Response to 23 Questions - Part 24 - Arrival of Imam Mahdi - Javed Ahmed Ghamidi
Video Transcripts In Urdu
-
00:00:00 [Unintelligible]
-
00:00:11 السلام علیکم مکتبہ غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید یہ سلسلہ گفتگو کے اس اعتراضات پر مشتمل ہے جو گندم غامدی صاحب کے مذہبی افکار پر پیش کیے جاتے ہیں اس سلسلے کی ایک چوبیسویں نشست ہے ہم نے اب تک داڑھی پردہ فطرت اور سود کے موضوعات پر بہت تفصیلات کی اور غامدی صاحب کے سامنے کوئی اعتراضات رکھے جو بلکل لوگ اور بالخصوص مذہبی روایت کے احباب غامدی صاحب کے افکار پر پیش کرتے ہیں اس سلسلہ دراز کو اگے بڑھاتے ہیں اور اج بہت اہم بحث جو بالعموم ہمیں سننے کو ملتی ہے انٹرنیٹ فیزبک پے مختلف فتاوی کی صورت میں غامدی صاحب پر جو اعتراض ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے
-
00:00:52 مہدی علیہ السلام کی امد کا انکار کیا ہے
-
00:00:56 اس موضوع کو لے کر اج پھر حاضر خدمت میں اگے بڑھاتے ہم سے بہت شکریہ اپ کے وقت کا
-
00:01:01 کب تک جتنے اعتراضات زیر بحث ائے اس کے بارے میں ہمارے جو علماء ہیں بری ہوں یہ کہتے ہیں کہ یہ سب باتیں سند بھی ہیں دین کے احکام کے اندر بحث ہے داڑھی ہوگیا پردہ ہو گیا سود ہو گیا یہ فطرت کے بغیر
-
00:01:15 لیکن یہ وہ پہلا اعتراض ہے جو میں اپ کے سامنے رکھ رہا ہوں جس کے بارے میں کہا یہ جاتا ہے کہ بات اب اگے بڑھ گئی ہے اور غامدی صاحب نے دین کے اس دائرے میں یہاں پر اختلاف چلیں کوئی نہ کوئی کر ہی رہا ہوتا ہے اس سے اگے بڑھ کے عقائد کی نوعیت کی چیز میں اختلاف کر دیا ہے اور یہ بہت سنگین انحراف ہے
-
00:01:36 سب سے پہلے گفتگو کا میں اغاز کرنے سے چاہوں گا کہ اپ یہ بتائیں کہ یہ جو ہم نے پیچھے جن چیزوں میں بحث کی اور اب ہم جس موضوع پر اگے ہیں
-
00:01:44 یہ عقیدہ کیا ہوتا ہے عقیدہ اور دین کے باقی احکام میں کیا فرق ہے یہ عقیدہ کہاں بیان ہوتا ہے اور دین نے جو عقائد کی فہرست دی ہے اس میں اپ نے اس کو کیوں شامل نہیں کیا پہلی بات جو میں عرض کروں گا وہ یہ ہے
-
00:01:59 کے یہ لفظ عقیدہ
-
00:02:01 بہت بات کی ایجاد ہے
-
00:02:03 قران مجید رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات
-
00:02:08 صحابہ کے اثار اس لفظ سے واقف ہی نہیں
-
00:02:11 قران میں جو لفظ استعمال ہوا ہے یا حدیثوں میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ایمان ہے
-
00:02:17 میری کتاب میزان کو اگر اپ دیکھیں تو اس میں ایمانیات کا باب ہے
-
00:02:22 نیندوں وہی بات پھڈا رہا ہوں
-
00:02:24 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب کبھی یہ لفظ استعمال کیا ہے
-
00:02:30 تو دین کی بنیادی عقائد کے لیے ایمانی کا لفظ استعمال کیا
-
00:02:35 قران مجید کو اپ پڑھ جائیے
-
00:02:37 ہر جگہ جگہ دیکھیے یہاں قران مجید میں لوگوں پر نقد کیا ہے جہاں اپنے بنیادی تصورات کی دعوت دی ہے جہاں ان پر اعتراضات کا سامنا کیا ہے یہاں لوگوں کے اشکالات رفع کئے ہیں ہر جگہ ایمان کی تعبیر ہے
-
00:02:53 خود رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی یہ کہا ہے کہ ایک زمانہ ہوتا کہ
-
00:03:02 یعنی یہ قانون کیا ہے شریعت کیا ہے اس کی تفصیلات کیا ہیں ایمانیات کے کیا پہلو ہیں اپ ان کی تفصیلات سے واقف نہیں تھے اس کے بعد اللہ تعالی نے کرم فرمایا اپنی وحی نازل کی نبوت کے منصب پر فائز کیا اور ایمان کی بھی تعلیم دی اور اس قانون کی بھی تعلیم دی جس کو شریعت کہا جاتا ہے
-
00:03:24 میں کئی مرتبہ واضح کر چکا ہوں کہ قران مجید کی اصطلاح شریعت بھی ہے شرح بھی ہے اور اسلم الکتاب ہے قران میں یہ لفظ اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے باقاعدہ استعمال ہوا ہے
-
00:03:38 تو ہمارے دین کے دو حصے ہیں
-
00:03:40 ایک کا تعلق بھی مانو اخلاق سے ہے دوسرے کا تعلق شریعت یا قانون سے
-
00:03:46 ہماری اصطلاح
-
00:03:48 ان تمام مواعظ سے متعلق ایمان کی اصطلاح ہے
-
00:03:52 چنانچہ یہ دیکھیے کہ جو سب سے زیادہ اہم روایت ہے بلکہ روایات کے ذخیرے میں جس کی اہمیت کا ہر معمولی ہے وہ حدیث جبریل ہے اس میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے
-
00:04:06 کے جبریل ائے تھے یعلمکم دینکم
-
00:04:09 تمہیں تمہارا دین سکھانے ائے تھے
-
00:04:12 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم قران بتا رہے تھے کہ دین سکھا رہے تھے
-
00:04:16 شب و روز جو تعلیمات بیان فرما رہے تھے دین سکھا رہے تھے
-
00:04:20 سنت کو جاری کررہے تھے دین سکھا رہے تھے تو وہاں یو ار لے مکم دینکم کا مطلب کیا ہے
-
00:04:25 یعنی ایک خلاصہ تمہارے سامنے دین کا رکھ دیا جائے
-
00:04:29 تاکہ جب تمہیں مراجعت کی ضرورت ہو
-
00:04:32 تو بالکل متعین طریقے پر وہ چیزیں سامنے اجائیں جو معنی ضروری ہے جو کرنی ضروری ہے
-
00:04:39 تو اس موقع پر پہلا سوال یہی کیا گیا ہے کہ میں نہیں مان ایمان کیا ہے
-
00:04:44 انی عقیدہ کا لفظ استعمال کیا جائے ایمان کیا ہے
-
00:04:48 اور اس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا ہے وہ بالکل وہی جواب ہے جو قران مجید میں دس جگہوں پر دیا گیا
-
00:04:57 قران مجید میں بھی ایمانیات گنوائے گئے کئی جگہوں پر گنوائے گئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی ایمانیات وہاں بیان کی ہے
-
00:05:07 اور وہ کیا ہے وہ پانچ چیزیں
-
00:05:10 اللہ پر ایمان اللہ کے فرشتوں پر ایمان اللہ کے نبیوں پر ایمان اللہ کی کتابوں پر ایمان روز جزا پر ایمان
-
00:05:18 اب اگر اپ نے عقیدے کی اصطلاح استعمال کرنی ہے تو وہ انہیں کے لئے استعمال ہو سکتی
-
00:05:24 یعنی اسلام کے عقائد اسلام کی ایمانیات اسلام میں جن معنوں کو ماننے کا لوگوں کو پابند کیا گیا ہے وہ یہی پارٹی
-
00:05:34 اس کے سوا کسی چیز کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ ایمان ہے یہ عقیدہ ہے بے معنی بات
-
00:05:41 یہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تشریح سے انحراف کرنا ہے
-
00:05:46 ہمارے یہاں لوگوں نے کیا یہ ہے کہ کچھ اخبار اگئے
-
00:05:50 روایات
-
00:05:52 وہ ماضی کے بھی ہو سکتے مستقبل کے بھی ہو سکتے ہیں
-
00:05:55 اخبار کا مطلب سمجھتے یعنی کوئی معلومات دی گئی
-
00:05:59 میں اس کی مثال قران سے دیتا ہوں
-
00:06:02 قران مجید میں بھی اخبار ماضیہ ہیں
-
00:06:05 سیدنا سلیمان کے واقعہ
-
00:06:07 ملکہ بلقیس کا تخت
-
00:06:09 ہدہد کا قصہ
-
00:06:11 اصحاب کہف کی داستان
-
00:06:13 ذوالقرنین کا قصہ یہ سب قران میں بیان ہوئے ہیں ان کو عقائد کی فہرست میں کیوں شامل نہیں کرتی ہے کہ ایمانیات عقائد بلکل الگ چیز ہے اور اخبار خواہ وہ قران میں ہو خواہ وہ کسی روایت میں ہو وہ بالکل اور چیز ہے
-
00:06:28 اب ظاہر ہے کہ جب ہم قران کو مانتے ہیں تو قران مجید میں اگر کوئی اخبار بیان ہوئے ہیں تو ان کو مانتے
-
00:06:35 اسی طرح جب کسی روایت کے بارے میں اطمینان ہو جاتا ہے کہ یہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے تو اس کو بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جس طرح اپ دین کے احکام کو مانتے ہیں جس طرح اپ شریعت کو مانتے ہیں جس پر اپ قران مجید کی دوسری تصریحات پر ایمان رکھتے ہیں یہ تمام چیزیں اصل میں اللہ کی کتاب پر یا رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کی پناہ ہے
-
00:07:01 جب ہم ایک چیز کو تسلیم کر لیتے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ پھر رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت بھی مخبر صادق کی ہے اور قران مجید اللہ کی کتاب ہے تو اس میں جو ہر فرق بیان ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں اس کو اس طرح بیان کرنا کہ ذوالقرنین کا واقعہ ایمانیات میں شامل ہے کیا اصحاب کہف کا قصہ ایمانیات میں شامل ہے ایمانیات نہیں ہے جن کو اللہ کے پیغمبر نے بیان کر دیا جن کو قران مجید نے بیان کردیا اب قیامت تک کسی شخص کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ ایمانیات میں کوئی اضافہ یا کمی کرے
-
00:07:35 جب اسلام کی دعوت دی جائے گی یہی ایمانیات بیان کئے جائیں گے جب کسی شخص کے ایمان پر گفتگو کی جائے گی تو یہی پانچ چیزیں زیر بحث ائیں گی باقی تمام معاملات خواہ وہ شریعت کے ہوں خواہ وہ اس طرح کے اخبار کے ہوں یعنی اخبار ماضی کے ہوں اخبار ہال کے ہوں اخبار مستقبل کے ہوں اس طرح کی تمام چیزوں پر بحث کی گنجائش ہوگی ان کی تاویل ہو سکتی ہوگی ان کے بارے میں میرا نقطہ نظر اپ کا نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے ان کی تحقیق کے معاملے میں دو رائے ہو سکتی ہیں قران مجید میں جو واقعات بیان ہو رہے ہوتے ہیں ان کے بارے میں بھی ظاہر ہے کہ میرا فہم اپ کا فہم ابو حنیفہ کا فہم شافعی کا فہم شافعی کا فہم کسی بڑے مفسر کا فہم ذمہ ہے مانوسی کا فہم مختلف ہو سکتا ہے
-
00:08:23 تو اس لئے یہ چیزیں اکڈیمک نوعیت کی چیزیں ہیں یعنی جن میں اللہ کی کتاب کو سمجھا جاتا ہے یا کسی حدیث کو سمجھا جاتا ہے اس میں 1000 اختلافات ہو سکتے ہیں ان کو عقائد کی فہرست میں شامل کرنا اور ایمانیات کے درجے میں لے جانا یہ بجائے خود دین میں ایک بدعت کو داخل کرنا
-
00:08:41 اس وجیہ سے اس کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے ایمانیات پانچ ہے وہی ایمانیات ہیں جو قران میں بیان کیے ہیں وہی ایمانیات ہے کہ جو حدیثوں میں ائے ہیں وہی ایمانیات ہیں جو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل امین کے جواب میں بیان کیے ہیں اور یہ کہا کہ
-
00:08:58 اینی معنی یاد کی بنیاد پر ہمیں مسلمانوں کے ساتھ بات کرنی
-
00:09:03 ابے غیر مسلموں کے ساتھ بھی بات کرنی ہے ان میں ہرگز ہرگز کوئی تبدیلی نہیں کی جا
-
00:09:08 [Unintelligible]
-
00:09:09 اچھا ہم سے بھی یہ جو اپ نے بتایا کہ جو ایمانیات ہیں جو دین کے وہ بنیادی تقاضے جن کی وجہ سے ایک شخص مسلمان کہلاتا ہے اس کے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے
-
00:09:20 یہ بتائیے گا اللہ تعالی نے جب یہ بنیادی تصور انسانوں تک پہنچانے کی ذمہ داری دی پیغمبر کو
-
00:09:26 تو اب پیغمبر نے یہ بنیادی چیز پہنچانے کے لئے وہ کون سے ذرائع ہیں جن کو استعمال کیا اور ان ذرائع میں
-
00:09:35 کیا کہیں پر یہ بات جس کو ایک عقیدے اور ایمان کا تقاضا کہا جاتا ہے کیا وہم مذکور ہے جس کو اپ قران و سنت کہتے ہیں قران مجید میں بیان ہوئے اللہ کی کتاب میں بیان ہوئے
-
00:09:47 پیغمبر کی دعوت کی بنیاد یہ ایمانیات ہیں
-
00:09:50 ان کا معاملہ اخبار احاد پر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے اخبار ہاتھ جانتے ہیں کیا چیز ہوتی ہے یعنی کسی شخص نے سوال کیا ہے کہیں کوئی بات کہی ہے کہیں کوئی چیز زیر بحث اگئی کوئی خطبہ دیا اس میں کوئی بات ارشاد فرما دی تو یہ تو عام چیزیں جو پہلے سے لوگ جانتے ہیں سمجھتے ہیں ان کے فہم کا بیان ہو سکتا ہے ان کی کوئی طویل ہو سکتی ہے ان کی کوئی وضاحت ہو سکتی ہے کوئی اشتہادی اطلاق کسی حکم کا ہو سکتا ہے لیکن یہ کہ دین کے ایمانیات اس طرح سے بیان کئے جائیں گے دین کے ایمانیات رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کے بنیادی فریضے کی حیثیت سے بیان کی ہے
-
00:10:28 اور اگر وہ زبان سے بیان فرمائے ہیں تو تب بھی ایک ایک ادمی تک پہنچایا ہے اور جہاں تک قران کا تعلق ہے وہی اصل ماخذ ہے اس میں قران مجید کرایہ کس لئے
-
00:10:39 اینی وہی یہ بتانے کے لئے ایا ہے کہ نجات کے لئے کیا چیز ضروری ہے
-
00:10:44 کیا چیزیں ماننی ضروری ہیں کیا چیزیں کرنی ضروری ہیں اگر اپ حدیث جبریل میں بھی دیکھیں تو پہلا سوال کیا ہے ایمان دوسرا سوال کیا اسلام
-
00:10:54 اسلام کیا ہے
-
00:10:55 اس میں بھی اپ دیکھیے کہ وہ چیزیں بیان کی گئی ہیں جو ایک سنت کی حیثیت سے اس پوری مسلمان امت میں جاری ہیں اور اجماع اور تواتر سے منتقل ہورہی ہے اس طرح کی باتیں نا ایمان کا حصہ ہوتی ہے نہ اسلام کا یہ درحقیقت وہ اکیڈمک معلومات ہے یعنی علمی چیزیں ہیں جو قران میں بھی بیان ہوئی ہیں جو حدیثوں میں بیان ہوئی ہیں اس میں اہل علم کا فہم بھی مختلف ہو جاتا ہے تعبیر بھی مختلف ہوجاتی ہے تاویل بھی مختلف ہو جاتی ہے اور جب تک ہم
-
00:11:26 دنیا میں ہے اس وقت تک اس پر غور و خوض بھی ہوتا رہے گا اس طرح کی چیزوں کو علمی طریقے سے پیش کرتے ہیں اور جس طرح اپ
-
00:11:34 ہم اس سے پہلے بہت سے احکام پر گفتگو کر چکے ہیں ان چیزوں پر گفتگو کرتے ہیں
-
00:11:39 یعنی حجاب سے متعلق اختلاط مرد و زن سے متعلق کیا ہدایات ہیں اللہ تعالی کی اسی طرح ذوالقرنین کے قصے پر گفتگو ہو سکتی ہے اسی طرح سابقہ پر گفتگو ہو سکتی ہے اپ پڑھ کے دیکھ لیجئے اس میں کیا کیا تاویلات اپ کو تفسیر کی کتابوں میں مل جائے گی ہم نے بھی اپنا نقطہ نظر اس میں بیان کر دیا ہے تو اس کو اس طرح دیکھا جائے گا یعنی یہ تفسیری علم ہوگا
-
00:12:00 اس کو ایمانیات کی فہرست میں کیسے شامل کیا جا سکتا ہے اور اگر یہ چیزیں شامل کی جا سکتی ہیں تو پھر ایمانیات کی فہرست کو ذرا اور وسیع کیجئے اور یہ ساری چیزیں جو میں نے بیان کی ہیں وہ بھی اس میں نقل کر دی ایمان لانا ہوگا ہمیں اصحاب کہف پر بھی ایمان لانا ہوگا وہ چیزیں قران کے بیانات ہیں قران ایک ادمی پڑھے گا اللہ کی کتاب کی حیثیت سے پڑے گا اس کو سمجھے گا جو اس کا فہم ہو گا اس کے مطابق اس کو حق حاصل ہے کہ اس کو بیان کریں اس طرح کی تمام چیزیں اصل میں علم کے دائرے کی چیزیں ہیں
-
00:12:32 ناکے ایمان کے دائرے کی
-
00:12:35 اگر اللہ تعالی نے اس چیز کو مسلمانوں کے ایمان کا حصہ بنانا ہوتا
-
00:12:42 اور تو کیا یہ ضروری تھا کہ وہ اس بات کو بس صراحت قران مجید کی کسی ایت میں بیان کرتے کہ قیامت سے پہلے جو ہے وہ مہدی علیہ السلام کا نزول یا ظہور ہوگا اس سے بھی پیچھے جائیے
-
00:12:53 ادم علیہ السلام کے زمانے سے اس کو ایمانیات میں شامل ہونا چاہیے
-
00:12:57 اس لئے کہ تمام پیغمبر پورا دن لے کے ائے
-
00:13:01 وہ سب چیز ہے جو ہمارے لئے ماننی لازم ہے وہ پہلے دن سے پیغمبروں کو بتائی گئی
-
00:13:08 جو ہمارے لئے کرنی لازم ہے وہ پہلے دن سے پیغمبروں کو دی گئی نماز دی گئی ہے روزہ دیا گیا ہے حج دیا گیا ہے زکوۃ دی گئی ہے یعنی اس کی نوعیت میں تمدن کے لحاظ سے تبدیلیاں بھی اتی رہی ہیں لیکن یہ پوری چیزیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں تو اس کو پیغمبروں کی ہدایت میں بھی ہونا چاہیے اس کو قران مجید میں بھی بیان ہونا چاہیے قران مجید میں اکر جب بنی اسماعیل کو دعوت دی تو سارے ایمانیات پیش کیے جائینگے نہ ان کے سامنے وہ قران مجید اور کس چیز کی کتاب ہے یہی بیان کرے گا لہذا کوئی عقیدہ کوئی ممانعت کی چیز ایسی نہیں ہو سکتی جس کو قران نے بیان نہیں کی
-
00:13:45 وہ ہر حال میں قران مجید کی بنیاد پر مانی جائے گی اور جس نے بھی اس کے بارے میں بات کرنی ہے وہ قران مجید سے اس کا استدلال کرے گا میں تو یہ عرض کر رہا ہوں کہ قران مجید میں بہت سی چیزیں بیان ہوئی اسی نوعیت کی
-
00:13:58 یہ مستقبل کے اخبار ہے نہ مہدی ائیں گے
-
00:14:02 سیدنا مسیح کا نزول ہوگا مستقبل کے اخبار ہے وہ ماضی کے اخبار ہے
-
00:14:06 ان کو ہم کیسے دیکھتے ہیں موسی علیہ السلام کا واقعہ ہے
-
00:14:11 فرعون کے پاس گئے ہیں عصا کا معجزہ دکھایا ہے یدے بیضا کا معجزہ دکھایا ہے یہ گفتگو ہوئی ہے یہ سب کچھ قران میں بیان ہوتا ہے قران کی ایک ایک حرف پر ہم ایمان رکھتے ہیں لیکن یہ علمی چیزیں ہیں جن کو سمجھنے میں اختلافات ہو سکتے ہیں اس لئے یہ ایمانیات کے فہرست میں کبھی شامل نہ ہو سکتے نہ ان کو کرنا چاہیے ایمانیات وہی ہے جو اللہ کی کتاب میں بیان کر دیے ہیں اور میں عرض کر رہا ہوں کہ اللہ کی کتاب میں اگر لوگ نہیں سمجھ پائے تو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل امین کے ساتھ ملاقات میں یہ چیزیں بیان کیں اور اسی طرح بیان کیے ملی مان ایمان کیا ہے مالاسلام اسلام کیا ہے اس کے بعد یہ فرمایا ہے
-
00:14:53 یوان نے موم دینا یہ جبریل ائے تھے تم کو دین سکھانے کے لئے ائے تھے تو پیغمبر نے جو دین سکھایا ہے اس میں تو اس طرح کی چیز کا کوئی ذکر نہیں ہے تو باقی حضرات کیا حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو ایمانیات یا عقائد کی حیثیت سے لوگوں سے منوائیں علمی طریقے سے اپنی رائے بیان کریں جس کو اطمینان ہوگا وہ مان لیں اسی حدیث میں ارشاد فرمایا صلی اللہ علیہ وسلم سے جب علامت قیامت کے بارے میں استفسار کیا گیا
-
00:15:22 تو جو علامت اپ نے بیان کی کہ عرب کے یہ ننگے پیر ننگے بدن جو چرواہے ہیں یہ عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے سے سبقت لے جائیں گے یہ تداول نسل بنیان تو یہ جو علامت ہے یہ بھی تو قران مجید میں بیان نہیں لوگ پھر سوال یہ کرتے ہیں کہ اگر ایک علامت قران میں نہیں ہے یہ تو پھر دوسرے کے بارے میں یہ کیوں اصرار ہے کہ اس کو بھی قران میں انا چاہیے کیوں انا چاہیے اور کیوں نہیں انا چاہیے اصل چیز یہ ہے کہ علامات قیامت جو بھی بیان کی جاتی ہیں یہ اصل میں کیا ہے مستقبل کے اخبار ہے
-
00:15:54 یعنی کچھ اطلاعات ہیں جو اپ کو دی گئی ہیں تاکہ جب یہ سامنے ائیں تو لوگوں کے لئے اجتہاد ایمان کا باعث بنے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متعلق لوگ متنبہ ہوں یہ سمجھیں کہ یہ اللہ کے پیغمبر نے بتایا ہوا ہے اور اس طرح ہر دور میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق و تائید کے اثار لوگوں کے سامنے اتے رہے
-
00:16:16 یہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے لیکن یہ اپنی اصل کے لحاظ سے کیا ہے مستقبل کے اخبار
-
00:16:21 تو مستقبل کے اخبار میں نے عرض کیا کہ قران میں بیان ہوئے
-
00:16:25 ماضی کے اخبار قران میں بیان ہوئے
-
00:16:28 قران مجید میں فلاں بات کو ہونا چاہیے نہیں ہونا چاہیے اس کا تعلق اس کی اہمیت سے
-
00:16:33 جب اپ یہ کہیں گے کہ یہ عقیدہ ہے
-
00:16:35 جب یہ کہیں گے یہ ایمان ہے تو پھر ظاہر ہے کہ بیان ہوگا جو دونوں علامتیں بیان ہوئی ہیں وہ حدیث میں بیان ہوئی ہے اس پر گفتگو ہو سکتی ہے اس پر بات ہو سکتی ہے اس کے بارے میں لوگ اپنی تاویلات بیان کرتے رہے ہیں قران مجید کے لئے کیوں نازل ہوا کہ ان کو بیان کریں
-
00:16:52 بہت سے ماضی کے اخبار ہیں اپ کو روایتوں میں ملتے ہیں قران مجید میں مذکور نہیں ہے قران کس لئے ایا ہے یہ قران تو اس لئے ایا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے نظیر ہو نذیر اللعالمین وہ اخرت کے بارے میں خبردار کرے اور دین کے مبادی اور اصول بیان کردیں تاکہ لوگوں کے سامنے خدا کی ہدایت بالکل بے کم و کاست اجائے قران مجید نے کچھ اصولی باتیں کہے باقی پیغمبر کے لئے چھوڑ دی ہیں
-
00:17:17 تو یہاں پر بھی اگر کوئی اصولی بات ہوگی تو اس کی فراء اس کی شرار رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کر دیں گے اصل سوال یہ نہیں ہے کہ اس کو ماننا ہے یا نہیں ماننا اس کا تعلق علم کی بحث ہے
-
00:17:28 یعنی وہ جو دونوں علامت ہے وہ مانتا ہوں اس کو بار بار بیان کرتا ہوں بلکہ ان کی شرح کی ہے یہ بتایا ہے کہ ہم طالب علامہ تو ربا طحہ کا صحیح مفہوم کیا ہے
-
00:17:38 یہ بتایا ہے یہ بتایا ہے کہ اس میں جن چرواہوں کا ذکر ہے وہ عرب کے چرواہے ہیں اس پر بھی یہ گفتگو کی ہے لیکن یہ تو کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ دونوں علامتیں ایمانیات کا حصہ بن گئی ہیں اور اگر یہ علامات ایمانیات کا حصہ تھیں تو پھر رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سوال کے جواب میں بیان کرنی چاہیے تھی
-
00:17:57 زبردستی مان کے جواب میں تو اپ نے بیان نہیں کی مال اسلام کے جواب میں بھی بیان نہیں کی
-
00:18:02 تو اخری سوال ہے کہ قیامت کب ائے گی یعنی قیامت پر ایمان بیان ہو گیا اوپر قیامت کب ائے گی اس سوال کا جواب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے کہ نہ میں جانتا ہوں نہ پوچھنے والا جانتا ہے
-
00:18:16 اس کے بعد یہ ہے کہ کچھ علامات بتا دی
-
00:18:20 علامات بتائیے
-
00:18:22 یہ اخبار ہے ان کو اخبار النبی کہیے یعنی رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی اطلاعات
-
00:18:30 جی اگر روایت کی رو سے ثابت ہوگی ان پر تحقیق کی جائے گی رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کی نسبت میں کوئی تردد نہیں ہوگا تو بیان کریں گے اور اگر اس کا مدعا سمجھ میں اجائے گا تو لوگوں کو سمجھائیں گے بھی لیکن یہ سب علم ہے اصحاب کہف کا قصہ علم ہے
-
00:18:47 ذوالقرنین کا قصہ علم ہے جو قران سے ہمیں حاصل ہوتا ہے جب قران سے حاصل ہوتا ہے تو گویا ایک یقینی علم کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے لیکن فہم
-
00:18:58 خودا کو سمجھنا
-
00:19:00 تاویل کرنا
-
00:19:02 ایتوں کا صحیح مقام کیا ہے اس کو جاننا یہ سب علم کی بحث
-
00:19:06 ایمانیات کو ہیں جو اپ نے ہر کہو میں تو بتانے ہیں ہر عارف کو امی کو بتانے ہیں وہ ایمانیات خود رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں بیان فرما دیے ہیں اور قران مجید میں جگہ جگہ بیان ہوئے کہا جاتا ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر اپ اس کو ایمان کا حصہ قرار دے رہے ہیں تو بتائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کہاں ایمان قرار دیا ہے قران مجید میں کہاں زیر بحث ہے جس میں ایمان کی مکمل تفصیلات میں موجود ہیں تو اس کے جواب میں ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ بتائیے کہ قران مجید کی وہ کونسی ایت ہے جو اس کی نفی کر رہی ہے اپ نفی کی کوئی دلیل جب تک نہیں لاتے تب تک تو ہر چیز جو روایتوں میں ا جاتی ہے ایمان کا حصہ بنا سکتی مان کا حصہ کیسے بنائیں گے ایمان ہو وہاں تو ایمان کا حصہ بنائیں گے نہ وہ ایمانیات کی چیز ہونی چاہیے کا حصہ اخبار نہیں ہوتے میں نے تو عرض کیا ہے کہ ہر وہ چیز جو قران میں اجائے گی اسے اپ ایمانیات کا حصہ بنا دے
-
00:20:00 ایمانیات اور چیز ہے
-
00:20:03 اور علم جو قران مجید میں بیان ہوا ہے وہ اور چیز ہے اس کو بیان کرنا ہے تو کتاب العلم میں بیان کرلیں
-
00:20:10 ایمانیات کو الگ رکھا جائیگا شریعت کو الگ رکھا جائے گا وہ دین کا پورا کا پورا نظم ہے
-
00:20:17 یعنی دین کے کانٹینٹ جب بیان کیے جاتے ہیں تو اس میں ایمان اخلاق یا الحکمہ
-
00:20:23 اور پورے شریعت یا الکتاب یہ دین کا کانٹینٹ ہے جو لوگوں کو بتانا ہے جس کو منوانا ہے جس کی دعوت دینی ہے جس میں غلطی پر متنبہ کرنا ہے اس کے بعد علم ہے جو ہمیں قران مجید سے حاصل ہوتا ہے وہ حدیثوں سے بھی حاصل ہوتا ہے اس کو اپنے لحاظ سے دیکھا جائے یعنی قران مجید میں اگر علم کی کوئی بات بیان ہوئی ہے یہ تاریخ کا علم ہے اس میں استدلال کیا گیا اج پر ایمان رکھتے ہیں ثمود پر ایمان رکھتے ہیں ایمانیات میں بیان کرتے ہیں لوگوں سے کہتے ہیں جب ان کو مسلمان کرتے ہیں کہ ایمان لاؤ اج بھی تھے اور ثمود بھی تھے
-
00:20:56 قوم فرعون بھی تھی اور قران مجید میں چونکہ بیان ہوئی ہیں تو اس لیے یقینی علم ہے تو ہم اس کو یقینی علم کی حیثیت سے بیان کریں گے اور جہاں کہیں تاویل میں اختلاف ہوگا یا فہم میں اختلاف ہوگا اس میں لوگوں کو حق دیں گے کہ وہ اپنی رائے بیان کریں ایمانیات کے بارے میں تو بحث ہی نہیں ہو سکتی اللہ پر ایمان فرشتوں پر ایمان کتابوں پر ایمان نبیوں پر ایمان اور روزے جزا پر ایمان اس پر دین کی عمارت قائم
-
00:21:25 اس وجہ سے ایمانیات کا فرق اور علم کا فرق سمجھنا چاہیے کیا ہے اس بحث کو بہت تفصیل سے اپ نے یہ بات واضح کی کہ جو چیز کو عقیدہ کہا جاتا ہے اور جس کو کہا جاتا ہے کہ اس پر ایمان لانا گویا مسلمان ہونے کی شرط ہے وہ خود قران مجید میں کیسے یا کہاں بیان ہوئی ہے اور اس طرح کی چیزیں علم کی ہوتی ہیں اس کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے اگے بڑھتے ہیں
-
00:21:49 کہیں جاتا ہے کہ یہ جو ظہور مہدی کی کی روایت ہے اس کی جو خبر ہے
-
00:21:55 یہ ایسا نہیں ہے کسی ایک حدیث کسی دو حدیثیں کسی چار حدیثوں میں ا گئی ہے بلکہ یہ متواتر احادیث میں نقل ہوئی ہے میں چند اپ کے سامنے اقوال رکھتا ہوں پھر ہم جانیں گے کہ یہ متواتر حدیث کیا ہوتی ہے اور کوئی بات اگر حدیث سے خبر واحد میں ائے اور متواتر میں ائے تو اس میں درجے کے لحاظ سے کیا فرق ہوتا ہے ابن حجر اسقلانی کا ایک کال ہے میرے سامنے یہ کہتے ہیں کہ حضور مہدی کی احادیث حد تواتر تک پہنچی ہیں اور سیوطی نے پھر اس کو مزید واضح کر کے کہا ہے کہ تواتر سے مراد تواتر معنوی اسی طرح شاہ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ اس باب کی بہت ساری روایات ہیں جو بالکل تواتر کے قریب قریب ہیں شوکانی کی میرے سامنے واضح باتیں ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ حضور مہدی کی روایات تواتر کی حد تک پہنچ جاتی ہیں تو ذرا یہ بتائیے گا کہ یہ جو تواتر ہے حدیث متواتر کی اصطلاح بھی ہمارے اتی ہے
-
00:22:44 اس میں اور خبر واحد میں کیا فرق ہوتا ہے اور اگر کوئی چیز تواتر سے بیان ہو تو پھر اس کی اہمیت کا بڑھ جاتی ہے پہلے تو میں یہ بات عرض کر دوں کہ یہ جو عام طور پر عقائد کی بات کی جاتی ہے جس پر میں نے اس سے پہلے تبصرہ کیا
-
00:22:58 تو عقائد اہلسنت کی کتابیں الگ سے لکھی گئی
-
00:23:02 عقائد اہل تشیو کی کتابیں الگ سے لکھی گئی
-
00:23:05 اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک جماعت اپنے خاص نام کے ساتھ وجود میں اگئی ہے تو اب اس نے کن کن چیزوں کو ماننا اپنی شناخت قرار دیا ہے یعنی یہ کہ اسلام کے عقائد وہ وہی ہے جو بیان ہوئے قران مجید میں اب کچھ لوگوں نے جب ایک خاص نقطہ نظر اختیار کیا یا ایک مدرسہ فکر قائم کیا تو انہوں نے کن چیزوں کو ماننا اہل سنت ہونے کے لئے ضروری قرار دیا یا اہل تشیع ہونے کے لئے ضروری قرار دیا جیسے امامت کا عقیدہ ہے
-
00:23:37 اہلسنت تو اس کو نہیں مانتے نا لیکن اہل تشیع کے ہاں وہ ایک طرح سے بنیادی عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے تو جو گروہ بعد میں وجود میں ائے ہیں وہ اپنے عقائد کی حیثیت سے ان کو بیان کرتے ہیں تو کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جب اپ ان گروہوں سے اوپر اٹھ کر اللہ کے دین کو جس طرح کے وہ خدا کے پیغمبر نے پیش کیا بیان کریں گے وہاں وہی ترتیب ہوگی جو میں نے عرض کردیا
-
00:24:00 تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عقیدے کا لفظ اصل میں کس پس منظر میں استعمال ہوتا ہے خود اس لفظ اہل سنت والجماعت کو دیکھیے نا یعنی یہ کہاں سے وجود میں ایا ہے
-
00:24:11 یہ جانتے ہیں اپ کے قران مجید نے صراحت سے بیان کر دیا ہے کہ اہل ایمان کے لئے ان کے باپ ابراہیم نے مسلمان کا لفظ استعمال کیا
-
00:24:21 سماکم المسلمین میرے اور اپ کے لئے جو دین کی قائم کردہ شناخت ہے وہ کیا مسلمان ہوگا
-
00:24:29 مجھ سے جب میرا مذہب پوچھا جائے گا تو میں کہوں گا اسلام مجھ سے جب میری مذہبی شناخت پوچھی جائے گی تو وہ کیا ہے مسلمان تو پھر یہ اہل سنت والجماعت کیا ہے
-
00:24:38 جاننا چاہیے نہ اس بات کو اپ جانتے ہیں کہ ہماری تاریخ میں خوارج پیدا ہوئے
-
00:24:43 تو یہ بات میں عرض کر رہا ہوں خود اھل سنت والجما بھی عام طور پر اس سے واقف نہیں ہے
-
00:24:50 یعنی خوارج پیدا ہوئے خوارج کے ہاں دو چیزیں بڑی امتیازی حیثیت رکھتی تھی ایک یہ چیز کہ وہ قران کے ساتھ سنت کو و حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں تھے
-
00:25:02 چنانچہ انہوں نے رجم پر بحث کی باز اور چیزوں کا انکار کیا دوسری جانب وہ انار قسطوں کے رہ گئے یعنی ان کے ہاں جو نظم اجتماعی ہے
-
00:25:12 اگر مسلمانوں کا کوئی سیاسی نظم قائم ہوتا ہے جس کو نظم اجتماعی کہیے تو وہ کہتے تھے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے
-
00:25:20 یعنی جو لوگ بھی ہیں وہ اپنے طریقے کے اوپر مذہبی زندگی بسر کریں تو نظم اجتماعی کو عربی زبان میں الجماع کہا جاتا ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض حدیثوں میں بھی یہی تعبیر استعمال ہوئی ہے الجماع کے السلطان یعنی مسلمانوں کا سیاسی نظم اس کے لئے عربی زبان میں الجماع کی تعبیر ہے تو اہل سنت والجماعت کا کیا مطلب ہوا یعنی خوارج کے مقابلے میں وہ گروہ جو سنت کا بھی قائل ہے اور نظم اجتماعی کا بھی قائم ہے تو گویا ایک گروہ پیدا ہوا ایک فرقہ پیدا ہوا اس کے مقابل میں کچھ لوگوں نے اپنی الگ شناخت بیان کی تو جس طرح اس شناخت کو ایک الگ نام دیا گیا بالکل اسی طریقے سے عقائد کی فہرستیں بھی الگ الگ ہونا شروع ہو گئیں تو میرے نزدیک ان دونوں کاموں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اپ اپنے اپ کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کریں اپنے دین کو اسلام کی حیثیت سے پیش کریں اور ہمیشہ یہ بتائیں کہ اپ جو کچھ مانتے ہیں اس کی بنیادیں اللہ کی کتاب میں کہاں ہیں اور جو کچھ اپ کرتے ہیں اس کی بنیادیں اللہ کے پیغمبر کی سنت میں کہاں ہے پہلی بات سمجھ لیجئے اب اس کے بعد تواتر کی بحث کرواتے
-
00:26:28 دیکھئے بات یہ ہے کہ ایک تواتر وہ ہے جس کو علمی اصطلاح میں تواتر طبقہ کہا جاتا ہے
-
00:26:34 جس کو نقل الکافہ نے قافہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے کہ امام شافعی نے تعبیر کیا جس طرح کے بعض جلیل القدر ہمارے ائمہ تعمیر کرتے رہے ہیں یعنی مسلمانوں کے تمام لوگ صحابہ کرام کے زمانے سے اس بات کو دین کی حیثیت سے اگے منتقل کر رہے ہیں یہ تواتر بالکل الگ چیز
-
00:26:56 اس میں نہ راوی دیکھے جاتے ہیں
-
00:26:58 نہ بیان کرنے والا کون ہے دیکھا جاتا ہے یہ تو مسلمانوں کے پورے ایمان و عقیدہ کا بیان ہے جو اگے چل رہا ہے
-
00:27:06 یعنی ان کے ہاں اللہ کی کتاب اسی طرح ممکن ہوئی ہے قران مجید کے بارے میں جب کہا جائے گا کس طرح ممکن ہوا ہے تو یہی کہا جائیگا کہ وہ اجماع اور تواتر سے منتقل ہوا ہے اسی طریقے سے جب اپ سنت کی بات کرتے ہیں تو وہاں بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ اجماع اور تواتر سے منتقل ہوئی ہے یعنی تمام مسلمانوں نے قران مجید کو اللہ کی کتاب کی حیثیت سے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا اور اپنی ائندہ نسلوں کو منتقل کرنا شروع کر دیا یہی معاملہ سنت کا ہے تو یہ تواتر کے نفس سے غلط فہمی نہ ہو کہ یہاں جو تواتر زیر بحث ہے اس کا کوئی تعلق استوار سے نہیں
-
00:27:44 دین اسلم اس تواتر سے منتقل ہوا ہے
-
00:27:47 یعنی ایک پورے طبقے کا کسی روایت کو کسی چیز کو اگے منتقل کر دینا
-
00:27:54 اس میں افراد کی بحث ہی نہیں ہوتی اس میں راوی دیکھے ہی نہیں جاتے یعنی ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرام نے دین لیا اور اس کو اگلی نسلوں کو منتقل کرنا شروع کر دیا وہ لاک لاکھوں میں بدلیں اور لاکھوں کروڑوں میں بدلیں اور اج ڈیڑھ ارب سے زیادہ تعداد ہے ان کی تو نسلا بعد نسل یہ چیز منتقل ہوتی ہے یہ تاریخ کے منتقل ہونے کا سب سے زیادہ مستند ذریعہ ہے یعنی تاریخ کے جو واقعات اس طرح منتقل ہوتے ہیں یا حقائق اس طرح منتقل ہوتے ہیں وہ ہر شک و شبہ سے بالا ہوجاتے ہیں اس کو الگ رکھیے اب اس کے بعد ائیے جو ہمارے ہاں اخبار کے ذہن میں تواتر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے
-
00:28:34 اوسکی نوعیت یہ ہے کہ بہت سی باتیں ایسی ہیں جیسے میں کئی مرتبہ بتا چکا کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے زمانے میں بھی اور اپ کے بعد بھی لوگوں نے سنی ہوئی بیان کرنا شروع کر دیں
-
00:28:45 ایک ادمی نے دو ادمیوں نے تین ادمیوں نے اب جب بہت سے لوگوں نے کوئی بات بیان کی
-
00:28:51 یعنی اپ نے دیکھا کہ دس بیس لوگ بیان کر رہے ہیں 50 60 لوگ بیان کر رہے ہیں مختلف جگہوں پر ہیں تو اس کے لئے بھی خبریں متواتر کی اصطلاح ایجاد کرنا شروع کی گئی
-
00:29:03 یعنی یہ اب ایک راوی ہے دو راوی ہیں دس راوی ہے 20 راوی ہیں کافی بڑی تعداد ہوگئی تو عام طور پر کہتے ہیں کہ یہ بات تواتر سے منتقل ہو رہی ہے گویا محدثین کے ہاں اس اصطلاح میں رواج اختیار کیا اپ اگر قواعد کی کتابیں دیکھیں جو حدیث کے اصول کی کتابیں ہوتی ہیں تو اس میں بحثیں ہوتی ہیں ایک اچھا ساٹھ راوی ہو جائے تو ہوگا 26 ہو جائیں تو ہوجا ہوگا یہ ہوگا تو یہ تواتر اور ہے
-
00:29:33 اب اگر فرض کر لیجئے کہ یہ معاملہ ہو تو یہاں پر یوں نہیں ہوتا کہ چونکہ 60 ادمیوں سے ایک چیز مل گئی ہے کیونکہ 20 سے مل گئی ہے کیونکہ 40 سے مل کے مل گئی ہے نہیں یہ اخبار احاد ہے جن کا مجموعہ بنایا جا رہا ہے تو اس وجہ سے ان میں سے ہر ہر خبر کو دیکھا جائے گا کہ اس کے راوی کون
-
00:29:53 ہر ہر خبر کو دیکھا جائے گا کہ وہ کیا معراج پر بری اترتی ہے
-
00:29:57 اس میں یہ نہیں کیا جاسکتا کہ اپ لفظ تواتر یا 60 یا 50 لوگ گن کے اپ کسی کو معروف کر دیں اور یہ کہیں کہ اس کو مانو میں یہاں تنقید بھی ہوگی یہاں تجزیہ بھی ہوگا یا اس چیز کو دیکھا بھی جائے گا اس کو پرکھا بھی جائے گا یہاں بنیاد ہی یہاں سے قائم ہوگی اپ جھوٹی باتیں 50 ادمیوں کی طرف نسبت کرکے بیان کر دیں ہمارے ہاں کتنی کتابیں ہیں جو موضوعات کے نام سے کہ جن میں موضوع روایتیں گھڑی ہوئی روایتیں بیان کی جاتی ہیں وہ چالیس پچاس لوگوں کی نسبت سے اگر بیان ہوجائینگی تواتر ہو جائے گا
-
00:30:30 پہلے یہ ضروری ہے کہ اخبار احاد میں اخبارے ہاتھ میں واضح کر چکا ہوں یہ علمی اصطلاح
-
00:30:37 یعنی اس کا مطلب ہے کہ رسول اللہ سلم نے قران دے دیا سنت دے دی وہ تواتر و جماعت سے منتقل ہو گئے لیکن کسی ایک دو چار پانچ 10 لوگوں نے اپ کی کوئی سنی ہوئی بات بیان کرنا شروع کر دی اپ کا کوئی دیکھا ہوا عمل بیان کرنا شروع کر دیا یہ درحقیقت تاریخی ریکارڈ ہے اور اس تاریخی ریکارڈ میں اس کی بھی اہمیت ہے کہ اگر یہ معلوم ہو کہ یہ بات چالیس لوگ بیان کر رہے ہیں لیکن 40 کو گننے سے پہلے دیکھا جائے گا 40 کون ہے
-
00:31:08 یعنی مجہول لوگ ہے
-
00:31:10 صحابہ کرام ہے
-
00:31:12 کیا تعداد ہے ان کی یہ تو بات کا مسئلہ ہے پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ ہے کون
-
00:31:17 تو وہ جو ہم اس سے پہلے کئی مرتبہ گفتگو کر چکے ہیں کہ حدیث کے علم میں تین چیزیں دیکھی جاتی ہیں دھیان کرنے والے کا کردار کیا ہے سیرت کیا ہے جس کو اپ عدل سے صدق سے ثقاہت سے وساطت سے بیان کرتے ہیں
-
00:31:32 پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ تاریخی لحاظ سے انتصال ہے
-
00:31:36 یعنی یہ بات بیان کی ہے اگر کسی نے اور یہ کہا کہ میں نے فلاں سے سنی ہے تو ان کی ملاقات کا امکان بھی ہے زمانہ ایک ہے ایسا تو نہیں کہ وہ حضرت دنیا سے رخصت ہوگئے تو بعد میں پیدا ہوئے ان کا اس شہر میں کبھی جانا ہی نہیں ہوا ان کی ملاقات ممکن ہی نہیں ہوئی تو اتصال دیکھا جاتا ہے پھر اس کے بعد حفظ و اعتقاد کو دیکھا جاتا ہے
-
00:31:56 یہ چیزیں دیکھنے کے بعد بھی روایت فنی اصطلاح میں صحیح الاسناد ہوتی ہے
-
00:32:03 اب اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اب
-
00:32:05 قبولیت کے درجے پر پہنچ گئی اس سے اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس میں کوئی علت تو نہیں پائی جاتی اس میں شوز تو نہیں پایا جاتا شوز کا مطلب یہ ہے کہ کسی زیادہ ثقہ کی روایت کے مقابل میں تو نہیں کھڑی ہوگئی ہے اگے
-
00:32:20 اور زیادہ سے کا لوگ مان لیتے ہیں سب سے بڑی سقا چیز کیا ہے وہ تو قران مجید ہے
-
00:32:25 تو قران کے خلاف تو نہیں
-
00:32:27 سنت کے خلاف تو نہیں ہے اس لئے کہ قران اور سنت وہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کو دیے ہیں وہ ایماں اور تواتر سے ہم تک منتقل ہو رہے ہیں تو یہ دیکھا جائے گا اسی طرح علم اور عقل کے مسلمات کے خلاف تو نہیں ہے تو یہ تمام چیزیں دیکھنے کے بعد اپ کسی روایت کو قبولیت کی سند دیتے ہیں
-
00:32:47 قبولیت کی یوں نہیں ہے کہ اس کی حجت اب دنیا پر قائم ہوگئی ہے میرے نزدیک میری تحقیق کے مطابق یہ مقبول ہے قبول کی جاسکتی ہے امام بخاری کو نہیں اتفاق ہوا اس
-
00:32:59 امام بخاری کے نزدیک وہ مقبول ہے امام مسلم قبول کرنے کے لئے تیار نہیں
-
00:33:04 تو اس میں اہل علم کا اختلاف ہوتا
-
00:33:06 اس لئے اس کی حجت اسی شخص پر قائم ہوتی ہے جو اس تحقیق پر مطمئن ہو
-
00:33:12 یوں نہیں ہوسکتا کہ امام بخاری نے چونکہ قبول کر لیا جب امام مسلم پر بھی قبول کرنا لازم ہو گیا
-
00:33:18 تو اپنے طریقے سے تحقیق کریں
-
00:33:20 اسی طرح ائمہ ریال میں بہت سے اختلافات ہو جاتے ہیں ایک امام یہ بیان کر رہا ہوتا ہے کہ میری معلومات کی حد تک تو یہ ادمی بالکل عادل ہے سکا ہے ہر لحاظ سے قابل اعتماد ہے دوسرا یہ بیان کر رہا ہوتا ہے کہ اپ کے تجربے میں یہ بات نہیں ہے یہ جھوٹا
-
00:33:35 یہ باتیں کرتا ہے یا اس کے حافظے میں یہ نقش تھا یا یہ روایت تو اس نے فلاں دور میں اکے بیان کی ہے تو یہ تمام بحثیں اس تاریخی ریکارڈ میں ہوتی ہیں تو جب ان بحثوں سے گزر کر روایات کا ایک ذخیرہ ہمارے سامنے اجاتا ہے اب مثلا مثال کے طور پر وہ روایتیں 10 ہوگئی وہ 20 ہو گئی وہ 50 ہو گئی تابوت ترک ہو گئی اس پے بہت سے طریقوں سے اگے اب اپ اس پہ یہ کہتے ہیں کہ یہ تواتر کے درجے پر پہنچ رہی ہے تو یہ وہ تواتر نہیں ہے یہ بالکل دوسری چیز ہے اور یہ اخبار کے ذیل میں اس طرح زیر بحث اتا ہے
-
00:34:12 اچھا انسر یہ جو تواتر جس کو ہم کہتے ہیں قران مجید کے بیان کے موقع پر قران مجید جو ہے متواتر نسل در نسل جھیل عن ال جھیل کا فن کا سنت کا بھی یہی معاملہ ہے تو یہاں تو تواتر ہے نقل علم کا وہ ذریعہ جس کے ذریعے سے یہ انفارمیشن اگے ٹرانسفر ہو رہی ہے سوال میں اپ سے یہ ہے کہ جب تواتر ہم وہاں استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور ظاہری بات تو نہیں ہے علم کی اصطلاح ہے
-
00:34:35 تو علم کی سی اصطلاح کو جو کہ دنیا میں رائج ہے اس ٹرانسفارمیشن اف نالج کے لئے جو متواتر ہو رہا ہے اس کو کیا حدیث کے باب میں جو ہمارے محدثین نے استعمال کیا تو کیا اپ اس کو درست سمجھتے ہیں اور اپ کی نظر میں حدیث پر بھی تواتر کا حکم لگایا جا سکتا ہے یہ ویسے بھی غلط بات ہے اور اخبار احاد کو اخبار احاد ہی کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیے لیکن میں نے تفصیل کرکے اپ کو یہ بتایا کہ یہ اسرائیل کی چیز ہے
-
00:35:03 یعنی اس کی بنیاد پر کوئی چیز اس تواتر میں داخل نہیں ہوجاتی
-
00:35:08 کہ جس کے انکار کی گنجائش نہیں ہوتی یہاں تو لوگ گنے جا رہے ہیں تو گننے سے پہلے ان کو دیکھنا ضروری
-
00:35:15 کون ہے کہاں سے بات کر رہے ہیں کس سے روایت کر رہے ہیں سنی بھی ہے یا نہیں سنی سمجھی بھی ہے یا نہیں سمجھی یہاں وہ سب چیزیں زیر بحث ائیں گی اور محدثین ایسا ہی کرتے ہیں
-
00:35:26 یعنی اس طرح کے تبصرے ہوتے ہیں یہ کر دیتے ہیں مختلف لوگ لیکن محدثین جب ان چیزوں پر کلام کرتے ہیں تو ایسے ہی کرتے ہیں جو سلسلہ ہے ظہور مہدی پر اعتراضات کے حوالے سے یہ جاری ہے ہم نے ابتدائی طور پر اج کی نشست میں اپ سے چند چیزیں پوچھی ہیں بہت زیادہ سوالات ہیں ان روایتوں کے بارے میں جو روایتیں ضمن میں پیش کی جاتی ہیں کہا جاتا ہے کہ دو ڈھائی سو کے قریب روایت ہے اس میں بہت سراحت سے یہ پیشن گوئی فرمائی ہے کہ مہدی علیہ السلام کا قیامت سے پہلے ظہور ہوگا وہ روایتیں کون کون سی ہیں ان میں سے اگر ضعیف روایتیں ہیں تو ضعیف کیسے ہوتی ہے کوئی روایت اور پھر اصل روایتوں کے اوپر بھی ہم اپ سے ان شاء اللہ بہت تفصیل سے بات کریں گے اب تک اپ کے وقت کا بہت شکریہ
-
00:36:09 [Unintelligible]
-
00:36:10 [Unintelligible]
-
00:36:13 [Unintelligible]
Video Transcripts In English
Video Summry
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 0:00: گفتگو کا آغاز اور چند تمہیدی باتیں 1:38 : عقیدہ کیا ہے 9:17 : کیا ایمانیات اخبار احاد میں بیان ہوئی ہیں 12:44 : کیا مہدی کی آمد کو قرآن میں شامل ہونا لازم تھا 15:24 : کیا بعض علامات قیامت حدیث میں بیان نہیں ہوئیں 19:30 : قرآن سے باہر کی کوئی چیز ایمان نہیں ہو سکتی، اس کی قرآن میں کیا دلیل ہے 21:43 : تواتر اور خبر واحد میں کیا فرق ہے 34:28 : کیا حدیث پر تواتر کا حکم لگا سکتے ہیں
Video Transcripts In Urdu
Video Transcripts In English
Video Summary
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 0:00: گفتگو کا آغاز اور چند تمہیدی باتیں 1:38 : عقیدہ کیا ہے 9:17 : کیا ایمانیات اخبار احاد میں بیان ہوئی ہیں 12:44 : کیا مہدی کی آمد کو قرآن میں شامل ہونا لازم تھا 15:24 : کیا بعض علامات قیامت حدیث میں بیان نہیں ہوئیں 19:30 : قرآن سے باہر کی کوئی چیز ایمان نہیں ہو سکتی، اس کی قرآن میں کیا دلیل ہے 21:43 : تواتر اور خبر واحد میں کیا فرق ہے 34:28 : کیا حدیث پر تواتر کا حکم لگا سکتے ہیں
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 0:00: گفتگو کا آغاز اور چند تمہیدی باتیں 1:38 : عقیدہ کیا ہے 9:17 : کیا ایمانیات اخبار احاد میں بیان ہوئی ہیں 12:44 : کیا مہدی کی آمد کو قرآن میں شامل ہونا لازم تھا 15:24 : کیا بعض علامات قیامت حدیث میں بیان نہیں ہوئیں 19:30 : قرآن سے باہر کی کوئی چیز ایمان نہیں ہو سکتی، اس کی قرآن میں کیا دلیل ہے 21:43 : تواتر اور خبر واحد میں کیا فرق ہے 34:28 : کیا حدیث پر تواتر کا حکم لگا سکتے ہیں