوئی ضرورت ہے میں کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہوں میں اپنی بیٹی کو بہنا چاہتا ہوں بچے کو تعلیم دینا چاہتا ہوں لاحق ہو گئی ہے جس کے لئے میرے پاس ضروری سرمایہ نہیں ہے

  • 00:07:23 میں اپ سے مدد کی درخواست کرتا ہوں

  • 00:07:27 دو صورتیں ہو سکتی ہیں اپ مجھے ویسے ہی دے دیں

  • 00:07:31 اپ کہے کہ میں یہ اپ کو قرض کے طور پر دے رہا ہوں

  • 00:07:34 تو جب اپ قرض کے طور پر مجھے کوئی چیز دیتے ہیں تو اسلام کی اخلاقیات یہ ہے کہ اس پر منفرد کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا

  • 00:07:43 کیوں نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے دین میں جن چیزوں کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے ان میں ایک بہت بڑی چیز انسان کے اخلاقی وجود کی تطہیر ہے اللہ تعالی نے مال دولت کے معاملے میں ہم سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ تمہاری ضرورتوں سے زیادہ جو کچھ ہے یعنی حال کی ضرورت ہے مستقبل کی ضرورتیں ہماری ذاتی ضرورتیں کاروباری ضرورتیں

  • 00:08:09 ان کے سوا جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ معاشرے کا حق

  • 00:08:13 اگر کوئی شخص اپنی ضرورت لے کے ہمارے پاس ا جاتا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی مدد کریں یہ اخلاقی اصول اللہ کے دین میں سکھایا ہے

  • 00:08:23 اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ ہم اس کی مدد کرنے کے لئے روپیہ اٹھا کے دے دیں انفاق کر دیں

  • 00:08:29 اپنی طرف سے صدقہ کر دیں یہ حوصلہ نہیں ہے اور ہم کہتے ہیں ہم قرض دے رہے ہیں تو اللہ تعالی کہتے ہیں کہ قرض دینا ایک نیکی کا کام ہے یہ صدقہ ہے یہ تو اپنی طرف سے خیر کر رہے ہو اس پر منفت کا کیا سوال ہے یہ اخلاقی لحاظ سے بڑی کبی بات ہے اور یہ دوسرے پر ظلم بن جائے گا وہ تو پہلے ہی اپنی ضرورت لے کے ایا ہے وہ اپ سے قرض لے گا جا کے اس کو کہیں خرچ کرے گا فنا ہو جائے گا وہ چیز استعمال میں اجائے گی اس کو دوبارہ پیدا کرنا پڑے گا اس پر اپ منفت کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اس کو ممنوع قرار دے دیا گیا اس کے پیچھے حکمت ہے اور یہ اس کی نوعیت ہے تو جہاں کہیں قرض کا معاملہ ہوگا وہاں اسلام اپ سے یہ چاہے گا کہ اس پر اپ کسی منفرد کسی نفع کا تقاضا نہیں کر سکتے یہ سادہ بات ہے اسی کو اردو زبان میں سود کہتے ہیں اسی کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے کہ جو ہمارے علماء بھی بیان کرتے ہیں میں نے اپ سے ابھی عرض کیا کہ اپ پیر کرم شاہ صاحب الحضری کا ترجمہ دیکھ لیجئے اپ اور کلام ازاد کا ترجمہ اٹھا لیجئے اپ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب کا ترجمہ اٹھا لیجئے اپ جس طرح میں نے اپ سے عرض کیا مولانا سید احمد صاحب مودودی کا ترجمہ اٹھا لیجئے کیا وہ ربا کے نفس کے نیچے کسی اور چیز کا اپ سے تعارف کرا رہا ہے یہی کہہ رہے ہیں کہ سود مت کھاؤ سود کھانا ممنوع ہے اور سود کا لفظ کیوں استعمال کر رہے ہیں اس لئے کہ اردو زبان کے قارئین یہ جانتے ہیں کہ سود کیا چیز میں جب کسی کے بارے میں یہ کہتا ہوں کہ فلاں ادمی سود لیتا ہے یا سود کھاتا ہے تو اس دنیا میں ہر شخص جو اردو زبان جانتا ہے وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں

  • 00:10:09 میں کس معاملے کا ذکر کر رہا ہوں تو اس لئے وہی بات ہے جو ہمارے ہاں بعض اہل علم نے بھی کہی ہے کہ کل لوگ قرضے میں یعنی جب قرض کا کوئی معاملہ کریں گے اور اس میں اپ نفع چاہیں گے تو یہ ربا ہوگا اس کو اسلام میں ممنوع کردیا گیا ہے ممنوع کرنے کی وجہ میں نے اپ کو بتا دی اگر اپ بالکل فقہی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ قران مجید کے اس حکم کا انتظار ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ غلط طریقوں سے کسی کا مال نہ لو

  • 00:10:46 یعنی صحیح طریقہ ہونا چاہیے کسی کا مال لینا ہے تو تجارت کرو دہ اور شراک کرو وہ نیکی اور خیر کے کام جو تمہیں اپنے طور پر کرنے چاہیے ان کو کاروبار نہ بناؤ

  • 00:10:59 یہ اصولی بات تو اس اصولی بات کو سامنے رکھ کر اب اللہ تعالی نے ایک ایسے معاملے میں یہ حکم دیا ہے جس سے متعلق اشتباہ پیدا ہو سکتا تھا میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ یہ عرض کر چکا ہوں کہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ چیزیں بالکل واضح ہوتی ہیں بالکل متعین ہوتی ہیں میں بھی اس کو جانتا ہوں اپ بھی جانتے ہیں وہ عالمگیر صداقت کی صورت میں دنیا بھر میں جانی پہچانی ہوتی ہے بعض جگہوں پر اشتباہ پیدا ہو جاتا ہے وہاں اللہ تعالی اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے فتوی دیتے ہیں اپنا حکم بیان کرتے ہیں یہ ربا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کیونکہ اس میں اپنا روپیہ اپ کے استعمال میں دے رہا ہوں اور عام طور پر جو چیزیں دوسروں کو ادھار دی جاتی ہیں یا استعمال کے لئے دی جاتی ہیں ان کا معاوضہ لیا جاتا ہے استعمال کرنے کے لئے میں نے گاڑی دی میں نے اپنی سائیکل دی میں اگر اس پر اپ سے کسی کرائے کا مطالبہ کرتا ہوں تو کوئی اس کے اوپر کان کھڑے نہیں کرتا

  • 00:11:54 پھر یہ روپیہ دیا گیا

  • 00:11:58 اٹا دے دیا گیا اپ کو کھجوریں دے دی گئی کھانے کے لئے یہ بھی تو استعمال کی چیزیں ہیں ان پر اگر مطالبہ کیا جائے تو یہ کیا جائز ہوگا یہ وہ اشتباہ ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنا فتوی دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہ ممنوع ہے ممانعت کی وجہ کیا ہے اور میں نے اپ کو سمجھا دی اس معاملے میں میرے نزدیک جو کچھ قران نے کہا ہے وہی مے مانتا ہوں

  • 00:12:21 ہمارے علماء جس کو سود کہتے ہیں اور جس پر سود کا اطلاق کرتے ہیں میں نے اپ کو بتا دیا کہ وہ بالکل وہی چیز ہے جس کے لیے سود کا لفظ میں اپ روزانہ اپنی عام زبان میں سنتے ہیں ورنہ اگر یہ کوئی ایسی مختلف چیز ہوتی تو اس کے بارے میں تصریحات کی جاتی ترجمہ میں اس کا اضافہ کیا جاتا نیچے بتایا جاتا اطلاق کے مسائل بلکل الگ ہیں بطور اصول جو بات طے ہے وہ یہ ہے کہ سود ممنوع ہے اللہ نے اس کو ممنوع قرار دیا ہے یہ حرام ہے اس کے قریب نہیں جانا چاہیے سود کیا ہے قرض پر منفرد کا مطالبہ یہی میری رائے ہے اسی کو میں نے بیان کیا ہے اس نے مجھے کوئی اختلاف نہیں اگے بڑھتے ہیں یہ اصولی بات تو اپ نے بڑی وضاحت سے ما شاء اللہ بتا دیجئے سود کسے کہتے ہیں ہمارے ہاں بالکل معروف چیز ہے علماء کا اپنے حوالہ بھی دیا کہ وہ خود سود کو کیسے ڈیفائن کر رہے ہیں اردو زبان میں سود عربی میں ربا اور قرض پر منفیت ہے ایک بات مجھے بتائیے گا کہ اپ نے بہت ساری جگہوں پر گفتگو کی ہے لوگ اپ سے سوال پوچھتے ہیں تو اپ سود کے بارے میں سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھیں بعض چیزیں ہوتی ہیں کنزیوم اور بعض جو ہیں وہ نان کنزیوم استعمالی اور استہلاکی تو سود ہمیشہ کنزیوم میں ہوتا ہے تو اب یہ جو اگے کی بات ہے مثلا یہاں تک تو بات اپ نے کہا میرے نزدیک بھی ہوئی ہے علماء کے نزدیک بھی ہوئی ہے کہ قرض پہ منفیت لیکن یہ کنزیوم اور نان کنزیوم یہ تقسیم تو پھر کیا مطلب اپ نے اگے سے شامل کی کیسے اپ مجھے بتا دیجئے کہ اپ سود کس کو کہتے ہیں روز مکان کرائے پر لیتے ہیں اپ گاڑیاں کرائے پر لیتے ہیں اپ جہازوں میں سفر کرتے ہیں کرایہ ادا کرتے ہیں اپ ٹرین میں سفر کرتے ہیں کرایہ ادا کرتے ہیں بہت سی کرائے پر لے کر چیزیں اپ روزانہ استعمال میں لا رہے ہوتے ہیں کبھی اپ نے کہا ہے کہ یہ میں سود دے رہا ہوں اور کبھی لینے والوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ سود کھا رہے ہیں کیوں نہیں کہتے

