Response to 23 Questions - Part 23 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi

Search for your favourite word

Video Transcripts In Urdu

  • 00:00:00 بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مکتب غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید غامدی صاحب کے افکار پر جملوں میں اعتراضات کیے جاتے ہیں انہیں اعتراضات کو ہم اس سلسلے گفتگو میں غامدی صاحب کے سامنے رکھ رہے ہیں

  • 00:00:24 سود کا موضوع زیر بحث ہے اور سود کے موضوع پر یہ چوتھی نشست ہے اگر اپ تمام اعتراضات کو ترتیب سے دیکھنا چاہیں تو اس سلسلے کی یہ 23 ویں نشست ہے ہم سب بہت شکریہ اپ کے وقت کا

  • 00:00:36 ہم سب ہم نے گزشتہ تین نشستوں میں میں محض وہ لوگ جو ایک ترتیب سے گفتگو سن رہے ہیں رابطے کلام واضح کردوں قران مجید سے بنیادی طور پر سود کے حوالے سے جو نقطہ نظر اپ نے بیان کیا سمجھا اس کو ہم نے جانا پھر حدیث کے اندر جو چیز زیر بحث ائی ہے اس کو ہم نے دیکھا پھر اس کے بعد اطلاق کی بحث میں اتر چکے تھے اور جاننا چاہ رہے تھے کہ بینکنگ کے حوالے سے اپ نے کچھ تجاویز اپنی کتاب مقامات میں دی ہیں یہ بینک ہوتا کیا ہے کیا مختلف صورتحال پیدا ہوگئی ہے جو اپ کو تجویز تجاویز دینی پڑی اسی گفتگو کو اج ہم اگے بڑھائیں گے اپ نے بینک کیا ہے کس طرح کام کرتا ہے ادارے کی نوعیت کے بڑی تفصیل سے بتائی تھی

  • 00:01:13 میں اج کوشش کروں گا کہ ان شاء اللہ اج کی اس نشست میں ہم جو سود کے حوالے سے اعتراضات ہیں ان کو مکمل کریں

  • 00:01:19 مجھے بتائیے گا کہ اپ نے اپنی کتاب مقامات میں بینکنگ کے جو شعبہ ہے اس کو چند تجاویز دیں وہ تجاویز ہیں کیا اس سے پہلے یہ عرض کردوں

  • 00:01:29 کہ جب ہم نے یہ سمجھ لیا

  • 00:01:32 قرض پر منفرد کا تقاضا کیا جائے تو یہ سود

  • 00:01:36 میں نے یہ بات واضح کر دی کہ اس وقت بھی بینک اسکو قرضی کہتے

  • 00:01:40 اس کی لونی کا لفظ میرے لمحوں میں استعمال کیا جاتا ہے

  • 00:01:44 یہ منی لینڈنگ کی کہلاتی ہے

  • 00:01:46 ظاہر ہے کہ جب یہ بات اس زاویے سے کی جائے گی اور یہ کہا جائیگا کہ قرض دیا جا رہا ہے تو اس پر شرعی حکم یہی ہوگا کہ یہ ممنوع ہے اس پر منفرد کا تقاضا نہیں کیا جاسکتے

  • 00:01:58 میں نے یہ عرض کیا تھا کہ جب اپ بینکنگ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس طرح کا قرض رہا ہے

  • 00:02:06 جس طرح قرض پہلے دیے جاتے تھے ہم قرض دیتے ہیں کسی دوسرے کو کہ اس طرح کا قرض رہا نہیں بلکہ اس سے اگے بڑھ کر اس نے بہت سی جائز صورتوں کو اپنے ساتھ مخلوط کر لیا

  • 00:02:19 چنانچہ اب یہ ناگزیر ہے

  • 00:02:21 اپ یا ایک جانب جائیں یا دوسری جانب جائیں

  • 00:02:25 [Unintelligible]

  • 00:02:27 اور میں نے یہ کہا تھا کہ وہ لوگ کہ جو مذہب سے محبت رکھتے ہیں دین پر عمل کرنا چاہتے ہیں جو اس بات پر مطمئن ہے کہ اللہ تعالی نے قرض پر منفرد کا تقاضا کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے اور پھر وہ یہ کاروبار بھی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس کاروبار میں کچھ اصلاحات کریں

  • 00:02:46 یہ بات میں نے اس پہلو سے کہی تھی کہ جو اصلاحات اب تک تجویز کی گئی ہے جس کو ہم اسلامک بینکنگ کہتے ہیں اس میں اس بات کو مان لیا گیا ہے کہ شرکت اور مضاربت کے وہ قاعدے جو ہمارے فقہاء نے طے کیے تھے انہی پر اگر کوئی اپ نظام استوار کرتے ہیں تو وہ اسلامی ہوگا

  • 00:03:05 مجھے اس سے اتفاق نہیں

  • 00:03:07 میرے نزدیک شرکت اور مضاربت کے لیے جو قواعد بنائے گئے ہیں جو ہماری فکر میں سخت ہوئے وہ اپنی جگہ درست ہو

  • 00:03:15 ان کے بارے میں بحث کی جاسکتی ہے کہ وہ کس چیز پر مبنی ہے

  • 00:03:19 میں یہ کہوں گا کہ وہی بنیادی اصولوں پر مبنی ہے کہ انصاف ہونا چاہیے ضرر اور اظہار نہیں ہونا چاہیے کسی کے ساتھ معاملہ کرتے وقت اپ کو باطل طریقے اختیار نہیں کرنی چاہیے یہ جتنی چیزیں بھی شرکت مضاربت کے بارے میں ہماری فکر میں بیان کی جاتی ہیں وہ ان اصول عامہ یا قواعد عامہ پر مبنی

  • 00:03:38 میرے نزدیک سورۃ معملہ میں بہت کچھ تبدیلیاں ہوتی

  • 00:03:42 تو اس وجہ سے یہ فقہی اپروچ

  • 00:03:45 میں نے یہ طریقہ اختیار کرنا کہ ہمارے اگلوں نے یہ پابندیاں لگا دیں ان چیزوں کے بارے میں یہ حدود طے کر دیں اس سے اگے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے

  • 00:03:56 ہیلا بازی ہوگی

  • 00:03:57 یہی ہوا

  • 00:03:59 اپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو اسلامک بینکنگ کے طریقے اختیار کیے گئے ہیں ان میں زیادہ تر یہی کیا گیا ہے کہ اپ نے کچھ فیلے اختیار کر لیے ہیں ایک ہی چیز ہے ایک ہی طریقہ ہے لیکن اس پر فقہی حکم کا اطلاق کرنا مشکل ہو

  • 00:04:16 اور اس میں جو چیزیں اختیار کی گئی ان پر بھی اگر اپ غور کریں تو خود اختیار کرنے والے بھی اس بات کو ایک درجے میں تسلیم کرتے ہیں کہ یہ عبوری دور میں کچھ انتظامات کیے گئے

  • 00:04:28 ہم چاہتے یہی ہیں کہ بتدریج یہ ناراض شرکت اور مضاربت کے عروج اصولوں پر استوار ہو جائے جو ہمارے فقہاء نے بیان

  • 00:04:36 تو میں اس میں ایک بات ان لوگوں سے کہہ رہا ہوں تو اس وقت بینکاری کا نظام قائم کیے ہوئے

  • 00:04:42 تو اس کو چلاتے ہیں

  • 00:04:44 اس سے اوپر اٹھیے

  • 00:04:45 ایک کا رزی کا لفظ استعمال کرنا اس سے اوپر اٹھیے کہ قرض کی صورت ہی میں کاروبار بنا کے اپ اس ادارے کو چلا سکتے ہیں

  • 00:04:54 اس سے اوپر اٹھ کر معاملات کی جو

  • 00:04:57 تدریجی افتخار صورت پیدا کی ہے اس کو اس طرف لے جائیے جو بالکل جائز طریقے ہے کاروبار

  • 00:05:04 اور وہ لوگ کہ جو فقہی نقطہ نظر سے سارے معاملے پر گفتگو کرتے ہیں ان کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہاں ہمارے پاس نصوص نہیں ہے

  • 00:05:14 وہاں تمام چیزیں اخلاقی ہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ معاملہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اگیا ہے اور اپ نے اس پر ایک چیز کا اطلاق کردیا ہے یا اللہ تعالی نے قران مجید میں ایک خاص صورت حال کے بارے میں اپنا فتوی دے دیا ہے معاملے کی یہ نوعیت نہیں

  • 00:05:31 صورتحال اس کے بالکل برخلاف یہ ہے کہ ہمارے سامنے اس وقت جو معاملات ارہے ہیں ان کو ہم نے سمجھ کر اس کے بارے میں رائے دے دئیے یا کوئی نقطہ نظر اختیار کرنا اس میں اختلافات بھی ہو سکتے ہیں اس میں مختلف اپروچز بھی ہو سکتی ہیں اور اس میں جو ہمارے پاس اس وقت فکی تصریحات ہے ان میں بھی بہت کچھ ایسی چیزیں ہیں کہ جن پر نظر ثانی نہیں ہوتی

  • 00:05:55 ان چیزوں کو اگر اپ پس منظر میں رکھیں معروضات ہیں ان کو سامنے رکھیں تو اس میں میں یہ کہتا ہوں کہ ایک معاملہ تو بہت سادہ ہو گیا

  • 00:06:04 اور وہ معاملہ کیا ہے وہ معاملہ یہ ہے کہ اپ خریدوفروخت

  • 00:06:08 کہہ سکتا ہے کہ کہاں کی خرید و فروخت بینک قرض دے رہا ہے اپ مکان خرید لی اب گاڑی خرید لیجئے اور اپ سے ترجیح واپس

  • 00:06:19 میں یہ کہتا ہوں کہ ایک دوسرے کا ابھی سے دیکھئے تو یہ بالکل اسی طرح کا معاملہ ہو گیا ہے کہ جس طرح سے میں نے کئی مرتبہ اس کی مثال دی کہ اگر میرا مالک مکان مجھ سے یہ کہے میں نے برسوں کرائے پر بسر کی

  • 00:06:31 میرا مالک مکان مجھ سے ایک ہے یہ مکان جس میں تم رہ رہے ہو اس کا کرایہ مجھے دیتے جاؤ اور اس کے ساتھ اج کے لحاظ سے اس کی قیمت نہ کر لو اور وہ بھی مجھے بلاک سات ادا کر کے

  • 00:06:43 جس دن یہ قیمت ادا ہوجائے گی کہ گھر تمہارا ہوگا میں تو ہر پہناؤں گا اس کے گلے میں مجھے بتائیے کہیں کوئی ظلم کا شائبہ نظر اتا ہے یہ واقعہ تو ایک احسانی کی صورت ہوگی اس سے کتنی سہولت میرے لئے پیدا ہو جائے گی وہ گھر جس کا برسوں کرایہ دینے کے بعد بھی میں سوچ نہیں سکتا تھا کہ اس کو خرید لوں اس کے خریدنے کی ایک صورت پیدا ہوگئی

  • 00:07:06 میرے ساتھ ہو گیا

  • 00:07:08 یعنی ایک ہی وقت میں مجھے ایک چیز کرائے پر دے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی میرے ساتھ ایک خرید و فروخت کا معاملہ طے کر لیا گیا یعنی دو معاملات اکٹھے ہوگئے ہیں میں اس کو بالکل جائز سمجھ

  • 00:07:21 میرے نزدیک ایسا ہم ذاتی زندگی بندی کر

  • 00:07:24 ایک باپ اپنے بیٹے کے لئے کرسکتا ہے ایک بھائی اپنے بھائی کے لئے کر سکتا ہے یہی صورت حال اس وقت بینک

  • 00:07:32 چنانچہ میں نے اپ کو یہ بتایا تھا کہ اگر اس کو

  • 00:07:35 کچھ تھوڑی سی تجاویز میں شامل کرکے ہائر پرچیز کا سادہ معاملہ بنا دیا جائے تو اس پر نشئی لحاظ سے کوئی اعتراض باقی رہتا ہے اور نہ کسی بھی اعتبار سے اپ اس کو غلط کرا سکتے

  • 00:07:48 اینی دعوت سراکے اس معاملے میں دو چیزیں اکٹھی ہوجائیں گی ہائر بھی اور 25

  • 00:07:54 اپ نے ایک چیز کو کرائے پر لے لیا اپ اس کا کرایہ ادا کر رہے ہیں ویسے میں یہاں یہ عرض کردوں کہ خود ہماری جو فقہ ہے

  • 00:08:01 اس میں اگر اپ چاروں ائمہ کے فتاوی دیکھے تو وہ نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق کو جائزہ ٹھہراتے

  • 00:08:08 اور یہاں بھی اگر اپ غور کر کے دیکھیں

  • 00:08:11 تو کیا ہوتا ہے کہ 1 لاکھ کی ایک گاڑی ہے وہ اپ کو 1.5 لاکھ میں بھیج دی گئی ہے اسی وقت بھیج دی گئی ہے اپ نے چونکہ قیمت بعد میں ادا کرنی ہے تو اپ سگریٹ لاک کا تقاضا کیا گیا ہے تو ایک زاویہ وہ بھی ہے اس چیز کو دیکھ لوں گا لیکن میں یہ عرض کروں گا کرسک کے اوپر منفت کا مطالبہ دین میں ممنوع ہے اپ اس کو قرض کے طور پر دیکھنا بھی ختم کیجئے اور قرض کی نوعیت کا معاملہ کرنے سے بھی گریز کی دونوں کی خدمت میں یہ عرض کر رہا ہوں اس کو میں اور شراب کا وہی معاملہ بنائیے جس طرح کے یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہو رہا ہے ٹھیک اس زمانے میں تبدیلیاں بہت سی جگہوں پر نہیں کی گئی اس جگہ پر لوگوں نے کیجئے

  • 00:08:52 مثال کے طور پر مینڈل ایشیا میں اپ کو بتا چکا ہوں اس سے پہلے کہ یہ ایگریمنٹ یا معاہدہ ہوتا ہے افطاری خریدتے ہیں تو وہ

  • 00:09:00 یہی معاملہ اپ کسی دکان کے بارے میں اختیار کریں گے یہی کسی مکان کے بارے میں اختیار کریں گے وہ تمام اشیاء کہ جو استعمال میں لائی جا سکتی ہیں جن کو اپیل چیزیں کہتے ہیں ان کے ہاں یہ بیع اور شراب کا معاملہ بھی ہو گیا اور اس کے ساتھ اپ نے استعمال کا کرایہ دینا شروع کر دی یہ بالکل ایک جائز معاملہ

  • 00:09:20 زیادہ موٹی معاملات ہو رہے ہیں ان میں اگر اپ نے کچھ اصطلاحات تبدیل کرنی ہے معاملے کی نوعیت کے لحاظ سے بعض پابندیاں قبول کر لی ہیں جو کسی لحاظ سے بھی کاروبار پر اثر انداز نہیں ہوگی تو اس پر کوئی اعتراض بات نہیں کرتا ایک چیز میں نے یہ کہی تھی

  • 00:09:36 یہ چونکہ بالکل ہی واضح سی بات ہے میں نے اپ سے عرض کیا کہ خود ہمارے ہاں جو قدیم ترستی علماء ہیں وہ بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ اگر اپ نے نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق کیا تو چونکہ اپ بیچنے خریدنے کا معاملہ کر رہے ہیں اور اللہ تعالی نے نو شراب کو بالکل ناجائز قرار دیا ہے تو اس کو کسی طرح بھی یہی کہا جاسکتا کہ اپ کوئی شب کا

  • 00:09:57 اس اپروچ کو اگر نہ بھی اپ اختیار کریں تو اس کو ایک سادہ طریقے سے ہائر پرچیز کے معاملے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور جب اپ اس کو اس سطح پر لے ائیں گے اور اس طریقے سے بالکل واضح کر دیں گے تو اس پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں دوسری بات کو میں نے زیب میں کہی ہے اور اس کو بھی ایک تجویز ہے کے طور پر اپ کے سامنے رکھ رہا ہوں وہ بات کی کہیے کہ اس وقت لوگوں کو روپیہ دیتے ہیں

  • 00:10:20 ہم قرض دے رہے ہیں اپ

  • 00:10:23 غرض دے رہے ہوتے ہیں تو اپ کا کاروبار چل رہا ہے اچھی بات کہیں چل رہا اچھی بات اپ نے کاروبار بند کر دیا وہ ہر حال میں اپ سے منع کرتا ہے

  • 00:10:33 اس پر سود ہی کا اطلاق ہوگا

  • 00:10:35 ہمارے یہاں اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب قرض پر منفرد کا مطالبہ سود ہے تو کہا جائے گا میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اس معاملے میں بھی قرض دینے کا طریقہ ختم کر دیا جائے

  • 00:10:47 اور اس کو پرنسپل سیکیورٹ فنانسنگ کی صورت دے دی ہے

  • 00:10:51 اینی اصل زر محفوظ سرمایہ کاری

  • 00:10:54 اس کی طرف محنت توجہ لگائی تھی

  • 00:10:57 جس وقت اپ کسی سے قرض لینے کے لیے جاتے ہیں تو قرض لینے والا اپ سے اس سے پہلے یہی مطالبہ کیا کرتا تھا کہ مجھے یہ ضمانت چاہیے کہ میرا قرض واپس نہیں جائے

  • 00:11:06 زیادہ سے زیادہ یہی کہے گا اپ کے حالات دیکھ کر کیا دے گا اپ سے کوئی ضمانت طلب کر لے گا اس وقت صورتحال یہ سادہ صورت نہیں ہے

  • 00:11:15 اس پر ہم تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں کہ بینک یہ دیکھتے ہیں کاروبار کیا ہے کاروبار کے امکانات کیا ہیں وہ اس کی فیزیبلٹی دیکھتے ہیں پھر دیکھتے ہیں اس پر منصب کے کیا امکانات ہیں تو ایک نوعیت کی یہ سرمایہ کاری ہو جاتی ہے

  • 00:11:29 اس کو لانا

  • 00:11:30 صبح کاری ہے اب اس میں ہماری فک

  • 00:11:34 درمیان میں اتی ہے اور وہ یہ کہتی ہے کہ اپ سرمایہ کاری کریں گے تو اپ کو نفع و نقصان میں شریک ہونا چاہیے

  • 00:11:40 میں اس کو صحیح نہیں

  • 00:11:42 میرے نزدیک اس پابندی کی کوئی ضرورت

  • 00:11:45 سرمایہ کاری کس اصول پر بھی ہو سکتی ہے نقصان میں شریک ہوں گے اور اس اصول پر بھی ہو سکتی ہے کہ وہ پرنسپل سیکیورڈ ہوگی

  • 00:11:52 میں اپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ دسویں ایسے معاملات ہوئے

  • 00:11:56 یعنی جب اپ کسی چیز کے بارے میں کہتے ہیں انصاف کا تقاضا یہی ہے دین میں جو باتیں ہمیں بتائی گئی ہیں اور عمومی اصول قائم کیے گئے ہیں ان کے پیش نظر اس طرح کرنا چاہیے

  • 00:12:06 تو اپ صورتحال کو دیکھے گا

  • 00:12:08 یا پھر واقعی انصاف کا تقاضا ہے دسیوں لوگ ہیں کہ جنہوں نے اکر دنیا کے دوسرے ملکوں میں کچھ کما کر یہاں کاروباروں میں روپیہ لگا دیا

  • 00:12:20 اور پھر چار مہینے 5 مہینے ان کو کچھ قسطوں میں

  • 00:12:25 نفع دیا گیا

  • 00:12:26 نقصان ہو

  • 00:12:29 جس وقت اپ کسی شخص کے ساتھ مضاربت کا طریقہ اختیار کرتے ہیں سرمایہ دے دیتے ہیں

  • 00:12:34 اپ کی حیثیت ایک سلیپنگ پارٹنر کی ہوتی

  • 00:12:37 اپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ کاروبار کس طرح چل رہا ہے اپ نہیں دیکھ رہے ہیں فیصلے کس طریقے سے ہو رہے ہیں اپ کو جو کچھ بتایا جاتا ہے اس کا بھی اپ اس طرح جائزہ نہیں لے پاتے

  • 00:12:47 زاہرا کے کاروبار کرنے والا کوئی اور ہے امکانات دیکھنے والا کوئی اور ہے مارکیٹ کو سمجھنے والا کوئی اور ہے تو اس صورتحال میں

  • 00:12:55 دوسرے پر اعتماد کرکے اپ اس کے ہاتھ میں لاکھوں روپے پکڑا دی

  • 00:12:59 بینک یہ نہیں کرسکتے اس لئے تو وہ کاروباری کرنے کے لیے میدان میں بیٹھے ہوئے ہم اس سے پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ اگر اپ نے کسی کو قرض دینا ہے تو اپ اپنے بھائی کو تبرک کے طور پر

  • 00:13:11 نیکی کرتے ہوئے قرض دیتے ہیں

  • 00:13:13 بینک نیکی کرنے کے لئے نہیں جینیٹک کا ادارہ نہیں ہے انہوں نے اپ کے ساتھ فنانسنگ کی ہے میں یہ عرض کرتا ہوں اس کو فنانسنگ کے لئے

  • 00:13:21 اور فنانسنگ کے بارے میں اگر یہ طے کرلیا جائے کہ یہ پرنسپل سیکیورٹ ہوگی تو انصاف کا تقاضا یہی ہے

  • 00:13:28 یعنی عام طور پر تو یہ کہا جاتا ہے کہ جب تک

  • 00:13:31 روپیہ دینے والا نقصان میں شریک نہیں ہوگا تو یہ انصاف کا تقاضا نہیں ہے میں یہ کہتا ہوں کہ اس کو نقصان میں شریک کرنا انصاف کے خلاف

  • 00:13:41 کیوں کہ بولا فیصلوں میں سیری

  • 00:13:43 میں اپ کے کاروبار کی نوعیت کو جانتا ہے نہ مارکیٹ سے پوری طرح سے واقف ہے نہ لوگوں کے اخلاق و کردار کا یہ معاملہ ہے کہ حقیقت میں اس کو صحیح بات بتائی جائے گی میں نے بہت متشرع لوگ جو بظاہر

  • 00:13:55 ان کی پیشانیوں پر ڈٹے پڑے ہوئے تھے جو نماز صبح شام پڑھتے تھے یہ دیکھا کہ جب کاروباری معاملات ہوئے تو وہ اپنی صداقت کو اس طرح قائم نہیں کر

  • 00:14:05 اور اس طریقے سے لوگوں کا سرمایہ ضائع ہوا بڑے بڑے نقصانات ہوئے اس میں میں دسیوں مثالیں دے سکتا ہوں کب لکھا ہے کیسے تو اس لیے اس کو پرنسپل سیکیورٹ فنانسنگ ہونا چاہیے اس میں کوئی چیز خلاف انصاف نہیں یہ روپیہ میں نے اپ کو دے دیا میں استعمال کر رہا ہوں میں نفع میں شریک ہوگا کیونکہ اپ کاروبار کر رہے ہیں اپ کے کاروبار میں نفع ہوگا

  • 00:14:27 یہ میں قرض نہیں دے رہا

  • 00:14:29 یہ میری بات ماری گئی جب میں قرض نہیں دے رہا تو مجھے شرائط طے کرنے کا حق حاصل

  • 00:14:34 شرائط کے معاملے میں اسلام اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتا کہ وہ انصاف پر مبنی شرائط ہونی چاہیے میں اسی کو انصاف

  • 00:14:42 تو جب اپ پرنسپل سیکیور فائنانسنگ کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ پھر اصل زرد میں نقصان کا سوال تو ختم ہوگا

  • 00:14:48 اس لئے کہ وہ ادمی ذمہ دار ہے کہ اگر کاروبار میں نقصان ہوتا ہے نفع ہوتا ہے کوئی چیز بھی ہے جب اپ سرمایہ نکالیں گے تو اپ کا صفایا اس کو واپس کرنا

  • 00:14:59 ایک بات ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ چیز بالکل خلاف انصاف ہوگی یہ کاروبار شروع کیا گیا

  • 00:15:06 اس کاروبار میں اپ نے روپیہ لگایا

  • 00:15:08 کارو بار چلتا رہا اپ اسے بتا لیتے رہے نفع کیسے لینا چاہیے اس پر میں ابھی بات کرتا ہوں

  • 00:15:14 اپ نسا لیتے رہے اسی کاروبار میں سرمایہ لگانے میں کوئی ناجائز چیز نہیں ہے اپ نے اگر اس پر یہ شرط عائد کر دی کہ اپ نقصان میں شریک نہیں ہوں گے تو اسرائیل کو غلط چیز نہیں ہے اپ نے اس پر نفع لیا وہ کاروبار میں ہونے والے نفعی میں سے اپ کا حصہ تھا اس میں بھی کوئی غلط چیز نہیں ہے لیکن کاروبار کسی وجہ سے بند کرنا پڑ گیا

  • 00:15:34 تو اب ظاہر ہے کہ جب بنیادی ختم ہوگئی تو کس چیز پر اپ مطالبہ کریں گے نفع دیا جائے

  • 00:15:39 اب اپ کا مطالبہ صرف یہی ہونا چاہیے کہ میرا اصل ضرورت

  • 00:15:45 یہ بات ماری ہوئی تو یہی شرط میں نے اس میں لگا دی ہے کہ اگر یہ تبدیلی کر لی جائے یعنی پرنسپل سیکیورٹی

  • 00:15:53 فنانسنگ کا طریقہ اختیار کیا جائے اصل ضرورت سرمایہ کاری

  • 00:15:57 اور جب تک کاروبار چل رہا ہے اس وقت تک اپ دفع لیں جس وقت کاروبار بند ہو جائے یہ دیکھیے کاروبار میں نفع ہو رہا ہے یا نقصان ہو رہا ہے اس کو جانچنے کے لئے تو اگر بینک جائے گا تو پھر وہ کاروبار میں شریک ہو جائے گا یہ تو مشکل ہے لیکن جو کاروبار کیا گیا تھا وہ ختم ہو گیا

  • 00:16:16 بند ہو گئی

  • 00:16:17 اس کو دیکھنے میں کوئی بہت دقت نہیں ہوتی

  • 00:16:20 اندازہ ہو گیا پورا نظام بنا سکتے ہیں کہ شرما کے کاروبار بند کر دیا گیا

  • 00:16:26 اور کاروبار بند کر دیا گیا ہے تو اپ کا مطالبہ اب نفع کا نہیں ہے نہ ہونا چاہیے اگر اس کے بعد اپ نفع کا مطالبہ کرتے ہیں تو پھر وہ قرضی کا جواب نہیں دیا

  • 00:16:37 لیکن اگر پرنسپل سیکیورٹ فنانسنگ کی گئی ہے تو اس کے بعد اپ کا مطالبہ بھی

  • 00:16:42 پرنسپل یاسر زرین کا ہوگا

  • 00:16:45 یہ دوسری تجویز ہے جو میں نے عام جو معاملات ہو رہے ہیں اس وقت کاروباروں کو کیا دیا جا رہا ہے ان میں سرمایہ کاری کی جارہی ہے یا فیکٹریوں کو دیا جارہا ہے بڑے بڑے منصوبوں کو دیا جارہا ہے یا تعلیم میں روپیہ دیا جارہا ہے تو جتنے بھی اس طرح کے معاملات ہیں یہاں خرید و فروخت نہیں ہو رہی داؤ شرح کا معاملہ نہیں ہو رہا دعوت شرح کے معاملے کو ہم پہلے زیر بحث لا

  • 00:17:08 کہ اگر مکان خریدا ہے اگر اپ نے گاڑی خریدی ہے تو وہ ہائر پرچیز کے اصول کے اوپر چند تبدیلیاں کرکے جاری رکھا جا سکتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اس میں قرض کا کوئی سوال نہیں ہے اس معاملے میں اگر اپ پرنسپل سیکیورٹ فنانسنگ کرتے ہیں جب تک کاروبار چل رہا ہے نفع لیتے ہیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اپ جو نفع لے رہے ہیں

  • 00:17:32 تو نشے کا حساب کتاب تو کرنا پڑے گا نہ پھر

  • 00:17:35 اوکے اس صورت میں تو اپ یہ کرتے ہیں کہ قرض دیا اپنے اپ نے اس قرض کے بارے میں طے کردیا کہ اس پر اتنے فیصد میں لے لوں گا

  • 00:17:43 تو میرے نزدیک اگر اپ نے کاروبار میں روپیہ لگایا ہے اور فائنانسنگ کی سرمایہ کاری کی ہے تو اس میں بھی اپ تقریب بھی نقل ہو

  • 00:17:51 یعنی ایک صورت یہ ہے کہ اپ نے حقیقی نفع دینا

  • 00:17:55 اب دیکھیے میں اس کی مذاق

  • 00:17:56 یعنی ایک کاروبار میں میں نے اپ کو روپیہ دیا

  • 00:18:00 میں نے اس میں سرمایہ کاری کردی

  • 00:18:02 اب اپ مجھے یہ بتاتے ہیں کہ اس میں دس فیصد نفع ہوا اس سال اس میں 5% نفع ہوا چار فیصد نفع ہوا اپ کے سرمائے کے لحاظ سے ہی اپ کا حصہ ہے جو میں اپ کو ادا کر رہا ہوں ایک دوسری صورت یہ ہے کہ میں نے اپ کو سرمایہ دیا اور میں نے کہا کہ بھائی نہ میں اس کا حساب کر سکتا ہوں نہ اس حساب کتاب میں اوریجنل میرے لیے ممکن ہے اپ جو کچھ بھی بتا رہے ہیں اس میں ظاہر ہے کہ ہم ایک اندازہ کر رہے ہیں کیا دفع ہو

  • 00:18:28 کبھی 2 فیصد ہوگا کبھی چار فیصد ہوگا تو 5% ہوگا ایک اوسط اس کا نکال کے تقریبی نفع کے طریقے کے اوپر میں اپ سے اس کا ایک سیزن 2% کر لیتا ہے اس میں میرے نزدیک کوئی حرج نہیں تخمینے کی بنیاد پر یا تقریبی طریقے سے چیزوں کا معاملہ کرنا یہ انصاف کے خلاف نہیں ہے بہت سی صورتوں میں جہاں ہم کسی چیز کو دیکھ نہیں سکتے اسی طریقے کا معاملہ کر لیتے ہیں یہاں وہ بنیادی اصول پیش نظر رکھیے جس کی طرف میں نے توجہ دلائی کہ ہمارے ہاں جو میں اور سرا کے طریقے طے کیے گئے ہیں یا سرمایہ کاری کے لیے شرکت اور مضاربت کے اصول طے کیے گئے ہیں وہ کس چیز پر مبنی ہے وہ اس چیز پر مبنی ہے کہ معاملہ انصاف کے ساتھ ہونا چاہیے تو انصاف کے ساتھ معاملہ ہونا چاہیے اس کو اج بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کل بھی دیکھ سکتے ہیں اس کی صورتیں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں انصاف کے تقاضوں کو بھی اطلاقی طور پر ہر دور میں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت صورتحال کیا ہے ایسا تو نہیں کہ جو شرائط ہم لگا رہے ہیں وہ بظاہر کتاب میں لکھی ہوئی تو انصاف کے شرائط نظر ارہے ہیں لیکن عملی زندگی میں وہ ایک فریق کے ساتھ بے انصافی کے ذریعہ بننا

  • 00:19:34 تو ان تمام چیزوں کو دیکھ کر میں نے یہ دوسری تجویز پیش کی ہے اس طریقے سے اپ کام کر سکتے ہیں جو تیسری چیز اس معاملے میں سے وہ سرچ کر

  • 00:19:44 یعنی جو عام طور پر تیرے کارڈ کے ساتھ اپ دیتے ہیں یعنی بینک اپ کو کچھ روپیہ استعمال کرنے کی اجازت دے اگر اپ غور کر کے دیکھیں تو وہ بھی حقیقت میں دانت شرائط ہوتی

  • 00:19:54 اچھا یعنی بینک اپ کی طرف سے ادائیگی کر دیتا ہے اپ خریداری کرنے کے لئے جارہے ہوتے ہیں وہاں اپ کو قرض نہیں دیا جا رہا اپ کی طرف سے انہوں نے ادا کر دیا

  • 00:20:07 اس میں موقع دیا جاتا ہے اس بات کا کہ اپ 1 مہینے میں ادا کریں یہ کہاں جا سکتا ہے کہ بینک اس کو دو مہینے پے میسیج کرنے 3 مارچ میں وسیع کر دیں جب اپ وہ مدت گزر گئی اور اس میں واپس نہیں کرتے تو میرے نزدیک یہاں سیدھا سات طریقہ اختیار کرنا چاہیے یہ اپ کو خریداری کر کے دے گی یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے میں اپ کے پاس کھڑا ہے میں خریدنا چاہتا ہوں تو میں نے یہ کہا کہ اچھی بات ہے میری طرف سے اپ خرید

  • 00:20:33 اس کی ادائیگی میں نے کرنی کس کو بھی دیکھی ہے اسی طرح دیکھنے کے دو پہلو ہو سکتے ہیں

  • 00:20:38 میں نے اپ کو قرض کی

  • 00:20:40 دوسرے یہ کہ ایک ایسا نظام ہم نے بنا دیا ہے جس میں جس وقت اپ کوئی چیز خریداری کرنا چاہتے ہیں تو میں اصل میں اس کمپنی کے ساتھ یاں سے اپ خریداری کر رہے ہیں معاملہ کر رہے ہیں یعنی ادائیگی میری طرف سے ہو رہی ہے اور جب اپ کوئی چیز خرید رہے ہیں تو اصل میں اپ نے خریدی اس کمپنی سے بظاہر حقیقت میں اپ نے مجھ سے خریدی

  • 00:21:01 واپس جادو سے لے کے معاملہ ہو جاتا ہے اگر یہ بے ہوش راہی کا معاملہ ہے تو اس میں اپ کو میں نے کوئی تقاضا کیے بغیر مہینے کی 1.5 مہینے کی دو مہینے کی مہلت بھی دے دی کیا اپ مجھے ایک دوکاندار کے پاس اب گئے اپ نے جا کر اس چیز خریدی اپ نے اس سے کہا کہ میں دو بار اس نے وہاں سے خریدی اور اپ کو بھیج دی جب اپ نے اس کو لے لیا اب اپ وقت پر ادائیگی نہیں کر

  • 00:21:30 وقت پر گائیڈ کرسکے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے معاملات میں ہم جرمانہ کر سکتے ہیں یعنی اگر کوئی ادمی وعدہ پورا نہیں کرتا ذمہ داری پوری نہیں کرتا اس کو سزا دینا اس پر تاوان عائد کرنا اس کو سود کس اعتبار سے کہا جاتا ہے اپ بجلی کے بل دیتے ہیں وقت پر ادائیگی نہیں کرتے اس کے اوپر کوئی جرمانہ عائد کر دیا جاتا ہے تو مالی تہوار اور جرمانہ یہ سود نہیں ہے یہ اصل میں جس وقت اپ نے وعدہ پورا نہیں کیا تو اس میں سزا ہے دو کوڑے بھی مارے جا سکتے ہیں

  • 00:22:02 ایک دن کے لئے جیل میں بھی ڈالا جا سکتا تھا اپ پر کچھ مالک ہمارا ادا کر دیا گیا مالی تاوان کی صورت میں سزا دینا دنیا کا عرق

  • 00:22:11 خود ہمارے یہاں موجود

  • 00:22:12 اپ دیکھیے کہ جب اپ قصاص نہیں لیتے دیے تو ادا کرتے ہیں تو یہ کیا ہے

  • 00:22:18 تیری مالی کا نام ہے اس وقت ہمارے یہاں ٹریفک کی قواعد کی خلاف ورزی پر زیادہ تر مالی کمانا عائد کیا جاتا ہے تو مالی تاوان اپنی جگہ پر اس وقت اپ کسی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں جرم کا ارتکاب کرتے ہیں وعدہ خلافی کرتے ہیں تو مالی تاوان بھی سزا دینے کا ایک طریقہ ہے تو میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اس کے اوپر وہ سب چیزیں کرنے کی ضرورت نہیں ہمارے ہاں اسلامک بینکنگ میں ہیلا ترازی کے طریقے پر کی جاتی ہے اس کو بھی اپ بالکل سیدھا رکھ سکتے

  • 00:22:44 یہ وہ تجاویز ہے جو اس بات پے میں نے پیش

  • 00:22:48 تو تجاویز کا تعلق

  • 00:22:50 اس کو اپ قبول کر سکتے ہیں اپ اس کو رد کر سکتے ہیں

  • 00:22:54 ہمارے یہاں اسلامک بینکنگ کے نام پر جو تجاویز پیش کی گئی ہیں اور جن کو بہت سے علماء قبول کیے ہوئے ہیں وہ بھی تجاویز جس طرح مجھ کو حق ہے کہ میں یہ کہوں کہ یہ حیلہ ہے میں ان کو صحیح نہیں سمجھتا اپ میری طرف اس پر بھی کوئی تبصرہ کر سکتے ہیں میرے نزدیک اس معاملے کو اس طرح دیکھنا چاہیے

  • 00:23:12 اس کو اختلاف ہو سکتا ہے اتفاق ہو سکتا ہے لیکن اس کو اگر اپ اس صورت میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ یہ گویا سود کو ماننے سے انکار کرنا ہے یا سود کو حلال کرنا ہے ہر گز سے کوئی چیز نہیں ہے یعنی قرض پر منفرد کا تقاضا میرے نزدیک سود ہے وہ ہر حال میں ممنوع ہے اس کو اللہ تعالی نے ممنوع قرار دیا ہے وہ قیامت تک اسی طرح ممنوع اور حرام رہے گا ایک معاملہ بالکل مختلف نوعیت کا ہمارے سامنے ایک ادارے کی صورت میں سامنے اگیا ہے وہاں ہم کیا کر رہے ہیں اس کے بارے میں کچھ تجویز ہے یعنی یوں نہیں کہا گیا کہ وہ سب کا سب اس وقت بالکل جائز ہو رہا ہے یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس میں یہ تبدیلیاں اگر کر دی جائے کچھ تبدیلیاں اصطلاحات کی ہیں کچھ تبدیلیاں تصورات سے متعلق ہے کچھ تبدیلیاں معاملے کی نوعیت کے لحاظ سے ہیں وہ تبدیلیاں اگر کر دی جائیں تو ایسا نہیں ہے کہ بینکوں کو اپ مزاحمت اور شرکت کے طریقے پر کاروبار کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں بلکہ سرمایہ کاری جو اس وقت کر رہے ہیں یا چیزیں خرید رہے ہیں اور بھیج رہے ہیں اسی کو ایک صحیح صورت دینے کے لئے کہہ رہے ہیں اس میں جو تبدیلیاں ہیں وہ بینکنگ کے کاروبار پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالتے اور اگر وہ کر دی جائے تو اس پر کسی فتوے کی گنجائش کی باتیں نہیں رہ جاتی

  • 00:24:24 ارام سے ایک اور پہلو جو اپ کے مضمون میں زیر بحث لانا چاہتا ہوں اس کی بھی اپ وضاحت کر دیں اور پھر میں اعتراضات اس پر بھی ترتیب رکھتا ہوں اپ نے لکھا کہ روپیہ اگر غیر کاروباری ضرورتوں کے لیے قرض دیا گیا ہے تو افراط زر سے جو کمی واقع ہوتی ہے اس کی تلافی کے سوا کسی زائد رقم کا مطالبہ نہ کیا جائے بینک والوں کو تو یہ جو اپ نے تجویز دی اس کی بھی وضاحت کر دیجئے کاغذ کی کرنسی ہے پیپر میں

  • 00:24:50 اس کی بنا پر ہر قرض کے بارے میں

  • 00:24:52 میں نے اپ پے کوئی قرض کا معاملہ کیا ہے تو اگر ہم پہلے سے یہ طے کر لیتے ہیں کہ یہ قرض کس طرح سے ادا

  • 00:24:59 یعنی کیا اس کو اسی پیپر کرنسی میں واپس کیا جائیگا یا ہم اس میں پٹرولیم کے لحاظ سے یا مثال کے طور پر ہم سونے کے لحاظ سے یا کوئی اور اس معاملے میں طریقہ اختیار کر کے افراط زر کو ملحوظ رکھتے ہوئے واپس کریں گے میں اس کو جائز

  • 00:25:15 میرے نزدیک اس میں کوئی چیز ایسی نہیں جس کو غلط قرار دیا جاسکے میں نے کئی مرتبہ یہ واقعہ سنایا ہے کہ خود میرے ایک عزیز دوست مجھے اکر یہ بتایا کہ پندرہ بیس سال پہلے

  • 00:25:26 اور یہ پندرہ بیس سال پہلے ایک ہی بات

  • 00:25:29 میری بیٹی نے مجھے 15,000 دیا

  • 00:25:32 الیگزی کہا تھا کہ یہ اپنے کاروبار میں لگا لیجئے

  • 00:25:36 وہ روپیہ میرے پاس رہا میں اس کو کاروبار میں لگانا بھی بھول گیا بیٹی کے ساتھ حادثہ بعد میں پیش اگیا برسوں بعد مجھے یاد ایا جب وہ دنیا سے رخصت ہوگئی اس کے بچے بڑے ہو گئے ایک وقت تو اس نے مجھے روپیہ دیا

  • 00:25:50 اور یہ روپیہ کاروبار میں لگانے کے

  • 00:25:52 اس کے فورا بعد حادثہ ہو گیا اور اس جانب توجہ ہی نہیں

  • 00:25:56 تم نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا کروں 15,000 واپس کرو اس وقت کی صورتحال تو میں نے کہا چاہیے اور جا کر سونے کے بازار میں پاؤ معلوم کیجئے اپ کو تاریخ کو یاد ہے سال بھی اپ کے علم میں ہے اور یہ دیکھیے کہ اس وقت اس کی قیمت کیا ہے اس کے لحاظ سے ادا کرنی یہی انصاف کی بات ہوگی

  • 00:26:12 تجھے یہ بات ہے اس کو اگر کسی سردی قرضے میں بینک بھی ملحوظ رکھیں تو میرے نزدیک اس پر شریعت کے لحاظ سے کوئی اعتراض نہیں کیا

  • 00:26:20 یہ بھی انسان ہی کا تقاضا ہوگا یعنی اصل میں یہاں بنیادی بات یہ سمجھنی چاہیے کہ وہ چیزیں جن کو دین نے ممنوع قرار دے دیا

  • 00:26:29 ان کے بارے میں کیا اصول ہوگا اللہ تعالی نے حکم دے دیا فیصلہ سنا دیا اپ کو حکم کو سمجھنے کا حق ہے لیکن اس میں کوئی ترمیم ترین نہیں ہو سکتا

  • 00:26:39 وہ چیزیں جن کے بارے میں اطلاقی فیصلہ نہیں سنایا گیا

  • 00:26:43 بلکہ کچھ اصول دیے گئے ہیں ان کو اپ نے اپلائی کرنا ہے اس کے معاملے میں اختلاف ہو سکتا ہے ہمارے ہاں لوگوں کو ان دو چیزوں کو فرق کو سمجھنا چاہیے یعنی کیا چیز ہے جو شریعت میں طے کر دی گئی ہے کیا چیز ہے صورت معاملہ کو سمجھ کر بتائی جارہی ہے

  • 00:26:59 ارے اپ سے کہا گیا ہے کہ اس اس طرح کی چیزیں کھانے کے لئے ممنوع ہے

  • 00:27:05 اب اپ حکم لگا رہے ہیں کہ یہ چیزیں اس کے ذیل میں اتی ہیں یا نہیں ا

  • 00:27:09 اس کی مثال لے لیجئے ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں درندے ممنو قرار دیے گئے بہیمۃ الانعام کو کھانا جائز قرار دیا گیا ہے اور بھی بعض حدود شرائط ہیں جن کی اس سے پہلے ہم وضاحت کرتے رہیں مختلف گفتگو میں اب بہت سے ایسے جانور ہیں جن کے بارے میں یہ حکم لگانا مشکل ہوتا ہے کہ یہ درندے ہیں

  • 00:27:29 چرندے ہیں ان کو کس ذہن میں رکھا

  • 00:27:32 اچھا جو خبائس کا پہلو ہے اس میں ظاہر ہے کہ اپ کس چیز کو دیکھتے ہیں کہ نہیں اتی ہے اپ کو وہ اپ کو اچھی نہیں لگتی یعنی جانور بھی ایسے ہیں جو موذی جانور ہے مثال کے طور پر یا ان کو دیکھ کر اپ طبیعت امادگی نہیں محسوس کرتے کس کو کھایا بھی جا سکتا ہے تو ان چیزوں میں بھی فرق ہوگا طبیعت کا ہوگا رجحان کا ہوگا معاملے کا ہوگا معاملے کے اطلاق کا ہوگا اس میں دو رائے ہو سکتی

  • 00:27:55 اس چیز کو یہ مان کر کے دہرائیں ہو سکتی ہیں اپ اس پر تنقید کریں اپ اپنا نقطہ نظر پیش کریں ایک ادمی یہ کہتا ہے کہ کوے پر حرمت کا اطلاق ہوتا ہے دوسرا کہتا نہیں ہوتا

  • 00:28:06 اس کو یہ صورت کبھی نہیں دینی چاہیے کہ کسی اللہ تعالی کی جائز چیز کو ناجائز قرار دیا جارہا ہے یا ناجائز کو جائز قرار دیا جائے

  • 00:28:15 یہ یہ نہیں ہونا چاہیے کیوں یہاں اطلاق کیا جا رہا ہے اور اطلاق کے معاملے میں اختلافات ہوا کرتے ہیں ہمارے فقہاء نے بھی کیے ہیں اور یہ قیامت تک ہوتے رہیں گے وہ بنیادی بات کے خواہش ممنوع ہیں اور طیبات حلال ہے

  • 00:28:30 یہ بنیادی بات ہے جس کو دین کی بات کہنا چاہیے اس میں ظاہر ہے نہ میں کوئی ترمیم کر سکتا ہوں نہ اپ کوئی ترمیم کر سکتے ہیں لیکن طیبات کے ذیل میں بعض چیزیں مشتبہات کی نوعیت کی ہوتی

  • 00:28:42 اس معاملے میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں جو تعلیم دی ہے وہ یہ کیا ہے کہ جہاں بینا ہما مشتبہات کا معاملہ پیش اجائے تو وہاں زیادہ سے زیادہ ممالک کو ترجیح دے دیا کرو پابند مہدی ہوتی

  • 00:28:54 لیکن یہاں ایک ادمی یہ کہتا ہے کہ میرے نزدیک یہاں کوئی اشتباہ نہیں ہے میں اس کا اطلاق کر رہا ہوں اس صورتحال پر تو اس نے جو اطلاق کیا ہے وہ ایک اشتہادی اطلاق ہے غلط بھی ہو سکتا ہے صحیح بھی ہو سکتا ہے اس کو اشتہادی اطلاع کی طور پر دیکھنا چاہیے یہی صحیح رویہ ہو کہ ہمارے ہاں یہ جو اپ نے تجاویز دی ہیں پر میں بے ترتیب اعتراض اپ کے سامنے بھی رکھتا ہوں لیکن اس سے پہلے کہ یہ جو بھی اپ نے بات فرمائی کہ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اس میں اپ سے اگر کوئی اختلاف کرتا ہے تو اپ کی اس تجویز سے اختلاف کر رہا ہے اپ اس کو ویسے ابھی اپ نے اسلامی بینکنگ پر تنقید کی لیکن اپ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ ہمارے جو اسلامی بینک ہیں جن لوگوں نے وضع کی ہے وہ سود کو حلال کرنے کے لئے کی ہے بلکہ اپ نے اس طریقہ کار پر تنقید کی تو یہ پہلو جو ہے کہ ہمارے ہاں جو زیادہ تر میں نے دیکھا ہے جو تنقیدات اپ کی اس طرح کے مالی معاملات کے حوالے سے ہوئی ہے اس میں لوگ نتیجے کے لحاظ سے اپروچ کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک تو یہ سود تھا اور غامدی صاحب نے مثلا اگر یہ بینک کس معاملے کو ماڈلس کو اس کو جائز قرار دے دیا تو اب لوگ ڈریں کیونکہ وہ سود کھا رہے ہیں تو اس پر ذرا تھوڑا سا میں جاتا ہوں اور اپ ایجوکیٹ کریں کہ یہ جو اطلاع کا فرق ہے اس کو لوگوں کو سمجھنا چاہیے ہے مثلا امام شافعی کے نزدیک سمندر کے پاس جانور اگر جائز ہیں حنفیہ کے نزدیک حرام ہے تو امام شافعی حرام کھانے کی ترغیب تو نہیں دے رہے نہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں اس وقت دیکھیے ہم مغرب میں بیٹھے ہوئے ہیں یہاں خود امام شافعی کا ایک فتوی ہے جس پر عرب عمل کرتے

  • 00:30:18 یعنی مطلوب کو تسمیہ

  • 00:30:21 یہ جانور ہے اس کو اپ کیسے ذبح کیا اس پر اپ نے تسمیہ نہیں کیا

  • 00:30:25 یعنی اللہ اکبر نہیں پڑا تکبیر نہیں کہی

  • 00:30:28 تم اس کو حلال قرار دیتے

  • 00:30:30 کسی رول پر کہ یہ اہل کتاب کا کھانا ہے یعنی قران مجید میں جو اہل کتاب کا کھانا حلال قرار دیا گیا ہے اسی کے ذیل میں اس کو رکھتے ہیں

  • 00:30:39 یہ اپ کے علم میں ہے کہ بہت سے لوگ استدلال اپ کے سامنے پیش کرتے ہیں یہاں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ہے جس کو بالکل جائز سمجھتے ہیں امام شافعی کے فتوے ہی کو پیش کرکے جائز سمجھتے ہیں پچھلے دنوں میں دیکھ رہا تھا کہ ایک موقع پر 12 تقی عثمانی صاحب گفتگو کر رہے تھے کہ ان کے والد گرامی مفتی محمد شفیع صاحب سے یہ پوچھا گیا کہ یہ متروک تسبیحہ کا شافعی مسلک ہے اس پر عمل کرنے میں کیا معنی ہے بہت مشکل پیش ا گئی ہے تو ایسا بھی ہوا ہے کہ فقہاء نے دوسرے فقہاء کی رائے پر رائے دے دی تو انہوں نے کہا دی جا سکتی ہے رائے لیکن میں فلاں فلاں وجہ سے یہ رائے نہیں دے رہا

  • 00:31:14 اس کا مطلب کیا ہوا کہ ایک کے نزدیک وہ حلال ہے دوسرے کے نزدیک حرام ہے تو یہاں اطلاق کا فرق ہے مجھے حق حاصل ہے کہ میں اس کی تنقید کروں اپ جانتے ہیں کہ میں تنقید کرتا ہوں میں امام شافعی کی اس رائے کو درست نہیں سمجھ

  • 00:31:27 میں مت روکو تثنیہ کسی حال میں کھانے کے لئے تیار نہیں ہیں میرے نزدیک وہ حرام کے ذیل میں ائے گا لیکن جس وقت میں یہ بات کہتا ہوں تو اس وقت اس کو اپنی رائے کے طور پر پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے جو قانون بنایا ہے وہ قانون یہ ہے میرے نزدیک اس پر اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے اور اس کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا امام شافعی اگر اس کو جائز قرار دیتے ہیں تو ان کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس سے اختلاف کا مجموعہ

  • 00:31:52 میں نے کئی لوگوں کو توجہ دلائی کہ امام شافعی کے اس مسلک پر جب شروع شروع میں عربوں نے فتوے دیے تو مولانا سید مولانا صاحب مودودی نے ایک بڑا تفصیلی مضمون لکھا ذبیحہ اہل کتاب کے عنوان سے یہ ان کی کتاب تسلیمات میں موجود ہے اس میں بہت اچھی تنقید کی میرے نزدیک وہ تنقید بالکل درست

  • 00:32:10 میں اس کو اج بھی صحیح سمجھتا

  • 00:32:12 اسی پر میں نے اپنی رائے کی بنیاد رکھی اور یہ معلوم ہے اپ کو کہ یہی نقطہ نظر اپنی کتاب میزان میں بیان کیا اب یہاں حرام اور حلال کے معاملے میں اطلاق کا اتنا بڑا اختلاف ہو رہا ہے احناف اور شوافع کے درمیان لیکن کوئی قیامت برفانی ہے

  • 00:32:27 یہی بات ہے کہ ایک کی رائے صحیح ہے

  • 00:32:30 تو بات ہے کہ دوسرے کی رائے غلط ہے لیکن غلط اور صحیح کہہ کر خاموشی اختیار کر لینی چاہیے تو یہاں بھی میں یہی کہوں گا کہ اسلامک بینکنگ کے لئے جو طریقے اختیار کیے گئے میں ان پر مطمئن نہیں

  • 00:32:41 تم کو میں نے تنقید کر دی یہ بتا دیا تم نے ہیلے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے میرے نزدیک حیلے کا طریقہ شریعت میں کبھی بھی اختیار نہیں کرنا چاہیے یہ میرا ذاتی ہے

  • 00:32:50 بات سلیم قدر والا بان ہے اس کے جواز کا فتوی دیا انہوں نے اس کو عبوری دور کے انتظامات سے تعبیر کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے ایک مرتبہ قائم ہو جائیں گے تو اہستہ اہستہ اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے یہ ایک طریقہ ہے اور اختیار کیا ہے اس طریقے پر ہم تنقید کریں گے اس کی غلطی واضح کریں گے لیکن ان کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کبھی نہیں کریں گے کہ وہ اللہ کی حرام کردہ ایک چیز کو حلال کرنے کی کوشش کر رہے

  • 00:33:14 یہی احتیاط ہے جو اطلاقی معاملات میں ہمیشہ ملحوظ رکھنی چاہیے ورنہ تو اپ کے جتنے فقہاء ہیں ان کے مابین حرام حلال ہی کے اختلافات موجود ہوتے ہیں

  • 00:33:24 اور وہ سب کے سب اخلاقی اختلافات

  • 00:33:27 انی سمجھتے ہو کہ تمام جانور جائیں جو بھی اپ کھا لیں لیکن اپ جانتے ہیں کہ میں بھی اس پر یہ شرط عائد کرتا ہوں اسے فقہاء کی ایت کرتے ہیں کہ نہیں وہی اصول جو خشکی کے جانوروں کے معاملے میں ہے کہ درندے نہیں کھائے جائیں گے اور چرندے کھائیے یا وہ جانور کھا لیے جائیں گے کہ جن کو اس طرح ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے مچھلیاں ہے تو اصول کو مان کر اصول کو سب ماننا ہے یعنی امام شافعی بھی اس بات کو مان رہے ہیں کہ طیبہ حلالہ

  • 00:33:57 باقی فو بھابی سے بات کو مان رہے ہیں لیکن چیزوں پر اطلاق کرنے میں اختلاف ہو جاتا ہے اس اختلاف میں ایک خاص طرح کا تنوع بھی لوگوں کے لئے ایک طرح کی سہولت بھی ہے اس سے دین کو سمجھنے کا عمل بھی جاری رکھتا ہے اہل علم اگر اس معاملے میں فتوے بازی کا طریقہ اختیار نہ کریں تو ایک دوسرے سے سیکھتے بھی رہ سکتے ہیں تو یہی معاملہ یہاں ہے یعنی اپ ایک زاویے سے دیکھتے ہیں اپ کہتے ہیں کہ بینک کہتے ہیں کہ میں نے قرض لیا ہے وہ یہاں بھی قرض دے رہے ہیں قرض ہی تو دے رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں قرض ہی مجھ سے واپس لے رہے ہیں ظاہر ہے اپ کو حق حاصل ہے کہ اپ اس کو کرن ہی قرار دے کر اس کے بارے میں یہ فتوی دیں کہ یہ بالکل ممنوع ہے کیونکہ قرض پر منت کا مطالبہ کرنا حالات میں ایک ادارے کے قیام میں معاملے کی صورت سادہ قرض کی نہیں رہنے دی نہیں رہنے دی تو اس نے مثال کے طور پر میں اور شراع کے پہلو کا

  • 00:34:45 غلبہ ہوگیا مثال کے طور پر اس کو اپ اب کرایے کی طرف لے جا سکتے ہیں تو اپ کہتے ہیں کہ اچھا یہ تھوڑے سے اور تغیرات کر لیجئے اس میں یہ چیز بالکل جائز

  • 00:34:54 ہم سب میں جواب میں تجاویز دی ہیں ان پر جو اعتراضات بلوم کیے جاتے ہیں میں ایک ایک کرکے اپ کے سامنے رکھتا ہوں سب سے پہلے بھی جو اپ نے بات کی تھی کہ جو موڈ گیج کا تصور ہے اس کی نوعیت کو اپ نے واضح کیا بینکنگ کے کے ادارے کی نوعیت میں بھی اپ نے واضح کیا تھا لیکن میں

  • 00:35:10 میں چاہتا ہوں اپ ذرا اس الجھن کو اڈریس کریں کیونکہ جب ہم نے اپ نے بینکنگ میں گفتگو کی تو وہ لوگ جو خالصتا مدرسے میں پڑھتے ہیں یا دینی علوم کا پس منظر رکھتے ہیں سب نے ایک ہی اعتراض اٹھایا وہ یہ کہ جب اپ یہ کہتے ہیں کہ اپ جب کوئی چیز استعمال کر رہے ہیں یعنی بینک جو زائد رقم لے رہا ہے اپ سے وہ اصل میں اپ کے استعمال کرایا ہے اپ کے سامنے جو جو بنیادی اعتراض اس کے سامنے اتا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ استعمال کا مطلب ہوتا ہے عالیہ تن کوئی چیز لینا اور استعمال کے بعد واپس کر دینا اس میں کوئی بھی چیز اپ کی ملکیت نہیں بنتی جیسے گھر کرائے پر لیا اس میں مالک مکان کے ذمے ہوتا ہے اس کی دیکھ بھال کرے جس کا وہ کرائے لیتا ہے نہ صرف یہ کہ بینک گھر کی ذمہ داری نہیں لیتا بلکہ وہ اس گھر کا مالک بھی نہیں رہتا یعنی وہ اپ کو ملکیت شفٹ ہو رہی ہوتی ہے لہذا اس صورت میں بینک کو ادا کیے جانے والے پیسے کو استعمال کرایا قرار نہیں دیا جا سکتا تو اب اپ نے ویسے تو بہت واضح کیا کہ نوعیت بدل بدل جاتی ہے اگر اپ مجھے تصور لے کے جاتے ہیں کہ جی تو

  • 00:36:13 مذہبی ذہن کے اندر یہ الجھن ہے میں نے یہ کب کہا ہے کہ یہ کرائے کا معاملہ سادہ ہو رہا ہے میں یہ کہہ رہا ہوں یہ میں اور شرار کرایہ ملا دیے گئے

  • 00:36:24 ایک ہی وقت میں ایک گھر اپ کو بھیج دیا گیا ہے اس کے بارے میں طے کر لیا گیا ہے کہ اپ بلیک سات اس کی قیمت دیں گے قیمت اج کے لحاظ سے طے کی گئی ہے اپ نے قسطوں میں ادا کرنی ہے اپ نے 10 سال میں ادا کرنی ہے پندرہ سال مے ادا کرنی ہے مکان اپ کا ہو جائے گا گاڑی اپ کی ہو جائے گی یہ ہوگیا یہ طے ہے اپ کو بیچ دی گئی ہے ایک چیز لیکن اس کے ساتھ چوتیا بھی اپ نے اس رقم کو واپس نہیں کیا اپ نے بہت لمبے عرصے میں جا کر وہ رقم واپس کرنی ہے تو اپ دوسرے کی چیز استعمال کر رہے ہیں تو اس پر کرایہ کیا جاسکتا ہے میں نے عرض کیا یہ ہائر پرچیز ہے اپ کرائے کو الگ کر لیں گے تو ظاہر بات ہے اعتراض ہوگا اور شرح کو الگ کر لیں گے ظاہر ہے کہ اعتراض ہوگا ایک وقت میں ہوئی ہیں اور اس پے میرے نزدیک شرعی لحاظ سے کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے میں نے اس کی سادہ مثال دی ہے تو میں اپنے بیٹے سے یہ کہتا ہوں کہ گھر میں نے اپ کو خرید کر دے دی ہے اپ کرائے پر رہتے ہیں کرایہ دیتے رہیے اس کے ساتھ یہ قیمت اس کی طے کر دی گئی ہے اس کو غلط سات ادا کرتے

  • 00:37:21 یہ احسان ہوگا یا کوئی ظلم ہوگا

  • 00:37:24 میں نے کوئی قرض نہیں دیا

  • 00:37:26 استعمال نہیں کیا میں نے تو اپ کو ایک گھر خرید کے دے دیا ہے اور خرید کے بیچ دیا

  • 00:37:32 اس کی قیمت کیا کرنی ہے وہ قیمت اپ نے مجھے دینی ہے وہ بالاک سات ادا ہوگی اب ان کو دونوں کو ماموں کو الگ الگ کر لیجئے یعنی کوئی چیز بیچ دینا

  • 00:37:42 اور الیگزی اس کی قیمت میں ناجائز ہے یہی تو کر رہا ہوں کسی چیز کو اپ کے استعمال میں دے دینا اور استعمال کا کرایہ لے لینا یہ کوئی ناجائز چیز ہے یہاں دو معاملات کو جمع کر دیا گیا ہے اب یہ ہے کہ اپ ایک سیدھی جزیہ نکال کر کہتے ہیں کہ دو معاملات کو جمع کیوں کر رہے ہیں یہ شریعت نہیں ہے یہ اخلاق ہے

  • 00:38:01 اگر قدیم زمانے میں یہ دونوں معاملات جمع کرکے ایک سورت نہیں بن رہی تھی اور اب بن سکتی ہے اور انصاف سے بن سکتی ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور اس کو ظلم نہیں قرار دیا جاسکتا تو ظاہر ہے اس کو جائز ہونا چاہیے تو اسی وجہ سے میں نے عرض کیا کہ یہ ہائر پرچیز ایگریمنٹ ہے اس پر دینی لحاظ سے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا مانیں گے کہ جس وقت اگر بینک کے ساتھ میں اگر اس میں استعمال کا کرایہ ادا کر رہا ہوں تو ایک صورت میں جو دونوں معاہدے ہورہے ہیں اس میں پھر جو ملکیت کی ذمہ داریاں ہیں مثلا میں نے گھر کرائے پر لیا ہے کچھ چیز چھوٹتی ہے تو مالک مکان کے ذمہ ہوتی ہے تو اپ کے نزدیک بھی اس ماڈل بینک کو ذمہ داری لینی چاہیے

  • 00:38:47 کسی چیز کے استعمال کو اور کسی چیز کی خریداری کو جب اپ ایک جگہ جمع کریں گے تو اس کے لئے معاہدے کی ایک نئی صورت وجود میں ائے گی میں اسی کی جانب توجہ دلا رہا ہوں کہ اب اس کے شرائط و حدود انصاف کے ساتھ طے ہو جائیں گے تو یہاں نہ اپ کرائے کے پرانے طریقے اور شراب کے پرانے طریقے لے کے ائیے معاملے کو ایک نئے معاملے کی حیثیت سے دیکھیے اور یہ بتائیے کہ اس پر دینی لحاظ سے کیا اعتراض ہے

  • 00:39:13 تو میرے نزدیک یہی لحاظ سے کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا البتہ اپ پرانی سکھ کی کتابیں نکال کے اگر بیٹھ جائیں گے تو پھر معاملات کی نوعیت بالکل نہ ہو

  • 00:39:22 یہی بات ہے جس کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے کہ یہاں دین نے براہ راست کوئی حکم نہیں دیا دین نے جن چیزوں کو ممنوع قرار دیا ہے ان کو سامنے رکھ کر ہم نے ایک نئے معاملے کو دیکھا اور جب یہ معلوم ہو گیا کہ اس میں کوئی قابل اعتراض پہلو نہیں ہے یہ قرض نہیں دیا گیا لہذا سود کا کوئی سوال پیدا ہوا اس میں لازمی ضرر کا کوئی پہلو نہیں ہے اس میں انصاف اور بے انصافی کے عمومی قواعد کی روشنی میں دیکھا جائے گا کہ معاملے میں کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہو رہی یہاں دیکھ لیجئے کہ جو روپیہ خرچ کر رہا ہے وہ زیادتی نہیں کر رہا اپ کے ساتھ بڑے احسان کا معاملہ کرنا اس میں اگے تھوڑا سا بڑھتے ہیں ہم یہ جو اپ نے دوسری بات بیان کی تھی کہ اگر کاروبار میں بینک پیسہ لگاتا ہے اور نقصان ہو جاتا ہے تو اس صورتحال میں وہ اسی دن سے منفرد کا مطالبہ بند کر دے گا جب نقصان ہوا اور صرف اصل زر جو ہے اس کا مطالبہ واپس رکھ سکتا ہے تو اس پر ایک عقلی اعتراض جو ہے وہ رکھا گیا ہے سامنے وہ یہ کہ

  • 00:40:21 یہ بات کے اگر اپ نے مثلا اس میں بینک نصر نقصان دونوں میں شریک نہیں ہوتا پہلے تو اس کے ساتھ کیجئے گا عام طور پر کہا جاتا ہے شریعت کے لحاظ سے یہ جائز نہیں ہے کہ مضاربت کا جواب کرتے ہیں جب اپ نے دو لوگوں نے مل کر کاروبار کرنا ہے تو شریعت کا قانون یہ ہے کہ نفع نقصان دونوں میں شریک ہوا جائے کیا شریعت میں جب ہم کہتے ہیں قران مجید حدیث اس میں یا سنت متواترہ یہاں کے زیر بحث ہے یہ کہتے تھے کہ شریعت میں بعض معاملات پر حکم لگایا گیا ہے تو یہ دین کے اصول عامہ کی روشنی میں لگایا جاتا ہے

  • 00:40:57 ارے اپ کو بتایا گیا ہے کہ باطل طریقوں سے دوسرے کو مال نہیں کھانا چاہیے اپ سے یہ کہا گیا کہ کابل اور تقوی والا یعنی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہے تو بیروت تقوی کے نیکی کی خیر کے معاملات میں کرو یہ ظلم اور عنوان میں نہیں ہونا چاہیے اب یہ ایک اصول ہے

  • 00:41:16 یہ اصولوں کا جس وقت اپ معاملات پر اطلاق کرتے ہیں تو پھر اپ یہ دیکھتے ہیں کہ کیا ان میں سے کسی کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی تو یہ دو باتیں بالکل الگ الگ ہیں ظاہر ہے ہمارے فقہاء نے ان کے زمانے میں جو معاملات ہو رہے تھے ان کو اس زاویے سے دیکھا ہے ان پر شرائط عائد کی ہیں ان پر حدود عائد کیے ہیں میرے نزدیک یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کو شریعت کہا جائے کہ شریعت نے جو قواعد عامہ دیے تھے ان کا اطلاق کرکے انہوں نے اپنے زمانے کے لحاظ سے یہ فیصلہ کیا ہم اج کے زمانے میں اج کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر دوبارہ انقلاب کریں اس میں کوئی معنی نہیں ہے تو اس معاملے کو ایسے دیکھنا چاہیے اور اس پے جو میں عرض کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ نقصان کا سوال نہیں ہے کاروبار بند ہو

  • 00:41:59 جانی نقصان کے معاملے میں تو میں نے عرض کر دیا کہ وہ پرنسپل سیکیورٹ فنانسنگ ہے یعنی اس میں اصل زر میں تو نقصان میں شریک نہیں ہے یہ ہر حال میں طے ہے

  • 00:42:09 اپ کو اپنا اصل گھر واپس لینے کا حق حاصل

  • 00:42:12 عبد نقصان ہوا ہے تو وہ نفع ہی میں ظاہر ہے کسی نہ کسی لحاظ سے ایڈجسٹ ہوگا نفع کی دونوں صورتوں میں نے اپ کو بتا دی ہیں کہ اپ چاہیں تو اپ واقعی نفع میں شریک ہو جائیں بینک ہو سکتے ہیں تو ہوجائے اگر اس کا حساب رکھ سکتے ہیں تو رکھ لیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو تقریبی نفع کا طریقہ یعنی ایک تخمینہ لگا دیا گیا اور اس کے لحاظ سے روایات پڑھی ہوگی جس میں جب باغوں سے زکوۃ لی جاتی ہے تو وہاں ایک پورے درخت پر کیا پھل لگا ہوا ہے اس کو تولا نہیں جا سکتا اتار کے تو اس کا ایک طریقہ بتایا گیا کہ تخمینہ کیسے کیا جائے تو تقریب نفع کی باتیں سوچتے جائز ہوتی ہے غلطی کہاں ہوتی ہے غلطیاں ہوتی ہے کہ اصول کو اپ جب کسی خاص معاملے سے متعلق کرتے ہیں تو یہ اشتہادی اخلاق ہے اس کا فرق ملحوظ رکھتے ہیں یہ شریعت کا براہ راست حکم نہیں ہوتا ایک صورت یہ ہو کہ مثلا ایک شخص کا اپ نے کہا کہ کاروبار بند ہونے کی صورت میں اصل جو زر ہے اس کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے بینک کی طرف سے منفرد روک دی جائے گی لیکن کسی شخص کا کاروبار ڈوب گیا تو اب اگر ہم یہ قواعد عامہ کو دیکھیں تو اس صورت میں تو انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ تو اصل زر بھی نہیں دے سکتا تو پھر بینک اس سے صدر کی ضرورت ہے جس میں بینک اکاؤنٹ بنا دیے گئے اس وقت بھی ایسے ضابطے ہیں کہ جب یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اپ کا دیوالیہ ہو گیا تو اس پوزیشن میں نہیں رہے اس میں بہت سی ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہیں وہ قائد عبدی ہے بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ میرے نزدیک کوئی امریکن بینکنگ میں یہ بہت بہتر ہو چکے ہیں

  • 00:43:42 اس کو جاگیر دیکھنا چاہیے الگ الگ بات ہے

  • 00:43:45 یعنی جو معاہدہ ہوا وہ عام حالات سے متعل

  • 00:43:48 کسی وقت یہ سورج پیدا ہوگی تو قران مجید میں کیا کہا یہاں سود زیر بحث ہے وہاں بھی یہ کہا ہے کہ ادمی اگر واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اس کو مہلت دو تو وہاں تو اپ نے تبرک کا کام کیا تھا نیکی کا کام کیا تھا اپ کو توجہ دلائی گئی یہاں بینکوں نے بھی بہت سے قواعد ضوابط بنا لیے ہیں کہ اگر ایک ادمی دینے کی پوزیشن میں نہیں تو کیا کیا جائے

  • 00:44:08 جائیدادیں کیسے متعلق ہوگی کولیٹرل کی کیا نوعیت ہوگی ظاہر ہے ان میں سے ہر چیز یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کا جائزہ لیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کو ملحوظ یہاں نہیں رکھا گیا تو ماننے کو اس جگہ سے دیکھیے جہاں وہ کیا جا رہا ہے یہ میرے نزدیک اگر اپ کی تجاویز کو قبول کرلیں تو اب یہ قرض کا معاملہ نہیں رہے گا لہذا سود کا معاملہ ختم ہوا

  • 00:44:29 اب بحث اسلامی سے ہو گئی کہ انصاف کا تقا

  • 00:44:32 یعنی کسی کے لئے ضرر اور زرار کا معاملہ تو نہیں ہو رہا

  • 00:44:35 کسی کو زبردستی کوئی کسی نقصان سے دوچار تو نہیں کیا جا رہا کسی کے ساتھ کوئی دھوکا تو نہیں کیا جا رہا تو یہ اصول عامہ یا قواعد عامہ کی روشنی میں معاملے کو دیکھنا ہوگا اگے بڑھتے ہیں یہ ایک جو تجویز اپ ابھی زیر بحث بھی نہیں اور اپ نے فرمایا بھی جب یہ کہا جاتا ہے کہ جب اپ کسی سے کوئی مال لیتے ہیں قرض کی صورت میں

  • 00:44:56 تو اس پر افراط زر کے علاوہ کوئی مطالبہ کرنا یہ جائز نہیں ہے تو افراط زر کے بارے میں اگر یہ قواعد عامہ کو سامنے رکھا جائے تو اس میں ایک ادمی نے مثلا قرض لیا تھا اور اپ کے دن اپ دوست کی اپ نے مثال دی تو اب افراط زر کی وجہ سے جو اس میں اضافہ ہوا تو اس میں ان کا تو کوئی رول نہیں ہے وہ تو دنیا کی اکانومی اور دنیا کے حالات کی وجہ سے اس میں تبدیلی ائی تو اس پے کیوں لازم ہے کہ وہ اعتراض اس اعتبار سے بالکل درست ہے کہ اگر قرض لیتے وقت یہ بات نہیں کی گئی یعنی قرض دیا اسی طرح پیپر کرنسی میں دیا اب میں اپ سے یہ مطالبہ کر رہا ہوں کہ میں روز رکھوں یہ تو میرے نزدیک معاہدے کے خلاف ورزی ہے اور اس کی بھی خلاف ورزی لیکن اگر ہم نے طے کر لیا کہ ہم اس وقت قرض کا معاملہ کر رہے ہیں قرض کا معاملہ کر رہے

  • 00:45:43 یہ نیکی اور خیر کا کام

  • 00:45:45 اور میں اپ سے یہ کہتا ہوں کہ میں نیکی اور خیر تو کر رہا ہوں لیکن تم 10 سال بعد میرا روپیہ واپس کرو گے 4 سال بعد یا 5 سال بعد تو اس کی تو کوئی ویلیو ہی باقی رہ جائے گی تو میں یہ نیکی تو کرنے کے لئے تیار ہوں کہ اس وقت دے دوں لیکن یہ کہ یہ نقصان برداشت کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے تو اپ اس کا مطالبہ کر سکتے ہیں لیکن یہ کب مطالبہ کریں گے جب کہ پہلے اپ نے اس کو طے کرنی

  • 00:46:07 اگر پہلے طے نہیں کیا تو پھر مطالبے کا حق باقی بھی افراط زر تو ظاہری بات ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی ہوتا ہی ہوگا جہاں پر اکانومی ہے جہاں پر چیزیں ڈیمانڈ سپلائی کا رول ہے تو چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں کم ہورہی ہیں کیا ہمیں وہاں کوئی مثال ملتی ہے کہ وہاں پر یہ گنجائش رکھی گئی ہے تو اپ اضافہ

  • 00:46:32 اب سونا دے رہے ہیں چاندی دے رہے ہیں چاندی دے رہے ہیں سونا دے رہے ہیں کھجور دے رہے ہیں اچھی کھجور یا بری کھجور لے رہے ہیں اٹا دے رہے ہیں گندم دے رہے ہیں یہ چیزیں ہو رہی ہیں وہاں پے تو اس وجہ سے یہ پیپر کرنسی میں زیادہ بڑا مسئلہ پیدا ہوا ہے یعنی یہ ایک نئی صورتحال بنی ہے اور وہ ظاہر ہے کہ پیپر کرنسی جو ہے وقت کی ضرورت

  • 00:46:51 میں نے یہاں تو پھر اسی سونے چاندی کے زمانے میں چلے جائیے جب وہاں اپ جائینگے تو وہاں شے ہے نہ جواب دے رہے ہیں جب اپ کسی چیز کو دیتے ہیں تو اپنی قیمت کو تبدیل کرتی رہتی

  • 00:47:01 اور جس طرح سے تبدیل قیمت ہے اب ہوتی ہے اس طرح زمانے میں ہوتی بھی نہیں بسا اوقات جو تبدیلی ا رہی ہوتی ہے وہی ہوتی ہے اپ پرانے زمانے کو اگر دیکھیں تو بعض اوقات دو دو صدیوں تک کوئی بڑی تبدیلی ہو جاتی لیکن اس وقت بہت بڑے پیمانے پر یہ تبدیلی ہوتی ہے لہذا قرض کے معاملات کرتے وقت دونوں کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپ معاہدے نئی چیز طے کر سکتے ہیں کہ میں پٹرولیم کے لحاظ سے میں سونے کے لحاظ سے میں فلاں چیز کے لحاظ سے قرض دے رہا ہوں اسی لحاظ سے

  • 00:47:31 واپ

  • 00:47:32 تو میرے نزدیک اس کو پہلے طے ہونا چاہیے اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے ہم سے ایک اور جو چیز ہے بھینس ائی ہے اپ کے مضمون میں وہ ہے کہ نیشنل سیونگ جو سرٹیفکیٹ ہوتا ہے قومی بچت کی جو اسکیمیں ہیں اس پر اپ نے جو رائے لکھی ہے اس میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپ نے کہا ہے کہ اس کی نوعیت ایک تھوڑی سی مطلب اسلم تو اس کو سود نہیں قرار دیا جا سکتا لیکن اس سے کچھ اجتماع پیدا ہوتا ہے تو اہل تقوی کو اس سے بچنا چاہیے اس کی نوعیت واضح کر دیجئے گا اس میں اپ نے اہل تقوی کو بچنے کی تجویز دی ہے اور کوئی یتیم بیوائیں ہیں ان کو کہا ہے کہ اپ بھی کر لیں تو اس کی نوعیت کیا ہے اگر اپ قرض لے رہے ہیں تو اس پر سود ہی کا اطلاق ہوگا وہاں میں نے دوسری بات کہی ہے یعنی جس وقت اپ کوئی معاملہ کر رہے ہوتے ہیں تو جس طرح ہر چیز حرمت کے اخری درجے میں نہیں ہوتی چیزیں کراہت میں بھی اجاتی ہیں

  • 00:48:24 شرائع کو حدود کی تبدیلی کے نتیجے میں ان کی حرمت اس مقام پر نہیں رہتی جس مقام پر وہ اصلا موجود ہوتی ہے تو وہاں ایک دوسرے اصول کا اطلاق کرکے میں نے رائے دی ہے کہ اگر قرض ہی کا معاملہ ہو رہا ہے اور اس میں اپنی طرف سے قرض لینے والا کچھ دے رہا ہے اس پر تو کسی کو بھی اعتراض نہیں ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض واپس کرتے ہوئے کہا کہ یہ اونٹنی لی تھی یہ اونٹنی کو کچھ کمزور سی تھی

  • 00:48:48 اپنی طرف سے دے رہا ہے میں نے یہ عرض کیا کہ یہ سورج پوری طرح تو وہاں نہیں پیدا ہوتی سیونگ اسکیموں میں لیکن کسی حد تک اس کے قریب پہنچ جاتی ہے تو اس کی شناخت وہ نہیں ہے یہ بات کریں وہاں کہی ہے جب کسی چیز کی شراب وہ نہیں رہی تو ظاہر بات ہے کہ وہ پھر حرمت کے درجے میں کراہت کے درجے میں اگئی یا مکروہ تحریمی کے درجے میں اگئی یہ سارے جو درجات ہمارے فقہاء نے قائم کیے ہوئے ہیں یہ حرمتوں میں قائم کیے ہیں

  • 00:49:16 یعنی یہ مکروہ تحریمی ہوگیا یہ مکروہ تنزیحی ہوگیا یہ سری حرمت ہوگئی یہ جتنے درجات ہیں ان کے لحاظ سے حکم میں بھی اختلاف ہو جائے گا ایک تقوی رکھنے والا ادمی ہے ممکن ہے کہ مکروہ تنزیح تک کے معاملے میں بچنے کی کوشش کرے

  • 00:49:33 عام لوگوں کے لئے یہ پابندی نہ لگائی جائے تو وہاں اس اصول پر ایک رائے دی گئی ہے لیکن اگر فرض کر لیجئے کہ اس میں بھی یہی طریقہ اختیار کر لیا جاتا ہے کہ حکومت جو کچھ بھی اپ سے لیتی ہے وہ اسی طرح پرنسپل سیکیورٹ فنانسنگ ہو جو مختلف پروجیکٹس میں منصوبوں میں کرائی جائے پھر اس پر بھی اس کے اخلاق کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی اس کو اخلاقی سوالات ہیں اسی حوالے سے یہ جو اپ کی تجاویز تھی ان پر جو اعتراضات تھے بالعموم اپ کے سامنے رکھے ہم نے سوال یہ ہے کہ اس سب کے بعد بینک چوک موجودہ صورت میں قائم ہے اپ کی تجاویز ابھی قبول نہیں کی گئی مکمل طریقے سے اس دوران اگر کوئی شخص بینک میں نوکری کرتا ہے تو وہ اس کی نوکری اس سے حاصل ہونے والی امدن کیونکہ بینک وہاں پر لون کے معاملے بھی کر رہا ہے فنانسنگ بھی ہو رہی ہے سب کچھ ہو رہا ہے اور پوسٹ اصلاحات نہیں کی گئی اس دوران بینک کی نوکری جائز ہے ناجائز ہے کیا خدمت میں عرض کی ہے جو کہ بینک کا صرف یہ معاملہ نہیں کر رہا اس کے ہر معاملے پر اس کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا وہ اب ایک ادارہ ہے تو تمدن کی ضرورت بن چکا ہوا ہے اس کو بہتر کرنے کے لئے ضرور غور و خوض کرنا چاہیے اس میں لوگ تربیت پائیں گے تو بہتری کی طرف قدم بڑھائے جا سکیں گے اس لئے اب اس کو ناجائز یا حرام نہیں کر رہے

  • 00:50:49 زیادہ سے زیادہ اپ بڑی بات کریں گے جو میں نے سیونگ اسکیموں کے بارے میں کہی کہ اگر اپ محسوس کرتے ہیں کہ اپ کو کچھ کراہت کا احساس ہوتا ہے بہتر جگہ پر نوکری کر لیجئے لیکن اس پر حرمت کا فتوی اس طرح نہیں لگایا جا سکتا نہیں اپ بہت خوبصورت نہیں رہی باقی کہ یہ مہاجن بیٹھا ہوا ہے لوگوں کا استحصال کر رہا ہے ان سے اس طریقے کا معاملہ کر رہا ہے اور اپ ساتھ بیٹھے ہوئے اس کے لئے کتابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں منشی کے فرائض انجام دے رہے ہیں اپ اس پر گواہیاں سخت کر رہے ہیں یہ ادارہ بہت سی مفید خدمات انجام دے رہا ہے اگر اپ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ حقیقت ہے کہ اس وقت جو لوگ یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں مثلا یہ کہ میرا اپنا پیشہ تدریسی رہا ہے تو وہ یونیورسٹیاں ساری کی ساری جتنی ہیں وہ انڈومینٹ فون پر چل رہی ہے تو اس میں میرے نزدیک اب حرمت کا فتوی نہیں دیا

  • 00:51:38 پیڑ کاٹ کی ہم سب اپنے باپ کی تھی اور اس کی بتائی تھی کہ ایک نوعیت یہ بھی ہو سکتی ہے لیکن اب بال موم دیکھتے ہیں تو بینک جو ہے وہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ اپ کریڈٹ کارڈ لیں پھر اس پہ طریقے کی جو انسان کے اندر نفسیات میں حرص اور لالچ موجود ہے چیزیں اپ خریدیں اور ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ اپ دے نہیں سکتے تو اس سے ان کو منافع بھی ائے گا تو وہ جو پورا تصور تھا کہ مجھے میری ضرورت تھی اس پر کسی نے میرے ساتھ کوئی احسان کا معاملہ کر دیا چلیں جرمانہ عائد کر دیا لیکن ٹریڈ کارڈ کے اندر تو مثلا اپ کے پاس ایک موبائل فون ہوتا ہے کریڈٹ کارڈ ہاتھ میں اجائے تو وہ ادارہ تو اصل میں میرے اندر کی اس چیز کو استعمال کرکے مجھ سے منافع کما رہا ہوتا ہے تو اس کو اپ کیا بالکل سادہ صورتحال میں دیکھتے ہیں جو بہن کیسا ہے کاروباری یہی کر رہے ہو ہر دکاندار یہی کر رہا ہوتا ہے جو لوگ بازار میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ اشتہار دے رہے ہیں اپ کو بلا رہے ہیں اپنے پروڈکٹس کا تعارف کرا رہے ہیں روز اپ دیکھتے ہیں ایڈورٹائزمنٹ اتے ہیں ان کے بارے میں بھی یہی فتوی دینا پڑے گا

  • 00:52:35 تو ظاہر ہے کہ اس طرح کی چیزوں میں اپ دونوں کو الگ الگ کتاب کرتے ہیں لوگوں کو کہیے کہ وہ اپنے اخراجات کو کنٹرول میں رکھیں اپنے بیٹے کو کہیے اپنے بھائی کو یہ اپنی اہلیہ سے کہیے کہ یہ معاملات ایسے نہیں کرنی چاہیے اپنی چادر میں پاؤں پھیلانے چاہیے اور اس طرح حفظ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ان کے ساتھ یہ بات کریں وہ کاروبار کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں یعنی میں نیکی اور تبرک کا کام کرنے کے لئے نہیں بیٹھے ہوئے کہ جس طرح کاروباری ادمی اپنے پروڈکٹس بھیجتا ہے اور اس کے لئے ترغیب بھی دیتا ہے لوگوں سے کہتا ہے وہ بھی یہ کہیں گے اس میں میں نے اپ کی خدمت میں عرض کی ہے کہ ایک معاملہ بالکل درست تو وہی ہے کہ وہ مہلت دیتے ہیں اپ کو اس کے دوران میں اپ کو واپس کر دیں اس پر کیا اعتراض ہے اسی طرح کا بھی اعتراض نہیں ہے وہاں اگر اپ غور کریں تو اسانی ہو تو اپ کی جگہ انہوں نے خریداری کر لی اپ کی جگہ ادائیگی انہوں نے کر لی اپ کو مہلت دے دی یعنی ایک دوکاندار کی جگہ پر چلے گئے اس طرح وہ اپ کو ایک بار کی 2 ماہ کی مہلت دے دیتا ہے کہ اپ محلے کے دوکاندار ہمارے ہاں بہت سے محلوں میں دکاندار ہیں کہ جو اپ سودا اٹھاتے چلے جاتے ہیں اور دو مہینے بعد مہینے بعد اپلائی کر دیتے ہیں ہمارے پرانے محلوں میں اپنا اور میں چلے جائیں یا پرانے شہروں میں چلے جائیں جو محلے کی دوکانیں ہوتی تھیں ان سب پے یہ ادھار چل رہا ہوتا ہے

  • 00:53:42 اپ افسانے پڑھی ہے اپ کو اسے مل جائے

  • 00:53:45 اپ کہانیاں پڑھی ہے پرانی اپ کو معلوم ہو جائے گا اسی طرح سے دیہات میں جو دکانیں ہوا کرتی تھی ان میں تو حساب بھی اسی طرح سے چل رہا ہوتا

  • 00:53:53 تو اس لیے ادھار اپ نے سودا خرید لیا کوئی اور اس کی بات نہیں ہے دنیا ہے چل رہی ہے اب اپ سودا ہی خریدنے کے لئے نہ جائیں اس میں اگر کوئی حرص پیدا ہو رہی ہے تو اپ کو خطاب کر کے اس سے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے اس سے معاملے کے اوپر کوئی اثر نہیں پڑتا معاملہ بہرحال کاروباری طریقے سے ہو رہا ہے اگر وہ اپ کو سود پر قرض دے رہے ہیں تو اس کے بارے میں وہی حکم ہوگا جس سے پہلے بیان کر دیا گیا انہوں نے ایک رقم اپ کو بھی اس میں کوئی سود کا معاملہ نہیں کیا اپ کو بتا دیا ہے کہ اپ ایک مہینے میں اور کیا واپس کریں گے اس کے بعد وہ کیا کر سکتے ہیں میں نے عرض کیا کہ سود کا معاملہ نہیں کریں اس میں جرمانہ عائد

  • 00:54:30 جس طرح کی بجلی کا بل اپ کو اتا ہے اپ دیکھیے سب لوگ نہایت اطمینان کے ساتھ اگر نہیں وقت پر بیٹھے تو جرمانہ ادا کرتے ہیں تو یہ مالی تاوان اور جرمانہ ہے ان میں ادنی مشابہتیں پیسہ پیدا کرکے سود کے جوئے کے احکام نہیں عائد کرنے چاہیے اپنے بعد کیوں دیکھتے ہیں کہ ایک اور سوال کے موجودہ دور میں ریوارڈ دیے جاتے ہیں بسا اوقات اپ نے اتنی خریداری کی اور اپ نے یہ کارڈ لیا تو اس پر اپ کو اتنی بچت ہوگی یا اتنا کریڈٹ دے دیا جائے گا تو اس کو سمجھا جاتا ہے کہ اپ نے بغیر یعنی جو اپ کا پیسہ خرچ ہوا تھا اس سے زائد اپ نے اس سے لے لیا تو اس طرح کے ریوارڈز کو بھی لوگ کہتے ہیں کہ اپ اس میں دو چیزیں خریدی ہیں تو ایک اپ کو مفت مل جائیگی بیچنے کے طریقے ہیں لوگوں نے اختیار کیے ہیں ترغیب دینے کے اس میں کوئی چیز ممنوع نہیں ہے دیکھیے بحثیت مجموعی کسی معاشی عمل کے سوسائٹی پر کچھ نقصانات ہو رہے ہیں ان کو وہاں سے اڈریس کرنا چاہیے

  • 00:55:29 لیکن یہ فرد کی حیثیت سے یہ معاملہ کرنا بیچنے والے کی حیثیت سے یہ معاملہ کرنا اس پر کیا اعتراض کیا جا سکتا

  • 00:55:36 کوئی احساس

  • 00:55:37 اگے بڑھتے ہیں ہم سب خاتمے کی طرف یہ اج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں نئے نئے کرپٹو کرنسی ڈیجٹل چیزیں ہیں میں اصولی طور پر ایک بات اپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اج یہ ہے کل ہو سکتا ہے 10 چیزیں اور اجائیں ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل لوگوں کی ریٹنگ کے اعتبار سے ان کی اپنی قیمت طے ہو رہی ہے کہ ان کا سوسائٹی کے اندر ان کا طریقہ کار کیا ہے معاملات کیسے ہیں اس سے ان کا کریڈٹ اسکور بنتا ہے وہ ایک کموڈیٹی بن جاتا ہے

  • 00:56:02 میرا سوال اپ سے یہ ہے کہ اس طریقے کی جو اطلاقی معاملات ارہے ہیں اور ائندہ والے دنوں میں اور اگے ائیں گے ابھی بٹ کوائن ایا تو اس میں اپ کے نزدیک یعنی علماء جو ہیں وہ اس میں اصل فیصلہ کس نے کرنا ہے یعنی وہ لوگ جو بازار میں بیٹھے ہیں سب چیزیں سائنس ہیں اکنامک ایک سائنس ہے بینکنگ ایک سائنس ہے اور اس کے بعد دین کا اس پہ حکم لگا دیتے ہیں تو اس میں اصل فتوی جو ہے وہ کس کو دینا چاہیے میں بھی رائے دے رہا ہوں کوئی دوسرا بھی دے سکتا ہے علماء بھی دے سکتے ہیں کسی خاص فن کے ماہرین بھی دے سکتے ہیں باغ میں بیٹھے ہوئے لوگ بہتر طریقے سے رائے دے سکتے ہیں یہ ہم نے جو ارادہ نہیں ہے یہ ظاہر ہے اخلاقی ارام ہے یہ مجھ سے بہتر وہ لوگ دے سکتے ہیں کہ جو معاملات کو زیادہ سمجھتے ہیں اپنی رائے اس میں کوئی غلطی ہوگئی میں اس کی نشاندہی کر دوں گا میں کوئی غلطی کروں گا اپ اس کی نشاندہی کر دیں گے کوئی اطلاع کی ارات دی جائیں گی اس میں دینے میں کوئی حرج کی بات نہیں لیکن رائے دیتے وقت یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اپ کیا کہہ رہے

  • 00:57:04 میں نے اپ کس جگہ پر کھڑے ہو کر رہے ہو

  • 00:57:07 اپ کو کوئی رائے دینی ہے تو رائے کو رائے کے طور پر پیش کیجئے دین کے احکام واضح ہو لیکن سود ممنوع ہے سود کیا ہے قرض پر منصب کا مطالبہ جوا ممنوع ہے رشتوں میں نمرود شیطان ہے جوا کیا ہوتا ہے میں بھی جانتا ہوں اپ بھی جانتے

  • 00:57:21 جس چیز کو جوا کہا جاتا ہے اسی کو قران مجید میں جوا یا میسر کہا ہے تو جن چیزوں کو اللہ تعالی نے اس طرح خود اطلاق کرکے ممنوع قرار دے دیا وہاں نہ مجھے کوئی رائے دینے کا اختیار ہے نہ اپ کو برائے دینے کا اختیار ہے وہاں فہم میں اختلاف ہو سکتا ہے

  • 00:57:35 اور وہ ہوتا نہیں ہے بہت سے لوگ ہیں کہ جو اس طرح کی چیزوں میں فہم کا اختلاف کر رہے ہیں یعنی ایک نصوص کو سمجھنے کا زاویہ مختلف ہوگیا ہے

  • 00:57:46 قران مجید میں لفظ کے معنی کیا ہیں جملے کی تالیف کیا ہے سیاق و سباق کیا کہہ رہا ہے تاریخی پس منظر کیا بتاتا ہے اس میں بھی اختلافات ہو جاتے ہیں یہ فہم کے اختلافات ہے اس کے بعد اطلاق کا معاملات کیا ہے اطلاق ہر حال میں اجتہادی چیز یعنی اصول اپ نے مان لیا اب اپ دیکھیں گے کہ جو معاملات بھی ہونی چاہیے ان میں وہی اصول کارفرما رہنا چاہیے کہ

  • 00:58:10 یعنی جو کرنا ہے صحیح طریقے سے کرو دوسرے کا اعتماد مجروح نہ کرو اس کے ساتھ دھوکہ نہ کرو چوری نہ کرو ملاوٹ نہ کرو باطل طریقے سے کسی کا مال نہ کھاؤ یہ اس کی بازی صورتیں ہیں ان سے میں بھی واقف ہوں پوری دنیا واقف

  • 00:58:25 یعنی کون چوری کو جائز قرار دے گا کون ملاوٹ کو جائز قرار دے گا کون گھبن کو جائز قرار دے گا جو مشتبہات ایسے تھے جن میں اللہ تعالی نے حکم لگانا تھا لگا دیا جیسے کہ جوئے اور سود کے بارے میں اللہ تعالی نے فتوی دے دیا وہاں پر بھی کوئی سوال دوسرا باقی نہیں رہا فہم کا اختلاف ہو سکتا ہے اس کے بعد جتنے معاملات ہیں وہ اصل میں اطلاعات ہیں یا اپلیکیشن ہے یعنی ایک اصول دیا گیا ہے قواعد عامہ کو یا اصول عامہ کو سامنے رکھ کے اپ ایک معاملے کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ معاملہ درست نہیں ہو رہا اس میں اختلافات ہوں گے اختلافات ہوئے ہیں جس چیز پر اپ کا اطمینان ہے اپ عمل کیجئے

  • 00:59:01 اپ کو اپنے اجتہاد کے بارے میں صرف یہ بات

  • 00:59:04 دیکھے نہیں چاہیے کہ اپ کا ضمیر مطمئن ہے

  • 00:59:07 اپ نے سمجھنے میں غلطی کیوں نہیں کی اور سمجھنے میں غلطی بڑے سے بڑے فقی سے ہوتی ہے بڑے سے بڑے عالم سے ہوتی ہے معاملات کو سمجھنے والے لوگوں سے ہوتی ہے جب تک زندہ ہیں دوسرے کا اعتراض سنو

  • 00:59:20 اس کو دیکھیے کہ وہ اعتراض کس اسپرٹ سے کیا جا رہا ہے اس میں کیا استدلال ہے کیا چیز بتائی جارہی ہے تو اللہ تعالی سے بھی باقی طلب کیجئے اور اپنے نقطہ نظر کی اصلاح کر لیجئے کوئی اطلاق کی معاملات اسی طرح رہیں گے یہ حرام حلال کے معاملے میں بھی ایسے ہی ہوں گے یہ کھانے پینے خرونوش کی چیزوں کے معاملے میں بھی اسی طرح ہوں گے یہ اخلاقی معاملات میں بھی بعض ایسی چیزیں ہیں کہ جن میں دو رائے ہو سکتی ہیں وہاں بھی ایسے ہی ہوں گے لیکن وہ چیزیں کہ جن سے متعلق کوئی دوسری رائے ہو نہیں سکتی غزل ہے چوری ہے ملاوٹ ہے اسی طرح کی اور بہت سی چیزیں ہیں ان میں اپ دیکھتے ہیں کوئی بھینس بھی نہیں ہوتی یہ وہی چیزیں ہوتی ہیں کہ جن میں یا کوئی فہم کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے یا اطلاق کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے یا دونوں طرف کی چیزیں سامنے اجاتی ہیں جیسے ہم نے یہ تجزیہ کر کے دیکھا کہ یہاں قرض کے معاملات الفاظ کے لحاظ سے دیکھیں تو وہی میں نے پہلے عرض کر دیا کہ ادھر سے اپ اپروچ کریں گے تو میں بھی وہی حکم لگاؤں گا ابھی وہی حکم لگائیں گے ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو معاملات میں اور شراکے ہو رہے ہیں اگر دعوت شراکے معاملے کو پہلے دیکھیں ظاہر ہے کہ رقم کی نوعیت اور ہوجاتی ہے تو ہم نے کیا کیا ہم نے یہ کہا کہ یہ معاملہ واضح کر لیا جائے یعنی میں اور شرحی کے معاملے کو واضح کر لیا جائے کرائے ہی کے معاملے کو واضح کر لیا جائے اسی طریقے سے فنانسنگ کے معاملے کو اس طرح ان شرائط سے محروم کر دیا جائے یہ جتنی چیزیں بھی اس میں کہی جائیں گی یہ تمام کی تمام اطلاع کی چیزیں ہیں اور اطلاع کی چیزوں سے متعلق میں پھر عرض کردوں اس طرح کا رویہ کبھی اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ اپ کسی شخص کے اطلاق کی بنیاد پر اسے دین سے باہر قرار دے

  • 01:00:49 یہ رہے گا

  • 01:00:51 مثال کے طور پر جو اہل علم یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سرے سے وہ قرض ہی نہیں ہے

  • 01:00:56 جس پر اللہ تعالی نے منفت لینا ممنوع قرار دیا

  • 01:01:00 یہ کہ اہل علم کا پورا جو ہے شام میں دیے مولانا وحید الدین خان نے بھی کم و بیش یہی رائے دیے ہمارے ہاں بھی بہت سہل ہے علم ہے میں نے اکرم خان صاحب کا تعارف اپ سے کرایا تھا اور بھی لوگ ہیں کہ جو یہ رائے رکھتے ہیں ان کا معاملہ بھی یہی ہے ہم ان سے اختلاف کرتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ اپ کی رائے محسوس کے مطابق نہیں ہے قران مجید کے الفاظ اس کو قبول نہیں کرتے لیکن ان کو یہ رائے قائم کرنے کا حق نہیں ہے یہ نہ میں کہتا ہوں اپ کو کہنا چاہیے

  • 01:01:24 یہ معاملہ تو نصوص کے فہم کا وہاں پر بھی نہیں کہہ سکتے وجہ یہ ہے کہ اپ اطلاقات کے معاملے میں اس طرح کے حکم لگائیں

  • 01:01:32 بہت شکریہ ہماری جو نشست ہے اس کا وقت کچھ اج بڑھ گیا لیکن ہم نے بہت تفصیل سے پچھلی چار نشستوں میں اپ سے سود کے حوالے سے جو بالوں میں اعتراض اپ کی فکر پر کیا جاتا ہے اس کو ہم زیر بحث لائے انشاء اللہ ائندہ انے والی نشستوں میں مزید جو اعتراضات ہیں ان کے سلسلے کو اگے بڑھائیں گے اب تک اپ کا بہت شکریہ

  • 01:01:52 [Unintelligible]

  • 01:01:54 [Unintelligible]

  • 01:01:57 [Unintelligible]

Video Transcripts In English

Video Summry

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 پچھلی گفتگو کا کچھ خلاصہ 1:15 کتاب مقامات میں بینکنگ کے شعبہ کو دی جانے والی تجاویز پر گفتگو 24:47 غیر کاروباری ضرورتوں کے لیے قرض اور افراط زر 29:34 کسی مسئلے کے بارے میں رائے کے اطلاق کے فرق پر گفتگو 38:18 جاوید صاحب کی تجاویز پر اعتراضات کا جائزہ 50:23 کیا بینک کی نوکری جائز ہے 52:06 کریڈٹ کارڈ میں موجود لالچ کے عنصر اور بعض کمپنیوں کے ریوارڈ دینے پر گفتگو 56:06 کرپٹو کرنسی اور آئے دن نئے پیش آنے والے معاملات میں اصل رائے کون دے گا

Video Transcripts In Urdu

Video Transcripts In English

Video Summary

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 پچھلی گفتگو کا کچھ خلاصہ 1:15 کتاب مقامات میں بینکنگ کے شعبہ کو دی جانے والی تجاویز پر گفتگو 24:47 غیر کاروباری ضرورتوں کے لیے قرض اور افراط زر 29:34 کسی مسئلے کے بارے میں رائے کے اطلاق کے فرق پر گفتگو 38:18 جاوید صاحب کی تجاویز پر اعتراضات کا جائزہ 50:23 کیا بینک کی نوکری جائز ہے 52:06 کریڈٹ کارڈ میں موجود لالچ کے عنصر اور بعض کمپنیوں کے ریوارڈ دینے پر گفتگو 56:06 کرپٹو کرنسی اور آئے دن نئے پیش آنے والے معاملات میں اصل رائے کون دے گا

▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 پچھلی گفتگو کا کچھ خلاصہ 1:15 کتاب مقامات میں بینکنگ کے شعبہ کو دی جانے والی تجاویز پر گفتگو 24:47 غیر کاروباری ضرورتوں کے لیے قرض اور افراط زر 29:34 کسی مسئلے کے بارے میں رائے کے اطلاق کے فرق پر گفتگو 38:18 جاوید صاحب کی تجاویز پر اعتراضات کا جائزہ 50:23 کیا بینک کی نوکری جائز ہے 52:06 کریڈٹ کارڈ میں موجود لالچ کے عنصر اور بعض کمپنیوں کے ریوارڈ دینے پر گفتگو 56:06 کرپٹو کرنسی اور آئے دن نئے پیش آنے والے معاملات میں اصل رائے کون دے گا

Related Videos
1
Response to 23 Questions - Part 22 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 22 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 21 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 21 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 20 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 20 - Interest - Usury (Sood) - Javed Ahmed Ghamidi