Response to 23 Questions - Part 21 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi

Search for your favourite word

Video Transcripts In Urdu

  • 00:00:00 بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مکتبہ غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید سلسلہ گفتگو اور 23 اعتراضات پر مشتمل ہے جو بالعموم غامدی صاحب کے افکار پر پیش کیے جاتے ہیں سود کا موضوع زیر بحث ہے اور سود کے حوالے سے یہ دوسری نشست ہے اگر اپ تمام اعتراضات کو ترتیب سے دیکھیں تو اس سلسلے کی 21ویں نشست ہے ان سب بہت شکریہ اپ کے وقت کا

  • 00:00:32 سود پے ہم نے اپ سے گفتگو کا اغاز کردیا تھا گزشتہ نشست میں خاتمہ کلام یہاں پہنچا تھا میرا یہ سوال کہ کیا قران مجید میں جو لوگ سود دیتے ہیں ان کے بارے میں جو اپ کی رائے ہے جس پر لوگ اعتراض کرتے ہیں ان کا کہیں بیان ایا ہے تو بہت تفصیل سے اپ نے قران مجید کے وہ تمام مقامات جہاں پر سود زیر بحث ہے پڑھ کے ان کی تنقید کی ان کو تفصیل سے بتایا کہ وہاں کہیں بھی سود دینے والے کی مذمت کے سود دینے والے کی شناختی حرمت زیر بحث نہیں ہے اپ نے بہت بار بار مجھ سے پوچھا تھا کہ یہ قران میں کوئی ایسی جگہ ہے کہ جہاں پے سود دینے والا زیر بحث ہو تو سچی بات یہ ہے کہ قران مجید کے الفاظ میں کوئی ایسا مقام تو نہیں مل سکا اور نہ ہی جو اپ پر نقد کرتے ہیں انہوں نے قران سے اس ضمن میں براہ راست کو استدلال پیش کیا وہ

  • 00:01:18 اگے بڑھتے ہیں ٹھیک ہوگیا کہ قران مجید میں کسی سود دینے والے کے بارے میں کوئی ذکر یا کوئی گفتگو نہیں ہے

  • 00:01:26 یہ بتائیے گا کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین کا تنہا ماخذ ہیں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ظاہری بات ہے جو قران و سنت میں دین بیان ہوا ہے اسی کی تفہیم و تبین ہے روایت کے اندر میرے سامنے ایک روایت موجود ہے یہ روایت عبداللہ بن مسعود سے بھی ہے جابر بن عبداللہ سے بھی ہے اسی طرح وہب بن وہب رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ہے بہت ساری حدیث کی کتابوں میں یہ روایت ائی ہے صریح الفاظ ہیں اگرچہ یہ واقعہ ایک ہی ہے جب میں نے اس کا استخار کیا ایک ہی واقعہ ہے جس کو مختلف صحابہ بیان کر رہے ہیں لیکن صریح الفاظ ہیں کہ اللہ کے رسول نے ان لوگوں پر جو سود کھاتے ہیں جو سود دیتے ہیں جو سود لکھتے ہیں اور جو اس معاملے کے گواہ ہوتے ہیں وہ سب برابر ہیں ان پر لعنت فرمائی ہے تو اس حدیث میں جب اتنی صراحت سے بات ا گئی تو پھر اپ سود دینے والے کے بارے میں اپ کی رائے تو غلط ہوجاتی ہے میں وہاں سے پھر بات شروع کروں گا کہ قران مجید کو ہم نے دیکھ لیا

  • 00:02:22 قران مجید کہاں اس سے بات کر رہا ہے کس اصول پر کر رہا ہے کس چیز کو ممنوع قرار دے رہا ہے کیوں ممنوع قرار دے رہا ہے اس کا ہمیں تفصیلی جائزہ لے لیا

  • 00:02:32 میں نے یہ بات بھی عرض کر دی کہ اپ قران مجید کے ان تینوں مقامات کو دیکھ لیجئے سورہ روم کو سورہ ال عمران کو جہاں بالجمال ذکر ہے اور پھر سورہ بقرہ کو جہاں تفصیل کے ساتھ قران نے اس کو موضوع بنایا ہے

  • 00:02:45 ہر جگہ یوں نہیں ہے کہ دینے والا زیر بحث نہیں دینے والا موجود ہے دینے والے کا تذکرہ ہو رہا ہے دینے والے کے بارے میں اللہ تعالی بات کر رہے ہیں لیکن نہ مذمت کا کوئی جملہ

  • 00:02:58 نہ کوئی تنبیہ

  • 00:02:59 نہ اس کو باز رہنے کے لئے کوئی تلقین اس کا کوئی شائبہ بھی اپ کو کہیں نظر نہیں اتا

  • 00:03:06 بلکہ اس کی ہمدردی کے کلمات

  • 00:03:08 یعنی یہ بات کہ اس پر ظلم ہوگا کہ اس میں قرض لیا تھا تو کوئی شخص اس قرض پر اس سے منفرد کا مطالبہ کرے لوگوں کو تلقین کے منفرد کا مطالبہ چھوڑ دو

  • 00:03:20 جو سود اس سے پہلے لے چکے لے چکے جو باقی رہ گیا ہے اس کا مطالبہ نہ کرو

  • 00:03:25 ان لوگوں کو اخری درجے کی تنبیہ جو سود لینے پر اصرار کر رہے تھے کہ باز نہیں اؤگے تمہارے خلاف کارروائی کی جائے گی یہ اللہ اور اللہ کے رسول کی حکومت ہے حکومت الہیہ ہے اس میں اگر اس طریقے سے تم سود لینے پر اصرار کرو گے تو یہ اللہ اور رسول کے خلاف

  • 00:03:43 لڑائی کرنے کے مترادف ہوگا لہذا تمہارے خلاف جنگی کارروائی ہو سکتی ہے یہ تمام باتیں ہم نے سمجھ لیں جان لیں اور اس میں کسی درجے میں بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہے نہ کسی عالم نے کبھی پیش کرنے کی جسارت کی ہے کہ قران کی فلاں ایت قران کا فلاں مقام اس چیز کی طرف بھی توجہ دلا رہا ہے کہ سود دینے والا مجرم ہے یا اس نے کسی کو نہ کا ارتکاب کیا ہے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی قران مجید کی حد تک اب حدیث پڑھائی

  • 00:04:12 بھائی عرض کرتا ہوں

  • 00:04:14 کہ حدیث کے پورے ذخیرے میں جب اپ دیکھتے ہیں کہ یہ ایک واقعہ بیان ہوا ہے میں نے جب یہ لکھا تھا اپنی کتاب مقامات میں کہ ایک حدیث سے البتہ لوگوں نے استدلال کیا ہے تو ایک حدیث کا مطلب کیا ہے ایک مضمون کی حدیث

  • 00:04:29 یہ تین چار شہباز ہے انہوں نے ایک ہی موقع پر رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کروائی کیا ہے یہ بات تو اپ مانتے ہیں نہ کہ اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے حدیث کے ذخیرے میں اگر حدیث کے ذخیرے میں کوئی اور چیز ہے تو ضرور سامنے لے ائیے