  • 00:14:13 اس لئے کہ وہ استعمال کی چیزیں ہیں لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ اپ یہ دیکھیں قرض کیا ہوتا ہے اور استعمال کا کرایہ کیا چیز ہوتی ہے وہی اجتماع جو عام طور پر پیدا ہوتا ہے میرا جو مضمون ہے مقامات میں میری کتاب میں اس کی پناہ میں نے یہاں سے کی

  • 00:14:32 تو یہ کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالی کو اس میں فتوی دینا پڑا یعنی یہ کہنے کے لئے کہ چوری حرام ہے یہ کہنے کے لئے کہ جھوٹ حرام ہے یہ کہنے کے لئے یہ غبن حرام ہے اللہ تعالی کو کوئی بات یاد نہیں کرنا پڑی کیوں کہنا پڑا اس لئے کہ اس میں معاملے کا اشتباہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس کو اللہ پروردگار عالم نے حرام قرار دیا ہے تو اس وجہ سے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا فرق واقع ہو گیا ہے

  • 00:14:59 میں اگر اپ سے ایک چیز استعمال کے لئے لیتا ہوں اور میں اپ کو اس کا کرایہ دیتا ہوں روز ہم کرائے کے مکان تبدیل کر رہے ہوتے ہیں نیا کرایہ دے رہے ہوتے ہیں گاڑیاں کرائے پر لے رہے ہوتے ہیں سفر کے لئے نکلتے ہیں تو بہت سی چیزوں کا کرایہ دیتے ہیں اور کرایہ پر دے کر ان کو استعمال کرتے ہیں وہاں پر بھی ایک چیز تھی میری ملکیت تھی میں نے اپ کے استعمال میں دے دی میں اس کا کرایہ لے رہا ہوں اپ سے باتیں پر کوئی شکل نہیں پڑتی

  • 00:15:25 لیکن جیسے ہی اپ 10 روپے مجھ سے لیتے ہیں

  • 00:15:28 جیسے ہی اپ کوئی ایسی چیز مجھ سے لیتے ہیں کہ جو اپ استعمال کریں گے تو فنا ہو جائے گی اپنا وجود کھو بیٹھے گی تو فورا اپ کی جبین پر شکل پڑتی ہے اس پر منفرد کا مطالبہ کیوں کیا جارہا ہے تو سود ہوتا ہے یہ ہے کہ اپ قرض پر منفرد کا مطالبہ کرتے ہیں اور چیزوں کو کرائے پر دے کر ان کا کرایہ لینا یہ بالکل اور چیز

  • 00:15:52 یعنی جس طرح بے اور شرم ہے اپ ایک چیز بازار سے لاتے ہیں اپ لا کر اس کو بیچتے ہیں

  • 00:15:59 اس پر بھی منفت لیتے ہیں نہ لیکن وہ قرض نہیں ہے وہ شراب کا معاملہ ہوا ہے خرید و فروخت کا معاملہ ہوا ہے اسی طرح اپ ایک چیز لیتے ہیں وہ اپ کی ملکیت ہے اپ اس کو کرائے پر اٹھا دیتے ہیں وہ مکان بھی ہو سکتا ہے وہ گاڑی بھی ہو سکتی ہے وہ سائیکل بھی ہو سکتی ہے استعمال کی چیزوں کا کرایہ لینا دینا یہ ہمارے ہاں پوری معاشرت اور تمدن میں ہر جگہ جاری ہے اس کے اوپر کوئی حرف رکھنے کی ضرورت پیش اتی ہے یہ سارے معاملات جتنے ہیں ان کو اپ کیا کہتے ہیں پھر یہی کہیں گے کہ میں نے مکان کرائے پر دیا ہوا ہے اپ یہ کہتے ہیں میں نے مکان قرض دیا ہوا ہے تو قرض کا لفظ دین کا لفظ جب بولا جاتا ہے تو وہ حقیقت میں اس معاملے کے لئے بولا جاتا ہے کہ اپ کوئی فنا ہونے والی چیز استعمال کے لئے دوسرے کو دے دیتے ہیں وہ چیز واپس نہیں لی جاتی ہمیشہ اس کا اپ معاوضہ واپس لیتے ہیں

  • 00:16:52 یعنی تم نے استعمال کیا وہ چیز بھی مجھے تو اس کی قیمت بھی دو اور اس کے ساتھ کچھ زائد بھی ادا کرو تو قرض کے معاملے اور کرائے کے معاملے قرض کے معاملے اور بیع و شرا کے معاملے کو الگ الگ سمجھا جائے گا یعنی نفع تو میں نے اپ کو کوئی چیز بھیج کر بھی لیا اور میں نے اپ کو کوئی چیز کرائے پر دی استعمال کرنے کے لئے اس میں بھی کچھ روپیہ اپ سے لیے ہر مہینے لیے ہر گھنٹے کے لیے اور کچھ روپیہ اپ کو دیا اور اس پر کچھ نفع کا مطالبہ کر دیا کیا فرق ہے فرق سمجھانے کے لئے میں نے لوگوں کو بتایا ہے کہ سود کا تعلق کرس سے ہوتا ہے اور قرض ہمیشہ ان چیزوں میں لین دین کو کہتے ہیں جو اپنا وجود فنا کر دیتی ہیں استعمال کی چیزوں کے لئے نہ قرض کا لفظ استعمال ہوتا ہے نہ اس کا کوئی معاوضہ استعمال کا معاوضہ لینے پر اپ لفظ سود بولتے ہیں وہاں کرائے کا لفظ بولا جاتا ہے یہ الفاظ الگ الگ کیوں بولے جارہے ہیں اس لئے کہ ان کی حیثیت بالکل الگ ہے ان کو اپ خلط ملط کیسے کر سکتے ہیں میں اور شراب پر نفع بالکل جائز ہوگا کرایہ اگر اپ کسی چیز کا لیں گے تو بالکل جائز ہوگا یہ بتا دیجئے دونوں میں فرق کیا ہے میں نے ایک گھر ایک سائیکل ایک گاڑی اپ کو استعمال کے لئے دی ہے میں نے 10000 اپنی جیب سے نکالے اور وہ استعمال کے لیے دے دیں تو اللہ تعالی نے ایک چیز کو جائز رکھا اور دوسری کو ناجائز قرار دے دیا تو اب لوگوں کو یہ فرق سمجھانا پڑے گا نا کیا وجہ ہے وہ فنا ہوجاتی ہے اور جب فنا ہو جاتی ہے تو اپ یہ نہیں کر سکتے کہ جس دن اپ چاہیں مجھے وہ چیز اٹھا کے واپس کردیں اپ کو محنت کرکے دوبارہ کمانا ہوگا اس سے وہ چیز خریدنی ہوگی یا مجھے وہ روپیہ لوٹانا ہوگا تو اس طرح گویا مجھے وہ چیز بھی اپ کو لوٹانا پڑتی ہے اور مجھے اپ کو نفع بھی اسکا دینا پڑتا ہے یہ وہ چیز ہے جس کو اللہ تعالی نے کہا یہ ظلم ہے یہ دوسروں کا مال باطل طریقے سے کھانا ہے اور میں نے اپ سے عرض کیا کہ اس کو ہی سود کہا جاتا ہے کہ یہ ایک معاملہ نیا پیش اگیا رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کے لئے ایک اصطلاح وضع کرنی پڑی اب بتانا پڑا کہ یہ جائز ہے یا ناجائز جب سے دنیا بنی ہے یہ معاملہ موجود قدیم ترین تمدن میں اپ کو یہ معاملہ ملے گا یعنی لوگ چیزیں کرائے پر بھی اٹھاتے رہے ہیں لوگ چیزیں بھیجتے بھی رہے ہیں بازاروں میں نفع بھی کماتے رہے ہیں اور وہ قرض بھی دیتے رہے انفاق بھی کرتے قرض بھی دیتے ہیں جب اپ قرض دیں گے تو اس میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرایہ جائز ہے کسی چیز کے استعمال کا معاوضہ اس طرح لینا جائز ہے تو یہ روپے کے استعمال کا معاوضہ لینا یہ کیسے ناجائز ہو گیا سمجھانے کے لئے میں نے یہ بتایا ہے کہ قرض ہوتا ہی ان چیزوں میں ہے قرض کا لفظ بولا ہی نہیں جاتا

  • 00:19:37 اپ اردو میں بھی نہیں بولتے اپ عربی میں بھی نہیں بولتے اب دنیا کی کسی زبان میں بھی نہیں بولتے یعنی جس وقت اپ کوئی چیز استعمال کے لئے دیتے ہیں یا بیچتے ہیں تو اس کے لئے زبان میں الگ الفاظ ہیں یہ تعبیریں الگ الگ کیوں اختیار کی گئی ہیں اس لئے کہ نوعیت معاملہ میں فرق ہے تو اس کو عام لوگوں کو سمجھانے کے لئے میں نے یہ بات کہی ہے کوئی نئی بات نہیں یعنی ایک واقعہ ہو رہا ہے

  • 00:20:00 اپ یہ نفس بول رہے تھے اپ قرض کا لفظ ایک اور معاملے کے لئے بول رہے تھے کرائے کا لفظ ایک اور معاملے کے لئے بول رہے تھے میں وہ شرعیہ خرید و فروخت کے الفاظ کسی اور معاملے کے لیے بول رہے تھے میں نے یہ بتایا ہے کہ یہ الگ الگ کیوں بول رہے ہیں اپ اس لئے کہ ان معاملات میں ایک جوہری فرق ہے وہ فرق یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے چنانچہ اپ مفتی محمد شفیع صاحب کا رسالہ دیکھیے جو انہوں نے سود پر لکھا ہے اس میں نے یہی بات بیان کی کہ وہ چیزیں جو فنا ہوجاتی ہیں ان پر اپ اگر منفرد کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ چیز اسلام میں ممنوع قرار دی گئی ہے اس کا فلسفہ کیا ہے اس کی حکمت کیا ہے اپ یہ دیکھیے کہ ہمارا پروردگار اخلاقی لحاظ سے میں کتنا پاکیزہ دیکھنا چاہتا ہے یہ بتا دیا گیا ہے کہ قرض کا معاملہ تبرو کا معاملہ ہے نیکی کا معاملہ خیر کا معاملہ ہے نیکی اور خیر پر نفع کا مطالبہ دنیا میں نہیں کیا کرتے اللہ سے مطالبہ کرتے ہیں جب ایک بھائی میرے پاس ایا ہے تو اسلام کی اخلاقیات کا تقاضا تو یہ تھا کہ میرے پاس اگر زاہد موجود ہے جس کا لفظ کہا ہے قران مجید میں تو میں وہ دے دوں اپ کو وہ اپ کا حق تھا اللہ نے وہ نعمت مجھے دی تھی تو مجھے اس کو گھر میں نہیں رکھنا تھا میری ذاتی کاروباری حال مستقبل کی ضرورتوں سے زیادہ تھا تو اسی لئے تو میں دے رہا ہوں اپ کو تو جب میں اپ کو یہ دے رہا ہوں تو مجھے اس پر کسی نفع کا مطالبہ نہیں کرنا دے دینا تھا ویسے ہی دے دینا تھا اٹھا کے مجھے اپ کی خدمت کر دینی تھی حوصلہ نہیں ہوا تو چلیے میں قرض دے دیتا ہوں جب اپ کے پاس ہو واپس کر دیجئے گا یا میں نے کوئی وائس بولے گا طریقہ اختیار کرلیا کوئی دستاویز لکھ لی جیسے کہ اگے قران مجید نے بھی بتایا ہے سورہ بقرہ میں کہ اگر کہیں قرض کا معاملہ تو لکھ لیا کرو تو میں نے اپ کو قرض دیا ہے قرض دیا ہے تو میرا پروردگار یہ کہہ رہا ہے کہ وہ اخلاقیات جو میں نے تمہیں سکھائی ہے میں تمہیں جب پاکیزہ دیکھنا چاہتا ہوں اس معاملے میں تو اس تبرہ اور نیکی اور خیر کے معاملے کو اس کے ساتھ ملوث نہ کرو اس پر تم کسی نفع کا مطالبہ نہیں کر سکتے

  • 00:21:56 اللہ کے دین میں جو بات کہی گئی ہے جو قران نے بیان کی ہے یہ میں نے اس کو لوگوں کو سمجھایا ہے اپنی طرف سے کوئی نیا اضافہ نہیں کرتی ہم سب یہ بہت اپ نے بہت اہم بات ہے چونکہ بالعموم جو سب سے پہلی تنقید ہم دیکھتے ہیں سود کے معاملے میں وہی ہے کہ غامدی صاحب نے شاید سود کی جو تعریف کنزیوم یہ جو اس میں بیان کی ہے تو یہ شاید خود سے کوئی نئی چیز وضع کر دی ہے اس کو اپ نے بڑی تفصیل سے بتایا ہے کہ جو سود موجود ہے اس کو اپ نے کھول کے سمجھایا ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہے اچھا یہاں پر ایک اور اسی پہلو سے میں سوال کرنا چاہوں گا ایک طرف بعض تنقیدات میں نے دیکھی اس اپ کی جو اپ نے تعریف بیان کی اور بتایا کہ مطلب جس تعریف کو اپ دنیا بھر میں سمجھا جاتا ہے اس کو سمجھایا کہا یہ کہ غامدی صاحب نے یہ جو کہا ہے کہ کنزیومر لون کنزیومر یہ قران مجید میں کہاں پر لکھا ہوا ہے یہ جو انہوں نے بتایا ہے کہ کنزیوم میں ہوتا ہے اور نان کنزیوم میں نہیں ہوتا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ایک طرف غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ بھئی سوت ایسا باریک فرق تھا جس کو انسان نہیں سمجھ سکتا تھا قران نے واضح کیا اور دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ یہ میں نے مثلا اپنی عقل سے سود کے بارے میں اندر اتر کے بتایا کہ کنزیومر لون کنزیومر میں ہوتا ہے تو ایک طرف یہ کہہ رہے ہیں کہ قران عقل سے سمجھ نہیں سکتے تھے قران نے بتایا اور دوسری طرف عقل سے طے کر رہے ہیں کہ سود کے اندر ہرگز یہ نہیں کہا کہ عقل سمجھ نہیں سکتے تو میں نے یہ کہا ہے کہ اس میں اجتماع تھا وہ کیوں واضح کیے جاتے ہیں اس لئے کہ انسانی عقل وہاں پر حتمی فتوی لگانے سے قاصر ہوتی ہے میں اس کی اور بات سے مثالیں دے سکتا ہوں اپ یہ دیکھیے ہمارے اصول کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے اس کا ذکر خاص طور پر قران مجید میں کیا ہے کیا وجہ ہے شعر بھی ممنوع ہے چیتے کا گوشت کھانا بھی ممنوع ہے اور بھی بے شمار جانور ہے دوسری جگہ قران نے واضح کر دیا کہ صرف طیبہ حلال ہے ہمارے سب کے سب حرام ہے یہ بات میں واضح کرنے کو ہمت لکم بہیمۃ الانعام تمہارے لئے چوپائے حلال کیے گئے اس سے بالکل واضح ہے کہ تمام درندے بلکل ممنوع ہے نہیں کھائے جاسکتے سور کا ذکر خاص طور پر کیوں کیا تین چار مقامات پر کیا وجہ ہوئی اس کی اس کی وجہ بھی وہی اشتباہ ہے

  • 00:23:58 اجتماع کیسے پیدا ہوا درندے ممنوع ہے

  • 00:24:02 چرندے بالکل جائز کس کو بہی میں تو نام قران کہتا ہے

  • 00:24:06 یعنی وہ جانور کہ جو گھاس چڑھتے ہیں اور مواشی کی نوعیت کی چوپائے جن کو ہم کہتے ہیں ان کا گوشت کھانا بالکل حلال ہے لیکن درندے جیسے شیر چیتا یہ ممنوع ہے یہ اصولی اور بنیادی بات تھی ایک چیز میں جملہ طیبات ہے دوسری چیز منجملہ خبائث

  • 00:24:24 قران مجید میں حرمت حلت کا اصول بیان کردیا اب اس جانور کا جب ہم نے تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ دنیا میں واحد جانور ہے کہ جو اگرچہ بکری کی صنف سے ہے یعنی گوٹ کی اسپیشل سے ہے لیکن اس کی کچلیاں بھی اور یہ گوشت بھی کھاتا

  • 00:24:45 تو اس کے نتیجے میں اس میں درندہ اور چرندہ ہونے کا معاملہ مشتمل ہو گیا

  • 00:24:51 اچھا

  • 00:24:52 مشتبہات کے معاملے میں اللہ تعالی نے فتوی دے دیا اور یہ بتا دیا کہ یہ ممنوع ہے اس کو درندہ سمجھا جائے گا

  • 00:24:59 تو جس طرح وہاں پر اس کو بازی کیا اسی طرح یہ واضح کر دیا یعنی میں اور شراب کے معاملات ہو رہے تھے لوگ اس پر نفع کما رہے تھے اسی طرح لوگ کرائے پر چیز لے کے اس کا معاوضہ لے لیتے تھے یہ ساری چیزیں موجود تھیں اللہ تعالی نے یہ فرمایا کہ قرض پر منفعت لینا ممنوع ہے

  • 00:25:15 تو یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش ائی کہ یہ کوئی نئی چیز اگرچہ نہیں تھی لیکن اشتباہ موجود تھا اس وقت بھی لوگ بحث کرتے ہیں اس زمانے میں بھی اگر یہ ایسی چیز ہے تو اپ ذرا چوری کے لئے کوئی ادارہ کرکے بنا کے دکھائیے

  • 00:25:29 گھبن کے لئے ادارہ بنائیے نہ اس کے اوپر لکھی ہے کہ یہاں غبن کرنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں کوئی اس کی اجازت دے گا اس لئے کہ وہاں بالکل واضح ہے صورتحال لیکن سودی کاروبار کے لئے کل ایک ادارہ قائم کرلی

  • 00:25:45 کیا وجہ ہے اس کی اس کی وجہ وہی ہے کہ یہ عالمگیر صداقت نہیں بن سکا

  • 00:25:50 اس میں وہ اشتباہ موجود ہے کیا دنیا میں اجتماع نہیں ہوا کرتا رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الحلال بین و الحرام بین حلال بھی واضح ہوتا ہے حرام بھی واضح ہوتا ہے بینا ہوا مشتبہات ان کے درمیان کچھ چیزیں مشتمل ہوتی ہیں تو یہ بتایا نہ اس میں کیا کرنا ہے اب وہ مشتبہ اگر کوئی چیز تھی اور اللہ تعالی نے فیصلہ سنا دیا تو وہ ہمارے لئے مشتمل نہیں رہی بات اللہ کے کسی پیغمبر نے بتا دیا ہمارے لئے مشتمل نہیں رہی لیکن جن چیزوں کے بارے میں اج بھی نہیں بتایا میں سوتی ہے نا کتنے جانور ہیں جن کے بارے میں فقہا بحث کرتے رہتے ہیں کہ حلال ہے یا حرام ہے کیا وجہ ہوتی ہے وہی اشتباہ ہوتا ہے اس وقت بھی بہت سے جانور ہیں کہ جن کے بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ درندے ہیں

  • 00:26:37 فارن فتوی دے دیا جائے گا کہ یہ حرام ہے کچھ جانور ایسے ہیں کہ وہ ہمت والا نام بھی نہیں ہے ان کو اپ درندہ بھی نہیں کہہ سکتے یہ کیا ہے درمیان کی چیز اسی کو اشتباہ کہتے ہیں یعنی دونوں چیزوں کا احتمال ہو گیا ایک معاملہ یا ایک چیز

  • 00:26:56 محترم البدین ہو گئی ادھر سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ درندہ ہے ادھر سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ چرندہ ہے اب جب اللہ تعالی نے وصول بتا دیا کہ چرندے سب کے سب جائز ہیں ان کا گوشت کھا سکتے ہو اور درندے سب کے سب ممنوع ہیں وہ خبائث ہیں ان کے قریب نہیں جاؤ گے وہ بہیمۃ الانعام نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ اجتماع کے موقع کے اوپر پھر رائے قائم کرنی پڑے گی نا اس وقت فقی قائم کرتا ہے مشرک قائم کرتا ہے وہ معاملہ جس میں بڑے اشتباہ کا امکان تھا اس میں اللہ تعالی نے خود ورڈنگ دے دیا اور یہ بتا دیا کہ سور کا گوشت کھانا ممنوع ہے بالکل اسی وصول کے اوپر روایا سود کے بارے میں یہ بتا دیا کہ اگرچہ یہ معاملہ اشتباہ میں ڈال سکتا ہے کسی شخص کو لیکن اللہ کا حکم یہی ہے اپ اندازہ کیجئے کہ یہ جو سود ہے یہ رواں ہے جس کا ذکر اپ کر رہے ہیں یہ ہمارے ہاں کوئی اسلام سے شروع ہوا ہے دنیا میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے قران مجید میں بنی اسرائیل کی فرد قراردادیں جرم بیان کرتے ہوئے کہا کہ سود کھاتے تھے

  • 00:27:57 تو سود کھاتے تھے وہاں کیا استعمال کیا لفظ

  • 00:28:01 اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عربی زبان کا ایک کام لفظ ہے عرب اس سے پوری طرح واقف تھے ہمارے ہاں بھی کسی کو تردد نہیں ہوا جب ہم نے اس کا ترجمہ کرنا چاہا اور اردو دان طبقے کو سمجھانا چاہا تو اس کے نیچے سود کا لفظ لکھ دیا بیاج کا لفظ لکھ دیا یہ سود بیاج یہ اس لفظ کا ترجمہ ہے اور کیوں لکھ دیا اس لیے کہ سود اور بیاج وہی جیسے مولانا صاحب مدودی نے لکھا کہ سود کا لفظ جب ہم بولتے ہیں تو اس کے معنی جانتے ہیں یہ وہی چیز ہے جس کو عربی زبان میں ربا کہا جاتا ہے یہ بات اگر اپ سامنے رکھیں تو میں نے صرف قران مجید میں جس چیز کو ممنوع قرار دیا اس کو سمجھایا ہے جیسے ہمارے ہاں بہت بحثیں ہو رہی تھی اس موضوع پر کہ سور کی حرمت کی کیا وجہ ہے

  • 00:28:42 کیا کیا سارا یہ لوگ کر رہے تھے تو میں نے یہ بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کیونکہ اللہ تعالی نے درندوں کو گوشت کھانا ممنوع قرار دیا ہے چرندوں کا گوشت کھانا بلکل جائز ہے یہ بہیمۃ النام ہے جن کا گوشت کھانا جائز کیا گیا ہے اس کے بارے میں جو اجتماع تھا اللہ تعالی نے اس کو دور کر دیا تو وہاں جب میں نے بتایا تو ایک خدمت کی یہاں پر یہ بتا کر بھی وہی خدمت کر رہا ہوں کہ سود کہتے کسے ہیں

  • 00:29:06 کیا کرائے کو سود کہتے ہیں کیا میں اور چراغ کے نفع کو سود کہتے ہیں اگر اپ دیکھیں تو ہمارے ہاں بعض لوگوں نے یہ بحثیں پیدا کی ہوئی ہیں وہ کیا کرتے ہیں وہ مادہ کھول کے بیٹھ جاتے ہیں

  • 00:29:17 یعنی ربا کا لفظ جو ہے یہ فلاں مادے سے بنا ہے اس میں زیادتی کا مفہوم پایا جاتا ہے زیادتی اور استحصال اور ظلم کی فلاں فلاں کس میں سب سود ہے یہ زبان کا صحیح استعمال نہیں ہے زبان میں لفظ بنتے کیسے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے جب وہ بن جاتے ہیں تو کس مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں وہاں سے ان کے معنی طے کیے جاتے ہیں تو عربی زبان میں رباع کا لفظ جس معنی میں استعمال ہوتا تھا وہ بالکل وہی معنی ہے جو ہمارے ہاں لفظ سود سے ادا کیے جاتے ہیں تفصیل سے اپ نے بتایا اور اس سے میرا خیال ہے کہ یہ جو ایک شبہ یا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپ تعریف کے اندر کوئی تبدیلی کی ہے یا خود سے کوئی چیز پیدا کردی ہے سود کو سمجھاتے ہوئے بالکل واضح ہے اگے بڑھتے ہیں بلکہ اگے بڑھنے سے پہلے میں ایک دفعہ پھر یہاں پر رک کر یہ پوچھنا چاہوں گا اپ سے کہ اب تک ہم نے جتنی گفتگو کی اس میں سود کے حوالے سے قران مجید نے جو واضح ایک فور کارنرز دے دی ہیں کہ یہ چیز ممنوع ہے اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے جس کو اپ نے وضاحت سے بیان کیا اس میں اور ہماری امت کے اندر جو ایک پوری علمی روایت ہے جس میں سود کے بارے میں اللہ تعالی کے سکون کو سمجھا گیا اور بتایا کہ ممنوع ہے اپ نے ان میں اطلاع متب اس بات کو بیان کرنے میں کہ سود حرام ہے کوئی فرق نہیں ہے جس کے معاملے میں میرا نقطہ نظر مختلف ہے لیکن وہ عام ادمی کا مسئلہ نہیں ہے وہ ہمارے ہاں فقہی کتابوں میں جو چیزیں لکھی ہوئی ہیں ان کا مسئلہ ہے اس پر کوئی گفتگو کرنا ہوگی تو الگ سے کر لیں گے میں یہ بتاؤں گا کہ وہاں ہمارے ہاں روایات کو سمجھنے میں کیا غلطی ہوئی ہے راویوں کے بیان کرنے میں کیا غلطی ہوئی ہے وہ ایک نقط کا سود الگ سے ایجاد کیا گیا باقی جہاں تک قران مجید میں جو روایت استعمال ہوا ہے اس کو اسی مقدار کے تحت ہمیشہ رکھا جاتا ہے میں نے اپ سے عرض کیا کہ اپ امرین ترجمہ قران کے اٹھا لیجئے اج کے زمانے کے اٹھا لیجئے ہر جگہ اپ کو اس کا ترجمہ سعودی ملےگا سود کا لفظ جب اپ اردو میں بول رہے ہوتے ہیں تو وہاں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے وہاں کوئی اختلاف سامنے اتا ہے اپ ایک عام ادمی سے کہیں کہ فلاں سود کھاتا ہے تو اس کا مدعا اس کا مطلب سمجھ لیتا ہے اس چیز کو واضح کرنے کے لئے اپ کچھ مثالیں دینی پڑتی ہیں بات سمجھانا پڑتی ہے دوسری چیزوں سے تقابل کرکے اپ کو بتانا پڑتا ہے یہ ایک الگ چیز ہے کہ اپ ایک چیز کی تفہیم کر رہے ہیں طبیب کر رہے ہیں لیکن یہ کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کے لئے نفس ایجاد کیا گیا ہے کوئی اصطلاح بنائی گئی ہے یعنی قدیم سے اس کے لئے الفاظ دنیا کی ہر زبان میں موجود ہیں جیسے ہی وہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ان کا مدعا لوگ سمجھ لیتے ہیں ہمارے ہاں دور حاضر میں جو تبدیلیاں یا تغیرات ہوئے ہیں اپ دیکھیں ان کے لئے الفاظ بھی الگ وجود میں اگئے لیکن اس سے پہلے دنیا کے تمدن میں پرانی سب جوانوں کو پڑھیے اپ کو یہ الفاظ مل جائیں گے ہماری اردو میں تو اس معاملے میں کوئی اجتماعی نہیں اگے بڑھتے ہیں یہاں تک تو بات بالکل واضح ہے سود کے حوالے سے جو سب سے بنیادی اعتراض اپ کے جو بیانات ہیں کتابوں میں لکھی ہوئی باتیں ہیں جب اپ سے سوال پوچھا جاتا ہے تب اپ بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ غامدی صاحب سود دینے کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالی کے پیغمبر نے سود لینے دینے اور اس طرح کے کسی معاملے میں یہاں تک کہ لکھنے والے تک کے بارے میں وعید سنا دی ہے

  • 00:32:36 اس موضوع پر اب ہم اگے بڑھتے ہیں اور ایک ایک کر کے میں اپ سے اس پر سوال کرتا ہوں پہلا سوال یہ ہے کہ اپ نے اپنی کتاب میں جب اس پے ارٹیکل لکھا تو وہاں یہ بتایا کہ جو لوگ اسے ممنوع قرار دیتے ہیں سود دینے کو ان کے پاس قران و حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے اور پھر خود ہی اپ ایک حدیث بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے لوگوں نے بات غلط سمجھی ہے تو اس کا مطلب حدیث تو ہے جس سے لوگوں نے بات غلط سمجھی بتایا کہ قران مجید میں سود کو ممنوع قرار دیا گیا ہے سب سے پہلے اللہ کی کتاب کو دیکھنی چاہیے کہ وہ کیا چیز ہے جس کو ممنوع قرار دیا جارہا ہے وہ ہم نے سمجھ لیا کا مطالبہ کرنا اب میں نے توجہ دلائی ہے کہ یہ دیکھیے کہ کیا قران مجید سورہ روم میں جب اس کا ذکر کرتا ہے تو وہ سودی قرض ہے جس پر اپ نفع دیتے ہیں

  • 00:33:26 لیتے

  • 00:33:28 اچھا سورہ ال عمران میں ذکر کرتا ہے

  • 00:33:31 لاتا کو ربا ازافہ مضافہ

  • 00:33:34 بڑھتا چڑھتا سود نہ کھاؤ

  • 00:33:37 [Unintelligible]

  • 00:33:38 کیا کہہ رہا ہے نہ کھاؤ

  • 00:33:40 سود دینا زیر بحث نہیں اس کے بعد اس مقام پر اجائے جو سورہ بقرہ میں ایک تفصیلی مقام ہے جس پر قران مجید نے اس پوری بات کو بیان کیا ہے میں یہ چاہتا ہوں کہ میں اپ کے سامنے وہ رکھ دوں اور پھر یہ دیکھیے کہ اس میں اللہ تعالی نے کیا بات بیان کی ہے کہاں سے بات شروع ہوئی وہ کہاں تک پہنچی ہے وہ سارے کو ہم دیکھ لیتے ہیں یہ جو دونوں مقامات ہیں ان میں بہت اجمال سے ذکر کیا ہے سورہ ال عمران میں بھی بہت اقبال کے ساتھ یہ فرمایا کہ بڑھتا چڑھتا سود نہ کھاؤ

  • 00:34:11 اس میں صرف بڑھتا چڑھتا کے الفاظ سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت عام طور پر علماء کرتے رہے میرے نزدیک کو بالکل درست لگایا تھا اچھا اسی طریقے سے سورہ روم کی ایت ہے اس میں اگر اپ استاد امام کی تفصیل پڑھ لیں تو اپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس کا صحیح مدعا کیا ہے یہ سورہ بقرہ ہے جس نے اس معاملے میں تفصیلی طور پر اللہ تعالی کے منشا کو واضح کیا چنانچہ یہ دیکھیے کیا فرمایا ہے

  • 00:34:36 یہ کہاں کے الذین ہے اس کا ترجمہ کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس کے بر خلاف

  • 00:35:02 جو لوگ سود کھاتے ہیں اس سے پہلے انفاق کا ذکر ہورہا ہے اس کے برخلاف جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت میں اٹھیں گے یا لفظ ذہن میں رہے سود کھاتے ہیں

  • 00:35:13 اچھا قران کے الفاظ ہیں

  • 00:35:18 اس کے بر خلاف جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت میں اٹھیں گے تو بالکل اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے اپنی چوت سے پاگل بنا دیا کھانے والوں کے بارے میں کھانے والوں کے بارے میں یہ اس لئے

  • 00:35:31 کہ انہوں نے کہا ہے کہ میں بھی تو اخر سود ہی کی طرح ہے یہ دیکھیے وہی بات جو ہم کر رہے تھے یعنی میں اور شراب میں بھی نفع لیا جاتا ہے تو لوگ کہتے تھے کہ اس میں اور اس میں کیا فرق ہے

  • 00:35:41 میں نے ایک سودا لاکے بیچا اس پر میں نے نفع لے لیا میں نے اپ کو روپیہ استعمال کرنے کے لئے دیا میں نے اس پر نفع لے لیا اس میں اخر مسئلہ کیا ہوگیا

  • 00:35:50 تو قران کہتا ہے کہ اس لئے کہ انہوں نے کہا ہے کہ میں بھی تو اخر سود ہی کی طرح ہے اور تعجب ہے کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے

  • 00:35:59 یعنی وہ اس بات پر استجاب کا اظہار کرتے تھے تعجب کا اظہار کرتے تھے کہ یہ کیا وجہ ہے کہ بھائی کی طرح کی چیز ہے اللہ نے ایک کو حلال کردیا دوسری کو حرام ٹھہرا دیا اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے اسے حرام ٹھہرایا ہے لہذا جسے اس کے پروردگار کی تنبیہ پہنچی اور وہ باز اگیا تو جو کچھ وہ لے چکا سو لے چکا لے چکا

  • 00:36:22 بات کہاں سے شروع ہوگئی تھی وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں اب کیا کہا جا رہا ہے جو لے چکا وہ لے چکا اس کے خلاف کوئی اقدام نہ ہوگا اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے یعنی اس سے پہلے جس نے لے لیا لے لیا یہ قران کا عام اصول ہے کہ وہ ماضی پر اطلاق نہیں کرتا تو یہ کہا کہ اب ائندہ سے بچ جائیں اس سے فرمایا اب اگے دیکھیے

  • 00:36:47 اردو استنبہ کے بعد بھی اس کا ارادہ کریں گے یعنی اب جب اللہ نے کہہ دیا کہ سود کھانا ممنوع ہے اب جب اللہ نے کہہ دیا کہ سود لینا ممنوع ہے تو جو لوگ اس کا اعادہ کریں گے تو وہ دوزخ کے لوگ ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے بڑی وعید سنا دی کہ اللہ تعالی کی حکومت میں اللہ کا تالا کے پیغمبر کی طرف سے بلکہ قران مجید میں خود اللہ کی طرف سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ اس کو حرام قرار دے دیا گیا ہے اب لوگ اس سے باز اجائیں جو لوگ اس تنبیہ کے باوجود باز نہیں ائیں گے ان کے لئے یہ سزا ہے یہ بیان کیا اب اگے دیکھیے اس دن یعنی قیامت کے دن اللہ سود کو مٹا دے گا اور خیرات کو بڑھائے گا

  • 00:37:29 یعنی تم سمجھتے ہو کہ یہاں اس سے

  • 00:37:31 کچھ کما رہے ہو

  • 00:37:33 اسمے اضافہ تمہارے پاس ا رہا ہے اس سے تمہیں فائدہ ہو رہا ہے قیامت میں یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا اور وہاں کیا چیز بڑی ہوئی نظر ائے گی وہ خیرات وہ صدقات ہے تو یہاں پر بھی دیکھیے کیا چیز ہے یعنی اپ کے پاس بھی اضافہ ایا تھا اس کے بارے میں فرمایا کہ جب حق اللہ

  • 00:37:53 واللہ اعلی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی ناشکرے اور کسی حق تلفی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا اس کے بعد ارشاد ہوا ہاں جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور نماز کا اہتمام کیا اور زکوۃ ادا کی ان کے لئے ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے اور وہاں ان کے لئے کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ وہ کوئی غم کبھی کھائیں گے یہ اللہ تعالی نے بشارت دی کہ وہ لوگ کہ جنہوں نے ایمان قبول کر لیا ہے اس چیز کو چھوڑ دیا ہے ان کے لئے بشارتیں ہیں لیکن جو لوگ میری اس تنبیہ کے بعد بھی باز نہیں ائیں گے ان کے لئے دوزخ کی وعید ہے اگے دیکھیے

  • 00:38:44 بزرگ ما بقیہ مینار ربا ان کنتم مومنین ایمان والو اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ سے ڈراؤ اور جتنا سود باقی رہ گیا ہے یعنی جو لینا تھا تمہیں

  • 00:38:56 جو پہلے لے چکے لے چکے کیست وار دیا جارہا ہوتا جتنا سود باقی رہ گیا اسے چھوڑ دو کھانے والوں کا قیامت میں یہ حشر ہوگا جو لے چکے وہ لے چکے اب اس کے بعد کیا کہا جا رہا ہے کہ جو سود باقی رہ گیا اسے چھوڑ دو

  • 00:39:15 ہنی سود باقی رہ گیا ہے یعنی تمہارا جو دوسرے کے ذمے ہے جس کو تم نے قرض دیا ہوا تھا اس سے تم نے جو کچھ وصول کرنا تھا جو وصول کر چکے وہ کر چکے جو باقی رہ گیا ہے اللہ کی اس تنبیہ کے بعد چھوڑ دو کون زیر بحث ہے لینے والے سود کھانے والے سود کا مطالبہ کرنے والے اگے کیا فرمایا

  • 00:39:35 فائل تفعل فضل میں حرب من اللہ و رسولہ لیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبردار ہو جاؤ

  • 00:39:51 یعنی گویا یہ بات واضح کر دی گئی کہ اگر لوگ باز نہیں ائیں گے ظاہر ہے کہ ان کے قیمتی مفادات تھے انہوں نے ہزاروں کا سود لوگوں سے لینا تھا انہوں نے قرض دیے ہوئے تھے جب اللہ تعالی نے کہا کہ نہیں لینا تو یہ اسان نہیں تھا کہ لوگ اس سے رک جائیں اور ایک قبائلی نظام میں لوگ اپنے معاشی مفادات کے لیے انکار کر دیتے تو یہ ایک نوعیت کا خرابہ قرار دے دیا گیا کہ اگر تم اس تنبیہ کے بعد اللہ اور رسول کی حکومت میں سود لینے پر اصرار کرتے سود لینے پر سود کھانے پر اصرار کرتے ہو تو تمہارے خلاف جنگی کارروائی کی جا سکتی اس کو بھی لوگ غلط طریقے سے بیان کر دیتے ہیں کہ سود کھانا اللہ اور رسول کے خلاف جنگ کرنا ہے یہ نہیں کہا گیا یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم سود کھانے پر اصرار کرو گے تو تمہارے خلاف جنگی کارروائی ہوگی یہ مطلب ہے اس کا کیونکہ یہ دوسری جگہ واضح کر دیا ہے اللہ تعالی نے کہ عام حالات میں کوئی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اپ کہتے ہیں یہ چوری ہے یہ بدکاری ہے اس کی یہ سزا ہے لیکن اگر سرکشی اختیار کرلی جائے نیو سرچ پیدا کر دی جائے تو یہ خرابہ ہو جاتا ہے تو اب یہ بتایا کہ جب یہ کہہ دیا گیا ہے اور اللہ کے رسول کی حکومت میں کہہ دیا گیا ہے کہ کوئی شخص سود نہیں لے گا تو اب اگر سود کا مطالبہ کرو گے اب سود کھاؤ گے اب لوگوں سے سود دینے کے لئے کہو گے تو یہ اللہ اور رسول کے مقابلے میں انا ہے اور اس کے نتیجے میں جنگ کی دھمکی دے دی تو فرمایا کہ اور اگر توبہ کر لو

  • 00:41:25 جانی باز اجا

  • 00:41:27 سود لینے سے انکار کردو اللہ کی تنبیہ پر سر تسلیم خم کر دو اگر توبہ کر لو تو تمہاری اصل رقم کا تمہیں حق ہے

  • 00:41:37 اصل رقم کس کی ہے سود کھانے والے کی تو یہ کہا کہ اصل رقم کا تمہیں حق ہے

  • 00:41:45 یعنی وہ تم مطالبہ کر سکتے ہو سود کا مطالبہ نہیں کر سکتے یعنی اس پر منفت کا مطالبہ نہیں کر سکتے

  • 00:41:52 نہ تم کسی پر ظلم کرو گے نہ تم پر ظلم کیا جائے گا تو سود لو گے تو تم ظلم کرو گے اور اگر اصل رقم کو وہ مار بیٹھے گا

  • 00:42:04 تو نہ تم پر ظلم کیا جائیگا نہ تم کسی پر ظلم کرو گے اگے کیا فرمایا اور مقروض

  • 00:42:17 کبھی تنگدست ہو یعنی اس نے قرض لیا ہوا ہے تنگدست تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو

  • 00:42:24 یہاں بھی اسی کو کہا جا رہا ہے اور اگر تم بخش دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھتے ہو تو فرمایا کہ اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر شخص کو اس کی کمائی وہاں پوری مل جائے گی اور لوگوں پر کوئی ظلم نہ ہوگا

  • 00:42:47 میں نے عرض کیا کہ ایک مقام سورہ روم میں ہے اس میں سود کا ذکر ہوا دوسرا سورہ ال عمران میں ہے وہاں بالاجمال صرف اتنا کہا کہ مضافہ بڑھتا چڑھتا سود نہ کھاؤ یہاں کوئی کسری باقی نہیں رہی یعنی ہر لحاظ سے واضح کردیا کہ سود ہوتا کیا ہے

  • 00:43:03 کیا بتا دیا کہ قرض پر منفرد کے نام سود ہے بتا دیا اصل زر کو واپس لینا کوئی جرم نہیں ہے یہ بتا دیا کہ اس میں بھی مہلت دینی چاہیے

  • 00:43:13 کوئی اس میں اب ہم باقی رہ گیا یعنی جو کچھ ہم نے ربا کا مطلب سمجھا تھا جو سود کے معنی سمجھے تھے اسی کی قران مجید میں پوری تصویر کر دی تو یہ قران مجید کا بیان ہے اس میں مجھے بتائیے کوئی ایک لفظ بھی قران مجید میں ان لوگوں کے بارے میں کہا ہے جو سود دیتے ہیں ان ایات میں تو کہیں حسب ضرورت نہیں ہے یہ سب سے زیادہ تفصیلی مقام ہے میں نے یہاں پوری بات واضح کی گئی ہے جو لوگ اعتراض کر رہے تھے ان کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے جو بیک اور سود کو ایک قرار دے رہے تھے ان کی غلطی واضح کی گئی ہے یہاں بتایا گیا ہے کہ لینے کا کیا حق ہے یہاں جتنی تفصیل کے ساتھ بات کی گئی ہے کہ اگر یہ کرو گے تو یہ نتیجہ نکلے گا یہ کرو گے تو یہ نتیجہ نکلے گا اور باقاعدہ وعید سنائی گئی ہے کہ باز نہیں اؤ گے تو جہنم میں جاؤ گے اور اسی طرح دنیا میں بھی اخری کارروائی کی دھمکی دے دی گئی ہے کہ اگر باز نہیں اؤ گے نہیں روکو گے اس تنبیہ کے بعد بھی لوگوں سے سود کا مطالبہ کرو گے تمہارے خلاف جنگی کارروائی کی جائے گی تفصیل کے ساتھ یہ بات یہاں قران مجید میں واضح کر دی یہ بھی بتا دیا کہ کیا چیز ہے جو زیر بحث ہے

  • 00:44:15 یعنی اصل زر تم اپنے قرض لینے والے سے لے سکتے ہو اگر وہ تنگدست ہے تو کہا کہ اس کو مہلت دو اس کے لئے محبت کے کلمات ہے اس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اسے مہلت ملنی چاہیے اس نے کسی جرم کا ارتکاب ہی نہیں کیا تھا بغیر ضرورت کے کال کر لے گا

  • 00:44:40 یعنی جو ادمی بھی ائے گا وہ اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ائے گا نا وہ اس کی ذاتی ضرورت ہو سکتی ہے وہ اس کی کوئی معاشرتی ضرورت ہو سکتی ہے وہ اس کی کوئی کاروباری ضرورت ہو سکتی ہے وہ کسی رفاعی مقصد کے لئے اپ سے قرض مانگ سکتا ہے تو میں نے جیسے ابھی عرض کیا تھا کہ اصل میں میرا دین مجھ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ میرے پاس میری ضرورتوں سے زائد اگر کوئی چیز ہے تو میں اس کو ویسے ہی دے دوں

  • 00:45:05 اتفاق کرو اور اپ یہ دیکھیے جو ایات ہیں ان سے پہلے بڑی تفصیل کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ انفاق کتنی بڑی نیکی ہے ہمارے دین کی بنیاد ہی دو چیزوں پر قائم ہے اللہ سے تعلق کے لئے نماز اور بندوں کے ساتھ خیر اور نیکی کے لئے انفاق

  • 00:45:21 اتفاق کرو اگر میں نے انصاف نہیں کیا تو میں دوسرے درجے پر اگیا ہوں میں اب قرض دے رہا ہوں قرض پر نفع کا مطالبہ نہیں کرنا قران مجید میں یہ بات واضح کر دی سوال یہ ہے کہ اگر سود دینا یا قرض جا کے کسی سے لینا ہے یہ بھی کوئی بری بات ہوتی

  • 00:45:40 تو قران مجید یہ کہتا

  • 00:45:42 موسی بھی کہتا ہے کہ تم ائندہ سے قرض نہیں لو گے

  • 00:45:46 اس کے لئے کوئی شخص نہیں جائیگا کوئی ایک لفظ اپ مجھے بتا دیں قران مجید میں ان لوگوں کے بارے میں کہا گیا

  • 00:45:52 ٹھیک ہے تو سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ جب ہمارے دین میں کوئی بات کہی جاتی ہے تو اللہ کی کتاب کو دیکھیں گے نا اللہ کی کتاب میں جب کوئی چیز زیر بحث اجائے تو پھر اس کو سامنے رکھ کر اس کو بنیاد بنا کر روایات کی طرف جاتے ہیں

  • 00:46:09 اس ترتیب کو بدلنا بہت ضروری ہے

  • 00:46:13 دونوں رویے بالکل غلط ہیں یعنی قران مجید کو سامنے رکھا کسی روایت کو سامنے رکھا اور چیز کو ایک بنا دیا اسی طریقے سے روایت کو سامنے رکھا اور روایت کو اٹھا کر اپ نے قران مجید کے اندر ڈال دیا

  • 00:46:27 اپ کو کیا کرنا ہے صحیح طریقہ کیا سب سے پہلے اگر وہ معاملہ قران مجید میں زیر بحث اگیا ہے تو اللہ کی کتاب کے پاس جائیے

  • 00:46:35 مجھے یہ بتائیں کہ اگر یہ دونوں یکساں جرم تھے

  • 00:46:39 ایک ہی درجے کا گناہ تھا

  • 00:46:41 تو پھر دوسرے لوگوں کے بارے میں قران مجید میں کچھ کہا کیوں نہیں ان کے خلاف جنگی کیوں نہیں بات کی خلاف یہ جنگ کی کیوں بات نہیں کی تم بھی جہنم میں جاؤ گے ہم پاگل کرتی ہیں ان کے بارے میں یہ ساری باتیں کیوں نہیں کہی یے اس بات کی ایک ایک لفظ کو اپ ذرا غور کے ساتھ پڑھیے اور میں ان لوگوں کو بھی دعوت دوں گا کہ جو اللہ کی کتاب کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ اس مقام کو کھولیں سورہ بقرہ ہے سورہ بقرہ کے خاتمے پڑھیے مقام اتا ہے اس کو پڑھے اور اس کے بعد مجھے یہ بتائیں کہ اس میں کوئی ادنی درجے میں بھی اشارہ بھی ملتا ہے اس بات کا ایک تو یہ چیز ہوتی ہے نہ کہ اپ نے کسی چیز کو صراحت سے بیان کی کوئی اشارہ بھی ملتا ہے سوال یہ ہے کہ جو سود کا کاروبار کر رہے تھے لوگ وہ کئی ہوا میں بیٹھے ہوئے کاروبار کر رہے تھے

  • 00:47:26 لوگ لینے اتے تھے نہ ان کے پاس وہ لینے جو لوگ اتے تھے مسلمان ہوگئے تھے ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے یہ ساری بات کہی تو یہ بتا دیا جاتا کہ ائندہ لینے میں نہیں جاؤ گے

  • 00:47:39 اور اگر ان کو سود دو گے تو تمہارے خلاف بھی یہی کارروائی ہوگی چلیے ان کے خلاف ذرا بڑی کارروائی ان کے خلاف ہے کہ تمہاری وجہ سے تو ان کا کاروبار چل رہا ہے تو مجھے یہ بتائیں کہ کوئی تاریخ کا جملہ کوئی طنز کا جملہ کوئی تنبیہ کا جملہ کوئی توجہ دلانے کا جملہ بھی ان کے بارے میں کہا ہے اللہ کی کتاب کی روشنی میں اگے کیوں نہیں بڑھتے میں ابھی روایت پر جاؤں گا لیکن سب سے پہلی چیز جس کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی کتاب میں اس کو بڑی محکم جگہ پر بیان کر دیا گیا ہے اور پھر اپ کو بہت وضاحت کے ساتھ یہ سمجھایا ہے کہ کیوں سود کھانا ممنوع ہے

  • 00:48:21 جب میں سود لیتا ہوں تو میں دوسرے کے ساتھ زیادتی کر رہا ہوتا اللہ تعالی نے اس کو ظلم قرار دیا ہے میں اپنے اخلاقی وجود کے خلاف ایک اقدام کر رہا ہوتا ہوں کہ میں ایک بھائی ضرورت مند کو کوئی چیز دے کہ اس پر نفع کا مطالبہ کر رہا ہوں

  • 00:48:35 اللہ تعالی کے ہاں جو چیزیں ممنوع قرار دی جاتی ہیں ان کے پیچھے کوئی خدمت ہوتی ہے کوئی بات ہوتی ہے اور یہاں یہ نہیں کہ میں کوئی حکمت اس میں داخل کر رہا ہوں اس کو خود اللہ تعالی نے بیان کردیا

  • 00:48:47 کون ہے تجھے سود کھاتے ہیں کون ہے کہ جو قیامت میں اٹھیں گے تو اس طرح اٹھیں گے کہ گویا شیطان نے جھوٹ سے ان کو پاگل بنا دیا ہے یہ سب باتیں کن کے بارے میں کہی ہیں سود دینے والوں کے بارے میں کہی ہے یہ جو کہا کہ جو لے چکے وہ لے چکے اب اس کے بعد مطالبہ نہیں کر سکتے یہ سود دینے والوں کو کہا ہے ایک لفظ ہی اللہ تعالی کہہ دیتے کہ جو لوگ بیچارے جا کے قرض لیتے ہیں اور ان کو سود دینا پڑتا ہے اج کے بعد وہ بھی باز اجائے مان لیا ان کی مجبوری ہے لیکن وہ باز نہ ائے تو ان کے خلاف بھی یہ کارروائی ہوگی یا چلیے کاروائی نہ کریں اس لئے کہ مجبور لوگ ہیں یہ کہہ دیں کہ اگر تم اس پر اصرار کرو گے تو سود لینے کے لئے جاؤ گے اور سود دو گے تو قیامت میں یہ سزا ملے گی نہ قیامت کی سزا کا کوئی ذکر نہ مواخذے کا کوئی ذکر نہ کوئی تنبیہ ان کو کی گئی کسی جگہ مجھے بتا دیں کہ قران مجید میں یہ ذکر ہوا اب اس کے بعد پہلے اصولی بات سمجھیے اور وہ یہ کہ اب کسی روایت میں کوئی بات ائے گی تو قران مجید نے جو مختلف موصول قائم کر دئیے ہوں گے ان کی روشنی میں اس کو سمجھا جائے اپ ترتیب نہیں بدل سکتے ہیں یہ بتا دیا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے یعنی اپ پھر اس کو سن لیجئے پہلے اصول بیان کیا

  • 00:50:00 اور وہ یہ بتا دیا کہ یہ قران مجید میں اصول ہے اور وہاں بھی کیا کہا

  • 00:50:09 یعنی تم یہ مال کھاؤ نہیں

  • 00:50:13 غلط طریقے سے مال کھانا چوری کرکے مال کھانا گھبن کرکے مال کھانا ملاوٹ کرکے مال کھانا ان سب میں یعنی یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اپ یہ کہیں کہ بھئی ٹھیک ہے ملاوٹ کرنے والے کو تو روکا گیا ہے جس کو دیا گیا ہے اس نے بھی تو جاکے سودا خریدا تھا اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے جب میں نے اپنے ایک بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اس کو قرض دیا اور اس سے منفرد کا مطالبہ کیا تو اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے بیمار بیٹی کو علاج کے لئے لے رہا ہو میں کہتا ہوں کاروبار کو بہتر کرنا چاہتا ہے

  • 00:50:48 وہ کوئی پھٹی کھولنا چاہتا ہے کوئی دوکان کھولنا چاہتا ہے کوئی بھی کام کرنا چاہتا ہے ضرورت تھی تو ایا تھا نہ میرے پاس تو وہ اپنی ضرورت لے کے ایا قران مجید کہتا ہے یہ تبرک عمل تھا نیکی کا عمل تھا خیر کا عمل تھا تمہیں اس کا معاوضہ اس کا اجر اللہ سے لینا تھا یہ تو نیکی تمہیں کرنی چاہیے تھی اس پر تم کیسے ہی کہہ سکتے ہو تو کون زیر بحث ہے اللہ تعالی کی وعید کا مخاطب کون ہے دوزخ کی وعید کس کو دی گئی ہے دنیا میں فضل و بے حربے من اللہ اور رسول یہ کس کو کہا گیا ہے سود کھانے والوں کو سود لینے والوں کو سود کا مطالبہ کرنے والوں کو قران مجید نے کسی جگہ اشارہ تک نہیں کیا اس شخص کے بارے میں جو قرض لینے کے لیے جا رہا ہے اس کو اس کو سود دینا پڑ رہا ہے

  • 00:51:31 یہ موقع تھا نہ یہ بتا دیا جاتا کہ دیکھو ہم نے روک دیا ہے سود کھانا ممنوع قرار دے دیا ہے ان کے ساتھ تو ہم نمٹیں گے لیکن ائندہ کوئی جائیگا بھی نہیں

  • 00:51:41 ان کے بارے میں یہ بھی نہیں کہا کہ ائندہ نہیں جاؤ گے کوئی بات نہیں ہے قران مجید میں تو اس کو پہلے محکم جگہ پر رکھ لے یعنی طے کر لے کہ اللہ کی کتاب کس جگہ سے کسی چیز کی ممانعت کر رہی ہے

  • 00:51:55 اس کے بعد پھر روایات میں ہم جائیں گے روایات جتنی ہیں اگر وہ ایک ہے دو ہے 4 ہے تو لائیے پھر میں اپ کو ان اصولوں کو سامنے رکھ کر یہ سمجھاؤں گا کہ روایت کو سمجھا کیسے جاتا ہے اور یہ معاملہ صرف یہاں نہیں ہے ہمارے ہاں ہر جگہ یہی ہوا وہ ریبل فضل جس کا میں نے ابھی ذکر کیا اس میں کیا ہوا ہے قران مجید نے بتا دیا سود کیا ہے قران مجید نے اس کے حدود معین کر دیے سورہ بقرہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یعنی اگر کسی کو تعریف بھی متعین کرنی تھی تو یہاں سے متعین کر لیتا

  • 00:52:27 اول تو اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی اس لیے کہ یہ ایک عام معروف معلوم چیز تھی لیکن اگر یہی کرنا تھا تو یہاں سے کر لیتے

  • 00:52:35 ریبل فضل ایک نقش کا سود ہمارے روایتوں سے سمجھا گیا میں نے ان کا تجزیہ کرکے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ راویوں نے ایک روایت سے ایک جملے کو پکڑا اور ایک جگہ ڈال دیا دوسری جگہ سے پکڑا اور دوسری جگہ ڈال دیا دو الگ الگ باتیں بالکل بہتر بود ہو کر رہے یعنی ان کا مطلب ہی اب کسی کی سمجھ میں نہیں اتا

  • 00:52:56 تو روایت کو ہمیشہ اللہ کی کتاب کی روشنی میں سمجھا جائے گا اس بات پر بہت تفصیلی گفتگو کرتی ہیں کہ روایت ہے کیا

  • 00:53:04 یعنی اللہ کا پیغمبر یہ کتاب دے کے دنیا سے چلا گیا

  • 00:53:07 اللہ کے پیغمبر نے سنت قائم کر دی

  • 00:53:10 یعنی وہ اعمال جاری کر دیے جو ہمیں کرنے ہیں یہ دونوں چیزیں ہو گئی دین پایا تکمیل کو پہنچ گیا اعلان کر دیا گیا کہ یوم اکملت لکم دینکم اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی بات لوگ ا کے بیان کر رہے ہیں تو اس بات کو ہم دیکھیں گے کہ اس کی سند کیا ہے اس کے الفاظ کیا ہیں اس کا مدعا کیا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ دیکھیں گے کہ قران مجید کے اوپر کیسے مبنی ہوتی ہے قران نے جو بنیاد قائم کر دی ہے وہ کیسے اس کی تفہیم بنتی ہے کیسے طویل بنتی ہے ایک شرح کو اٹھا کر قران مجید پر حاکم کیسے کر دیا جائے گا یہ کیسے جسارت کی جائے گی کہ یہ کہا جائے کہ جس کے بارے میں قران نے ایک لفظ بھی نہیں کہا یہ دونوں یکساں جرم ہیں سود کھانا اور سود دینا دونوں یکساں جرم ہیں دونوں کے لیے دوزخ کی وعید ہے دونوں کے لئے فضل و حرم میں اللہ اور رسول ہے تو پھر مجھے قران میں دکھائیے قران کیوں خاموش رہا کیوں کوئی بات نہیں کی کیوں اس کے بارے میں کہا کہ وہ تو مظلوم ہے اس طرح کی کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں

  • 00:54:11 اب اپ اسکو لے کر روایتوں میں جائیں اس کو لے کر اپ اس مدہ کو سمجھیں وہ سب کچھ سمجھ میں اجائے گا لیکن جب تک اپ یہ ترتیب درست نہیں کریں گے دین کو سمجھنے کی وہی کچھ ہوگا جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے یعنی ہر چیز کو اس کی الگ جگہ پے رکھ کے ان کی باہمی حکمت کو واضح کیے بغیر اور قران اور حدیث کے ریلیشن کو سمجھے بغیر جب باتیں کی جائیں گی تو ایسے ہی کی جاۓ گی موڑ پر ہم اج ہمارا وقت کیوں ختم ہو رہا ہے معذرت ختم کرنا پڑے گا لیکن یہ بات کہ قران مجید کے اندر یہ چیز کہیں زیر بحث ہے کہ جو سود دیتے ہیں جو سود ادا کرتے ہیں وہ تو دو اور دو چار کی طرح اپنے قران سے واضح کر دیا سوال یہ ہے کہ اب اس روشنی میں جب ہم روایتوں پر غور کرتے ہیں تو اپ پھر ان روایتوں کی کیا توجیہ کرتے ہیں کہ جن میں واضح الفاظ میں لفظ اگیا ہے ممکن کا جو سود کھلاتے ہیں جو سود دیتے ہیں اس پر ہم ان شاء اللہ تفصیلی طور پر اگلی نشست میں اپ سے بات کریں گے اب تک اپ کے وقت بہت شکریہ

  • 00:55:14 [Unintelligible]

  • 00:55:15 [Unintelligible]

  • 00:55:19 [Unintelligible]

Video Transcripts In English

Video Summry

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 ابتداہیہ 0:13 سود سے متعلق نئی سلسلہ وار گفتگو کا تعارف 2:40 آپ کی نطر میں سود کی کیا تعریف ہے 13:07 سود کی کنزیوم ایبل اور نان کنزیوم ایبل کی تقسیم کیا آپ کی ہے 22:09 کیا سود کی یہ تقسیم آپ کا اپنا عقلی استنباط ہے ؟ 30:05 کیا سود کو بیان کرنے میں آپ میں اور علماء میں کوئی اختلاف نہیں؟ 32:12 کیا آپ کے نزدیک سود دینا جائز ہے

Video Transcripts In Urdu

Video Transcripts In English

Video Summary

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 ابتداہیہ 0:13 سود سے متعلق نئی سلسلہ وار گفتگو کا تعارف 2:40 آپ کی نطر میں سود کی کیا تعریف ہے 13:07 سود کی کنزیوم ایبل اور نان کنزیوم ایبل کی تقسیم کیا آپ کی ہے 22:09 کیا سود کی یہ تقسیم آپ کا اپنا عقلی استنباط ہے ؟ 30:05 کیا سود کو بیان کرنے میں آپ میں اور علماء میں کوئی اختلاف نہیں؟ 32:12 کیا آپ کے نزدیک سود دینا جائز ہے

▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 ابتداہیہ 0:13 سود سے متعلق نئی سلسلہ وار گفتگو کا تعارف 2:40 آپ کی نطر میں سود کی کیا تعریف ہے 13:07 سود کی کنزیوم ایبل اور نان کنزیوم ایبل کی تقسیم کیا آپ کی ہے 22:09 کیا سود کی یہ تقسیم آپ کا اپنا عقلی استنباط ہے ؟ 30:05 کیا سود کو بیان کرنے میں آپ میں اور علماء میں کوئی اختلاف نہیں؟ 32:12 کیا آپ کے نزدیک سود دینا جائز ہے

Related Videos
1
Response to 23 Questions - Part 19 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 19 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 18 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 18 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 17 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 17 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi