Response to 23 Questions - Part 22 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi

Search for your favourite word

Video Transcripts In Urdu

  • 00:00:00 بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مکتبہ غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید سلسلہ گفتگو 29 اعتراضات پر مشتمل ہے تو غامدی صاحب کے افکار پر بالعموم پیش کیے جاتے ہیں اس سلسلے کی یہ بائیسویں نشست ہے اور سود کا موضوع زیر بحث ہے سود کے موضوع پر یہ 30 نشستہ اس میں ہم غامدی صاحب سے ان کے سود کے حوالے سے جو اعتراضات ان کی فکر پے کیے جاتے ہیں اس پر سمجھ رہے ہیں وضاحت لے رہے ہیں بہت شکریہ اپ کے وقت کا

  • 00:00:26 تیسری نشستہ سوت کے اوپر دو نشستوں میں بہت تفصیل سے قران مجید اور حدیث کے اندر جو کچھ سود کے حوالے سے چیز بیان ہوئی ہے اور جو لوگ اپ پر اعتراض کرتے ہیں بہت تفصیل سے اپ نے اس کی وضاحت کی سلسلہ گفتگو کو اگے بڑھاتے ہیں ایک اور اعتراض جو بلعم سود کے حوالے سے جو اپ کا نقطہ نظر اس پر کیا جاتا ہے وہ بینک کے حوالے سے ہے میں چاہوں گا ذرا گفتگو کو بالکل ابتداء سے اٹھائیں اور یہ سمجھیں کہ یہ جو سورۃ پیش ائی اپ نے ارٹیکل بھی لکھا اپنی کتاب مقامات میں سود کا مسئلہ اس میں بینکوں کو کچھ تجاویز دیں یہ پیدا کیوں ہوئی کیا وجہ پیدا ہوئی بینکوں سے کیا مناسبت ہے میں یس کرنا چاہوں گا کہ جو تنقیدات میں نے دیکھے ہیں اس زمن میں بینک کے ضمن میں اس کو یہاں سے جوڑا جاتا ہے کہ بینک جو ہے وہ مغربی جو نظام معیشت ہے اس کی یہ غمازی کرتا ہے اور یہ جو لوگ متجددین ہیں یا نہیں نہیں باتیں کرتے ہیں وہ اصل میں اسی نظام کو دوام بخشنے کے لئے دین کی کچھ دلائل دے کر ان کو جسٹیفائی کرتے ہیں تو یہ بتائیے گا کہ بینک کی نوعیت میں کیا فرق واقع ہو گیا جو اپ کو مضمون لکھ کے ان کو چند تدابیر یا اصلاحات کی تجویز دینی پڑی

  • 00:01:40 اس گفتگو کو ایک رفتہ نظام سے واضح کردیں

  • 00:01:44 ہم نے یہ بات بہت اچھی طرح سے سمجھ لی کہ اللہ تعالی نے کیا چیز ممنوع قرار دی ہے ہم نے یہ بات بھی سمجھ لی کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذیل میں جو کچھ فرمایا ہے اس کا صحیح مفہوم کیا ہے اس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو کر سامنے اگئی کہ قرض پر منفرد کا مطالبہ دینی اخلاقیات پر قابل قبول نہیں ہے

  • 00:02:08 کیوں قابل قبول نہیں ہے اس کا استدلال واضح کر دیا

  • 00:02:12 اس میں جس بنیادی چیز کو میں نے نمایاں کرنے کی کوشش کی وہ یہ تھی کہ قرض ایک تبرع کا معاملہ ہے یہ نیکی کا معاملہ ہے یہ خیر کا معاملہ ہے وہ اخلاقیات جو میرے دین میں میرے پروردگار نے متعین کیے ہیں اس میں قرض سے متعلق یہ تصور کرنا کہ اس پر کوئی منفق لی جائے گی یہ اخری درجے کی قابل مذمت چیز یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اپ انفاق سے منفرد کا تقاضہ کریں یا انفاق کرے اور اس کے ساتھ احسان جتائیں یا دل ازاری کرے جس طرح وہ چیزیں انفاق کو برباد کر دیتی ہیں اسی طرح سے قرض کے ساتھ منفرد یا قرض کو کاروبار بنانا اس کا کوئی تصور اسلامی اخلاقیات میں نہیں ہے یہ بنیادی بات اگر واضح ہوگئی تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت

  • 00:02:59 مہاجنی سود تو بہت کم رہ گیا یا اگر کہیں ہے تو اس کو بلغم ٹھیک نہیں سمجھا جاتا

  • 00:03:06 ہم نے جن ملکوں میں اس کو دیکھا وہاں پر بھی اس پے بہت سی پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور ان لوگوں کے بارے میں بھی ایک عمومی نفرت موجود ہے جو مہاجنی سود کا کاروبار کرتے ہیں

  • 00:03:17 لیکن اس دنیا میں بینک کا ایک ادارہ صدیوں سے وجود میں ا چکا ہے جو بینک کا ادارہ ہے اس وقت ہماری معیشت اگر اپ یہ کہے کہ دو ستونوں پر کھڑی ہے

  • 00:03:31 تو غلط نہیں ہوگا

  • 00:03:33 ہماری معیشت سے مراد ہے عالمی معیشت

  • 00:03:35 اسی طرح ہماری قومی معیشت وہ دو ستون کیا ہے ایک بینک کا ادارہ دوسرے انشورنس کا ادارہ ان پر کھڑی ہے

  • 00:03:44 اس میں اب ظاہر بات ہے کہ دو اپروچز ہو سکتی ہیں ایک اپروچ یہ ہے کہ اپ اس کو رد کر لیں

  • 00:03:50 اور یہ کہیں کہ یہ ادارہ ہماری ضرورت ہی نہیں

  • 00:03:53 دوسری صورت یہ ہے کہ اپ اس کا جائزہ لیں

  • 00:03:57 یہ دونوں اپروچز اگر اپ غور کریں تو ہمارے ہاں موجود نہیں

  • 00:04:01 چنانچہ

  • 00:04:02 میں کیا کہہ رہا ہوں یا مجھے کیا کہنا ہے اس پر تو بعد میں ائیں گے کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ اس بینک کے ادارے سے متعلق تجاویز کی ابتداء ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب یہاں سے ہوئی

  • 00:04:14 بہت سے لوگوں نے عالم مغرب میں اس پر لکھا بہت سے مصر کے علماء نے اس کے بارے میں اپنی اراء دی میں نے اپنے اس مضمون میں ذکر کیا ہے کہ اپنی کتاب فکر اسلامی میں مولانا وحید الدین خان صاحب جیسے داعی کو بھی اس پر رائے دینا پڑے وجہ کیا ہے اس لئے کہ یہ ادارہ ہماری زندگی سے اس حد تک رب تو نظام پیدا کرچکا ہوا ہے کہ ہر شخص اس کے ساتھ متعلق

  • 00:04:41 یعنی ہماری تعلیمی درسگاہ ہے اس سے متعلق ہمارے مدرسے ان سے متعلق ہمارے علماء ان سے متعلق کیسے اس لئے کہ ہر ادمی نے اکاؤنٹ کھولا ہوا ہے

  • 00:04:50 ہر ادمی اپنا روپیہ بینک کے حوالے کرتا ہے

  • 00:04:53 اپ کسی مدرسے میں چلے جائیں وہاں پر بھی جواب دراز کھولیں گے اور وہ پرانی طرز کے دراز کھولیں گے جس میں اپ دو زانو بیٹھے ہوتے ہیں تو اس میں سے بھی چیک بک برامد ہو جائے گی ہو سکتا ہے ایک دو نہیں

  • 00:05:07 اج سات برابر ہوجا

  • 00:05:09 بڑے سے بڑے کسی صاحب علم کے حامی اگر چار پیسے موجود ہیں تو اس نے بینک کی میں رکھے ہوئے ہیں اس سے مستثنیات بھی ہونگی لیکن میں عمومی بات کر رہا ہوں اب یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ اس طریقے سے بینک ہماری زندگی میں داخل ہوگیا ہے تو اس کا جائزہ لیں گے میں نے اپ سے عرض کیا کہ اس کا جائزہ لینے کا عمل تو اس کی گیٹ سری سے ہو رہا ہے

  • 00:05:31 عالم اسلام کی بات کر رہا ہوں ڈیٹ سنی سے ہو رہا ہے اس میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اس کے جواز پر اسکے عرب میں جواز پر بہت باتیں کی گئی ہیں

  • 00:05:40 خود ہمارے یہاں دیکھیے کہ اسلامک بینکنگ

  • 00:05:43 اس کا مطلب پیار مطلب یہ ہے کہ ادارے کو تسلیم کر لیجئے

  • 00:05:47 اس کی ضرورت مان لی گئی

  • 00:05:49 اپ جانتے ہیں کہ اس پر بڑا قیمتی کام کیا ہے مولانا تقی عثمانی صاحب

  • 00:05:55 اس کام کی کیا نوعیت ہے اس سے اختلاف اتفاق ایک الگ چیز ہے

  • 00:06:00 اس کے مقابل میں بھی ہمارے علماء نے یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ اس میں تو اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ ایک چیز ہے جو بالکل غلط ہے

  • 00:06:10 اسلامی نقطہ نظر سے سود ہے لیکن اس کو حیلوں کے ذریعے اس جائز کر لیا گیا شکی ہیرو کے ذریعے سے

  • 00:06:17 یہ معلوم ہے کہ یہ تبصرہ خود اسی مدرسہ فکر کے علماء نے کیا اس پر کتابیں لکھیں

  • 00:06:24 ان میں سے کوئی چیز نہیں ہے اس میں کو موبائل کا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس درجے میں یہ ادارہ قابل اعتماد ہے

  • 00:06:32 اس کو سمجھا جائے گا اس پر غور کیا جائیگا اس کو دیکھا جائے گا کس کو سمجھنے کی ضرورت اس لئے پیش اتی ہے

  • 00:06:40 کہ یہ ادارہ اپنے پہلے دن سے

  • 00:06:43 کریز ہی کو کاروبار بنائے ہوئے ادارہ جب سے وجود میں ایا ہے اس کی پوری تاریخ کو اپ پڑھ لیں جس وقت ساہو کاروں نے رسیدیں جاری کیے ہیں اور اس ادارے کی پناہ ہونا شروع ہوئی ہے اس وقت سے ہی ایسے ہی یہی ادارہ ہے کہ جس نے ابتدا میں کرنسی نوٹ جاری کی ہے

  • 00:07:02 یہی ادارہ ہے کہ جو اس وقت اپ کے تمام کاروباری معاملات کی نگرانی ایک طرح سے کر رہا ہے

  • 00:07:09 یہی ادارہ ہے کہ جو اپ کو ڈیبٹ کا کریڈٹ کارڈ دے دیتا ہے اور اپ اپنی جیب میں ڈال کر نکل کھڑے ہوتے ہیں اور اپ کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی کہ اپ ایک تھیلی لیں اور اس میں بہت سے روپے ڈالیں یا بہت سے ڈالر ڈالیں یا بہت سی کو اور کرنسی ڈالیں پھر اس کو اپ اپنے الارم کے ساتھ باندھ لیں اور سفر کو نکلیں نہیں ضرورت ہوتی

  • 00:07:32 تو یہ اس وجہ سے ناگزیر ہے کہ اس کا جائزہ لیا جائے

  • 00:07:35 میں نے عرض کیا کہ کوئی ایک ادمی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کو اٹھا کر پھینک دے میرا نقطہ نظر یہ نہیں ہے میرے نزدیک جو ادارے پیدا ہوتے ہیں جو سماجی علوم ڈویلپ ہوتے ہیں جو تحقیقات ہوتی ہیں کسی علم میں یہ انسانیت کی میراث

  • 00:07:50 میں ان کو مغرب اور مشرق میں نہیں مانتا

  • 00:07:54 یعنی اس کا ہم جائزہ لیں گے دیکھیں گے کہ وہ ہمارے فریم میں اتی ہے اور ہر لحاظ سے لیں گے

  • 00:08:00 ارے ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں اس سے جزوی اختلافات ہوتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اس کو بحیثیت مجموعی غلط قرار دے دیتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی بنیادی اصول سے متصادم ہوتے ہیں

  • 00:08:12 تو یہ معاملات سماجیات میں بھی ہوں گے گمراہ نیات میں بھی ہوں گے یہ معیشت میں بھی ہوں گے یہ سیاست میں بھی ہوں گے یہ سیاسی ادارے جو اپ کے ہاں بنے ہیں وہ سب مغرب میں بنے

  • 00:08:23 اس وقت جو اپ استراحات استعمال کر رہے ہیں پورے عالم اسلام میں یہ صدر ہے یہ وزیراعظم ہے یہ اس طرح ہاتھ بھی مغربی اصطلاحات جو پارلیمنٹ اب بنا رہے ہیں وہ بھی مغرب بھی سے ہم تک اس صورت میں پہنچی ہے جس میں ہم اس کو اختیار کیے ہوئے ہیں ہمارے ہاں جو دساتیر لکھے جاتے ہیں ائین بنائے جاتے ہیں ان کا بھی اگر جائزہ لیں تو اس طرح ہے اس کو انسانیت کے سفر کے طور پر دیکھنا چاہیے یہ سفر میں ہم ہمارا بھی ہم مسلمانوں کا بھی ایک مقام رہا ہم نے بھی صدیوں اس سفر میں اپنا کنٹریبیوشن کیا ہے

  • 00:08:57 یہ معلوم ہے کہ اس سے مغرب میں فائدہ اٹھایا اب مغرب میں پچھلے تین چار صدیوں میں جو کچھ کیا ہے اس سے بھی پوری انسانیت فائدہ اٹھائے گی اور فائدہ اٹھانے کا طریقہ کیا ہوتا ہے اپ کا اپنا فریم کیا ہے اپ کے اپنے ہاں کیا چیزیں جائز اور کیا ناجائز ہیں کن چیزوں کو اپ نے دینی لحاظ سے متعین کر دیا گیا ہے اپ ان فور کارنرز کو سامنے رکھ کر کسی چیز کا جائزہ لیتے ہیں یہ جائزہ اپ نے الات کا بھی لیا ہے ان لائن مکمل سوت جس کو اپلوڈ اسپیکر کہتے ہیں اس پر جو فتوے دیے گئے ان کو پڑھ لیں اسی طرح سے کیمرہ ایا اس پر جو فتوے ہوئے ٹیلی ویژن ایا اس کے بارے میں جو کچھ کہا گیا یہ سب چیزیں ایسے ہی زیر بحث ائے گی لیکن یہ ہماری زندگی میں داخل ہوچکی ہے ان کو نکال کے پھینک دینا ہے یعنی بینک پر تالے لگا دینے ہیں ٹیلی ویژن کو بند کر دینا ہے کیمرے توڑ کر بھیرا ارب میں پھینک دینے ہیں ہوسکتا ہے

  • 00:09:55 جو لوگ یہ نقطہ نظر رکھتے ہیں لیکن میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ انسانیت کا سفر ہے اور یہاں ہر چیز شیطنت نہیں ہوتی

  • 00:10:06 اس کو دیکھنا چاہیے اس کے اندر اتر کرکے وہ کیا کھایا ہے اس میں کوئی تبدیلی ارہی ہے کیا تغریب ارہا ہے اب اگر بالکل کلاسیکی طریقے سے اپ دیکھیں تو بینک کا ادارہ اصل میں کیا ہے سود کا کاروبار کرنے والا ادارہ لیتا ہے یعنی جو ہمارے ڈپازٹس ہوتے ہیں وہ ڈپازٹس اور یہ دیکھیے اس کا بھی جائزہ لے

  • 00:10:27 یہ بجائے خود ڈیپازٹس کو وجود پلیر کرنا معیشت کی کتنی بڑی خدمت بن جاتی ہے

  • 00:10:33 میرے پاس رز 10 پڑے ہوئے ہیں اپ کے پاس لاکھ روپیے پڑا ہوا ہے کسی اور کے پاس 2 کروڑ روپے پڑے ہوئے ہیں یہ میدان میں کیسے ائے

  • 00:10:42 یہ اپ کی تجوری سے نکل کر باہر کیسے پہنچے ان کی تنظیم کس طریقے سے ہو سوسائٹی میں بڑے پروجیکٹس کے لئے یہ سرمایہ کیسے پڑی چیز بن جائے یہ خدمت میں بینک کی انجام دے رہا ہے تو اپ کے ڈیپازٹ سے اس کے پاس جب چلے جاتے ہیں تو پھر اس کے بعد انہوں نے کاروبار کرنا ہے ان کی بنیاد پر وہ کاروبار بینک کیا کرتا ہے وہ یہی کرتا ہے کہ وہ اگر اپ کو 1% اس کے اوپر دے رہا ہوتا ہے تو چار پانچ 10 فیصد کے اوپر وہ اگے قرض دے رہا ہو

  • 00:11:12 کرن دے رہا ہوتا اگر اپ بینک کی دست ویزا اپ دیکھیں گے تو وہ اس کو لون کہتے ہیں یہ امن منی لنڈن کہلاتا ہے

  • 00:11:21 اب اگر اس زاویے سے اپ دیکھیں گے تو اس کے بارے میں جواز پر گفتگو نہیں کی جا

  • 00:11:26 طبیعت تو دن نمازیں کر دیے ختم ہوگیا گفتگو بھی نہیں کی جاسکتی اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بھی اس ساری بحث سے یہ جانا کہ سود کھانا ممنوع ہے اس پر اللہ تعالی نے حرمت کی مہر لگا دی یہ بتا دیا ہے کہ میں اور شراب کے معاملات بالکل جائز ہے لیکن اس معاملے کے بارے میں اللہ تعالی کا فتوی یہی ہے کہ اس کے قریب نہیں جائیں گے یہ بتا دیا ہے کہ تم اصل زر کا مطالبہ کر سکتے ہو لیکن غزل عمر بقیہ

  • 00:11:54 اس میں میں پہلے عرض کر چکا ہوں کوئی اختلاف نہیں ہے

  • 00:11:57 قران مجید کس انڈر اسٹینڈنگ میں بھی میرے نزدیک ہم سب متفق ہیں

  • 00:12:02 اور میں نے اس کی وجہ بیان کی ہے کہ ہماری ایک اخلاقیات ہے ہمارے دین کی بنیاد اس پر رکھی گئی ہے ہمارے ہاں اگر اپ چیریٹی کریں گے تو اس کے بھی کچھ اداب ہیں

  • 00:12:13 قرض دیں گے تو اس کے بارے میں بھی ایک قانون وہ قانون اخلاق کی اصولوں پر مبنی ہے وہ عالمگیر صداقتوں پر مبنی ہے قرض دے اور قرض پر منفت کا مطالبہ کریں کیونکہ قرض کو اسلامی اخلاقیات تبرع اور نیکی سے الگ کر کے دیکھنے کے لئے تیار نہیں تو فتوی لگ جائیگا اپ یہ کہیں کہ یہ بالکل ناجائز ہے بالکل حرام ہے اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے اب دیکھیں کن کن چیزوں پر فتوی لگ جائے گا ظاہر ہے کہ جو بینک کو چلا رہے ہیں اور چونکہ سودی کاروبار کر رہے ہیں وہ بھی غلط ہوا جو لوگ اس میں اپنے ڈیپازٹ پیش کر رہے ہیں

  • 00:12:48 سب سے بڑا تعاون وہ کر رہا ہے اس لیے کہ اس کے بغیر بینک چلی نہیں سکتا ہے وہ بھی

  • 00:12:55 تو بھی اکاؤنٹ اپ کھولیں گے اس لیے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں اپ یہ لازم تو نہیں کرتے نا کہ میرے روپے کو استعمال نہیں کیا جائیگا

  • 00:13:01 وہ بھی استعمال ہوگا بینک تو صرف وعدہ کر رہا ہے کہ جب اپ طلب کریں گے تو اپ کو دے دیا جائے گا

  • 00:13:07 یہ بھی تعاون ہوگا اسی طرح سے بینکوں میں لوگوں نے ملازمتیں کی ہر جگہ کر رہے ہیں بڑی بڑی ملازمتیں کر رہے ہیں اپ جانتے ہیں کہ غیر معمولی طور پر جن لوگوں کو اللہ تعالی نے دوسرے فنون و علوم میں شہرت دی وہی بینک سے وابستہ رہے ہمارے مشتاق احمد یوسفی صاحب بینک سے وابستہ تو بہت لوگ اس میں خدمات بھی انجام دیتے ظاہر ہے اس کے اوپر بھی حرمت کا فتوی دیں گے تو اگر اپ اس زاویے سے دیکھیں کہ ایک ادارہ ہے جو کاروبار کی حیثیت سے قرض دیتا ہے یعنی اس نے دوسرے لفظوں میں کہیے تو قرض دینے کو کاروبار بنا دیا ہے تو قرض دینا اور قرض کو کاروبار بنانا اسی کو تو اللہ تعالی نے روکا ہے کسی کو دین گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں اسی منفعت پر یہ کہا گیا ہے کہ فضل الرحمان بقیہ اس زاویے سے دیکھے تو معاملہ ختم ہوگئے کوئی بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے فتوی دے اور گھر واپس جائیں اپ ایک دوسرا پہلو ہے وہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا یہ ادارہ صدیوں کے تعمل کے نتیجے میں اب بھی بحث قرض دینے کا ادارہ ہے

  • 00:14:09 میں جب بھی سزا دیے سے اس کو دیکھتا ہوں اور بہت سے دوسرے اہل علم بھی دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں

  • 00:14:16 یعنی اس ادارے نے محض قرض دینے کے ادارے سے اگے بڑھ کر یا قرض کا کاروبار کرنے والے ادارے سے اگے بڑھ کر سوسائٹی کی بہت سی خدمات کرنا شروع کر دی اس کا کنٹریبیوشن بالکل اور ہو چکا ہوا ہے

  • 00:14:32 یہ معیشت میں یہ قوموں کی معیشت کے باہمی تعمل میں غیر معمولی کردار ادا کر رہا ہے اور ان میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جو قابل تحسین

  • 00:14:44 دن پر اپ اعتراض نہیں کر سکتے جو اپ کے عمومی نظم کا حصہ بن گئی ہوئی ہیں

  • 00:14:50 میں نے یوں نہیں ہے کہ ایک جگہ پے ایک سونگ کر بیٹھا ہوا ہے اس نے کچھ ملازمین رکھے ہوئے ہیں اور بس اس کے بعد سود کا کاروبار کر رہے ہیں

  • 00:14:58 اتنا سادہ معاملہ اگر ہوتا تو کب کے ہم بھی حکم لگا کے فارغ ہوگئے ہوتے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیا اپ نے اسی ابتدائی سورۃ پر قائم ہے یا اس میں کچھ تبدیلیاں اگئی ہیں کچھ تغیرات اگئے ہیں یہ اس طرح نہیں رہا جیسے اپنی پیدائش نے کی تھی

  • 00:15:16 ابھی ہم جب دیکھیں گے تو میرے نزدیک اپ بھی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ایسا ہی ہوا ہے

  • 00:15:22 یعنی یہ قرض محض نہیں

  • 00:15:24 یا محض قرض کا کاروبار کرنے والا ادارہ نہیں اسی پہلو کو دیکھ لیجئے کہ اپ کی بہت سی جو بچتیں ہیں ان کو ایک جگہ جمع کرلینا

  • 00:15:34 ان کی حفاظت کا بندوبست کرنا اپ کو اطمینان دلا دینا کہ اپ اسکول کی نیند سوئیں جاگ

  • 00:15:40 جس وقت کا بینک میں اکاؤنٹ کھولتے ہیں اور روپیہ بینک کے حوالے کر دیتے ہیں تو عالمی سطح پر نگاہ ڈال کے دیکھیں ذرا میں نے اسی لئے کہا کہ مدرسے بھی اپنا اکاؤنٹ کھولنا ہے علماء بھی اپنا اکاؤنٹ کھول رہے ہیں پروفیسر بھی اتنا اکاؤنٹ کھول رہے ہیں بڑے بڑے مذہبی لوگ بھی اپنا اکاؤنٹ کھول رہے ہیں مستثنیات زیر بحث نہیں ہیں عمومی طور پر اس کے ساتھ معاملہ کر رہے ہو

  • 00:16:03 یہ معمولی خدمت نہیں

  • 00:16:06 یعنی ایک ادارہ اپ کو یہ سہولت فراہم کر رہا ہے کہ 10 کروڑ روپیہ بھی ہے تو اب دے دیں

  • 00:16:12 اور اطمینان کے ساتھ رہے اپ کے روپے کو قومی سطح پر ایک تحفظ حاصل ہے اس کے پیچھے اپ کی حکومتیں بھی کھڑی

  • 00:16:20 میں نے اپ کو بتایا کہ بہت بعد میں ریاست کی سطح پر کرنسی نوٹ جاری کرنے کا معاملہ شروع ہوا پہلے بینک کی جاری کرتے تھے

  • 00:16:29 اپ امریکہ میں اس کی تاریخ پڑھ لیں اب یو کے میں اس کی تعریف پڑھ لیں اور دوسری جگہ پر دیکھ لیں تو اپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اسی طریقے سے ہوا اس کرنسی کو بھی اس طریقے سے اعتبار بخشنے کا کام اسی ادارے نے کیا وہ کرنسی جو سب سے پہلے اپ کے لئے سہولت کا ذریعہ بنے

  • 00:16:46 یعنی ورنہ ورنہ کیا ہوتا اپ سونے کے درہم دینار چاندی کے وہ جیب میں ڈال کے لے جاتے ہیں

  • 00:16:52 اچھا اس وقت دیکھیے اپ کوئی کاروبار کرتے ہیں دنیا بھر میں اپ کاروبار کر رہے ہیں بینک اپ کی رقم کی منتقلی اپ کی ضمانتیں یہ سب چیزیں فراہم کر رہا ہوتا ہے میں اور شرح اور کاروبار کو ناجائز کام تو نہیں بہت بڑے پیمانے پر کر رہا ہوتا ہے میں اپ جو عام لوگ ہیں کاروبار بھی نہیں کرتے وہ سفر کر رہے ہوتے ہیں

  • 00:17:14 اس وقت دیکھیے کیا سہولت حاصل

  • 00:17:16 اپ 10 میرا ڈالے اور نکل کھڑے ہیں جو کارڈ اپ کی جیب میں ہے ان کی بنیاد پر اپ ہر جگہ خریداری کر سکتے ہیں

  • 00:17:23 یہ خدمت بھی کون انجام دے رہا ہے بینک انجام دے رہا ہے بینکوں کے باہمی رابطے نے اس کو ایک ایسے نیٹ ورک کی صورت دے دی ہے کہ اگر اپ غور کریں تو یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ اپ کا اکاؤنٹ یس بینک میں بھی ہو

  • 00:17:37 وہ بینک ضروری نہیں ہے کہ اپ امریکہ ہیں تو پاکستان کا بینک یہاں بھی ہو

  • 00:17:42 نہیں وہ اتنا بڑا نیٹ ورک ہے کہ یہاں کے بینک ادائیگی کر رہے ہیں اور اپ کا بینک ان کو ادائیگی کر رہا ہے

  • 00:17:48 اسی طرح ہے نہ تو یہ کتنی بڑی سہولت اس میں کاروباری لحاظ سے دیکھیے عام ادمی کے لحاظ سے دیکھیے اسی طرح اپ کے ڈیپازٹس کے لحاظ سے دیکھیے ڈیپازٹس کے ذریعے سے جو تنظیمیں زر ہوتی ہے

  • 00:18:02 اچھا پھر ایک تخلیق زر کا عمل بھی کرتا ہے بینک

  • 00:18:07 اس طرح میں نے عرض کیا نہ کہ جو کرنسی ہے اس کے پیچھے ایک ضمانت کے ساتھ ہی اگے بڑھ گیا اب اس کی نوعیت بہت کچھ تبدیل ہو چکی ہوئی ہے لیکن ماضی میں اس طرح ہی تھا تو وہ کام بھی انہوں نے کیا تخلیق ضرب بھی تنظیم میں ضرب بھی اپ کی اس طرح کی امانتوں کی حفاظت بھی ان کے بارے میں یہ اعتماد بھی سفر پے یہ سہولتیں بھی کاروبار کرنے کے لئے مواقع بھی ان تمام قسم کی ادائیگیاں جتنی ہیں وہ یہی بینک کر رہا ہوتا

  • 00:18:34 تو اس طریقے سے گویا معیشت کے پورے امن میں ایک بنیادی ادارے کی حیثیت اس کو حاصل ہوتی ہے یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کیں یہ سب کی سب اگر اپ غور کر کے دیکھیں مشکل جائز چیز ہے ان کی بینک فیس لیتا ہے یعنی ایسا نہیں کہ یہ کام مفت کرتا ہے لیکن جو فیس وہ لیتا ہے وہ اگر اپ سہولت کے لحاظ سے طے کریں بڑی کم محسوس ہوتی

  • 00:18:59 سہولت معمولی نہیں ہے کہ اس کے ذریعہ سے حاصل ہوجاتی ہے اچھا اس کے بعد اب اگے بڑھیے اور یہ دیکھیے کہ یہ ساری سہولتیں جو اپ کو حاصل ہو رہی ہیں وہ جس کاروبار کے بل بوتے پر ہیں برانچ قائم ہوگی حملہ موجود ہوگا لوگ خدمت کرنے کے لئے موجود ہوں گے ایک نظام یا ایک نیٹ ورک پیدا ہوگا تبھی ملینگے وہ سارا کا سارا جو ہے وہ روپے پر چل رہا ہے

  • 00:19:22 اسو پے نے اپنے اپ کو بڑھانا ہے

  • 00:19:25 اس کے لیے جو بینک طریقے اختیار کرتا ہے ظاہر ہے اس میں جو چھوٹی چیزیں ہیں بہت سی نئی چیزیں بھی اب داخل ہو رہی ہیں بنیادی چیزوں کو ہم لے لیتے ہیں بنیادی چیزیں تین ہی

  • 00:19:37 جس وقت کوئی بڑے کاروبار ہوتے ہیں تو وہ کاروباروں کو فنانس کرتا ہے ان کے لئے سرمایہ فراہم کرتا

  • 00:19:44 ایک بڑا کام بینک کا ہی ہوتا

  • 00:19:46 دوسرا وہ ہے جس کو اب اپ مارگیج کہتے ہیں اس میں کیا ہے اس میں اپ کو اشیاء فراہم کی جاتی ہیں

  • 00:19:53 اپ کے لئے کار اپ کے لئے موٹر سائیکل اپ کے لئے مکان

  • 00:19:58 مارٹگیج کی جتنے طریقے ہیں وہ سب اختیار کرکے بینک آف کو یہ سہولت دے رہا ہے کہ اپ اس میں ملک سات ادائیگی کر دیتے ہیں بعض اوقات تیس تیس سال 10 سال 9 سال 8 سال 5 سال یعنی اس میں ایک چیز کی ادائیگی ہو جاتی ہے گھر اپ کو مل جاتا ہے گاڑی اپ کو مل جاتی ہے دوسرا بڑا کام جو ہے وہ یے تیسرا وہ ہے جس کو اپ کریڈٹ کارڈ کہتے ہیں یعنی اس میں اپ کو گویا چھوٹے عرصے کے لئے تھوڑی مدت کے لیے قرض مل جاتا ہے اپ نے خریداری کی اور خریداری کرنے کے بعد ایک مدت کے اندر مہینہ ہوتی ہے بعض بینکوں کی طرف سے دو یا تین مہینے بھی ہوتی ہے اس میں اپ نے واپس کر دیا بہت اچھی بات ہے اگر نہیں کیا تو پھر اس پر ظاہر ہے کہ بینک اپ کو مکلف ٹھہراتا ہے کچھ ادا کر دے گا

  • 00:20:42 یہ بڑے تو معاملات ہیں تین

  • 00:20:45 ان سب تینوں معاملات میں ایک اپروچ اگر اپ دیکھیں تو وہ لفظی اپروچ

  • 00:20:52 جانی سب کو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو لون ہے سب کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ قرض ہے میں نے پہلے عرض کیا کہ جب اپ ادھر سے جائینگے تو بس حکم لگائیں گے واپس ا جائیں گے

  • 00:21:02 میں نے اس کے اوپر جو تبصرہ کیا ہے اپنی کتاب مقامات میں وہ یہ ہے کہ سارے عمل میں اب محض قرض کی صورت کو تبدیل کرلیا بڑی حد تک دیکھیے پھر میں لفظ کیا بول رہا ہوں محض قرض

  • 00:21:16 یعنی قرض ہی ہے

  • 00:21:18 لفظ میں بھی کر رہی ہے

  • 00:21:20 ذہن میں بھی کرنسی ہے لون یا منی لینڈنگ ہی اس کے لئے الفاظ یا تعبیریں اختیار کی جاتی ہیں لیکن یہ سارا عمل جو ہے یہ اس سے اوپر اٹھا ہے

  • 00:21:30 اور وہ اوپر اٹھنے کے بعد کیا صورتیں اختیار کر گیانی وہ کیا تبدیلیاں ہیں جو اس میں اگئی ہیں حقیقت کے اعتبار سے کیا چیزیں ہیں کہ جو تبدیل ہوگئی

  • 00:21:41 دو طریقے ہوتے ہیں نہ اپ ایک لفظ استعمال کرنے کے عادی ہیں ایک عمل کی پیدا وہیں سے ہوئی ہے اپ بتدریج ایک لمبے عمل سے گزر رہے ہیں اور جو تغیرات تبدیلیاں کرتے چلے جارہے ہیں اس سے کچھ صورت بدلنا شروع ہوگئی

  • 00:21:57 تو ان میں سے ایک ایک کو دیکھیے اس کی نوعیت کیا بن گئی

  • 00:22:01 سب سے پہلے کریڈٹ کارڈ سے شروع کر لی یعنی کریڈٹ کارڈ میں ایک مدت ایسی اپ کے پاس موجود ہے جس میں بینک ایک پائی بھی اپ سے نہیں لی

  • 00:22:11 [Unintelligible]

  • 00:22:12 پہلے تو یہ ہے نہ کہ ایک مدت گزرنے کے بعد وہ اپ سے مطالبہ شروع کر دیتا ہے لیکن ایک مدت ایسی ہے مہینہ ہے دو مہینے کئی لوگ ہیں کہ جو یہ نہیں چاہتے کہ وہ سود دیں تو وہ یہ اہتمام کرتے ہیں کہ کریڈٹ کارڈ کو استعمال کریں گے اور مقررہ مدت کے اندر نہیں کردیں

  • 00:22:29 اپ کیا ہوا یہاں پے یعنی کیا مہاجن بی یے کرنے کے لیے تیار تھا وہ تو دن دن کا سوٹ لیتا تھا

  • 00:22:36 اب پہلے مہینے کے لئے یا 2 ماہ کے لئے یا تین ماہ کے لئے یہ عمل بالکل جائز عمل ہو گیا

  • 00:22:44 اس کے بعد پھر وہی صورتحال اس کو ذرا یہیں رکھئے

  • 00:22:48 اس کے بعد مارگیج پر ائی

  • 00:22:50 بہت گیج کے اندر اتر کرا اگر اپ دیکھیں

  • 00:22:53 [Unintelligible]

  • 00:22:54 وہ کیا مجرد کرز ہے

  • 00:22:57 مجرد کر محض قرض جب میں بولتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے پیسے دے دیں اپ یعنی میں نے اپ کے یہاں کا اپ سے جاکر کہا کہ مجھے کاروبار کرنا ہے یہ میں نے یہ کہا کہ مجھے کوئی بیٹی کی شادی کرنی ہے یا مجھے بچے کو تعلیم دلانی ہے کوئی ضرورت میں نے بیان کی اور یہ کہا کہ مجھے قرض دے دیجئے اپ نے قرض دے دیا

  • 00:23:16 نہیں ننگی نہیں کر رہا

  • 00:23:17 وہ کیا کر رہا ہے وہ شرح کا عمل شروع کر چکا اپنی حقیقت کے اعتبار سے اپنی حقیقت کے اعتبار سے یعنی وہ ایک مکان خریدتا ہے وہ ایک گاڑی خریدتا ہے اور خرید کر اپ کو بھیج دیتا ہے اس کو پوری ادائیگی کر کے پھر اپ کے ساتھ معاملہ شروع کر دیتا ہے وہ بینک نے خرید لی

  • 00:23:42 اب اسی چیز کو اپ ذرا پہلے زاویے سے دیکھیے کہ بینک میں اپ کو قرض دیا 5 لاکھ سات لاکھ اور اپ نے گاڑی خریدی

  • 00:23:50 دیکھ سکتے ہیں نہ مزاحیہ معاملے کو دیکھیے دوسرے زاویے سے دیکھیے تو بینک نے گاڑی خریدی بازار سے اس کمپنی کو کس نے ادائیگی کی ہے بینک میں ادائیگی کی

  • 00:24:01 وہ خرید کے گاڑی اس نے اپ کو دے دی اپ گاڑی کو استعمال کر رہے ہیں اسی وقت وہ اپ کے استعمال میں اگئی

  • 00:24:08 کچھ حصہ اپنے ادا کر دیا

  • 00:24:10 اس کو کتنا ایڈوانس پیمنٹ کر دیے

  • 00:24:13 اپ نے 10 فیصد پندرہ فیصد ادا کر دیا ہے باقی اپ اقساط میں ادا کریں گے

  • 00:24:19 بینک نے ایک چیز خریدی ہے ظاہر اپ اس کو استعمال کر رہے ہیں اپ جس وقت ہم شریعت یا دین کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو میں وہ شرح کیا کوئی ناجائز عمل ہے یعنی اپ مجھے کوئی مکان بیچ دیں اپ مجھے کوئی گاڑی بھیجتے ہیں یہ کیا کوئی ایسی چیز ہے اس پر اعتراض کیا جائے گا اچھا پھر یہاں ایک اور سوال پیدا ہو جاتا ہے اشیاء

  • 00:24:41 جب مجھے دی جاتی ہیں اور میں ان کو استعمال کرتا ہوں کہ دینی لحاظ سے بھی یہ بالکل جائز ہے کہ اپ اس کا معاوضہ مجھ سے طلب کریں دین میں جو چیز ممنوع قرار دی گئی تھی وہ تو اشیاء کا استعمال نہیں تھا

  • 00:24:55 ایسے ہی ہے نہ چنانچہ کرایہ ہم اس پر تفصیل سے گفتگو کر چکے ہیں کہ بالکل جائز چیز ہے تو یہاں پر بھی اگر حقیقت کے لحاظ سے دیکھیں اب اپ الفاظ میں مت جائیں حقیقت کے لحاظ سے دیکھیں تو میں ایک گاڑی کو استمعال کر رہا ہوں میں ایک مکان کو استعمال کر رہا ہوں میں اپ کو بتاؤں کہ اس استعمال کی صورتیں کیا بن جاتی ہیں ایک تو یہ ہے کہ ایک مکان میں نے لیا بینک نے اس کو خریدا خریداری کے بعد میرے حوالے کر دیا میں اس میں ا کے رہنے لگ گیا

  • 00:25:23 امریکہ میں اپ نے یہ دیکھا ہے کہ بینک اپ کو دیتا ہے استعمال کا معاوضہ اپ سے لیتا ہے وہ معاوضہ مثال کے طور پر اگر اپ کو دو یا ڈھائی لاکھ ڈالر کا اس نے مکان خرید دیا ہے اور وہ 7 800 مہینے کا وہی مکان 1718 1000$ کا استعمال تھا اپنے لیے اب ایک استعمال ہے اگے کرائے پر اٹھانے کے لئے اس میں بینک کیا کر رہا ہے وہ 1000 1200 یا 7 800 ڈالر اپ سے لے لیں اور اپ اس کے ذریعے سے 7 800 ہر مہینے کمانا شروع ہو گئے

  • 00:26:02 یعنی میں شرح کرایا کتنی چیزیں ہیں جس کے اندر مل گئی یہ ساری کی ساری چیزیں تو اس کو کیا لفظ کے لحاظ سے دیکھا جائے

  • 00:26:12 کیا بات شرائط کے اعتبار سے دیکھا جائے یا اس پورے معاملے کی حقیقت کو سامنے رکھ کر اس پر حکم لگایا جائے یہ سوال اس پر بھی پیدا ہو گیا اسی طرح اب اپ تیسری صورت پر چلیے جو سب سے زیادہ ہے کہ مجھے کاروبار کے لئے فائنانس چاہیے میں عام طور پر جب قرض لینے کے لئے جاتا تھا معادن کے پاس جاتا کسی بھائی کے پاس بھی جاتا ہوں تو وہ مجھے قرض دیتا ہے میری اس ایکٹیویٹی میں شریک نہیں ہوتا

  • 00:26:38 لیکن کیا بینک بھی یہی کرتا

  • 00:26:41 یعنی وہ جس وقت اپ قرض کا مطالبہ کرتے ہیں یہ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے روپیہ چاہیے تو وہ پھر دیکھتا ہے کہ اپ کیا کرنے جا رہے ہیں

  • 00:26:50 اپ کاروبار کرنے جا رہے ہیں تو کاروبار کی نوعیت کیا ہے

  • 00:26:54 اس میں منفت کے کیا امکانات ہیں

  • 00:26:56 اس وقت قوانین میں اس کی گنجائش کتنی ہے یہ ساری چیزیں دیکھتا ہے کہ اب یہ اس کے ساتھ ایک اور عمل ساتھ ہو گیا یہ محض قرض دینے کا عمل نہیں رہا بھینس قرض دینے کے عمل میں سب دو چیزیں ہوتی ہیں وہ یہ ہے کہ میں قرض دے رہا ہوں مجھے واپس کرنا ہے اپ نے اور یہ کہ زیادہ سے زیادہ میں اطمینان کر لیتا ہوں کہ یہ میرے واپس ا جائے لیکن یہاں اگر اپ غور سے دیکھیں تو جو یہ کسی کاروبار میں شریک ہونے کا عمل ہے جو ایک مضارب کرتا ہے

  • 00:27:25 یا جو ایک شہادت کرنے والا کرتا ہے وہ بھی شروع ہو گیا

  • 00:27:29 یہاں پے بینک کب گویا سارے معاملے کو دیکھ رہا ہے

  • 00:27:34 یہ کیا معاملہ ہے اور اپ بھی یہ مطمئن کر رہے ہیں اس معاملے میں یعنی اپ بتا رہے ہیں کہ اس میں نفع کا یہ امکان ہے اس میں بڑھوتری کے یہ امکانات ہیں ہم اس کام کو اس طرح سے کریں گے بعض جگہوں پر تو بینک اس کی بڑی حد تک نورانی میں اپ کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں یہ صورتحال ہے تو اس کو میں نے اس سے سمجھا ہے کہ یہ بینک کا پورا کام جو ہے یہ مجرد قرض کا معاملہ نہیں رہا مچھلی لیکن

  • 00:28:00 ایک ایک زاویے سے دیکھیے تو ہر جگہ قرض ہے

  • 00:28:06 اس پر میں نے تجاویز پیش کی ہیں کہ اگر بینک یہ چند چیزیں مزید اختیار کرلیں

  • 00:28:12 تو اس پر قرض کے نفس کا اطلاق ہی ختم ہو جائے گا اور جیسے یہ اطلاق ختم ہوگا تو سود کی بحث بھی ختم ہوجائے گی

  • 00:28:21 اس کے بعد اگر کسی نے بحث کرنی ہوگی تو وہ بحث یہ ہوگی کہ ایک کاروبار ہو رہا ہے اس کاروبار میں کوئی چیز انصاف کے خلاف تو نہیں

  • 00:28:31 اس میں کوئی ظالمانہ معاملہ تو نہیں ہے اس میں کوئی ایسا معاہدہ تو نہیں جس پر ہم انگلی رکھ سکتے ہیں یہ تجاویز اس پس منظر میں پیش کی گئی یعنی اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ بالکل ہر لحاظ سے پاک ہو گیا معاملہ تو اب ائیے اس کو قبول کر لیتے ہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ معاملہ ایک جگہ سے اٹھا اج بھی لفظی اعتبار سے اسی جگہ پر کھڑا ہے لیکن اہستہ اہستہ اگے بڑھ کر

  • 00:28:58 یہ لفظ بھی تبدیل کر رہا ہے میں نے اس کی مثال دی کہ جیسے اپ ملیشیا میں دیکھتے تھے کہ وہاں جب اپ کار لینے کے لئے جاتے ہیں تو جو ایگریمنٹ اپ کے ساتھ ہوتا ہے وہ نون ایگریمنٹ نہیں ہوتا وہ ہائر پرچیز ایگریمنٹ ہوتا ہے

  • 00:29:12 تو لفظ میں بھی تبدیلیاں ارہی ہیں حقیقت معاملہ میں کیا تبدیلیاں ہوں میں نے اپ سے عرض کرنی

  • 00:29:18 تو حقیقت معاملہ کی یہی تبدیلیاں ہیں جن کو سامنے رکھ کر بہت سے دوسرے محققین بھی اب اس سے متعلق اپنی پرانی اراء سے رجوع کر رہے ہیں مثال دوں گا کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کے کام کی بنیاد پر پاکستان میں جس شخص نے اسلامی معیشت پر ساری زندگی کام کیا

  • 00:29:39 اکرم خان سے انہوں نے بھی پھر اخر میں واٹس ٹانگ وید اسلامک اسلامک بینکنگ کتاب لکھی اور اس میں کم و بیش ریئل انسس کی

  • 00:29:49 ائی لو یہ تو معاملہ میں کیا تغیر اگیا کیا تبدیلی اگئی اس تغیر اور تبدیلی کا اگر صحیح ادراک ہو اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ ایک ایسا ادارہ جو ہماری معیشت میں ریڈ کی ہڈی بن چکا ہے جو بہت سی جائز خدمات انجام دیتا ہے جس سے معاشی عمل میں بہت سی سہولتیں عام ادمی کو بھی حاصل ہوئی ہیں کاروباری لوگوں کو بھی حاصل ہوئی ہے حکومتوں کو بھی حاصل ہوئی

  • 00:30:14 جو تنظیم زر کا کام بھی کر رہا ہے اور جو ایسے بعض پروڈکٹس متعارف بھی کرا رہا ہے کہ جن میں نئے نئے پہلوؤں سے معاشی عمل کی سپورٹ ہوتی محسوس ہوتی ہے اسی کو سامنے رکھ کر ہمارے ہاں فقہی ہیرو کے ذریعے سے بھی اسلامک بینکنگ کا ایک تصور پیدا کیا گیا ہے کسی کو سامنے رکھ کر تو میں نے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ تجاویز ایک جانب بینکاروں کو یہ توجہ دلاتی ہیں کہ انہیں مزید اگے بڑھ کے کیا کرنا ہے کہ جس سے وہ قرض کے اس معاملے سے نکل جائے جس پر دین کو اعتراض

  • 00:30:49 جس کے نتیجے میں سود کی بھینس پیدا ہوتی ہے دوسری جانب اگر غور کریں تو اس میں علماء کو یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ بھی اس ماڈل سے نکل جائے کہ صرف شرکت مضاربت دو ہی طریقے ہیں جو اسلام میں جائز ہے اور شرکت اور مضاربت کے یہ فقہی وصول

  • 00:31:06 علماء کو کیا توجہ دلائی ہے کہ نہیں اور بھی بہت سی صورتیں ایسی ہو سکتی ہیں کہ جن میں اپ جواز ہی کا فتوی دیں گے یا جن پر اعتراض کرنا ممکن نہیں ہے اور ان کو یہ توجہ دلائیے تو میری ان تجاویز کو اگر اپ میرے اس مضمون میں پڑھیں تو اس بنیاد پر قائم ہے یعنی اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر اس سے اگے بڑھ کر جہاں تک اپ پہنچ گئے ہیں اپ اس سارے معاملے کو

  • 00:31:31 پرنسپل سیکیورٹ فنانسنگ کی صورت دے دیں تو اس پر قرض کا اطلاق ختم ہو جائے قرض کی بحث ختم ہوجائے گی اور اس میں ظاہر بات ہے کہ وہ ایسا نہیں کہ صرف نام تبدیل ہوگا اس کے ساتھ پھر کچھ تجاویز بھی دی گئی ہے کہ اپ ان چیزوں کا لحاظ کریں تو یہ وہ عمل ہے کہ جو دنیا میں ہر جگہ جاری رہنا چاہیے اپ جب پارلیمنٹ پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں جمہوریت پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں عدلیہ پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں قانون پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں تو کیا گفتگو کر رہے ہوتے ہیں یہ کہ اس میں سے جو چیزیں قران و سنت کے خلاف ہمیں نکال دی جائے اس میں کوئی ایسی چیز اگر ہے کہ جس میں قران و سنت کا مطالبہ اور ہے تو اس مطالبے کا لحاظ کر لیا جائے یہی کہہ رہے ہوتے ان سب لوگوں پر تو بالکل اسی جگہ سے ہم گفتگو کر رہے ہیں یہ اطلاعات گفتگو ہے یہ پھر سمجھ لیجئے کہ ایک ہے دین کا فہم یعنی قران کیا کہتا ہے حدیث کیا کہتی ہے وہ الگ ہو گیا

  • 00:32:25 وہ جو بحث کرنی تھی کرلی اس میں کوئی اختلاف نہیں ایک ہے اختلاف کا معاملہ اتلاق کیا چیز ہے اطلاق کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دین میں جو حکم ہمیں دیا گیا ہے ایک صورت حال کو سمجھ کر دیکھنا ہے کہ وہ حکم اس سے متعلق ہے یا نہیں اس میں بھائی میں نے جو تجزیہ کیا ہے اس سے اپ کو اختلاف ہوسکتا ہے اپ اپنا اختلاف علمی طریقے سے بیان کردی میرے نزدیک معاملے کی صورت یہ ہے میں نے اس کو واضح کر لیا جب واضح کر دیا تو ظاہر ہے کہ میری وہ تجاویز بھی اسی پہلو سے زیر بحث ائیں گی تو تینوں رویے بلکل ٹھیک ہے یعنی حق رکھتے ہیں ٹھیک ہونے کا مطلب یہ ہے ایک ادمی کہتا ہے کہ یہ تو استوار کے قائم کردہ ادارے ہیں یہ تو مغربی معیشت ہے کیپٹلزم کے ستون ہے اٹھا لیتے ہیں دوسرا نقطہ نظر وہ ہے کہ جو ہمارے ہاں بعض علماء نے اختیار کیا اور وہ یہ کہ فکی طریقے سے ایسے ہی لے ایجاد کر لیے جائیں کہ جس میں اس پر اطلاق نہ ہو سکے تیسرا طریقہ وہ ہے کہ اس پورے نظام کے معاملے میں ہم

  • 00:33:26 ازسر نو یہ دیکھیں کہ کیا اس میں قرض محض ہے جو زیر بحث ہے تو بینکاروں کو توجہ دلائی جائے کہ وہ نفس پر نظر ثانی کرے اور علماء یہ دیکھیں کہ کیا میں شرکت مضاربت یا ان کے جو فقہی قاعدے ہیں وہی کسی چیز کو جائز کرتے ہیں اس پر بھی نظر ثانی کر لیں

  • 00:33:46 میرے نزدیک اس طرح کے معاملات میں صحیح رویہ کیا ہوتا ہے صحیح رویہ یہ ہوتا ہے کہ اپ ایک چیز کو علمی طریقے سے دیکھیں یعنی اس کے اوپر یہ فتوی لگا دینا کہ یہ سود کو جائز کیا جارہا ہے یہ فلاں بات ہو رہی ہے استعمال کی خدمت ہو رہی ہے جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے اس کا جائزہ لیجئے جب اپ اس وقت تجزیہ کریں گے اپ کی بات معقول ہوگی تو اس کو مان لیں گے میری بات معقول ہوگی اس کو اختیار کر لیں گے یہ پس منظر ہے ان تجاویز کا جو میں نے بیان سب بہت تفصیل سر بڑی خوبصورتی سے ماشاللہ اپ نے بتایا کہ یہ جو پوری بحث ہے بینکنگ کی اس کو اس پر اپ کو تجاویز دینے کی ضرورت کیوں پیش ائی اور خود یہ ادارہ کیا ہے اور اس وقت حقیقت کے اعتبار سے کیا ہے

  • 00:34:29 میں چاہتا ہوں کہ وہ جو اپ نے تجاویز دی ہیں بنائی طور پر تین تجاویز ہیں اس میں سے ایک ایک تجویز کو بہت تفصیل سے سمجھوں اس پر جو عقلی اعتراضات ہیں اس پر جو دینی اعتراضات اخلاقی اعتراضات ہیں وہ بھی اپ کے سامنے رکھوں وقت ہمارے پاس کم ہے ایک سوال جو اسی ابتدائی بحث سے متعلق میں کرکے اج کی نشست کا خاتمہ چاہوں گا

  • 00:34:47 یہ کہ ہمارے یہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جو مذہب نے حدود قائم کی ہے اس کے اندر بالعموم علماء کا یہ رویہ سامنے اتا ہے کہ وہ تحفظ کرتے ہیں کہ کوئی نئی چیز کوئی نیا ادارہ کوئی نئی فارم کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں جب کرنسی شروع ہوئی تو اس پر بھی یہی معاملہ تھا اس کی اس کی چھٹی استدلال وہ پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ مذہب کا جو مذہب کا نصب العین ہے مذہب کی جو ہدایات ہیں ان کو خالص رکھا جائے یعنی یوں نہ ہو کہ ایک چیز ہمارے اوپر اگئی ہے اب ہمیں کمپرومائز کرنے والی زندگیوں کا حصہ بن گئی ہے تو اس معاملے میں کیا حدود ہیں اپ کو کیا لگتا ہے کہ ایک مذہبی علوم کے جو لوگ ہیں کیونکہ ہمیں دیکھنا ہے کہ خود معیشت اتنی کمپلیکس ہوگئی ہے اس میں روز روز نئی نئی تبدیلیاں ارہی ہیں تو وہ پہلے سب سے پہلے بند باندھا جاتا ہے کہ اس چیز کو یہاں روک دیا جائے اس کو کوئی جواز نہ دیا جائے کیونکہ ایک دفعہ جواز دے دیا تو سب اس کو دینی سمجھ کے کرلیں گے تو اس میں اپ رویے کے اعتبار سے کیا چیز تجویز کرتے ہیں اس کو کوئی ایسا غلط نہیں سمجھتا ظاہر ہے کہ جو لوگ بھی مذہب سے محبت رکھتے ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہ ہو جائے وہ اگر یہ محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں تو قابل قدر ہے لیکن اپ کی اس احتیاط کے نتیجے میں زندگی نہیں رکے گی اس میں چیزیں ہوں گی

  • 00:36:01 لوگ طرح طرح کے افکار خیالات کی بنیاد کے اوپر بعض باتیں کہیں گے اسی طرح سے نئے ادارے بھی وجود میں ائیں گے نئی چیزیں بھی پیدا ہوں گی یہ سارا عمل اپ نہیں روک سکتے

  • 00:36:12 اس وقت دیکھیے کہ جتنے بھی مسلمان ملک ہیں ان سب میں سعودی عرب کو بھی شامل کرلیں ایران کو بھی شامل کرلیں میں نے خود ایران کے علماء سے براہ راست پوچھا ہر جگہ بینک کے ادارے اسی طرح کام کر رہے ہیں

  • 00:36:24 ہر جگہ ہو رہی ہیں لیکن بحیت مجموعی معیشت کا پورا نظم اسی طرح بینک کے نظام پر چل رہا ہے

  • 00:36:33 اس وقت بھی صورتحال ہے اسی طرح سے پارلیمنٹ

  • 00:36:37 انتخابات

  • 00:36:39 سپریم کورٹ ہائی کورٹ ان کے باہمی تعلقات یہ جو مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ کی تقسیم ہے یہ ساری چیزیں اسی طرح اپ کے داخل ہو چکی ہیں

  • 00:36:50 تو اپ ان کے بارے میں منفی رویہ اختیار کرلیں گے اپ یہ کہیں گے کہ ان کے قریب نہیں جانا تو یہ درحقیقت انسانیت کے سفر سے اپنے اپ کو الگ کر لینا پڑے گا اور اسی احتیاط سے جانا پڑے گا کہ اپ اللہ کے دین کی کوئی خلاف ورزی نہ کریں اپ کسی حلال کو حرام نہ کر بیٹھیں اپ کسی حرام کو حلال نہ کر بیٹھیں اللہ تعالی نے اس معاملے میں جو تنبیہات کی ہیں وہ ہمارے پیش نظر رہے اور اس کو سامنے رکھ کر دیانت داری کے ساتھ خدا خوفی اور خدا ترسی کے ساتھ معاملات پر غور کیا جائے اس غور کرنے کے عمل میں غلطیاں ہوں گی میرے بھائی

  • 00:37:28 یعنی موفتی تقی عثمانی صاحب نے جو ماڈل بنایا اور جس کے تحت اپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں بہت سے ادارے کام کررہے ہیں بلکہ ان اداروں کی نگرانی بھی ان کے بہت سے تلامذہ کر رہے ہیں اس پر بھی اعتراضات ہو رہے ہیں ان اعتراضات کو بھی سامنے رکھیں

  • 00:37:43 میں جو عرض کر رہا ہوں اس کو بھی سامنے رکھیں اور اس کے اوپر ایک ڈیبیٹ ہونے دیں معاملات کو اس جانب چلنے دیں کہ جہاں پر تجزیہ ہو تنقید ہو تحقیق ہو اس میں کیا حکم لگانا ہے اس سے متعلق کچھ اختلافات ہو سکتے ہیں اطلاع کی معاملات میں اس طرح کے اختلافات ہر زندہ معاشرے میں ہوں گے ان کو گوارا کرنا چاہیے اس سے اصل میں راستہ کھلتا ہے غور و فکر کی راہیں واہ ہوتی ہے اور اپ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا کریں میں نے ابھی اپ کو یہ بتایا کہ اگر میں اپروچ کروں لفظی لحاظ سے اور تاریخ کو سامنے رکھو اور بینک کے عمومی رجحانات کو سامنے رکھو تو دو لمحوں میں حکم لگاؤنگا اس کے اوپر اور یہ کہوں گا جی بالکل ناجائز کاروبار ہے اپ اس سے اپنے اپ کو الگ کر لیں

  • 00:38:30 دوسرا رویہ میں نے اپ کو بتایا کہ معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ کیا یہ اتنا ہی سادہ ہے یہ اسی جگہ پر کھڑا ہے یہ اپ مہاجر نہیں ہے جو بیٹھا ہوا ہے یہ سارے معاملے کو جب سمجھیں گے اپ اور اس کے اندر اتر کر سمجھیں گے تو ہو سکتا ہے کہ اپ بھی بعض چیزوں کے بارے میں اسی طرح غور کرنے پر امادہ ہوجائیں جس طرح کے میں نے غور کیا اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو تجاویز بینی پیش کی اپ اس سے بہتر تجاویز پیش کریں

  • 00:38:56 اخلاقی معملات میں میرے نزدیک یہ رویہ ہوتا ہے اگر یہ رویہ اپ اختیار نہیں کریں گے تو کوئی اچھی ڈیبیٹ نہیں ہوگی اچھا مواسہ نہیں ہوگا اچھے طریقے سے معاملات کا جائزہ نہیں لیا جائے گا اس میں مجھے بھی اور اپ کو بھی یہ گنجائش ماننی چاہیے کہ ایک دوسرا ادمی یہ سمجھتا ہے کہ نہیں اس کو اٹھا کے پھینکی دینا

  • 00:39:15 اس کو بھی حق ہے اپنی بات کرے مجھے بھی حق کا اپنی بات کہنے یہ اپ دیکھیے کہ میں نے تو تجاویز پیش کی

  • 00:39:21 مارا نہ وہی الدین خان صاحب نے فکرے اسلامی میں تو یہ کہہ دیا ہے کہ اس پر اطلاق ہی نہیں کرنا چاہیے سود کو

  • 00:39:30 اپ پڑھ کے دیکھ لی بہت سے علماء نے یہ کہہ رہی ہے تو میں تو یہ عرض کر رہا ہوں کہ معاملہ نہ اتنا سادہ ہے اور نہ اس طرح ہے جیسے عام طور پر اس کو دیکھا جا رہا ہے اس لئے ذرا تھوڑا اندر اتر کر اپ اس کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ اس نے بتدریج کیا صورت اختیار کر لی ہے اس میں کیا نفع کے پہلو پیدا ہو گئے ہیں کیا چیزیں معیشت کے لئے استحکام کا ذریعہ بن رہی ہیں کیا چیزیں لوگوں کے لئے ظلم کی بجائے سہولت بن گئی ہے اگے جا کے میں اپ کو تجزیہ کر کے بتاؤں گا کہ صرف موٹ گیج میں لوگوں کے لئے کیا کیا سہولت پیدا کر دی اور اس میں بلکہ احسان کی صورت میں معاملات میں پیدا ہو گئی ہے تو جب چیزیں اس طرح تبدیل ہو رہی ہو تو ان کے بارے میں ایسا منطق استخراجی کے انداز کا حکم نہیں لگایا جاتا بلکہ اندر اتر کر دیکھا جاتا ہے اور اندر اتر کر دیکھنے کے بعد بھی میں نے کیا کہا ہے حکم نہیں لگا دیا جب اج کا یہ کہا ہے کہ یہ کچھ تبدیلیاں ہے مگر کر لی جائے تو پھر یہ معاملات قابل اعتراض نہیں رہے کچھ تبدیلیاں ہیں جو کرلی جائیں تو معاملات قابل اعتراض نہیں رہیں گے اور تبدیلیاں کیا ہیں اپ نے اپنے مضمون میں بڑی تفصیل سے بیان کی ہیں ان کو سامنے رکھ کر اگلی نشست میں ہم اس کا تجزیہ کریں گے کہ وہ جو اصل کونسیپٹ ہے اسلام کا کہ ظلم نہ ہو سود کے ذریعے وہ کیا ان سے پورا ہوتا ہے اور بہت سارے دیگر مسائل اطلاع کی مسائل ہیں ان شاء اللہ اس پر بھی بات کریں گے وقت ہمارے یہاں پر ختم ہو رہا ہے اب تک اپ کے وقت بہت شکریہ

  • 00:40:53 [Unintelligible]

Video Transcripts In English

Video Summry

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 0:00 : ابتدائیہ 0:52 : آپ کو بینکنگ کو تجاویز دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی 33:47 : مذہب میں علماء کا حدود کا تحفظ کرنے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں

Video Transcripts In Urdu

Video Transcripts In English

Video Summary

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 0:00 : ابتدائیہ 0:52 : آپ کو بینکنگ کو تجاویز دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی 33:47 : مذہب میں علماء کا حدود کا تحفظ کرنے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں

▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 0:00 : ابتدائیہ 0:52 : آپ کو بینکنگ کو تجاویز دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی 33:47 : مذہب میں علماء کا حدود کا تحفظ کرنے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں

Related Videos
1
Response to 23 Questions - Part 21 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 21 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 20 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 20 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 19 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 19 - Human Nature (Fitrat) - Javed Ahmed Ghamidi