  • 00:04:45 حدیث کے ذخیرے میں یہی ایک موقع ہے جس میں اس موضوع پر گفتگو ہوئی ہے جس میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات کہی اس بات کو تین یا چار صحابہ نے اگے روایت کردیا ایک ہی موقع ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو کی ہے اس میں کچھ چیزیں سود لینے والوں کے علاوہ بھی موضوع بحث ہے

  • 00:05:09 کتنی بات واضح ہے

  • 00:05:11 لیکن جو بات اپ فرما رہے ہیں کہ اس میں سود دینے والے کے بارے میں کچھ کہا گیا ہے میں یہ کہتا ہوں یہاں بھی کچھ نہیں کہا گیا

  • 00:05:18 یعنی جس طرح سے قران مجید اس کے ذکر سے خالی ہے یہ حدیث بھی اس کے ذکر سے خالی ہے

  • 00:05:24 ہمارے یہاں بارہا ایسا ہوتا ہے کہ سوئے فہم کی وجہ سے ہم کسی چیز کو متعین کر لیتے ہیں اور پھر خیال کرتے ہیں کہ یہ تو وہاں لکھی ہوئی ہے

  • 00:05:34 اچھا قران مجید سے متعلق بھی اس طرح کی باتیں بعض اوقات ہو جاتی ہیں ان کی حقیقت بتانے کی ضرورت ہوتی ہے حدیثوں میں بھی ایسا ہوجاتا ہے

  • 00:05:43 تاہم حدیث پر گفتگو سے پہلے میں یہ عرض کردوں کہ حدیث کا مقام کیا ہوتا ہے یعنی جب قران مجید کسی چیز کو بیان کر دیتا ہے تو قران مجید نے جو فریم طے کر دیا ہوتا ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کبھی تجاوز نہیں فرماتے

  • 00:05:59 اس کے اندر گفتگو کرتے ہیں

  • 00:06:01 اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو کوئی سننے والا اس کو بیان کر دیتا ہے

  • 00:06:06 چنانچہ جو کچھ بھی روایتوں میں بیان ہوگا اس سے متعلق میں بڑی تفصیل سے گفتگو کر چکا ہوں اس سے پہلے اور اپنی کتابوں میں اس کو واضح کرچکا ہوں کہ وہ تفہیم و تمیم ہوگی وہ سیرت و سوانح ہوگی

  • 00:06:19 وہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا بیان ہوگا

  • 00:06:23 یہ سب چیزیں ہمیں حدیثوں سے ملتی

  • 00:06:26 یہ درحقیقت رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کا تاریخی ریکارڈ ہے یعنی نبی کی حیثیت سے اپ نے قران دیا نبی کی حیثیت سے اپ نے سنت دی وہ ہم تک پہنچ گئی لیکن اس کے ساتھ ظاہر ہے کہ اپ نے دین کے ایک جید عالم کی حیثیت سے پہلے عالم کی حیثیت سے جس کا بے خطا علم ہے جس کے علم کے پیچھے اللہ تعالی کی تائید و تسبیح ہے اس حیثیت سے کچھ گفتگو ہوتی ہے وہ گفتگو خطبات جمعہ میں کی ہیں لوگوں کے سوالوں کے جواب میں کی ہیں کوئی تنبیہ کرتے وقت کی ہیں کسی اطلاق کو واضح کرتے وقت کی ہے وہ گفتگو ہے جو ہمارے ہاں حدیث کی صورت میں پہنچتی ہیں یہ گویا ہمارے لئے وہ ذخیرہ ہے جس سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے قران مجید کے فہم میں یا سنت کے فہم میں لوگوں کی کیا رہنمائی فرمائی ہے یا اس پر عمل کا کیا نمونہ پیش کیا ہے تو جو حدیث اپ نے بیان فرمائی ہے میں اس کی تحلیل کرکے اپ کو بتاتا ہوں کہ اس میں بھی درحقیقت ایسا کوئی ذکر نہیں

  • 00:07:28 محض ایک غلط فہمی ہے جس کو لوگوں نے اصول ہی نہیں بلکہ ایک قطعی حکم بنا کے پیش کرنا شروع کر دیا

  • 00:07:37 اس کو دیکھ لیجئے یہ حدیث پوری کی پوری امام مسلم نے بیان کر دی جس طرح کے اپ نے ذکر کیا مختلف جگہوں پر بیان ہوئی ہے اور کہیں اس کا کوئی ایک ٹکڑا نقل ہو گیا ہے کہیں دوسرا ٹکڑا نقل ہو گیا ہے یہاں پوری ا گئی

  • 00:07:51 اور یہ دیکھیے کیا ہے یہی ہے لانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاقل ربا وبو کے

  • 00:08:01 کالا ہم سوا

  • 00:08:03 یہ اس کے الفاظ ہیں

  • 00:08:05 اب یہ دیکھیے کہ اس میں

  • 00:08:07 سود لینے والے کے علاوہ کچھ لوگوں کا ذکر ہوا ہے

  • 00:08:12 کیوں ذکر ہوا ہے ان

  • 00:08:14 اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپ یہ سمجھیں کہ سود کا کاروبار ہوتا کیسے

  • 00:08:19 دیکھیے ایک چیز یہ ہے کہ میرا ایک بھائی میرے پاس ایا اس نے اکر مجھ سے قرض مانگا ہم اس پے گفتگو کر چکے ہیں کہ اسلامی اخلاقیات میں قرض تبرک کا عمل ہے نیکی کا عمل ہے خیر کا عمل ہے اس پر منفرد کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا میرا بھائی میرے پاس ایا اس نے مطالبہ کیا اور میں نے اس سے کہا کہ میں تو اس کے اوپر خدا نخواستہ سوند دوں گا

  • 00:08:41 یہ ایک انفرادی معاملہ

  • 00:08:43 لیکن جس وقت سود ایک کاروبار کی صورت اختیار کرتا ہے جس کو اپ مہاجن کا کاروبار کہتے ہیں

  • 00:08:51 تو اس کے کچھ نوازے میں

  • 00:08:53 وہ جب بھی اختیار کرے گا یہ لازما ہوگا

  • 00:08:56 ایسا ہوتا تھا کہ بہت سے لوگ جن کے پاس وافر سرمایہ ہے

  • 00:09:00 وہ ساہوکار کی حیثیت سے اپنی دوکان کھول لیتے

  • 00:09:04 ٹیلون کا گویا سودی کاروبار کے لیے ایک مرکز قائم ہوگیا تھا ایک مرکز قائم ہو گیا اپ دور جدید میں بینک سے اس کو سمجھ سکتے

  • 00:09:17 یعنی بینک میں یوں نہیں ہوتا کہ کوئی ایک فرد ہے جس کے اپ گھر جاتے ہیں اور اس سے معاملہ کرکے اجاتے ہیں بینک ایک ادارہ ہے تو اسی طرح مہاجنی سود جب سوسائٹی میں رائج ہوا اور اس نے کاروبار کی صورت اختیار کی تو وہ بھی ایک ادارے کی صورت میں وجود پذیر ہوا

  • 00:09:35 اس ادارے کے میں نے عرض کیا کچھ نمازے میں

  • 00:09:37 وہ شخص جو سود کا کاروبار کرتا ہے وہ محض کسی

  • 00:09:42 قرض کے لیے انے والے کا انتظار نہیں کرے گا وہ تو چاہتا ہے کہ اس کے پاس روپیہ موجود ہے یہ روپیہ کاروبار میں لگے لوگ اس کے پاس ائیں

  • 00:09:52 دو باتوں کا فرق سمجھ لیجئے پہلے یعنی میرے پاس کچھ روپیہ ہے میرا کوئی کاروبار کرنے کا ارادہ نہیں میرے پاس میرا ایک بھائی ایا اس نے مجھ سے اکے قرض مانگا

  • 00:10:03 یہ انفرادی معاملہ ہے یہ تو ایسے ہی ہوگا کہ میں یا اس کو کرے ویسے دے دوں گا اور یا اگر میری بدقسمتی ہے تو میں اس سے مطالبہ کر ڈالوں گا کہ مجھے اپ اس کے اوپر منفرد دیں گے

  • 00:10:13 ظاہر ہے کہ اس کو بتا دیا گیا کہ یہ عمل جائز نہیں ہے

  • 00:10:17 لیکن جس وقت اپ اس کو باقاعدہ کاروبار کی حیثیت دیں گے تو اپ یوں نہیں ہے کہ کوئی ائے گا قرض لینے کے لئے تو بات ہوگی اب تو قرض لینے والے ڈھونڈنے

  • 00:10:28 تم کو تلاش کرنا ہے کہ وہ قرض لینے کے لئے ائے

  • 00:10:34 اس وقت اپ ایک کاروبار شروع کرتے ہیں تو کاروبار کے لئے سب سے پہلی چیز یہ ہوتی ہے کہ اپ کا گاہک انا چاہیے ایک مہاجر کے لئے قرض لینے والا اس کے اس عمل میں گاہک کی حیثیت رکھتا ہے

  • 00:10:48 وہ کسٹمر ہے

  • 00:10:50 تو اس کسٹمر کو تلاش کرنے کے لئے لوگ چاہیے ہوتے

  • 00:10:53 یعنی ایسے لوگ کہ جو لوگوں سے رابطہ کریں ضرورت مند لوگوں کو توجہ دلائیں ان سے کہیں کہ اپ کو بہت اچھی صورت میں یہ قرض مل سکتا ہے

  • 00:11:03 اس پر اتنی شرح ہوگی

  • 00:11:05 اس میں یہ سہولت ہوگی یہ سب کام کرینگے نہ

  • 00:11:08 اسی طریقے سے جس وقت اپ قرض دے دیں گے

  • 00:11:12 اپ قرض کی قسط وصول کرنی ہے

  • 00:11:15 اینی کچھ لوگ ہونگے کہ جو جا کے وصول کیا کریں

  • 00:11:20 کوئی ادمی جب قرض لیتا ہے اور مہاجنی قرض لیتا ہے تو وہ سود کی قسط ادا کرے گا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرض کی کو کس ادا کرے

  • 00:11:29 یعنی دونوں شکلیں ہو سکتی ہیں قرض ایک ہی وقت پر ادا کیا جائے گا یا یہ ہے کہ بال اقساط ادا کر دیا جائیگا

  • 00:11:37 لیکن سود تو اپ کو دینا ہے نہ بابا اپ کو سود دینا ہے

  • 00:11:42 ہفتہ وار سود بھی ہوتا تھا

  • 00:11:44 روز کیسے ہوتا تھا

  • 00:11:46 مہاجنی سود بعض اوقات

  • 00:11:48 اس قدر تلخ صورت اختیار کر لیتا تھا

  • 00:11:51 اس کے لئے میں نے عرض کیا کہ دونوں کام کرنے پڑتے تھے یعنی وہ لوگ ہوں اپ کے پاس اپ کے کارندوں کی صورت میں اپ کے کارکنوں کی صورت میں جو اپ کے لئے اسامی ڈھونڈے تو اسامی ڈھونڈنا ہوتا ہے

  • 00:12:05 یعنی کون ادمی ہے کہ جو اپ سے قرض لے گا کوئی بازار میں ہوگا کوئی غریب ادمی ہوگا کسی نے ریڑھی لگانی ہوگی کسی کی ذاتی ضرورت ہوگی کسی کی بیٹی کی شادی ہونی ہے تو ان لوگوں کو ڈھونڈنے کے لئے لوگ چاہیے ہوتے ہیں پھر ان سے بلک سات رز وصول کرنے کے لیے لوگ چاہیے ہوتے ہیں لوگ غریب بھی ہوتے ہیں امیر بھی ہوتے ہیں غربا بعض اوقات اقساط دینے میں بھی عاجزا جاتے ہیں

  • 00:12:31 ان کو کچھ ڈرانا دھمکانا بھی ہوتا ہے جا

  • 00:12:34 میں نے اس کاروبار کو اپنی انکھوں سے پنجاب کے بعض علاقوں میں بھی دیکھا

  • 00:12:40 اور شاعر اپ کو یاد ہو کہ جب ہم ملیشیا میں تھے تو جس علاقے میں ہمارا قیام تھا وہاں چینی لوگ یہ کاروبار بہت کرتے تھے

  • 00:12:49 یہ سب چیزیں ناگزیر ہیں یعنی یہ کاروبار اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا

  • 00:12:53 تو یہ جو اسامی تلاش کرنے والے لوگ ہیں یہ جو جا کے گاہک ڈھونڈنے والے لوگ ہیں اس کے بغیر مہاجرین کاروبار نہیں ہو

  • 00:13:01 پھر اس کے بعد وہ ادمی اپ کے پاس اگیا قرض لینے کے لئے

  • 00:13:06 تو اس کو ایک باقاعدہ دستاویز کی صورت دینی لکھا جائیگا نہ کہ اتنا قرض لیا اس کے لئے کوئی تحریر ہوگی

  • 00:13:14 وہ تحریر لکھنے والے لوگ بھی ہوں گے منشق ہیں ان کو منیم کہیں ان کو یہ مختلف اصطلاحات نہیں ہیں لکھنے والے لوگ چاہیے یہ ملازم ہوتے تھے ان کے

  • 00:13:24 اس وقت ڈھونڈیں گے اپ

  • 00:13:28 کیا دستاویز لکھنی ہے اس کی زبان کیا ہوگی کہاں سے بات شروع ہوگی کہاں تک جائے گی اسی طریقے سے ہر دستاویز کے لئے گواہ چاہیے ہوتے

  • 00:13:37 ورنہ دستاویز کاغذ کا پرزہ ہے

  • 00:13:39 اس کے لئے گواہ بھی چاہیے وہ گواہ بھی وہاں پے موجود ہوتے تھے

  • 00:13:43 اچھا ابھی پچھلے دنوں اپکو یاد ہوگا ہمیں ایک دستاویز لکھوی تھی ہم یہاں ایک وکیل کے پاس گئے

  • 00:13:51 اپ کے علم میں ہے کہ وہاں وکیل کے پاس وہ گواہ موجود تھے جو اب اس دستاویز کے گواہ اور وہ وکیل نے ارینج کیے ہوئے وکیل ہی کے پاس موجود

  • 00:14:01 اسی طرح سے اب اپ ا جائیے دورے جدید میں

  • 00:14:04 جب بینک کے ادارے میں یہ کاروبار شروع کیا ویسے تو اب بینک کا ادارہ بہت وسعت اختیار کر چکا ہے اس پر ہم الگ سے گفتگو کریں گے لیکن جب اس نے یہ کاروبار شروع کیا تو اپ دیکھیں یہ ساری چیزیں وہاں ہو

  • 00:14:16 کامیاب ترین بینکار وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو زیادہ سے زیادہ گاہک تلاش کرلیں

  • 00:14:22 سودی کاروبار میں کسٹمر یا گاہک کون ہے سود لینے والا

  • 00:14:27 وہ لوگوں کو تلاش کرتے ہیں ایک لطیفہ ہے اور وہ یہ ہے کہ عام طور پر اپ کسی کے پاس جائیں اور اپ جا کر کہیں کہ مجھے رز 10 قرض چاہیے تھا

  • 00:14:39 ایسی کیا بات

  • 00:14:40 اچھا اپ اس کے پاس جائیں اور جاگتے ہیں مجھے دس ہزار ڈالر کارز چاہیے تو ہر ایک بڑی رقم ہوگئی اب جب بڑی رقم ہو گئی تو وہ گریز کرے گا

  • 00:14:49 تو میں کیوں قرض دوں تو کسی نے لکھا تھا کہ ایک بینک کے منیجر کے پاس ایک ٹیلی فون ایا اور کسی صاحب نے کہا کہ مجھے دس ہزار ڈالر قرض چاہیے تو نے کہا ا جائیے گا کسی وقت دے دیں گے ہم اپ کو کسی دوسرے نے کہا تھا ان کا مجھے 10 ملین کرسچ چاہیے تو نے کہا میں گاڑی بھیج رہا ہوں ہمارا ہے اپ کے پاس اس لیے کہ وہ اپ کا گاہک ہے جتنا زیادہ قرض لے گا یا جتنے زیادہ لوگ قرض لیں گے اپ کا اتنا ہی کاروبار بڑھے گا اس مقصد کے لیے ہر مینیجر جو بینک کا ہے اس کی اصل کارکردگی کیا ہوتی ہے وہ کتنے بڑے پیمانے پر مارکیٹ سے گاہک تلاش کرتا ہے بینکوں کو تو اب ایک طرح کا سرکاری تحفظ حاصل ہے اور ان کے ہاں پولیس موجود ہوتی ہے ان کو اس کی ضرورت نہیں ہے وہ ظاہر ہے کہ عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں ان کو حکومتوں کا تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے مہاجر کو یہ تحفظ حاصل نہیں ہوتا

  • 00:15:41 تو اس وجہ سے یہ لوگ جو گاہک ڈھونڈتے تھے ان کے ساتھ باز اور لوگ بھی ہوتے تھے اور میں نے ملیشیا میں دیکھا کہ وہ باقاعدہ گنڈے قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو اپ کے گھر کے دروازے پر دستک دے سکیں اپ کو دھمکی دے سکیں اپ کو مجبور کردیں اپ کو یہ کہے کہ ایسا نہیں کرو گے تو ہم یہ کریں گے واقعات ہوتے تھے وہاں باقاعدہ پولیس میں رپورٹ ہوتے تھے جس میں بتایا جاتا ہے کسی کے گھر کے باہر گندگی پھینک دی کسی ادمی کو راستے میں تنگ کیا کسی کے بچے کو دھمکی دی یہ وہ لوگ تھے جو قرض ادا نہیں کر پاتے تھے پھر یاد ہوگا کہ خودکشی کے واقعات ہو جاتے تھے تو میں یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ یہ موجودہ بینکاری میں بھی یہ چیز موجود ہوتی ہے اچھا اسی طرح وہاں حملہ ہے جو باقاعدہ تحریر کرتا ہے

  • 00:16:24 وہ کیا کرتا ہے وہ کاغذات ہے بنے ہوئے ان پر اپ کے دستخط لے گا وہاں باقاعدہ اپ کوئی عہد نامہ کریں گے پھر وہ کاغذات اپ کو دیے جائیں گے ان کی نقول ان کے پاس موجود ہوں گی تو لکھنے والوں کا بھی یا یوں سمجھ لیجئے ریکارڈ رکھنے والوں کا بھی ایک پورا دستہ موجود ہے وہ حملہ بھی اپ کے لئے ناگزیر ہے اسی طریقے سے اس پر گواہ بنائے جائیں

  • 00:16:45 تو یہ جتنا بھی مہاجنی سود کا ادارہ ہے وہ یہ لازمی چیزیں رکھتا ہے

  • 00:16:52 اپ اس میں اپ غور کیجئے کہ کیا لوگ ہوئے یعنی وہ ادمی جو ساہو کار ہے جس کا سرمایہ ہے جس کا سرمایہ سود پر چلایا جارہا ہے ایک تو وہ ہو گیا یعنی موجودہ زمانے میں ظاہر ہے کہ بینک کے ذمہ دار وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے سرمائے پر بینک چل رہا ہوتا ہے

  • 00:17:09 تو وہاں کیا ہے وہاں مہاجر ہے ایک ہے دو ہیں جنہوں نے یہ کاروبار شروع کر رکھا ہوا ہے وہ لوگ ہیں یہ کون ہوئے سود کھانے والے

  • 00:17:18 اچھا وہ لوگ کہ جو اسامی ڈھونڈ رہے ہیں

  • 00:17:21 جو جاتے ہیں گاہک تلاش کرتے ہیں جو اس کے بعد کس نے وصول کرنے کے لئے جاتے ہیں یہ کون ہے سود کھلانے والے اب اس کے بعد جب سود کی دستاویز لکھنی ہے تو کون لوگ زیر بحث ائیں گے وہ جو لکھنے کا پن جانتے ہیں منشی ہے وہاں بیٹھے ہوئے ہیں ان کا کام یہی ہے موجودہ کے بارے میں تو اپ نے اس کی تحریریں باقاعدہ وضع کر لی ہیں وہ تحریر بھی کبھی اپ نے دیکھی ہوں گی یا بینک کے ساتھ کوئی معاملہ کریں 20 20 صفوں کے ہوتے ہیں یعنی وہ باقاعدہ قانونی چیزوں کا لحاظ رکھ کے تحریر منائی جاتی ہے اس نظام میں بھی یہ ضرورت ہے اس نظام میں بھی یہ ضرورت ہوتی تھی اسی طرح گواہ اس کے اوپر لائے جائیں گے اب جب اپ کاروبار کر رہے ہیں مہاجنی سود کا کاروبار کر رہے ہیں اس زمانے میں کر رہے ہیں جو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد سعادت ہے اور قران مجید نے یہ کہہ دیا کہ اس پر پابندی لگا دی گئی ہے تو مجھے یہ بتائیے کہ اس میں وہ لوگ کہ جو سود کا کاروبار کر رہے ہیں وہ لوگ جو ان کے لئے اسامی ڈھونڈ رہے ہیں وہ جو ان کے دفتروں میں بیٹھ کر دستاویزات لکھ رہے ہیں ان سب کو برابر قرار دیا جائے گا یا نہیں قرار دیا جائے تو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں یہ فرمایا ہے

  • 00:18:29 اس میں لفظ استعمال ہوا ہے ممکن

  • 00:18:32 سود کھلانے والا بجائے اس کے کہ سودی کاروبار مہاجر کے دفتر کو سمجھ کر یہ دیکھا جاتا کہ اس میں لوگ کیا ہیں بس سادگی سے یہ خیال کرلیا گیا کہ موکل کا مطلب ہے وہ ادمی جو قرض دینے کے لیے گیا وہ نہ اس کے ساتھ تعاون کر رہا ہے نہ اس کا مددگار ہے نہ اس کا کاروبار چلا رہا ہے وہ تو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے گیا ہے وہ ذاتی ضرورت بھی ہو سکتی ہے وہ کاروباری ضرورت بھی ہو سکتی ہے وہ قرض لینے گیا ہے وہ مہاجر کا ادمی نہیں ہے

  • 00:19:03 تو اس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ سب برابر ہے مہاجر کے ادمی کون سے ہے

  • 00:19:09 موجودہ زمانے میں سمجھ لیجئے یعنی بینکار نے جو بینک قائم کیا ہے اس کا عملہ کونسا ہے

  • 00:19:15 اسمبلی میں کوئی کیشیر ہوگا کوئی چیزوں کو لکھنے والا ہوگا کوئی اس کے لئے لوگ ڈھونڈنے والا ہوگا یہ 50 50 لوگوں کا عملہ موجود ہوتا ہے نا ایک بینک کو چلانے کے لئے ایک ایک برانچ میں تو اس وقت بھی مہاجن کا دفتر جو وجود میں اتا تھا اس میں جو عملہ ہوا کرتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پورے عمل کے بارے میں یہ بات بیان کی ہے اس لئے میں نے عرض کیا کہ 12 ایسا ہوتا ہے کہ سوئے فہم سے ہم ایک چیز کا اطلاق کر دیتے ہیں اور کال کرتے ہیں کہ یہ تو اللہ اور رسول نے فرمایا ہے تو میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ نہ قران مجید میں سود دینے والے کا کوئی ذکر ہے اور نہ حدیث میں سود دینے والے کا کوئی ذکر ہے ممکن کا نفس عثمانی میں استعمالی نہیں ہوا جس بارے میں لوگوں نے اس کو سمجھا ہے

  • 00:20:00 ورنہ مجھے یہ بتائیے کہ اگر ادمی یہ جانتا ہو کہ سود کیسے ہوتا ہے اس کا کاروبار کیسے بنتا ہے مہاجر کام کیسے کرتے ہیں تو وہ اس موکل کو تلاش نہیں کر سکتا کہ جو اسامی ڈھونڈنے کے لئے جا رہا ہے کون سا بینک ہے جو بینک مینیجر کے بغیر چلے گا جو اس حملے کے بغیر چلے گا کہ جو مارکیٹ میں لوگوں کو تلاش کرتا ہے کہ وہ بڑے بڑے لوگ یہاں اپنا اکاؤنٹ کھولیں

  • 00:20:25 اکاؤنٹ کھولنے کا عمل ہے جس کے بعد وہ کاروبار شروع ہوتا ہے تو یہی صورت حال معینی صورت

  • 00:20:32 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر کیا ہے اس لئے میں جس طرح اس سے پہلے یہ بات واضح کرچکا کہ قران مجید سود دینے والے کے ذکر سے خالی ہے اسی طرح اب یہ کہہ رہا ہوں کہ حدیث بھی سود دینے والے کے ذکر سے بالکل خالی ہے تفصیل سے اپ نے ماشاء اللہ یہ بتایا جو اپ کا نقطہ نظر ہے

  • 00:20:51 اور سمجھایا کہ سود کاہے جو کاروبار ہے یہ ہوتا کیسے اور روایت کے اندر جو بات زیر بحث ہے کچھ سنی سوالات میں مزید اپ کے سامنے رکھتا ہوں تو خلاصہ جو اپ کی گفتگو کا ہوا کہ یہ جو موکل کا لفظ ایا ہے جس کو عام طور پے جس کا بیان یہ کیا جاتا ہے کہ سود دینے والا اس سے مراد ہے اور سود لینے والے کو عاقل الربا کہہ دیا

  • 00:21:12 میں تھوڑی سی بہس لفظ کے لحاظ سے کرنا چاہتا ہوں اپ کا جو پورا پیراڈائم اور پوری جو اپ عام طور پر اپنی فکر پیش کرتے ہیں اس میں لفظ اور جملے کی تعریف اور یہ سب باتیں یہ جو لفظ ہے منہ کے یہ بنا کس مادے سے ہے اس کا معنی کیا ہوتا ہے اور یہاں پر اگر اس کا اس کی جو مراد اپ نے پورے پس منظر میں بتائی کہ جی وہ تو کاروبار کو سپورٹ کرنے والے وہ لوگ ہیں ایجنٹ ہیں جو اسانیاں لے کر ا رہے ہیں تو یہ دونوں معنی اس میں پائے جاتے تھے دینے والے کے لئے بھی استعمال ہو سکتا تھا ایجنٹ کے لئے بھی استعمال ہو سکتا تھا یہاں اپ نے ایک ماننے کو ترجیح دی ہے اور ترجیح کی وجہ لفظ یا کلام کے اندر کیا

  • 00:21:51 یعنی معنی کیا مصداق ہے

  • 00:21:53 یہ معنی تو ہے متلانے والا

  • 00:21:56 کھلانے والا کون ہوتا ہے مہاجنی کاروبار میں پھیلانے والے لوگ ہی وہی ہوتے ہیں وہ نہ ہو تو یہ کاروبار چل ہی نہیں سکتا

  • 00:22:03 اصل میں وہ ہے جو اسامی ڈھونڈ رہے ہیں

  • 00:22:05 نہیں میرے لیے جو گاہک ڈھونڈ کے لائے گا وہ میری دکان چلانے والا ہے

  • 00:22:10 ایک گاہک میری دکان چلانے والا ہے

  • 00:22:13 میری دکان کا کاروبار جو لوگ چلا رہے ہیں وہ گاہک تلاش کرنے والے لوگ ہیں میرا حساب رکھنے والے لوگ ہیں وہ میرے ساتھی ہیں یعنی یہ سود کھانے والے کے ساتھی ہیں جو زیر بحث ہیں

  • 00:22:26 کاتب کون ہے وہ جو اس کے یہاں بیٹھا ہوا لکھ رہا ہے

  • 00:22:31 شاہد کون ہے اپ حدیث کے الفاظ پڑھ لیجئے نا کیا ہیں الفاظ فرمائے لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی کس پر عاقلہ

  • 00:22:44 رباب کھانے والے پر سود کھانے والے پر منہ کے نہ ہوں اور کھلانے والے پر وکاتبہ اور لکھنے والے پر شاہد ہے اور اس کے دونوں گواہوں پر کالا وہم سوا یہ سب کے سب

  • 00:22:59 سود خار کے ساتھی

  • 00:23:00 سب کے سب اس کے ہاں کام کرنے والے سب کے سب اس کے دست و بازو ہیں سب کے سب اس کے معاونین

  • 00:23:07 میں نے مثال دے کے اپ کو بتایا ہے کہ جس طریقے سے بینک کا عملہ ہے اسی طریقے سے مہاجنی سود کے لیے بھی یہ حملہ ناگزیر ہوتا ہے اس میں وہ بوکل ہے

  • 00:23:17 چلانے والا جو الفاظ ہیں وہ دینے والے کے تو حدیث میں ہے ہی نہیں پھیلانے والے کھلانے والے کے الفاظ ہیں یہ اب ہمیں طے کرنا ہے اپنی بصیرت سے اپنے فہم سے اپنے تجربے سے حالات میں دیکھ کر کہ کھلانے والا کون ہوگا

  • 00:23:34 یہ سادگی ہے کہ اپ نے کھلانے والا سود دینے والے کو سمجھ نہیں ہے وہ سود کھلانے والے وہ لوگ ہیں جو اس کاروبار کو چلا رہے ہیں وہ گاہک ڈھونڈ کے لاتے ہیں اور پھر وہ سود کی رقم جمع کرتے ہیں معمہ وہی جاکے اسامیوں سے وصول کرتے ہیں

  • 00:23:49 یہ کاروبار چلتا ہی ہے ان کے بلبوتے پر ہے میں نے پہلے مثال دی اپ کو کہ انفرادی طور پر میں نے کسی کو قرض دے دیا اور خدانخواستہ اپنی بدقسمتی سے اس سے سود کا مطالبہ کر دیا یہ انفرادی معاملات ہیں

  • 00:24:01 لیکن عرب میں کیا صورتحال یہی تھی رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی لوگوں کو روکا تھا قران مجید میں کیا کسی انفرادی طور پر کام کرنے والے کو کہا تھا کہ فضل و عرب میں من اللہ و رسول

  • 00:24:13 اللہ اور رسول کی طرف سے جنگ کا چیلنج قبول کرو یہ الٹی میٹم کن لوگوں کو دیا گیا تھا ان لوگوں کو دیا گیا تھا جن کی طرف سے شدید مزاحمت کا اندیشہ تھا جن کا کاروبار بن چکا ہوا تھا

  • 00:24:25 اور مہاجنی سود کا کاروبار ہر ادمی جس نے معیشت کو کچھ سمجھا ہے وہ جانتا ہے کہ دنیا میں ہمیشہ موجود رہا ہے یہ عرب میں بھی موجود تھا میں نے اپ کو مثال دی کہ اس وقت بھی چینیوں کے ہاں یہ کاروبار اخری انتہا پر ہوتا ہے وہ اس کاروبار کو اپنے کلچر کا حصہ سمجھتے ہیں ہم جہاں رہتے تھے وہاں گردوپیش میں اس کے بہت سے دفاتر موجود ہے ان دفاتر میں کام کرنے والے لوگ اصل میں کس کے معاونین ہیں کس کے دست و بازو ہیں

  • 00:24:56 کس کا کاروبار چلا رہے ہیں سود کھانے والے کا کاروبار چلا رہے ہیں

  • 00:25:00 تو اکے ربا کون ہے سود کھانے والا کون ہے

  • 00:25:05 کھلانے والا کون ہے وہ لوگ جو اسامی ڈھونڈتے ہیں وہ جو جا کے اس کا سود وصول کرتے ہیں یہ درحقیقت وہ دفتر میں بیٹھا ہوا ہے اور سود کو

  • 00:25:16 لالہ کب سے کھلارے اور اس کے کاتب یعنی جو لکھنے والے ہیں اور وہ جو اس پر گواہی دینے والے ہیں تو یہ درحقیقت وہ عملہ ہے میں نے اپ سے عرض کیا کہ یہ سادگی تھی کہ اس کا مصداق

  • 00:25:29 سود دینے والوں کو سمجھ لیا تو اس لئے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے اگر اپ سودی کاروبار کو سمجھتے ہیں تو میری بات بھی اپ کی سمجھ میں اجائے گی ایک اور پھر یہ ذہن میں رکھیے کہ کسی روایت کو سمجھتے وقت سب سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ اگر سود دینے والے کا کوئی قصور ہوتا

  • 00:25:47 تو قران مجید اشارہ تو کرتا

  • 00:25:50 ذکر تو کرتا

  • 00:25:52 کوئی دو لفظ تو کہتا اچھا کچھ بھی نہ کہتا اس کو روک ہی دیتا کہ ائندہ تم سود نہیں دیا کرو گے

  • 00:25:59 کہاں کہیں قران مجید میں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سارا معاملہ کس کا زیر بحث ہے سود کھانے والے

  • 00:26:06 عاقل اور ربا ابا کے معاونین کو ایسے ہی ایسے چور کے معاملے میں ہوتے

  • 00:26:11 اگر چوری ایک جرم ہے تو کوئی ادمی اگر چور کے لئے سیڑھی اپنے کندھے پر اٹھا کے لانے جا رہا ہے کہ اس نے جہاں نقب لگانی ہے میں وہاں سے بھی لگا دوں گا اور کوئی ادمی اگر ہاتھ میں لالٹین اور دیا پکڑے ہوئے ہیں یا ٹارچ پکڑے ہوئے اور وہ کہتا ہے کہ میں روشنی دکھا دوں گا یہ سارے چور کے معاونین

  • 00:26:28 یہاں حدیث میں جو لوگ زیر بحث ہیں وہ سود کھانے والے کے معاونین ہیں اور قران مجید میں اس اصول کو بیان کیا ہے کہ اس موضو عدوان میں تعاون کرنے والا مجرم ہے

  • 00:26:40 اسمو زبان میں تعاون کرنے والا تعاون کرنے والا کون ہوتا ہے جو اس غلط کام کا دست و بازو بنتا ہے

  • 00:26:48 جو اس کا حصہ بنتا ہے جو اس کا حصہ بن کے اس سے کچھ مفادات حاصل کرتا ہے

  • 00:26:53 تو ظاہر ہے کہ یہ چیز ہے جس کے لئے لفظ معاون کا اطلاق ہونا چاہیے قران مجید میں اس حدیث کی بنیاد موجود ہے

  • 00:27:01 اور یہ بالکل ایک عقلی بات

  • 00:27:03 یعنی کسی جگہ بھی کوئی کاروبار ہے مثال کے طور پر ایک ادمی شراب کا کارخانہ لگاتا ہے تو جو ادمی اس کے لئے خام مال ڈھونڈ کے لاتا ہے جو ادمی وہاں پے جا کے کچھ کام کرتا ہے شراب کشید کرنے میں کوئی مدد کرتا ہے سارے مجرم ہوں گے یہ دنیا کی ہر جگہ کے اوپر ایک ہی اصول ہے تو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نئی بات نہیں فرمائی بلکہ وہ عقلی اصول ہے جس کو بیان کر دیا ہے کہ جب ہم سود کو ممنوع قرار دے رہے ہیں تو سود کے دفاتر بند ہونے چاہیے اور وہ لوگ جو سودی کاروبار میں معاون بن رہے ہیں ان کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ان پر خدا کی لعنت اور یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ کون لوگ ہیں وہ سارے اپنے گنوا دی اب اپ بتائیں کیا باقی رہ گئے اس وقت کی جدید بینکاری میں بھی اگر اپ غور کریں تو اپ انہی تینوں عنوانات کے تحت بینک کے پورے عملے کو بیان کر سکتے ہیں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ اپ نے خود فرمایا کہ وہ تو جوان قلم مجھ کو جامع ترین بات کہنے کی صلاحیت دی گئی

  • 00:28:03 اب ذرا تھوڑی دیر کے لئے دیکھیے جیسے میں دیکھتا ہوں اس معاملے کو کہ سودی کاروبار ممنوع قرار دے دیا گیا وہ اؤٹ لا ہے

  • 00:28:10 سودی کاروبار کے بارے میں قران مجید نے کہہ دیا کہ مظلومہ بقیہ منترا کوئی اب سود کا مطالبہ نہیں کرے گا یہ بتا دیا کہ اگر لوگوں نے سرکشی دکھائی مقابلے میں کھڑے ہونے کی کوشش کی تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اس وقت ظاہر ہے کہ اگر کوئی جتھا بنا کے سامنے اجائے گا تو اس کے خلاف جنگی کارروائی کرنا یہ صورتحال جب سورہ بقرہ میں سامنے اگئی تو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی اور وضاحت فرمائی تو گویا سارے کے سارے مہاجر کے دفتر کے لوگوں کے بارے میں یہ بتایا کہ ان سوا یہ سب کے سب برابر ہے

  • 00:28:48 کیونکہ یہ تو اصل میں اس دفتر کو چلانے کا باعث ہے یہ اس کاروبار کے زندہ رہنے کا باعث ہے ان کے بغیر کاروبار چل ہی نہیں سکتا

  • 00:28:56 ضرورت مند ہو یہ تو بالکل اسی طرح کی بات ہے کہ اچھی بات ہے کہ جس گھر میں چوری کی جائے گی اس کو مجرم قرار دے دیا جائے گا جس کے ساتھ ملاوٹ کی جائے گی وہ لینے کے بغیر

  • 00:29:06 یہ سوچنے کا کیا طریقہ ہے تو تعاون کون کر رہا ہے تعاون وہ کاتب کر رہا ہے جو وہاں بیٹھا ہوا دستاویز لکھ رہا ہے جس طرح کے اج وہ بینک میں بیٹھا ہوا ہے تعاون وہ لوگ کر رہے ہیں کہ جو گاہک تلاش کر رہے ہیں وہ لوگ کر رہے ہیں کہ جو مہینے کے مہینے لوگوں کے پاس سے سود کی رقم وصول کر کے لاتے ہیں اور دیکھیے کیا خوبصورت تعبیر رسالت ماب نے اختیار کی منہ کے لاؤ

  • 00:29:28 یعنی وہ کھا رہا ہے بیٹھا ہوا مہاجر اور یہ کھلانے کا کام

  • 00:29:33 یہ درحقیقت حدیث کا مطلب ہے اور یہ قران مجید کی اس ایت پر مبنی ہے کہ تعاون والو تقوی

  • 00:29:44 نیکی اور تقوی کے کام میں تعاون کیا جاتا ہے برائی اور زیادتی کے کام میں حق تلفی اور جان مال ابرو کے خلاف دادی کے کاموں میں تعاون نہیں کیا جاتا

  • 00:29:54 تو یہ تو ایک ایسا اصول ہے جو قران لفظوں میں بیان کر دیا اور یہ بالکل عقلی اصول ہے ہر جگہ اس کا اخلاق ہوگا اپ کہیں کوئی کاروبار کریں تو اس کاروبار میں جو لوگ شریک ہوں گے اگر کسی جگہ اپ نے کارخانہ لگایا وہاں ملاوٹ ہو رہی ہے تو کیا کارخانے کا مالک ہی مجرم ہے

  • 00:30:11 وہ لوگ جن کو پتہ ہے کہ ہم ملاوٹ کر رہے ہیں جن کو معلوم ہے وہ کام کر رہے ہیں جو اس کا مینیجر ہے جو وہاں پر کام کرنے والے کارکن ہیں سارے مجرم ہوں گے نہ

  • 00:30:21 اچھا اب اپ فرما رہے ہیں کہ نہیں جو ادمی وہ خریدنے جا رہا تھا وہ بھی مجرم ہے

  • 00:30:26 اے وہ تو خریدار کے چرا وہ لینے کے لیے گیا تھا

  • 00:30:30 اس نے تو کوئی غلط کام نہیں کیا تو سود پر قرض لینے کے لئے جو ادمی گیا وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے گیا وہ کہاں سے پاگل ہوگیا اگر اپ اس کو سود کے بغیر قرض دیتے تو وہ پھر بھی اپنا یہ اداکارہ تعاون پیش کر دیتا

  • 00:30:43 یار کیا کر لوگوں کو ان کی ضروریات کے لئے قرض ویسے مل جائے تو کیا اپ کا خیال ہے کہ وہ جائیں گے پھر اس کے بعد

  • 00:30:50 ہوگیا اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے از راہ کرم اس کو ہدف نہ بنائیے ہدف وہ لوگ ہیں کہ جو اس کاروبار کو چلا رہے ہیں اور وہ ادمی ہے کہ جو سود کھا رہا ہے تو یہ ہے اس حدیث کا صحیح مفہوم اچھا اپ کے پورے تصور پر ایک منطقی اشکال اور مغالطہ میرے نظر سے گزرا جو ایک ناقد نے رکھا وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کاروبار کی صورت میں یہ کام نہیں کر رہا انفرادی طور پر کر رہا ہے مثلا اپ اور میں کر رہے ہیں تو اس صورت میں گناہ ہمارا کو کاتب ہے نہ شاہد ہے نہ کوئی ایجنٹ ہے جو اپ کو لے کر ا رہا ہے تو اس صورت میں پھر ممکل کون ہوگا

  • 00:31:31 جہاں وہ ہونگے تو بتا دیا گیا مثلا میں نے اپنے گھر میں انفرادی طور پر شراب کشید کرنے کا کام شروع کر دیا تو اب بھی حملہ لانا ضروری کارخانہ بناؤں گا شراب کشید کرنے کا وہاں کارکن موجود ہوں گے

  • 00:31:47 میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ہوں اور میں نے ایک چھوٹی سی چکی لگا رکھی ہوئی ہے میں وہاں مرچیں پیسہ ہوں اور اس میں تھوڑی بجری بھی ملا دیتا ہوں

  • 00:31:55 تو اب یہاں کہاں زیر بحث اگئے میرے معاونین جب میں اس کو ایک باقاعدہ کاروبار بناؤں گا میں 10 لوگوں کو بھرتی کروں گا نہ کسی ادمی کو مینیجر لگاؤں گا جو میرے اس کاروبار کو چلائے گا تو اب وہ سارے کے سارے ہیں جو اس حدیث کا مصداق ہوں گے کہ ہم صبا

  • 00:32:10 ذہنی طور پر یہ سمجھ لیجئے کہ جب بھی کوئی گناہ کا جب بھی کوئی جرم کا ارتکاب ہوتا ہے اور اس جرم کو اپ ایک باقاعدہ کاروبار بناتے ہیں جیسا بنا لیا اپ نے

  • 00:32:21 اپ نے ڈاکے ڈالنے کیلئے دیکھا دی

  • 00:32:24 اپ نے ملاوٹ کرنے کے لئے کوئی گروہ ترتیب دے دیا تو اب یہ سارے کے سارے ہم سوال کا مصداق ہونے چاہیے نا یہ بالکل عقلی بات ہے جو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے سمجھ میں اتی ہے یہ بات اور یہی حدیث میں بیان ہوئی ہے تو گویا حدیث قران مجید کے بیان کردہ فریم سے ادنی درجے میں کوئی تجاوز نہیں کر رہی

  • 00:32:43 وہ بالکل درست طریقے سے یہ بیان کر رہی ہے کہ جب اللہ تعالی نے اس بات سے روک دیا ہے کہ سود کھانا ایک جرم ہے اور بڑا گناہ ہے اور لوگ اس سے اجتناب کریں اور بچ جائیں اور ائندہ کسی نے یہ جسارت دی تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی تو اب ظاہر ہے کہ سود کا کاروبار کرنے والے نے جو کارخانہ قائم کر رکھا ہے جو دفتر بنا رکھا ہے مہاجر نے جو حملہ بھرتی کر رکھا ہے

  • 00:33:06 وہ بالکل ٹھیک بات سمجھ میں اتی

  • 00:33:09 یہ حدیث قران مجید ہی کے مدعا کو اگے واضح کر رہی ہے اسی کا اطلاق بیان کر رہی ہے دنیا بھر میں اس کو ایک صداقت کے طور پر مانا جائے جہاں کہیں بھی کسی برائی کو اپ ایک کاروبار بنائیں گے جرم کو اپ باقاعدہ منظم کریں گے وہاں اپ کے معاونین اس میں شریک ہوں گے

  • 00:33:25 تم مظاہرہ کے اوپر بیٹھا ہوا سر ہم تو ایک ہی ہوگا دو ہوں گے 4 ہوں گے لیکن باقی لوگ جو عملے میں کام کر رہے ہوتے ہیں یہ وہ زیر بحث

  • 00:33:33 ٹھیک اس میں جو لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں وہ کیوں دے رہے بحث اگئے تو یہ بالکل سادگی تھی کہ جس میں موکل کا ترجمہ یا کردیا گیا کہ کھلانے والا تو اچھا کھلانے والا وہ ہے جو سود دیتا ہے کھلانے والے وہ ہیں جو گاہک ڈھونڈ کے لاتے ہیں

  • 00:33:47 جو سود کو وصول کرتے

  • 00:33:49 یو اسامیوں کے پاس سے جا کر ماما لا کے سود اپنے مالک کو دیتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں ان کو حدیث میں موکل

  • 00:33:57 اخری سوال ہم سب سے روایت کے بارے میں ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب کسی شخص کی کوئی ضرورت ہوتی ہے اس کو کہیں سے قرض ملتا ہے اور اس کو کوئی تسلی ہو جاتی ہے پیسہ مل گیا اگرچہ وہ سود پہ کیوں نہ ہو تو اس کے پاس اگر کوئی اتا ہے پوچھتا ہے کہ جی تو وہ بھی تو کبھی کبھی ریفر کرتا ہے کہ میں نے فلاں سے قرض لیا تھا تم بھی لینا چاہو تو اس صورت میں

  • 00:34:20 تو پھر تو یقینا اس کے حملے کا ادمی ہو گیا وہ تو بتا رہا ہے کہ میں جیسا مجبور ہوں تم بھی ویسے ہی مجبور ہو اچھا تمہیں بھی بیٹی کی شادی کرنی تھی تمہارے کاروبار میں بھی سرمائے کی ضرورت ہے مجھے وہاں سے مل گیا تھا تم بھی وہاں سے جا کے لے لو

  • 00:34:34 اس کو کس اصول پر اپ مجرم قرار دے سکتے ہیں

  • 00:34:37 میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ نہ قران اس کو مجرم قرار دیتا ہے نہ حدیث اس کو مجرم قرار دیتی ہے یہ محض سورۃ فہم ہے اس سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہے ممکن کے لفظ کا مصداق غلط طے کر لیا گیا ہے یہ سمجھنے کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی کہ مہاجنی کاروبار میں اگر کاتب ایک شخص ہے اور شاہدہ ہے یعنی دو گواہ ہونا ضروری ہیں تو اس سے کہیں زیادہ ضروری وہ عملہ ہے کہ جو اسانیاں تلاش کرے گا یہ سود وصول کرے گا بہت تفصیل سے اج ہمارے جو گفتگو ہے اس میں یہ روایت زیر بحث ہے جو سود کے حوالے سے ایک بنیادی اعتراض اپ کی گفتگو اور اپ کے افکار و لکھی ہوئی چیزوں پہ کیے جاتے ہیں کہ سود دینے والا جو شخص ہے اس کے بارے میں جو روایت میں بات زیر ویسا ہی ہے اس کو اپنے واضح کیا سود کے حوالے سے گفتگو بھی جاری ہے بہت تفصیل سے ہم نے قران مجید اور حدیث کو زیر بحث لائے ہیں بینکنگ کے حوالے سے کیا اپ کی رائے ہے نیشنل سیونگ موڈ گیج اس طرح سے پرائز بانڈ اور باقی سارے موضوعات انشاءاللہ اگلی نشست میں زیر بحث لائیں گے اب تک اپ کے اپ کا بہت

  • 00:35:37 [Unintelligible]

  • 00:35:39 [Unintelligible]

  • 00:35:40 [Unintelligible]

  • 00:35:43 [Unintelligible]

Video Transcripts In English

Video Summry

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 0:00 : ابتدائیہ 0:52 : آپ کو بینکنگ کو تجاویز دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی 33:47 : مذہب میں علماء کا حدود کا تحفظ کرنے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں

Video Transcripts In Urdu

Video Transcripts In English

Video Summary

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 0:00 : ابتدائیہ 0:52 : آپ کو بینکنگ کو تجاویز دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی 33:47 : مذہب میں علماء کا حدود کا تحفظ کرنے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں

▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 0:00 : ابتدائیہ 0:52 : آپ کو بینکنگ کو تجاویز دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی 33:47 : مذہب میں علماء کا حدود کا تحفظ کرنے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں

Related Videos
1
Response to 23 Questions - Part 20 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 20 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 19 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 19 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 18 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 18 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi