Response to 23 Questions - Part 26 - Arrival of Imam Mahdi - Javed Ahmed Ghamidi
Video Transcripts In Urdu
-
00:00:00 بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مکتبہ غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید
-
00:00:16 اپ جانتے ہیں کہ غامدی صاحب کی فکر پے جو 23 اعتراض بالعموم کیے جاتے ہیں انہیں ہم زیر بحث لا رہے ہیں اور ظہور مہدی کا موضوع زیر بحث ہے اعتراضات کے سلسلے کی 26 ویں نشست ہے اور غامدی صاحب سے ظہور مہدی کے موضوع پر جو ہم گفتگو کر رہے ہیں اس سلسلے کی تیسری نشست ہے ہم سب بہت شکریہ اپ کے وقت کا بغیر کسی تمہید کے بغیر کسی تردد کے میں سیدھا اتا ہوں اس اخری روایت کی طرف جو اپ نے پڑھ کے ہمیں بتانی تھی چھ روایتیں ہم پڑھ چکے ہیں جس میں اپ نے بتایا تھا کہ ظہور مہدی کے حوالے سے جو روایتیں میری موم پیش کی جاتی ہیں ان میں زیر بحث کیا ہے
-
00:00:50 اخری روایت کیا ہے اس میں کیا موضوع زیر بحث ہے اور اس کے بعد پھر میں جو اعتراضات مزید اشکالات ہیں اپ کے سامنے پیش کروں گا اس سے پہلے یہ عرض کر چکا
-
00:00:59 کہ اب تک جو ہم نے روایتیں پڑھی ہیں
-
00:01:02 ان سے کیا معلوم ہوتا ہے
-
00:01:04 یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کا ایک حکمران ہوگا
-
00:01:09 فیاض حکمران ہوگا
-
00:01:11 بڑا عادل حکمران ہوگا
-
00:01:13 دنیا میں ظلم و جور اس سے پہلے اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوگا
-
00:01:19 وہ سرزمین عرب میں اس کو دور کر دے گا
-
00:01:22 سرزمین عربی میں اس کی حکومت قائم ہوگی
-
00:01:25 سات سال یا زیادہ سے زیادہ 9 سال کے لئے
-
00:01:28 اب تک ہم نے یہ چیزیں دیکھی اب اخری روایت جو میں اپ کے سامنے پیش کر رہا تھا اس کو بھی سن لیجئے
-
00:01:36 یہ اخری روایت
-
00:01:38 مستدرک حاکم کی 863 رقم ہے
-
00:01:43 روایت کس سے ہے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ پیچھے بھی گزر چکے ہیں جن سے یہ روایتیں بمشکل منتخب ہوتے ہیں یہ جو لفظ بمشکل میں نے بولا ہے اس کی میں وضاحت کر چکا ہوں
-
00:01:57 یعنی بہت کچھ رعایت دے کر
-
00:02:00 محدثانہ تنقید میں اپ کچھ نرمی برتیں تو تب یہ منتخب ہوتی ہیں
-
00:02:06 تو ابو سعید خدری کی روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں اور نبی سعید الخدری عید المن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کال
-
00:02:16 یخرج فی اخر امتی المہدی
-
00:02:19 اسکیل الغیث
-
00:02:21 [Unintelligible]
-
00:02:26 وتکثر ماشیا اور تازم العمہ یہی شو سبحا اور ثمانیہ
-
00:02:33 ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
-
00:02:39 میری امت کے اخری دور میں مہدی ظاہر ہوگا
-
00:02:43 جس کے دور میں اللہ خوب بارشیں نازل کرے گا زمین خوب اپنی نباتات اگائے گی وہ لوگوں کو انصاف کے ساتھ مال دے گا اس کے دور میں معاشی بہت ہوں گے اور امت کو عظمت حاصل ہوگی وہ 7 یا فرمایا کہ 8 سال رہے گا
-
00:02:59 یعنی وہی مضمون ہے
-
00:03:01 ابو سعید خدری اسی مضمون کو پہلے بیان کر چکے ہیں اس میں جو نئی بات ہے
-
00:03:06 وہ صرف یہ ہے کہ مہدی کا لفظ اگیا
-
00:03:09 اچھا یہ پہلی دفعہ اس میں مہندی کا لفظ یعنی اس سے پہلے جتنی روایتیں بھی ہم نے دیکھیں ان میں اس طرح کا کوئی نام بھی نہیں ایا
-
00:03:18 او میں یہ بتایا گیا تھا کہ ایک حکمران ہوگا
-
00:03:21 فیاض حکمران ہوگا عادل حکمران ہوگا اس کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا
-
00:03:28 اور وہ رسول اللہ سلم کے خاندان میں سے ہو
-
00:03:31 کتنی بات مانی تھی یہاں پہلی بار لفظ مہدی ایا
-
00:03:35 اس سے پہلے کہ میں اس روایت پر بات کروں یہ لفظ مہندی کو سمجھ لیجئے
-
00:03:40 یعنی مہدی کا مطلب ہے ہدایت یافتہ خود خلفائے راشدین کے معاملے میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے
-
00:03:46 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی
-
00:03:48 نسبت سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے
-
00:03:51 وعلیکم ب سنتی وسنت الخلفاء الراشدین المہدیین
-
00:03:57 یعنی تمہیں چاہیے یہ جو سیاسی امور ہے ان میں جو میں نے ایک طریقہ قائم کیا اس کی پیروی کرو اور اسی طرح سے جو میرے بعد میرے خلفاء ہوں گے
-
00:04:08 کون سے خلفاء الراشدین المہدیین یعنی ہدایت یافتہ خلفاء ہوں گے
-
00:04:14 رسول اللہ سلم کے بعد سیدنا ابوبکر وہ بھی مہدی
-
00:04:18 سیدنا عمر وہ بھی مہدی
-
00:04:20 سیدنا عثمان وہ بھی مہدی سیدنا علی وہ بھی مہدی اور جو لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کو پانچواں خلیفہ راشد مانتے وہ بھی مہدی اور اگر عمر بن عبدالعزیز کو شاعر شامل کرلیے تو
-
00:04:33 یعنی رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد انے والے الاب منہاج النبوۃ حکومت کرنے والے خلفاء کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا لفظ کا کیا ہینی ورس سے بنا ہے یا عربی میں استعمال ہوتا ہے عربی زبان کا بڑا مشہور مستر ہے جس سے اپ ہادی ہدایت کے الفاظ اردو میں ہی بولتے ہیں اسی سے اس میں مفعول ہدایت یافتہ ہدایت پایا ہوا
-
00:05:00 تو یہ لفظ کوئی اجنبی لفظ نہیں ہے
-
00:05:04 اگر اس خلیفہ کے معاملے میں استعمال کر دیا گیا ہے تب بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے اب پوری بات گویا یوں ہو جائے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
-
00:05:15 کیا اخری زمانے میں یا میرے بعد
-
00:05:18 بعض روایتوں میں ہم نے دیکھا کہ میرے بعد کے الفاظ ہیں بعض میں اخری زمانے میں
-
00:05:24 یا میری امت کے اخر میں
-
00:05:26 ایک حکمران ہوگا عادل ہوگا تیار ہوگا اس کے زمانے میں خوشحالی اجائے گی 7 یا 8 سال یعنی پہلے سات سال 9 سال کی روایتیں تھیں اب 8 سال کی روایت
-
00:05:38 8 سال 9 سال 7 سال حکومت کرے گا
-
00:05:42 اور اس کا نام میرے نام کی طرح ہوگا یعنی محمد اس کے والد کا نام عبداللہ ہوگا وہ میرے خاندان سے ہوگا اب اس میں یہ شامل کر لیجئے کہ اس کا پورا نام محمد بن عبداللہ مہدی ہوگا
-
00:05:59 یا لوگ اس کو مہدی کہیں گے یا وہ ہدایت یافتہ سمجھا جائے گا اس لئے کہ جب عدل قائم کرے گا جب انصاف کا بول بالا ہوگا جب لوگوں میں خوشحالی ہوگی جب ظلم و جور کا خاتمہ کر دیا جائے چلیے سات سال کے لئے صحیح 8 سال کے لیے صحیح 9 سال کے لئے صحیح تو اس کو مہدی کہنا چاہیے میں اپ سے عرض کر چکا ہوں کہ اس سے پہلے ہم یہ جان گئے کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد صحیح طریقے سے حکمرانی کرنے والے سب خلفاء کے لئے یہی لفظ استعمال کی
-
00:06:29 تو مہدی کا کوئی خصوصی تصور کسی خاص شخصیت کو اس سے مراد لینا یہ بالکل بھی ضروری نہیں ان روایتوں کا نام ہے
-
00:06:39 یہ سات روایات ہے جو اپ کہہ سکتے ہیں کہ محدثانہ تنقید سے کسی حد تک محفوظ ہو جاتی
-
00:06:48 اچھا کسی حد تک سے کیا مراد ہے کوئی نہ کوئی بات تو ان کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کسی نہ کسی راوی پر جرح کی جاسکتی ہے اگر دس لوگ ان کو صحیح قرار دے رہے ہوں گے تو کوئی ایک ادمی اس سے اختلاف بھی کر رہا ہوگا
-
00:07:01 یہ ساری باتیں ان کے بارے میں کہی جاسکتی ہیں لیکن اپ ان کو انتخاب کر سکتے ہیں ان سے جو بات معلوم ہوتی ہے اپ فیصلہ کر لیجئے کہ اس کا کوئی تعلق اس تصور سے ہے جو ہمارے ہاں عام طور پر مہدی کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے یہ عرض کر چکا کہ یہ بات خود روایتوں کے اندر صراحت سے اگئی ہے کہ یہ حکمران عرب میں ہوگا
-
00:07:22 یہ بات بھی میں عرض کر چکا کہ فی اخری زماں کے الفاظ جس طریقے سے دنیا کے اخری وقت کے بارے میں اتے ہیں اسی طریقے سے حدیثوں میں رسول اللہ کا جو زمانہ ہے
-
00:07:36 اس کو خیر القرون کہا اپ نے
-
00:07:38 اس سے متعلق بھی اتے
-
00:07:40 تو دونوں امکانات ہو سکتے ہیں یہ صاحب اچکے ائیں گے
-
00:07:46 اچھا اجائے اس سے ہمارے ایمان میں عقیدے میں ہمارے دین میں کیا کمی بیشی ہوتی ہے کیا اضافہ ہوتا ہے کیا چیز ہے جو منوائی جارہی ہے ایک پیشن گوئی ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اگر یہ روایات سب کی سب مان لی جائے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے مان لیجئے
-
00:08:04 لیکن مان کر اپ کا کیا رائے
-
00:08:07 ایک حکمران کے پیدا ہونے کی پیشن گوئی بیان کر رہے ہیں اچھا حکمران ہوگا فیاض حکمران ہوگا عادل حکمران ہوگا میں اس سے پہلے عرض کر چکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد جو اس طرح کی بعض چیزیں بیان فرماتے ہیں تو اس سے مقصود یہ ہے کہ اپ کی نبوت قیامت تک کے لئے ہے
-
00:08:24 جب قیامت تک کے لئے ہر ایک شخص کو نبی کی حیثیت سے رسول کی حیثیت سے اپ پر ایمان لانا ہے تو اپ کی صداقت کی علامتیں ظاہر ہوتی رہتی ہے
-
00:08:34 اپنے زمانے میں بھی بہت سی چیزیں تھی جو اپ نے کہی پوری ہو گئی جیسے قران مجید میں غلبہ روم کی گواہی ہے اسی طرح اور بعض چیزیں ہیں اپنے بعد بھی اپنے بعد پیشینگوئیاں کی ایک پیشن گوئی کا ہم بار بار ذکر کرتے رہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل امین کے سوال کے جواب میں کی ہے
-
00:08:53 ایک وقت ایسا ائے گا قیامت سے پہلے کہ رب کے یہ ننگے بدن ننگے پاؤں پھرنے والے چرواہے عمارتوں کی بلندی میں ایک دوسرے مقابلہ کر رہے ہونگے یا ان طالب علامہ تو
-
00:09:04 لونڈی اپنی مالکہ کو جن دے گی میں نے اس کی تعبیر کی ہے گولانی ختم ہوجائے گی تو یہ چیزیں اس زمانے میں ہوئی ہیں یہ ہم نے اپنی انکھوں سے دیکھی ہیں اس سے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک نشان لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اس طرح کا کوئی حکمران عرب میں پیدا ہو جائے گا تو وہ بھی صداقت کا ایک نشان ہوگا
-
00:09:25 یہ بات کی کہ کسی کو اس پے ایمان لانا ہے وہ کوئی مامور من اللہ ہنستی ہے اس کو اسمان سے بھیجا جائے گا اس کے نتیجے میں ساری دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو جائے گا ان روایتوں میں کس جگہ اپ نے اس کو دیکھا ہے
-
00:09:37 یعنی یہ پوری طرح واضح سمجھ لینا چاہیے
-
00:09:40 اس میں یہی کچھ ہے
-
00:09:42 یعنی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے یہ پوری روایتیں میں نے اپ کے سامنے رکھ دی ہیں اب اس کے بعد اگر اپ اجازت دیں تو چند معروضات مزید پیش کریں روایت ہے جس میں مہدی کا لفظ اگیا ہے
-
00:09:57 میں نے عرض کردیا کسی کو خاص فرق نہیں پڑتا
-
00:09:59 خلفائے راشدین کو مہدین کہا گیا ہے
-
00:10:02 سب کے سب مہدی ہیں مزید عرض کردوں کہ ہمارے ہاں مہدی نام کے جو بڑے لوگ ہوئے ہیں اگر اپ زرکلی کی الارام میں سے ان کی فہرست نکال لیں تو اسانی سے 50 60 8 گن سکتے ہیں پچھلے بارہ سو سال میں
-
00:10:17 حکمران بھی ہوئے ہیں دانشور بھی ہوئے ہیں بڑے علماء بھی ہوئے ہیں اور وہ بھی ہوئے ہیں کہ جنہوں نے مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے
-
00:10:24 کیسے مہدی سوڈانی
-
00:10:26 علامہ اقبال نے مہدی سوڈانی کے بارے میں کہا ہے نہ
-
00:10:30 مہدی کے تخیل زندہ امیزنگ مہدی کے تخیل سے بطن کو زندہ کیا
-
00:10:34 یعنی یہ کیوں کہا اس لئے کہ اس کے درحقیقت لوگوں کے اندر ایک بڑی غیر معمولی بیداری کی لہر پیدا کر دی تھی
-
00:10:43 مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن
-
00:10:46 اسی طریقے سے ہمارے یہاں ہندوستان میں جونپوری صاحب
-
00:10:51 یہ دیکھا ہوگا اپ نے بھی ان کا ذکر کیا ہے تذکرہ میں مولانا عبدالقلام ازاد نے
-
00:10:55 ان کے ہاں بھی مہدویت کا خیال رہا تو بہت سے لوگ ہیں کہ جنہوں نے یہ لقب بھی اختیار کیا جن کا نام بھی یہی تھا خود عباسی خلفاء میں
-
00:11:05 ایک بڑے خلیفہ مہدی
-
00:11:08 بلکہ بہت سے لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ بات اصل میں انہی کے زمانے میں زیادہ شہرت پا گئی
-
00:11:14 ابن خلدون کا اپنا رجحان یہی ہے اس نے بیان بھی کیا اس کو تو یہ میں اپ سے عرض کر رہا ہوں کہ اس سے بھی کوئی نازل بات نہیں لیکن اس کو اپ تھوڑی دیر کے لئے ایک طرف رکھ دیجئے اور پھر یہ دیکھیے کہ خود اس روایت کا کیا حال ہے
-
00:11:27 یعنی یہ تو صحیح ہے کہ بادشاہ طریقے سے اس روایت کو اپ قبول کرلیں
-
00:11:32 میں نے عرض کیا قبول کرنے کو خاص فرق نہیں پڑتا لفظ مہدی سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا
-
00:11:38 لیکن روایت کہاں ہے مستدرک حاکم میں
-
00:11:42 یعنی گویا پورا کا پورا جو حدیث کا ذخیرہ ہے اس میں سے کسی نے اس روایت کو قبول نہیں کیا پختہ ہو اور اس نے قبول کیا ویسا کہیں نہیں ہوا مستدرک حاکم یہ کتاب ہی اسی مقصد کے لئے ہے
-
00:11:57 کی حاکم یہ کہتے ہیں کہ میں نے جب یہ دیکھا کہ محدثین نے اور خاص طور پر صحیح عین کے دونوں مصنفین میں امام بخاری نے امام مسلم نے بعض ایسی روایتیں چھوڑ دی ہیں جو ان کی اپنی شرائط پر پوری اترتی
-
00:12:13 انہوں نے کیوں چھوڑ دی اس پر ابھی بحث نہ کیجئے تو انہوں نے کہا کہ میں اس کا استدراک کر رہا ہوں استدراک کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو چیز رہ گئی ہے اس کو میں نے یہاں جمع کر دئیے تو یہ اصل میں المستدرک کلر سیال ہے
-
00:12:27 یہ کب پیدا ہوئے 321 میں یعنی چوتھی صدی میں
-
00:12:31 کب دنیا سے رخصت ہوئے 405 میں یعنی پانچویں صدی کی ابتدا میں رخصت ہونے کے 400 سال بعد بھی رخصت ہوئے 400 سال بعد پیدا ہوئے یعنی 321 میں پیدا ہوئے تو گویا یوں سمجھ لیجئے کہ چوتھی صدی میں پیدا ہوئے اس کے بعد یہ پوری چوتھی صدی گزر گئی اسی مہینوں نے سب اپنا کام کیا ہے پانچویں صدی کی ابتدا میں یہ دنیا سے رخصت ہوگئے ان سے پہلے اگر حدیث کے اپ پورے ذخیرے پر نظر ڈالیں تو یہ لفظ مہدی کے ساتھ روایت نا امام مالک کو میسر ا سکے
-
00:13:03 نہ بخاری ہے مسلم نے اس کو قبول کیا
-
00:13:06 سیان کی ایک حیثیت ہے نہ ہمارے ہاں کیوں نہیں قبول
-
00:13:10 اچھا اس کا بہت اطمینان سے لوگ جواب دے دیتے ہیں کہ صحیحین کے علاوہ بھی تو بہت سی کتابیں ہیں جس میں روایتیں ہیں
-
00:13:17 لیکن بہت روایتیں ہو سکتی ہیں بہت کس سے ہو سکتے ہیں احکام کی بعض چیزیں بھی ہو سکتی ہیں سوال یہ ہے کہ جو حیثیت اپ دے رہے ہیں اس بات کو اس کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے یعنی اخری زمانے میں ایک مامور من اللہ ہستی ہوگی اللہ تعالی مبعوث فرمائے گا ایک ایسی شخصیت کو نکالے گا جس کے ذریعے سے یہ ہو جائے گا اور وہ ہو جائے گا وہ ساری داستان اپ نے پڑھ کے سنا دی تھی
-
00:13:43 یہ سب کچھ کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے
-
00:13:46 اگر چھوڑ دیے تو کیوں چھوڑ دیا
-
00:13:49 یہ سوال ہوگا نا تو یہ مستدرک حاکم کی روایت اور مصادر حدیث میں اس متن کا تنہا تریک یہی ہے
-
00:13:58 جانی کسی اور محدث میں اس کو دیا ہی نہیں
-
00:14:02 بعض اور روایتوں میں یہ لفظ ایا ہے میں بھی کا میں اس روایت کے بارے میں بات کر رہا ہوں یعنی ابو سعید خدری ہے ابو سعید خدری ان چار صحابہ میں سے ہیں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں ان کے بعض اور تاریخ بھی ہے اب میں اپ کو ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں کہ صورتحال کیا ہوتی ہے بعض اوقات الفاظ کیسے اجاتے ہیں یہ عبداللہ اعظمی صاحب ہے میں نے اپ سے عرض کردیا ہے کہ یہ
-
00:14:26 میرے نقطہ نظر کے کوئی شخص نہیں ہے یا مدرسہ فراہی کے کوئی عالم نہیں ہے بلکہ جو ہمارا قدیم محدثین کا طریقہ ہے اسی کے حاملین میں سے ہے اور انہوں نے بڑا غیر معمولی کام کے دور حاضر میں کیا ہے
-
00:14:41 اس میں دیکھیے یہ جابر بن عبداللہ کی
-
00:14:44 ایک روایت لائے
-
00:14:45 جابر بن عبداللہ کی یہی روایت
-
00:14:48 بے نہیں یہی روایت امام مسلم نے بھی نقل کی یہ کتاب الایمان میں
-
00:14:53 اس میں الفاظ کیا ہیں ہم یہ پڑھ چکے ہیں روایت اس سے
-
00:14:57 کس میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول
-
00:15:00 جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا الحق ظاہرین الا یوم القیامہ
-
00:15:11 کہ میری امت میں سے ایک گروہ
-
00:15:14 حق پر رہے گا اور وہ اس کے لئے قتال کرتا رہے گا
-
00:15:19 پھر فرمایا عیسی ابن مریم علیہ السلام
-
00:15:23 عیسی ابن مریم نازل ہوں گے فیقول امیرھم
-
00:15:27 تو ان کا امیر یعنی مسلمانوں کا امیر یا اس
-
00:15:31 گروہ کا امیر
-
00:15:33 جو حق پر رہیں گے ان سے کہے گا تال صلی اللہ ائیے
-
00:15:38 ہمیں نماز پڑھائی ہے وہ یہ کہیں گے نہیں
-
00:15:46 تم میں سے بعض بعض کے حکمران ہیں یعنی وہی ان پر حکومت کریں گے
-
00:15:51 تقر متلا ہی حاضر امہ اس امت کو اللہ تعالی نے یہ عزت بخشی ہے کہ اس کی ائمہ انہی میں سے ہوتے ہیں
-
00:15:59 میں اس سے پہلے عرض کر چکا کہ امام کا لفظ ائمہ کا لفظ جس طرح سے بڑے لوگوں کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جیسے امام ابو حنیفہ امام شافعی
-
00:16:08 جس طرح ہمارے مسجد کے امام کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طریقے سے یہ مسلمانوں کے حکمران کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے یہ روایت اپ نے سن لی یہی روایت ہے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو ایک اور محدث بیان کر دیتے ہیں
-
00:16:25 اور اس کو ابن قیمے نقل کیا
-
00:16:28 اور یہ حارث بن ابی اسامہ کی مسند میں نقل ہوئی
-
00:16:31 یعنی یہ عام کتابوں میں سے نہیں ہے اب یہ دیکھیے یہاں یہ لفظ تھا
-
00:16:37 تو مسلمانوں کا امیر سیدنا مسیح سے کہے گا
-
00:16:41 وہاں کیا ہے فیقول امیرھم المہدی
-
00:16:44 اچھا وہی بات
-
00:16:46 وہی جابر میرا عبداللہ
-
00:16:48 وحی امیرو ہم کے الفاظ اس کے اگے المہدی کا لفظ ا گیا
-
00:16:53 تو سوال یہ ہے کہ یہاں کیوں نہیں ایا امام مسلم نے اس لفظ کو کیوں قبول نہیں کیا
-
00:16:58 یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ خود اس نفس کا روایتوں کے اندر داخل ہونے کا بھی ایک پس منظر ہے
-
00:17:06 تو اس سے پہلے کہ میں اس پس منظر کو سامنے رکھ کر اپنا نقطہ نظر بیان کروں میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ جو روایت ہے میں نے اپ کے سامنے پڑھی ہیں
-
00:17:15 یہ سات روایتیں یہ 4 صحابہ سے ہیں
-
00:17:19 انہی ترک سے
-
00:17:21 عبداللہ ادمی صاحب نے جو انتخاب کیا ہے وہ میں نے بتا دیا کہ اس کو اب دیکھ لیں ان میں کوئی نیا مضمون نہیں ہے یہی باتیں ہیں جن میں بیان ہوئی ہیں صرف یہ ہے کہ یہی مضمون جو اپ کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں یہ دو اور صحابہ سے بھی انہوں نے روایت کی ہے مختصر جملوں کی صورت میں ایک سیدنا علی سے اور ایک سیدہ ام سلمہ سے
-
00:17:42 یعنی وہاں صحابہ اچھے ہوگئے ہیں روایات 14 کی تعداد میں ہوگئی ہیں یہ سات ہے مضمون یہی ہے سارے کے سارے
-
00:17:50 یہی باتیں ہیں جو اپ کے سامنے رکھ دی گئی ہیں بیان کی گئی ہیں کوئی نئی چیز نہیں ہے
-
00:17:54 ان میں سے جہاں مہدی کا لفظ ایا میں نے اپ سے عرض کیا کہ وہ کیسے ایا ہے
-
00:17:59 ڈھونڈنے بھی ایا ہے یہ روایت بھی میں نے اپ کے سامنے بیان کر دی ہے اس کو میں نہیں جیسے یہ بیان ہوئی ہے مان لیجئے مجھے ان پر کوئی اعتراض نہیں
-
00:18:08 یعنی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشن گوئی کی ہے کہ عرب میں ایک ایسا حکمران ہوگا جو عادل حکمران ہوگا فیاض حکمران ہوگا جس کے زمانے میں مسلمانوں کو عرب میں بڑی خوشحالی حاصل ہو جائے گی تو اس میں کیا ایسی بات ہے ایک پیشین گوئی ہے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس کی صحیح ہے تو پوری ہو جائے گی انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں قران مجید کی روشنی میں دین کے عمومی اصولوں کی روشنی میں کوئی اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جو بات بیان ہو رہی ہے اس کا تجزیہ تو کیا جائیگا
-
00:18:39 تو اب اس کا تجزیہ اگر اپ پلٹ کے کیجئے
-
00:18:42 یعنی اخر کیا وجہ ہے کہ یہی مضمون کہ خلیفہ ہوگا
-
00:18:46 مال لوٹائے گا گنے بغیر لوٹائے گا
-
00:18:50 عادل خلیفہ ہوگا
-
00:18:52 یہی الفاظ امام مسلم لیتے ہیں اور امام بخاری لیتے ہیں
-
00:18:57 تو وہاں اس طرح کا کوئی ذکر نہیں ملتا
-
00:18:59 الفاظ یہی ہے
-
00:19:01 صابن بھی یہی
-
00:19:03 انی سے روایت لی جا رہی ہے وہاں نہ مہدی کا لفظ ملتا ہے نہ باز اور چیزیں ملتی ہیں مثلا یہ کہ اتنے سال تک کے لئے حکومت کرے گا یا یہ بات کہ وہ میری عترت میں سے ہوگا یا میرے خاندان میں سے ہوگا یا اس کا نام میرے نام پر ہوگا یا اس کے والد کا نام میرا نام پر ہوگا بخاری مسلم میں کوئی چیز ان میں سے نہیں ملتی
-
00:19:24 متا امام مالک میں تیسرے سے یہ مضمون ہی نہیں ہے تو حدیث کی امہات کتب کے مصنفین نے ان تفصیلات والی روایتوں کو نہیں لیا یعنی جتنی میں نے پیش کر دی ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن انہوں نے ان کو بھی نہیں دیا
-
00:19:38 جو بات انہوں نے لی وہ صرف یہ ہے
-
00:19:41 کہ میرے بعد ایک خلیفہ ہوگا میرے بعد ایک حکمران ہوگا جو بہت فیاض ہوگا نہیں نہیں نا اس میں مدت ہے نہ ان میں نام ہے نہ اس میں یہ صراحت ہے کہ یہ میرے اہل بیت میں سے ہوگا
-
00:19:54 تو اگر اپ ان روایتوں کو بنیاد بنا لیں کہ اصل میں بات یہی تھی
-
00:20:00 جس پر بعد میں
-
00:20:02 دوسرے تیسرے چوتھے درجے کی کتابوں میں تھوڑے تھوڑے اضافے ہونے شروع ہوئے اور محدثانہ تنقید سے بچ کر وہ روایتیں کسی حد تک قابل قبول بھی ہوگئی مان لیں اس بات کو میں عرض کر چکا کہ ان کو ماننے میں کوئی معنی نہیں صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اصل بات کیا تھی
-
00:20:20 تو میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصل بات اتنی ہی تھی جتنی امام بخاری نے اور امام مسلم نے لے لی
-
00:20:27 اس سے رائٹ کچھ نہیں تھا
-
00:20:29 یہ باقی جتنی چیزیں ہیں یہ بعد کے زمانوں میں ان روایتوں کے اندر شامل ہوتی چلی گئی
-
00:20:36 ان لوگوں نے اتنی بات لی جتنی بات سلوا کے تحقیق کے معیار پر پوری اترتی
-
00:20:42 اور اس کا مصداق وہ کونسا خلیفہ وہ کونسا حکمران تھا کہ جس حکمران کے زمانے میں لوگوں نے دیکھا کہ فیاضی بھی ہے اور عدل و انصاف بھی ہے
-
00:20:54 وہ اگر اپ تاریخ پر ایک نگاہ ڈال کے دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ
-
00:21:01 اس بنیاد پر میں نے اپنی کتاب میزان میں یہ لکھا ہے کہ مہدی سے متعلق روایات محدثانہ تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں
-
00:21:10 البتہ
-
00:21:12 جو صحیح روایتیں ہیں ان میں ایک فیاض خلیفہ کابل خلیفہ ایک فیاض حکمران ہے قاتل حکمران کے انے کی خبر دی گئی ہے اور اس کا مصداق سیدنا عمر بن عبدالعزیز تھے لہذا رسول اللہ سلم کی یہ پیشین گوئی ہر بار پوری
-
00:21:29 یہ میں نے اپنا نقطہ نظر بیان کر دیا
-
00:21:31 ڈانس کر رہا ہوں کس بنیاد پر بیان کیا کہ وہی مضمون انہیں صحابہ سے جس وقت
-
00:21:38 امام بخاری نے لیا امام مسلم نے لیا تو انہوں نے یہ ساری تفصیلات نکال دیں
-
00:21:43 اب ظاہر ہے کہ عمر بن عبدالعزیز ایک فیاض خلیفہ ہے اگر رسول اللہ نے ان کی پیشین گوئی کی تو یہ بات سمجھ میں اتی ہے وہ خلیفہ راشد
-
00:21:52 خلافت راشدہ کی حیثیت سے پچھلے بارہ سو سال میں جس شخصیت کے بارے میں انگلی نہیں رکھی جاسکتی وہ نہیں کی شخصیت
-
00:22:00 ان کے بارے میں اگر پیشن گوئی کی گئی اور وہ پیشین گوئی حرف بھارت پوری ہوئی تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ اسے قبول کیا جانا چاہیے
-
00:22:08 تو اگر اپ بخاری اور مسلم کی روایت کو لے لیں تو ان کا مصداق تو ہمارے سامنے ا چکا ہماری تاریخ کا حصہ بن چکا ہم اس پر اللہ کا شکر کرتے ہیں کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشن گوئی پوری ہوگئی
-
00:22:21 اگر تفصیلات میں جائیں تو ظاہر ہے کہ پھر اس کے مصداق نہیں بنتے ہیں روایتوں میں وہ تفصیلات کیا ہیں کہ ان کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا یا نام تو ان کا نہیں تھا
-
00:22:30 وہ اہل بیت میں سے ہوں گے یہ بات بھی درست نہیں ہے
-
00:22:33 تو باقی روایات جتنی بھی ہیں مہدی اگر اپ کہنا چاہتے ہیں ان کو تو ان سے بڑھ کر کوئی مہدی نہیں
-
00:22:39 میں بتا چکا ہوں کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان فیض ترجمان سے یہ فرمایا ہے کہ میرے خلفائے راشدین راشدین بھی ہوں گے مہدین بھی ہوں گے اصل میں راشدین اور مہدیین
-
00:22:52 خلیفہ راشد اور خلیفہ مہدی ایک ہی معنی کے الفاظ ہیں عربی زبان میں تو میں اس کو اس طرح لیتا ہوں میں پھر خلاصہ کردو اپنی بات کا اگے بڑھنے سے پہلے کہ یہ جتنا کچھ بھی ہمارے پاس ذخیرہ ہے وہ کئی 100 روایتوں پر ہے کئی 100 تاریخ پر ہے
-
00:23:09 اوسکی چھان پھٹک کا کام لازما کرنا ہے یہ کام میں نے نہیں کیا یہ محدثین نے کیا ہے جلیل القدر محدثین نے جو چھان پھٹک کی ہے اس کے نتیجے کے طور پر یہ روایتیں ہیں جو باقی رہتی ہیں میں نے عرض کیا ہے کہ ہمارے اس زمانے میں بھی جو ایک جلیل القدر محدث نے الصحی الکامل لکھی ہے اور غیر معمولی کام کیا ہے اور پورے عالم اسلام نے اس کے کام کی تحسین کی ہے اس میں جو روایتیں منتخب کی گئی ہیں ان کے مضامین بھی یہی ہے
-
00:23:38 تعداد کچھ زیادہ ہے صحابہ میں سے دو کا مزید اضافہ ہے لیکن مضمون میں کوئی فرق نہیں یہی باتیں ہیں جن میں کہی گئی ہیں اور میں نے اپ سے عرض کیا ہے کہ ان سب باتوں کو بھی اگر تسلیم کر لیا جائے تو مہدی کا جو تصور لوگوں میں رائے جائے ان میں سے کسی بات کی بھی تصویر نہیں ہوتی ایک حکمران کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ پیشین گوئی کی گئی وہ حکمران ان اوصاف کا حامل ہوگا اس کی پیشانی کشادہ ہوگی اس کی ناک اونچی ہوگی یہ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے
-
00:24:07 لیکن عادل ہوگا میں عرض کر چکا ہوں کہ بہت عادل حکمران ہوئے ہیں الحمدللہ اگر عادل ہوگا اپ ان روایتوں کو قبول کرلیں تو کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے ان میں لیکن جو محققانہ انداز ہوتا ہے اس میں تو دیکھا جاتا ہے نہ کہ یہ روایتیں کہاں پائی جاتی ہیں یہ چلیے سند کے لحاظ سے اگر قابل قبول بھی ہو تو باقی محدثین ان کے بارے میں کیا رائے قائم کر رہے ہیں بخاری و مسلم جو ہمارے سامنے دو مجموعے تیار کر رہے ہیں تاکہ ہم اس پورے ذخیرے سے واقف ہو سکیں انہوں نے کیوں چھوڑ دیا
-
00:24:39 اور بھی روایت ہے چھوڑی ہیں لیکن یہ مضمون ایسا نہیں تھا کہ اس کو چھوڑا جائے یہ مدہ ایسا نہیں تھا البتہ اگر خلیفہ کے بارے میں روایتیں دیکھنی ہو تو یہ جو روایتیں پڑھی گئی ہیں ان میں دو روایتیں ہیں وہ انہی کی ہیں اور ان میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس کے مصداق حضرت عمر بن عبدالعزیز کوئی ساری بات کو اپنے سامنے رکھ لیجئے اس کے بعد اپ کے کچھ سوالات ہوں تو میں ان کا جواب بھی دوں گا اور پھر میں یہ چاہوں گا کہ اج ہم لوگوں کو یہ بتائیں یہ جو اس کے بالکل برخلاف تصورات ہیں یہ کس طریقے سے لوگوں کے لئے قابل قبول ہوگئے اگر یہ ذرا ٹھیک ہے اگر تفصیل یہی ہے اگر روایتوں کی نوعیت بھی یہی ہے اگر یہ جو کچھ ہم نے پیش کیا یہی حق ہے اس سے زائد کوئی چیز نہیں بیان کی جاسکتی تو پھر وہ تصورات پیدا ہونے کا باعث کیا کیا وجہ ہے کہ جو باقی روایتیں ہیں انہیں لوگ قبول کر لیتے ہیں ان کو بیان بھی کرتے ہیں ان کو خطبوں میں بھی لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں کیا سبب ہے اس کا یعنی یہ دو الگ الگ ذہن کیوں پیدا ہوجاتے ہیں ایک محققانہ ذہن اسی ترتیب سے چلے گا یہ سارا ذخیرہ پڑا ہوا ہے ہم نے اس کی چھان پھٹک کی اس کی چھان پھٹک کا کام تمام محدثین نے کیا ہے یہ کچھ انتخاب ہوتا ہے ان میں یہ مضمون ہے وہ مضمون ہم نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا اس مضمون میں بھی مزید انتخاب کیا جائے تو بخاری اور مسلم کی روایتیں یہ ہے اور اگر ان کو سمجھا جائے تو اس کا مصداق عمر بن عبدالعزیز بالکل نمایاں ہو کر تاریخ میں ہمارے سامنے اجاتے ہیں ایک ذہن یہ ہے وہ دوسرا ذہن جو لوگوں کے سامنے اتا ہے جو ان کو ایک دوسری تصویر دیتا ہے جس میں بہت سے قصے بہت سی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں ان روایتوں کو بھی بیان کیا جاتا ہے جن پر تنقید ہو چکی جو موضوع قرار پا چکی جو لوگوں کے ہاں قابل قبول نہیں ہوگی لوگوں سے مراد محدثین کے قابل قبول نہیں ہو سکیں دوسرا ذہن اس کو قبول کر لیتا ہے کیا وجہ ہے کہ اس پر کتابیں لکھی جاتی ہیں کیا وجہ ہے کہ ہمارے قدیم علماء اس کو بیان کرتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ اس سوال کا میں اپ کو جواب دو لیکن اس سے پہلے کہ یہ بحث چلی جائے اب تک جو بات کہی گئی ہے اس پر جو اعتراضات جو سوالات ہوتے ہو وہ اپ کو یہ بتائیے میں اس کا جواب دے دیں اپ نے بڑی تفصیل سے وہ جو اخری روایت ہے اور اس کے بعد پورا جو تصور ہے ان روایتوں کو پڑھ کے اپ کے سامنے اتا ہے اپ نے اس کو بیان کیا اور بار بار فرمائی تھی ابھی بھی اپ نے فرمائی کہ موطا بخاری اور مسلم جو ہیں وہ اس طرح کی صراحت کیوں نہیں کر رہے اور اس طرح کی تفصیلات کیوں نہیں بتا رہے
-
00:27:10 تو میں دو پہلو سے چاہوں گا اپ کے سامنے وہ سوال ہوا اعتراض رکھوں جو لوگ بالوں پوجتے ہیں اور یہ بات اپ اکثر اور معاملات میں بھی فرماتے ہیں بعض خیرات کی روایتوں میں بعض رجم کی ایات کے بارے میں کہ اس طرح کی چیزیں جو ہیں وہ کیسے کتابوں میں اگئی ہیں
-
00:27:25 مجھے یہ بتائیے گا کہ جب ہم امام بخاری کی بخاری کھولتے ہیں وہ خود یہ لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی اس کتاب میں
-
00:27:32 صرف صحیح روایات ذکر کی ہیں اور بہت سی صحیح روایات ہیں جن کو طوالت کے خوف سے میں نے چھوڑ دیا ہے تو سب سے پہلی بات کا مجھے اپ کے جواب دیں
-
00:27:41 کہ کیا اب اس امکان کو مانتے ہیں کہ ایک روایت صحیح ہو لیکن بخاری میں نہ ہو تو ہم اس کو اس کو بطور روایت مان لیں گے یہ میں نے ابھی اپ کے سامنے جو باقی کتابوں کی روایتیں رکھی ہیں اور یہ کہا ہے کہ یہ محدثانہ تنقید پر پوری اترتی ہیں ان کو قبول کیا جا سکتا ہے یہ سب بخاری میں تو نہیں ہے مسلم میں تو نہیں ہے اگر میں اس کو نہ مانتا ہوتا تو اپ کے سامنے بیان کرتا
-
00:28:02 لیکن یہ سوال اس کے باوجود ایک اہم سوال ہوتا ہے
-
00:28:06 کہ جب یہ فن اور اس فن کے ماہرین تنقید کا کام کر رہے ہیں تنقیح کا کام کر رہے ہیں اور تنقید کا کام کرکے تنقید کا کام کرکے راویوں کی چھان پھٹک کر کے اپنے مجموعے مرتب کر رہے ہیں ان میں امام مالک کا کوئی معمولی مقام ہے
-
00:28:22 یعنی وہ اس فن کی ائمہ میں سے
-
00:28:25 ان کی کتاب اولین کتابوں میں شمار ہوتی ہے اور بھی مجموعے ہیں لیکن ایک باقاعدہ کتاب کی حیثیت اسی کو حاصل ہوئی اور اس کی شہرت ہوئی ہر جگہ لوگوں نے اس کو حاصل کیا اس کے لئے سفر کیے ایک زمانے میں حکومت نے چاہا کہ اس کتاب کو مسلمانوں کا دستور العمل بنا کر نافذ کر دیا جائے بخاری و مسلم اپ ان کو صحیح کہتے ہیں
-
00:28:47 ان کی ایک خاص حیثیت ہے کوئی روایت اگر ان میں اجاتی ہے تو لوگوں کا بڑا اعتماد ہوتا ہے تو یہ سوال ہے جو میں نے اٹھایا ہے کہ یہ کیوں تفصیلات ان میں نہیں ہے یعنی وہ تفصیلات بھی نہیں ہے جو محدثانہ تنقید کے لحاظ سے قابل قبول ہیں میں نے بھی اپ کے سامنے پیش کر دی
-
00:29:05 سات روایتیں پیش کی ہے نہ وہ سب کی سب بخاری اور مسلم کی نہیں ہے پیش کر دی ہیں بتا دیا ہے کہ اگر ان کو مان بھی لیا جائے تو اس سے اتنی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ سوال باقی رہتا ہے کہ انہوں نے ان تفصیلات کو کیوں قبول نہیں کیا معاملات ہیں فکری جن میں بخاری مسلم میں روایت اگئی اپ ان سے بھی اختلاف کرتے ہیں وہاں پر اگر کوئی کہے ہر چیز قابل تنقید ہے کیونکہ میں یہ عرض کر چکا اس سے پہلے بڑی تفصیل سے گفتگو کرکے میں نے بتایا ہے کہ یہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے باتیں بیان ہو رہی ہیں ان پر ہمیشہ تنقید ہوتی رہے گی یہ سارا فن ہی تنقید کا فن ہے ائمہ رجال پیدا ہی اس لئے ہوئے کہ وہ یہ تنقید کریں جب ان کے سامنے یہ قصے ائے روایتیں ائیں حضور کی نسبت سے کوئی بات بیان کی گئی تو اس تاریخی ریکارڈ کی چھان پھٹک کے اصول بنائے گئے
-
00:29:56 ان کی تنقید کی گئی لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے جب انہیں بتایا جائے یہ حدیث ہے وہ سمجھتے ہیں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے بات بیان کر رہے ہیں
-
00:30:04 بھائی اس طرح نہیں ہے لوگ اپ کی نسبت سے بات بیان کر رہے ہیں ایک شخص مجھ سے مل کے گیا ہے اس نے جا کے باہر ایک بات بیان کی اس سے سننے والوں نے اگے بیان کر دی اس سے سننے والوں نے اگے بیان کر دی اس کی چھان پھٹک کا کام کیا ہے جلیل القدر محدثین نے کام کیا ہے یہ چھان پھٹک جو کچھ بھی ہوتی ہے اگر سند کے لحاظ سے کرنی ہو تو اس کا مواد موجود ہے
-
00:30:26 وہ بخاری اور مسلم کے بعد بھی لوگ کرتے رہے
-
00:30:29 خود بخاری اور مسلم پر تنقیدیں ہوتی رہی ہے ہمارے موجودہ زمانے میں اس زمانے میں
-
00:30:35 شیخ البانی نے یہ کام کیا ہے
-
00:30:37 تمام سیاہ پر کیا اپ دیکھیے کہ ان کی ضعیف ابھی داؤد
-
00:30:42 صحیح ابھی داود
-
00:30:44 ضعیف نسائی صحیح نسائی شاعری موجود ہے یہ موجودہ زمانے کے ایک محدث کا کام ہے شعیب اور نود صاحب کا کام دیکھ لیں مسند احمد بن حنبل پر ہے کن کن چیزوں پر انہوں نے تنقیدات کی ہے یہ جاری رہیں گی میں بھی کرتا رہوں گا تنقید ہوگی انہیں اصولوں پر یعنی سند پر بات کرنی ہے تو یہ بتایا جائے گا کہ راوی کا کردار کیا ہے یہ دیکھا جائے گا کہ سند کا اتصال ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا ہے یا نہیں تاریخی تحقیق کیا ہے یہ دیکھا جائے گا یہ سب دیکھا جائے گا تو یہ کام تو کبھی نہیں روکنا ہے اسی طرح سے علم کی بھینسیں بھی ہوگی یعنی کسی روایت کے اندر کہیں کوئی چھپا ہوا انقطاع ہے کہیں تدریس ہوگئی ہے کہیں ادراک کے الفاظ اگئے ہیں ان کو نکالتے ہیں محدثین یہ دکھاتے ہیں تاریخی تنقید کا عظیم فن ہے جس کو مسلمان وجود پذیر کر چکے ہیں میں بھی اس کا ایک طالب علم ہوں ابھی یہ کام کروں گا اسی طرح قران کی بنیاد پر بھی تنقید ہوگی سنت کی بنیاد پر بھی تنقید ہوگی علم و عقل کے مسلمات کی بنیاد پر بھی تنقید ہوگی وہ کریں گے اس پر الگ سے کسی وقت گفتگو ہوگی کہ حدیث کو کیسے دیکھنے کا کام میں نے کیا ہے اپنے زمانے میں اس وقت بھی کر رہا ہوں میں تو اپ سے یہ عرض کر رہا ہوں کہ محدثین نے جو روایتیں منتخب کی ہیں ظہور مہدی کے عنوان سے وہ روایتیں سب کی سب میں نے مضامین کے لحاظ سے اپ کے سامنے رکھنی ہے جو انہوں نے منتخب کیے
-
00:32:01 ان میں دیکھ لیجئے کیا مضمون ہے اور پھر مزید اگے بڑھ کے یہ عرض کیا ہے کہ محدثین نے منتخب کیا کیا سب نے کر لی ہے
-
00:32:10 امام مالک نے کوئی لی نہیں امام بخاری اور مسلم نے صرف اتنی بات کو قبول کیا ہے کہ ایک خلیفہ یا ایک حکمران ہوگا عادل بھی ہوگا اور لوگوں میں فیاضی سے مال بھی تقسیم کرے گا
-
00:32:24 بھائی عرض کر رہا ہوں کہ اگر باقی جتنی تفصیلات ہیں وہ انہوں نے نہیں لیے تو کیوں نہیں لی کہ فنی حدیث میں ہے کہ جب ایک روایت اجاتی ہے اس میں جو مرکزی مضمون ہے اصل مضمون ہے اگرچہ اس میں ضعف بھی ہو کسی بڑی کتاب میں اور تعدد ترک ہے باقی کتابوں میں ارہا ہے اضافی تفصیلات ارہی ہے مصداقات پس منظر کس کو بتائیے تو ہمارے ہاں تو حدیث کی جو فن ہے اس میں اس کا زوف بھی ختم ہو جاتا ہے تہد ترک سے اور وہ جو تفصیلات ہیں اگر امام بخاری نقل نہیں کی تو باقی کتابوں میں اجاتی ہے اس میں کیا فرق پڑتا ہے لیکن وہ تفصیلات اگر تم محض تفصیلات ہیں
-
00:33:00 اگر وہ سارے تصور کو بدل دے
-
00:33:03 اگر وہ بنیاد ہی بالکل تبدیل کر دیں
-
00:33:06 تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا نا تو یہ کیا چیز ہے دیکھیے اپ نے ایک لفظ بول دیا تفصیلات
-
00:33:12 تفصیلات یہ ہے کہ یہ بات بخاری میں مثال کے طور پر اگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے کجرا بنوایا ایک جملہ اگیا بعض لوگوں نے بیان کیا کہ یہ حجرہ فلاں جگہ پر بنوایا اس حجرے کے لیے اس طرح سے مواد اکٹھا کیا گیا رسول اللہ سلم نے فلاں کو یہ حجرہ دے دیا یہ تفصیلات ہے لیکن اگر حجرے ہی کا تصور تبدیل ہونا شروع ہو جائے
-
00:33:34 تو پھر کیا یہ تفصیلات ہوگی
-
00:33:36 میں نے اپ سے عرض کیا ہے کہ اگر اتنی بات کو اپ لے لیں کہ میرے بعد ایک حکمران ہوگا جو فیاض بھی ہوگا اور عادل بھی ہوگا تو یہ تو کسی لحاظ سے بھی ناقابل قبول نہیں ہو سکتی بات
-
00:33:48 سر میں نے یہ گزارش کر دی ہے کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز جیسی شخصیت اس کے مصداق کے طور پر ا بھی چکی
-
00:33:55 لیکن اگر اپ باقی چیزوں کو دیکھیں تو پھر اجلاق نہ کو دیکھ لیں اسی طرح سے میرے نام کے ساتھ اس کا نام ہوگا میرے والد کے نام کے ساتھ اس کے والد کا نام ہوگا یہ جو اگے کی تفصیلات ہیں میں یہ سوال اٹھا رہا ہوں کہ کیوں قبول نہیں کی اعتراض نہیں کر رہا
-
00:34:12 میں نے گزارش کی کہ میں تو مان لیتا ہوں
-
00:34:14 یعنی مجھے ان پر کوئی اعتراض نہیں اگر ایک ایسا حکمران عادل حکمران فیاض حکمران عرب میں انے والا ہے اور 7 8 سال تک حکومت فرمائے گا اور اس کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا تو کیا قابل اعتراض بات
-
00:34:27 یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان موجود ہے اس وقت بھی ان میں سے ہو سکتا ہے کسی کو حکومت حاصل ہوجائے میں پچھلی نشست میں اپ کو بتا چکا کہ یہ سعودی خاندان سے پہلے جو شریف ہے مکہ تھے وہ ہاشمی تھے اس وقت بھی اردن میں انہی کی نسل حکومت کر رہی ہے تو کوئی استعمال نہیں ہے مان لیجئے لیکن میں اس سے اگے بڑھ کر اپ سے یہ پوچھ رہا ہوں کیا خیر یہ جو تفصیلات ہے صحابی وہی ہے وہی بیان کر رہے ہیں یہ تو ہو نہیں سکتا نہ کہ اتنے وسیع اور اطلاع
-
00:34:55 محدثین کے سامنے یہ ائینہ یعنی امام بخاری کے سامنے امام مسلم کے سامنے کیوں قبول نہیں کیا انہوں
-
00:35:02 کیا وجہ ہے
-
00:35:03 اگر کوئی سبب ہونا چاہیے نا اس پر لوگوں کو غور کرنا چاہیے مجھے اعتراض نہیں ہے پوری کی پوری بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے ان کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا وہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ہوں گے ان کا پورا نام محمد بن عبداللہ مہدی ہوگا یا مہدی ان کا لقب ہوگا یا ان کو لوگ ہدایت یافتہ ہونے کی وجہ سے مہدی کہیں گے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس طرح کا کوئی حکمران اگر
-
00:35:26 ہمارے یہاں اتا ہے میرے ملک میں اجائیں اپ کے ملک میں اجائیں عرب میں اجائے اس کا خیر مت مت کرنا چاہیے اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں اور یہ بات نہ کوئی عقیدہ بنے گی نہ کوئی ایمان بنے گی یہ پشین گوئی رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے روایتوں میں اگئی لوگوں نے بیان کر دی اگر پیشینگوئی پوری ہو گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور نے فرمایا
-
00:35:47 اگر نہ ہوئی تو اس کا مطلب کیا ہوگا اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے روایت کو اپ کی نسبت دینے میں غلطی کر دی ہے میں جس طرح ان روایات کو دیکھ رہا ہوں میں نے یہ عرض کر دیا کہ میرے نزدیک تو یہ پشین گوئی حرف برف پوری ہو چکی ہے یعنی جتنی بات بخاری و مسلم میں ہے اس کے مصداق کی حیثیت سے سیدنا عمر بن عبدالعزیز اچکے اور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ان کے حق میں پوری ہوگی
-
00:36:11 تو یہ چیزوں کو دیکھنے کے مختلف انداز ہو سکتے ہیں لیکن میں نے تو اپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اپ اس کو میں نے ہی جو کچھ بیان کیا ہے سات کی سات روایتیں چاروں صحابہ نے جو بیان کیے ہیں بیان ہی قبول کر لیجئے تو ہوا کیا اس کے نتیجے میں یعنی کیا ظہور مہدی کا وہ تصور ثابت ہوگیا جو لوگ بیان کرتے ہیں
-
00:36:29 ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں ہے یہ روایت ہے ان تمام تصورات سے بالکل خالی اچھا انسر کہا یہ جاتا ہے کہ ایک روایت میرے سامنے ہے جس میں فاطمہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالی اس امت کے لئے ہر صدی میں ایسے شخص کو مبعوث فرمائیں گے جو امت کے دینی معاملات کو ازسر نو قائم اور مضبوط کرے گا یہ جو تجدید دین اور مجدد کا تصور ہے
-
00:36:53 سوال یہ کیا جاتا ہے کہ صدمہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اور پیشن گوئی الگ سے فرما رہے ہیں اور وہ بتا رہے ہیں کہ غیبی نظام ہے اللہ تعالی کا جو ہر وقت دنیا کو اور دین کو جو معاملات ہیں ان کو ٹھیک کرنے کے لئے مستقل جاری ہے
-
00:37:07 تو اگر یہ نظام موجود ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توصیف فرما رہے ہیں تو پھر عقلی طور پر یہ ماننے میں جو باقی کا قصہ کہانی ہے چلیں اپ کی ان روایتوں میں وہ ثابت نہیں ہوتا ہوگا لیکن اگر کوئی شخص ا جاتا ہے اور وہ مجدد ہے اور اس نے یہ کام کرنا ہے تو عقلی طور پر تو کوئی اس میں استعمال اللہ تعالی کا نظام ہی کہاں ہے
-
00:37:28 یعنی اتنی بات یہ جو روایت ہے اس پر بھی بہت کچھ تنقیدات ہے لیکن چلیے مان لیجئے اس کے مضمون کو تو اس میں کیا کہا گیا ہے کہ ہر صدی میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو اللہ کے دین کو زندہ کرتے رہیں گے اس طرح کے سب علماء جتنے بھی دین کو زندہ کرتے ہیں صحیح بات اپ کو بتاتے ہیں تحقیق کرکے یہ بتاتے ہیں کہ کیا غلطی ہوگئی سب کے سب اسی کے مصداق تو اس میں کیا نئی بات ہے اس میں کس حکمران کا ذکر ہے اور اس روایت کا اس حکمران سے کیا تعلق ہے یہاں ہے خلیفہ حکمران یملک العرب
-
00:38:00 یہ کہا گیا
-
00:38:01 وہاں ہے بالکل دوسری بات کہی گئی ہے اور دوسری بات کو تو بالکل عقلی لحاظ سے بھی ماننا چاہیے
-
00:38:07 ہم دیکھتے ہیں پچھلے بارہ سو سال میں ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں کہ جو دین کی تجدید کرتے ہیں تجدید دین یہ ہمارے ہاں ایک اصطلاح بنی ہے
-
00:38:18 اس پر لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں
-
00:38:20 ہمارے زمانے کے ہجری میں قدر عالم مولانا سید مولانا صاحب مودودی کی کتاب کا عنوان ہے تجدید و احیائے دین
-
00:38:28 یعنی یہ پورا عمل ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ضرورت ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو قران دیا سنت دی یہ روایات کا ذخیرہ اپ کی نسبت سے ہمارے سامنے اگیا اس کے نتیجے میں دینی تصورات پیدا ہوتے ہیں لوگوں میں غلطیاں بھی اجاتی ہیں ان کی تجدید کرنا اصلاح کرنا ان کو درست کرنا یہ علماء کا کام ہے اور ان میں بعض ایسے جلیل القدر لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں میں تو اس زمانے میں دس گنوا دیتا ہوں اپ کو ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں تو اس روایت کا اس سے کیا تعلق انصاف کہا جاتا ہے کہ یہ جو تصور
-
00:39:01 میں مطلب اصرار کیا جاتا ہے کہ اگر یہ جو پورا نظام فکر ہے ظہور مہدی کا اس کو ٹریس کرکے بتائیں تو کاونٹر سوال یہ کیا جاتا ہے کہ چلیں قران مجید میں اس طرح بیان نہیں ہوا روایتوں میں بھی نہیں ہوا تو پھر اپ ہی بتائیں کہ قران مجید میں جو اس کے کچھ بلو پرنٹس ملتے ہیں ہمیں کہ اللہ تعالی نے کہا ہے کہ یہ کون الدین قلواللہ کے
-
00:39:21 دین پورا کا پورا اللہ کے لئے ہو جائے گا تو وہ تو اب تک ہوا نہیں تو وہ مہدی علیہ السلام ائیں گے وہی تو کریں گے اگر وہ اللہ کے لیے نہیں ہوگا تو پھر کون کرے گا
-
00:39:29 میں قران مجید کے مقامات پر پچھلے پینتیس چالیس سال سے دسیوں گفتگو کرکے بتا چکا ہوں کہ ان ایتوں کا کوئی تعلق ہمارے زمانے سے نہیں ہے
-
00:39:41 رسول اللہ سلم اللہ کے
-
00:39:43 اخری پیغمبر تھے رسالت کے منصب پر فائز تھے جب اللہ تعالی کسی رسول کو بھیجتا ہے تو اپنے مخاطبین کے لئے خدا کی عدالت بن کر اتا ہے یہ اس عدالت کا بیان ہے
-
00:39:55 اور اس کے نتیجے میں یہ لازم ہو گیا تھا کہ سرزمین عرب میں دل کا غلبہ قائم ہو جائے یہی وہ مضمون ہے جو اس ایت میں بیان ہوا ہے کہ وہ سرزمین عرب ہے اس کے بارے میں پیشن گوئی کی گئی رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے وہ حرف محرم پوری ہوگئی اس کے بعد اب کس چیز کا انتظار کرنا یعنی دیکھا اپ نے کہ ایک شخصیت نے دعوت پیش کی یہ کہا کہ میں اللہ کا رسول ہوں کوئی حیثیت تو نے بھی لحاظ سے نہیں تھی وہ بڑوں میں سے نہیں تھے خود یہ اعتراض کیا گیا کہ یہ طائف کے اور مکے کا کوئی بڑا ادمی کیوں نہیں جس کا انتخاب کیا گیا لیکن اس سب کے باوجود جب یہ کہا گیا کہ یہ خدا کے پیغمبر کی حیثیت سے ائے ہیں اس سرزمین پر دین کا غلبہ قائم کرکے جائیں گے وہ قائم کر دیا اب کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں وہ ایک بڑی نشانی بن گئی ہے اللہ تعالی کی تو ان ایتوں میں یہ بات بیان ہوئی ہے اس کا اس سے کیا تعلق ہے اپ نکالی ہے سورہ انفال کو دیکھیے اس میں کیا کہا گیا ہے اس میں مشرکین عرب کے مقابلے میں صحابہ سے کہا گیا کہ جنگ کرنے کے لئے اٹھو اور اس جنگ کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ اس سرزمین میں دین کا غلبہ قائم ہوجائے گا یہ بات ہے جو اس میں بیان کی گئی ہے اس کا اس زمانے سے کیا تعلق ہے
-
00:41:14 اخر کی طرف ہم بڑھتے ہیں ہمارا وقت بھی یہاں پے کافی اگے بڑھ رہا ہے
-
00:41:20 بخاری مسلم کا اپ نے ذکر کیا ان میں جو روایتیں ہیں اس میں مہدی کا لفظ نہیں ہے امیر و ھم کا لفظ ہے بخاری کی جتنی شروعات دیکھیں بخاری پر کام کرنے والے جتنے لوگوں کو دیکھے ہیں سب یہ فرماتے ہیں کہ امیرو ہم سے مراد امام مہدی ہیں اپ اہلسنت کی کتابیں اٹھائیں عقائد کی کتابیں اٹھائیں باقی ان کے نظریات کو دیکھیں تمام علماء 1400 سال سے متفق علیہ اجماعی روایت ہے جس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ قیامت سے پہلے ظہور مہدی ہوگا مسیح علیہ السلام
-
00:41:51 موجود ہوں گے انہی کی حکمرانی ہوگی انہی کی امامت میں نماز پڑھی جائے گی یہی ہے جو نجات دلائینگے
-
00:41:58 سوال میرا اپ سے یہ ہے یہ روایتیں جو اپ نے پچھلے دو تین قسطوں میں پڑھ کے سنائیں ہو سکتا ہے ٹھیک ہو سب کچھ جو اپ فرما رہے ہیں ٹھیک ہو
-
00:42:05 ہو سکتا ہے ٹھیک ہو نہیں محدثین کہتے ہیں کہ یہ قابل قبول ہیں میں نے یہ کہا ہے میرے نزدیک بھی ایک قابل قبول ہو سکتی ہیں یعنی ان میں ہو سکتا ہے کہ اب سوال نہیں تصور اپ بیان کر رہے ہیں جو تصور ان روایتوں سے اپ نے اخذ کیا وہ میں کہتا ہوں کہ مکمل طور پے عملی طور پر اللہ کے نزدیک ہوسکتا ہے ٹھیک ہو
-
00:42:23 تو پھر یہ بتائیں اس سوال کا مجھے اپ جواب دیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد ہمارے علماء کرام کی عربوں کی تعداد میں اج مسلمان ہے کسی سے اپ پوچھیں وہ یہی کہے گا کہ جی مہدی علیہ السلام نے تو انا ہے ہمارے پوری روایت ہے اہل تشیع کی ان کے تو یہ عقائد کے اندر شامل ہے یہ ائیں گے اس کے بعد فیصلوں میں خود اہلسنت کے علماء رشید احمد گنگوہی کو پڑھیں انور شاہ کاشمیری کو پڑھیں سب یہ کہتے ہیں کہ یہ ائینگے فیصلہ کریں گے تو پھر یہ تصور پھر کیسے پیدا ہو گیا میں نے خود پیشکش کی ہے کہ میں اس پر گفتگو کروں گا اور اپ کو یہ بتاؤں گا لیکن ایک چھوٹی سی بات کی مزید منات کر دو یہ عقائد کی کونسی کتابیں ہیں جن میں ان کا ذکر ہے یعنی ہمارے ہاں عقائد نسفی ہے عقیدہ طحاویہ ہے ذرا نکال کے دکھائیے مجھے کہاں ذکر ہے اہلسنت کے عقائد میں یہ شامل نہیں ہے یہ جو کتابیں ہیں یہ اہل سنت کے عقائد کی ہیں یا کسی اور کے عقائد کی
-
00:43:14 حضور مسیح کا ذکر ہے لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں ہے اس وجہ سے ایسا بھی نہیں ہے یعنی ظاہر ہے کہ سب سے پہلی جو جامع ترین کتاب ہے وہ تو عقیدہ طحاویہ ہی ہے نا
-
00:43:26 دیکھ لیں
-
00:43:27 اس سے مجھے کہیں دکھا دیں تو اس لئے یہ باتیں ایسی الاطلاق نہیں ہے جس طرح کے لوگ بیان کرتے ہیں
-
00:43:33 بعد میں بعض عقائد کی کتابوں میں ضرور ذکر اگیا ہے لیکن ان دونوں بڑی کتابوں میں کوئی ذکر نہیں ہے اس کا
-
00:43:40 تو اس لئے میرے نزدیک معاملے کی نوعیت وہ نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو کیا ذکر ہوگا یہی ذکر ہوگا کہ ایک حکمران ائے گا اپ کیا کہہ سکتے ہیں پورا کہہ دیجئے ایک حکمران ہوگا عرب میں ہوگا اس کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا اس کو لوگ مہدی کہیں گے
-
00:43:56 ہدایت یافتہ کہیں گے اسی طرح کہیں گے اس طرح خلفائے راشدین کو کہا جاتا ہے اسی طرح کہیں گے جیسے عمر بن عبدالعزیز کو کہا جاتا ہے تو میں نے عرض کیا کہ اس پوری بات کو ماننے میں کوئی معنی نہیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جس کا جی چاہے مان لے
-
00:44:09 اس پے تو کوئی باشی نئی ہے اس تصور پر بحث ہے گفتگو ہے جو پیش کیا جاتا ہے خدا کا مبعوث ائے گا خدا کا مامور ائے گا اس پوری دنیا کو روئے عرش کو
-
00:44:21 یعنی اب ذرا دیکھی ہے نا یہ پوری کی پوری دنیا اس کو عدل سے بھر دے گا یہ باتیں کہاں بیان ہوئیں
-
00:44:28 تمہارے سے بھی سول چاند کو سلجھائیے کہ یہ کیسے پھر اگئی بات ہمارے میں یہ کہتا ہوں کہ اس سے پہلے اگر کوئی اور سوالات ہیں یا ان روایتوں کے بارے میں جو میں نے اپ کے سامنے پیش کی ہیں یا ان پر جو تبصرہ کیا ہے اگر کوئی لوگ نقد کر رہے ہیں ظاہر ہے کہ اپ اعتراضات ہی پیش کر رہے ہیں تو وہ مجھے بتا دیجئے تاکہ اس پر بات کرکے پھر میں اس موضوع کو اپ کے سامنے رکھوں اب یہ دیکھیے کہ ہوتا کیا ہے ہمارے
-
00:44:53 یعنی عام ادمی کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اصل چیز یہ ہے کہ جو روایات ہوتی ہیں ان سے متعلق اپ کی اپروچز کیا ہوگی
-
00:45:03 یعنی اپ کیا طریقہ اختیار کریں گے ان میں جانے کا
-
00:45:06 تھوڑی دیر کے لئے یہ محدثانہ تنقید یہ سب چیزیں ان کو اپ بھول جائیے
-
00:45:11 اور یہ دیکھیے کہ روایت کیسے وجود میں اتی ہے
-
00:45:15 یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میں بار بار دہراتا ہوں قران دیا
-
00:45:20 صحابہ کی پوری جماعت کو دیے
-
00:45:23 اس کو لکھنے والوں نے لکھا اس کو یاد کرنے والوں نے یاد کیا وہ نسلا بعد نسلا اللہ کی کتاب کی حیثیت سے ہم کو منتقل ہو گیا
-
00:45:32 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت جاری کی یہ نماز یے روزہ یہ اس طرح کی سب چیزیں یہ سنت تمام صحابہ میں جاری کی گئی دین کی حیثیت سے جاری کی گئی
-
00:45:40 رسول اللہ سلم کے صحابہ نے دین ہی کی حیثیت سے اس کو اگے منتقل کیا
-
00:45:45 تمام ہمارے علم نے اس کو اسی حیثیت سے قبول کیا نسلا بعد نسلا اج بھی اسی حیثیت سے ہم تک پہنچ گئی اب ائیے کہ یہ روایات کیا ہیں
-
00:45:56 مکئی بار اس کی وضاحت کر چکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے اپ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد
-
00:46:04 لوگ اپ سے ملے
-
00:46:05 ہوتے ہوئے بھی ملے اور جو ہوتے ہوئے ملے وہ اپ کے بعد بھی موجود تھے
-
00:46:10 وہ لوگوں کے سامنے وہ باتیں بیان کرتے تھے پھر عرض کر رہا ہوں وہ باتیں بیان کرتے تھے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی
-
00:46:19 اپنے مشاہدات کا ذکر کرتے تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام کرتے ہوئے دیکھا یہ بڑی فطری چیز تھی
-
00:46:27 یعنی اللہ کے رسول نے اس کے لئے کسی کو معبود نہیں کیا تھا
-
00:46:31 کبھی پابند نہیں کیا تھا
-
00:46:33 بلکہ بعض موقعوں پر روکا ہی تھا
-
00:46:35 صحابہ کرام بھی اس میں سختی برت کریں جلیل القدر صحابہ نے بھی بعض اوقات پسند نہیں کیا لیکن لوگ محبت سے بیان کرتے تھے
-
00:46:43 اچھا خود بیان کرتے تھے
-
00:46:46 سننے والے تقاضا کرتے ہیں تب بھی بیان کرتے تھے اب یہ روایتیں بیان ہونا شروع ہو گئیں
-
00:46:51 جب یہ بیان ہونا شروع ہوئی تو صحابہ کرام میں سے کسی سے اپ نے سنی
-
00:46:57 اپ سے کسی اور نے سنی
-
00:46:59 ایک صدی کا کم و بیش عرصہ ہے پہلی صدی جس میں یہ شاعر ضائع ہوگئی پھیل گئی جنہوں نے اس میں اضافے کرنے تھے انہوں نے بھی کرلی
-
00:47:09 جن لپٹاں قسم کے لوگوں نے جن جھوٹے لوگوں نے متہم بال کذب لوگوں نے باتوں کو کچھ سے بنانا تھا کچھ سے کچھ بنانا تھا انہوں نے بھی بنا لیا اب یہ سب پھیل گئی
-
00:47:20 یہ جو ائمہ رجال جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ جو محدثین تھے کیوں اٹھے
-
00:47:26 یعنی اگر یہ سب باتیں جو بیان کی جا رہی تھی ایک مسلمان بیان کر رہا ہے
-
00:47:31 اور یہ مان لیا جاتا کہ ایک مسلمان بیان کرے گا تو ٹھیک ہی بیان کرے گا مسلمانوں کے علم میں یعنی پہلی صدی میں اس کو چیلنج کردیا
-
00:47:39 کیوں چیلنج کیا اس لئے کہ صاف نظر ا رہا تھا کہ بات بہت معمولی سی ہوتی ہے زیب داستان کے لئے کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے
-
00:47:49 لوگ باقاعدہ روایتیں گھڑتے ہیں
-
00:47:52 اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کر دیتے ہیں سینکڑوں کی تعداد میں اپ کو یہ محدثین یہ اس امت پر بہت بڑا احسان ہے ان بزرگوں کا
-
00:48:03 پہلی صدی میں یہ پیدا ہو گئے
-
00:48:05 اور اس کے بعد ان کی ایک پوری چین ہے دو تین صدیوں تک
-
00:48:09 ان لوگوں نے کیا کیا
-
00:48:11 انہوں نے صورتحال کو محسوس کیا کہ اللہ کے پیغمبر کی نسبت سے باتیں بیان ہونگی میں پھر عرض کردوں قران پہنچ گیا سنت پہنچ گئی
-
00:48:22 ان روایتوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی دن میں دیر نہ کسی عقیدے کا اضافہ کرتی تھی نہ کسی عمل کا لیکن لوگ بحرحال رسول اللہ کی نسبت سے بیان کر رہے تھے جب بیان کر رہے تھے تو یہ قیمتی دولت بھی تھی
-
00:48:36 یہ اپ مل کے ائے ہیں اپ نے حضور کو دیکھا ہے میرے لئے اس سے بڑی چیز کیا ہو سکتی ہے میں اگر مسلمان ہوں مثلا پہلی صدی میں ہوا دوسری صدی میں ہوا اس سے بڑی چیز کیا ہو سکتی ہے کہ مجھے اپ حضور کی باتیں بتائیں
-
00:48:48 تو حضور کی باتیں حضور کے افعال حضور کے اعمال یہ بیان تو ہوں گے اور ان کے ساتھ محبت بھی ہوگی ان کو سنا بھی جائے گا ان میں بڑا علم بھی ہو سکتا ہے یعنی اگر حضور نے کسی بات کی وضاحت کی ہے یا قران مجید کی کوئی چیز بتائی ہے یا کچھ غوامی کی طرف اشارہ کیا ہے تو بڑی بات ہو سکتی ہے تو قیمتی دولت بھی ہے
-
00:49:09 ایک طریقہ یہ تھا نا کہ محدثین نہ اٹھتے اور پوری امت کے علماء یہ فیصلہ کر رہے تھے کہ جو کوئی بیان کر رہا ہے قبول کر لو
-
00:49:18 اچھا ایک دوسرا دیول بھی ہو سکتا تھا کہ ہم ان میں سے کسی بات کو سنیں گے بھی نہیں
-
00:49:23 تو جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ کیا تھا اور یہ طریقہ میں نے نہیں اختیار کیا اس امت کے پہلے دور میں اختیار کیا
-
00:49:31 کرنے اول کے اہل علم نے اختیار کیا جلیل القدر تابعین تبع تابعین نے اختیار کیا طریقہ اختیار کیا کہ یہ بڑی دولت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جو باتیں بیان ہو رہی ہیں ان میں ہمارے لیے علم و عمل ہے ان میں حضور کے اسوہ حسنہ کی روایتیں ہیں ان میں اپ کی سیرت ہے ان میں اپ کی سوانح ہے ہم اس ذخیرے کو ضائع نہیں ہونے دیں گے لیکن
-
00:49:53 کیا سب کچھ قبول کر لے ان میں لوگ جھوٹ ملا رہے ہیں ان میں موبائل میں ہو رہے ہیں ان میں داستان سرائی ہو رہی ہے ان میں چیزیں دھڑکیں شامل کی جارہی ہیں تو پھر کیا کرنا چاہیے تنقید
-
00:50:06 یعنی محدثانہ تنقید اس کے لئے یہ فن وجود میں ایا جس کا میں نے اپ کو تعارف کرایا ہے
-
00:50:12 کیا اب ہم دیکھیں گے کہ جو بات بیان کی جا رہی ہے کیا وہ قابل قبول ہے یہ قابل قبول ہونے کا جو عمل محدثین نے کیا جس میں میں نے بار بار توجہ دلائی کہ تین باتیں سند میں دیکھیں گے علم دیکھیں گے شروز دیکھیں گے اور پھر انہی علم میں یہ چیز بھی دیکھیں گے کہ قران کے خلاف تو نہیں ہے سنت کے خلاف تو نہیں ہے نہایت اعلی اصول بنائے یہ میں نے نہیں بنائے محدثین نے بنائے انہی کی بنیاد پر چھان پھٹک کا کام شروع ہو گیا
-
00:50:40 یہ بخاری یہ مسلم اور ان کے علاوہ بہت سے دوسرے لوگ یہی کام کر رہے ہیں
-
00:50:46 اس پوری امت میں جو سب سے بڑا علمی کام کیا گیا ہے وہ اس صغیرہ کی چھان پھٹک کا کام ہے
-
00:50:53 یہی ہوا یہی صحیح رویہ تھا یا اس سے مختلف کو رویا تھا اب دیکھیے کہ اس میں صحیح اپروچ کیا ہوگا میں اپنا اپروچ اپ کو بتاتا ہوں
-
00:51:03 اور میرے نزدیک اس امت کے جلیل القدر علماء کو یہی اپروچ اختیار کرنا چاہیے کیا ہے ہمارے ہاں محقق اہل علم نے وہ کیا اپروچ ہے وہ اپروچ یہ ہے کہ اپ دین کو بخش کریں گے یا دین سے متعلق کوئی بات بیان کریں گے تو قران اور سنت تو ہمارے پاس بالکل محفوظ صورت میں ہے روایتوں سے کوئی چیز اخذ کرنی ہے تو پہلے چھان پھٹک کے نتیجے میں جو روایت قابل قبول ہونگی صرف انہی کو قابل اعتراض سمجھیں گے
-
00:51:32 یعنی جو محدثین نے کام کیا ہے میں یہ عرض کر چکا کہ یہ نیا کام ہم نہیں کر سکتے اج سارا مواد انہوں نے فراہم کیا ہے یہ سب کچھ کتابوں میں موجود ہے تو اس کو دیکھ کر پہلے رائے قائم کی جائے گی کہ یہ بہت پھیلا ہوا ذخیرہ ہے میں نے اپ سے عرض کیا کہ یہ جس موضوع پر ہم بات کر رہے ہیں اس میں 500 کے قریب تریک ہے
-
00:51:53 جو مل گئے ہیں ان کی چھان پھٹک کا کام جو ساری امت میں ہوتا رہا ہے پہلے اس کو سامنے رکھیں گے اس وقت تک زبان نہیں کھولیں گے اور سب سے پہلے ان میں سے انتخاب کا عمل کریں گے یعنی انتخاب کا عمل انہیں اصولوں کی بنیاد پر اور پھر جو روایتیں صحیح کے معیار پر پوری اتریں گی یا زیادہ سے زیادہ حسن کے معیار
-
00:52:14 اس سے نیچے نہیں قبول کرینگے ان میں دیکھیں گے کیا بات بیان ہوئی ہے اور پھر اس کو قران کے سامنے پیش کریں گے پھر سنت کی بنیاد پر اس کا جائزہ لیں گے وہ ان میں عراق پر پوری اترے گی پھر اس کو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کرنے کی جسارت کریں گے ایک اپروچ یہ
-
00:52:32 میں اسی اپروچ کو صحیح سمجھتا
-
00:52:34 میں مسلمانوں سے کہتا ہوں ان کو یہی اپروچ اختیار کرنی چاہیے وہ اگر روایات کے فتنوں سے بچنا چاہتے ہیں تو یہی راستہ ہے یعنی نا انکار کر دینا یہ ظاہر ہے ایک بڑی نعمت سے اپنے اپ کو محروم کرنا ہوگا اور نہ جو چیز رتبو یاوی صاحب کو نظر ائے اس کو قبول کر لینا یہ دین میں معلوم نہیں کیا کیا چیز داخل کرنے کا ذریعہ بن جائے گا صحیح رویہ وہ ہے جو ہمارے محدثین نے اختیار کیا ہے یہ جلیل القدر محدثین جن کو اپ ائمہ رجال کہتے ہیں یہ جلیل القدر محدثین جن کے سرخیل امام مالک امام بخاری اور امام مسلم ہیں جو رویہ انہوں نے اختیار کیا وہ کیا رویہ ہے چھان پھٹک کر رہی ہے تحقیق کروایا تنقی کا رویہ وہی اختیار کریں گے اور انہی پر اپنے نقطہ نظر کی بنا رکھیں گے اگر رکھیں گے
-
00:53:19 میں نے اس وقت جو کام اپ کو کر کے بتایا وہ یہی کام
-
00:53:23 ارے اپ کو بتایا کہ یہ سارا ذخیرہ اتنی بڑی تعداد میں تھا محدثین نے اس پر تنقید کا کام کیا اس کا انتخاب ہونا شروع ہو گیا دیکھیے کہ اس کو کس نے کس طرح سے قبول کیا یہ کل 4 صحابہ کی روایتیں ہیں ان کی تعداد سات ہے ان میں یہ مضمون ہے یہ سارا مضمون میں نے اپ کے سامنے رکھ دیا
-
00:53:42 تو اس کے بعد اس پر تبصرہ بھی کر دی اب یہ ایک اپروچ ہے
-
00:53:47 میرے نزدیک یہی صحیح اپرو
-
00:53:49 لیکن ایک دوسرا چوچ
-
00:53:51 ارو میں اپ سے عرض کرتا ہوں اسی دور میں چلے جائیے
-
00:53:54 یعنی رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں چیزیں پھیل چکی ہیں
-
00:54:00 ان سے ایک تصویر بن گئی
-
00:54:02 امام مہدی ائیں گے اخری زمانے میں
-
00:54:05 ان جس وقت اپ وہ روایتیں ہیں جن کو محدثین قبول نہیں کرتے ان کو پڑھیں گے تو وہ ساری تصویر اجائے گی اللہ کی طرف سے مبعوث ہوں گے اسمان سے ایک نگاہ ائے گی
-
00:54:15 زمین و اسمان عدل سے بھر جائیں گے اسلام کا غلبہ قائم ہو جائے دولت ہوگی ایسی فراوانی ہوگی امت کے اوپر ایک عظمت کا دور اجائے گا یہ باتیں ہیں
-
00:54:28 یہ باتیں کیسے ہوئی ہیں وہی چھوٹی سی بات تھی کہ مسلمانوں کے ہاں ایک خلیفہ ہوگا
-
00:54:34 ہائے سے تصورات
-
00:54:37 داستان سرائی کا جذبہ
-
00:54:39 ایسے ہی جو سیاسی حالات بعد میں پیدا ہوئے وہ اب اضافے کرتے جا رہے ہیں یہ اضافے شاعروں سے شائع ہوگئے
-
00:54:46 لوگوں کے اندر ان کی بڑی شہرت ہوگئی جب اتنے بڑے پیمانے پر پہلی صدی میں شہرت اپ کو نظر ائی تو دیکھیے ایک اپروچ یہ ہے اتنی زیادہ شہرت ہوئی ہوئی ہے اتنی مشہور بات ہے یہ ساری مشہور بات جو ہے یہ تنقید ٹھیک ہے روایتوں کو ضرور دیکھنا چاہیے لیکن روایتوں میں بھی صحیح روایتوں میں بھی محدثین کی تنقید میں بھی اتنی بات تو اگئی ہے نہ کہ خلیفہ ہوگا اتنی بات تو اگئی ہے کہ نزول مسیح کے موقع پر ان کا مسلمانوں کا ایک امیر ان کے اندر سے ہوگا اتنی بات ا گئی ہے تو یہ اصل میں وہی بات ہے جو لوگ بیان کر رہے ہیں اب اپ کیا کیا اپ نے بجائے اس کے کیا اب یہاں سے جاتے کہ جو چیزیں پھیلی ہوئی ہیں ان کی تنقید کے بعد زبان کھولی جائے گی اپ نے جو پھیلی ہوئی چیزیں تھی جن میں اضافے ہو چکے تھے جن میں تصورات داخل ہو چکے تھے جن میں داستان سراہی ا چکی تھی جن میں ایسی ایسی تفصیلات تھیں کہ ان کو اپ دیکھیں تو ایک عجیب تصویر بنتی ہے وہ ساری کی ساری تصویر کو ذہن میں رکھا ذہن میں رکھنے کے بعد اب اپ کہتے ہیں کہ جب تنقید کے عمل سے یہ سب گزری ہے واقعی یہ وہی بات ہے نا اس سے کیا فرق پڑتا ہے یعنی چلیے امام بخاری نے اگر اتنی بات لے لی ہے کہ ایک حکمران ہوگا تو یہ باقی جتنی تفصیلات بیان کی جا رہی ہیں ان کو بھی رد کرنا ہے کیا ضرورت ہے یہ جو دوسرا اپروچ ہے اس دوسرے اپروچ کے نتیجے میں محدثین کے پورے کام پر پانی پر جاتا ہے کہ جو انتخاب ہے جس طرح سے انہوں نے ان سب چیزوں کی تنقید کی وہ عملا ختم ہوگیا
-
00:56:17 ہندی گانا نکلے گا کیونکہ اپ نے اپنے ذہنی تصور کو ذہنی تصور کیا تھا وہ انہیں ساری کی ساری روایتوں میں پھیلا ہوا تھا جو میں نے عرض کیا کہ 500 کی تعداد میں اس وقت بھی موجود
-
00:56:28 تو یہ 500 کی تعداد میں روایتیں اج تو وجود میں نہیں ائی یہ ظاہر ہے کہ اسی پہلی دوسری صدی میں لوگوں کے سامنے اگئی اسی وقت ان کی اشاعت ہوگئی سیاسی طور پر جیسے ابن خلدون کہتا ہے کئی باعث ہوئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ پھیل گئیں تو اپ کے لئے ایک اپروچ یہ ہے کہ اپ قران سنت سے داخل ہوں اور روایتوں کے ذخیرے میں پہلے محدثانہ تنقید کر کے الگ کریں اور پھر جو روایت ہے اس معیار پر پوری اترے ان میں جتنی بات بیان ہوئی ہے اسی کی بنیاد پر کھڑے رہے اور دوسرا اپروچ کیا ہے کہ جو تاثر پہلی صدی میں پھیل گیا ہے اس کی شہرت کو سامنے رکھ کر تصور وہاں سے لے لیں اور پھر یہاں جو چھوٹی موٹی بات بھی اپ کو نظر ائے یکون الدین کل ولی اللہ اگیا قران مجید میں یہاں ایک امیر کا ذکر اگیا ایک خلیفہ کا ذکر اگیا یہ ساری تصویر میں ان سے رنگ بھر لیں گویا روایتیں یہ قابل قبول ہیں رنگ ہم باہر سے بھر لیں گے
-
00:57:23 تو یہ میرے نزدیک دو اپروچز ہیں اور لوگوں کو حق حاصل ہے کہ ان میں سے جس اپروچ کو مناسب سمجھے قبول کرلیں لیکن پورے دین کے معاملے میں میرے نزدیک صحیح اپروچ وہ ہے جس کی میں نے وضاحت کر دی ہے کہ رسول اللہ کی نسبت سے کوئی کمزور بات قبول نہیں کی جائے اس اپروچ کے حاملین اور اس نقطہ نظر کے قائلین میں اپ نے ذکر کیا کہ محدثین نے ایک تنقید کا کام کیا ہے ایک سوال لوگوں کے ذہن میں یہ اٹھے گا کہ وہی محدثین مثن سیوطی کو لیں مثلا اپ باقی محدثین کا ذکر کریں جن لوگوں نے حدیث پے کام کے ابن حجر ہیں سینکڑوں کی تعداد میں علماء ہیں تو وہ اگرچہ یہی کام کر رہے ہیں تنقید کا لیکن وہ جو تصور ظہور مہدی کا سوسائٹی میں موجود ہے وہ تو وہاں پر اس کو بھی تسلیم کرنا ضروری مہدی متواتر ہے یہی دوسرا رویہ غلبہ پا گیا اور لوگ اس کی عام طور پر تحسین کرتے ہیں
-
00:58:16 وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ امام بخاری نے صرف ایک حکمرانی کا ذکر کیا ہے امام مسلم نے اتنی بات کہی ہے یا حاکم کے ہاں بس زیادہ سے زیادہ ایک لفظ ا گیا ہے یہ ٹھیک ہے لیکن اگیا ہے نہ جب یہ اگیا ہے تو پھر جو لوگوں کے اندر پھیلی ہوئی چیزیں ہیں ان سے جو تصویر بنتی ہے اس کو مان لینے میں معنی کیا ہے میرا زاویہ نظریہ ہے کہ مان لینے میں اگر کوئی ماننے نہیں تھا تو محدثین کو اس تکلیف کرنے کی ضرورت کیوں تھی تنقید کا کام کرنے کی کیوں ضرورت ہے پہلے مرحلے میں میں نے اپ سے عرض کیا 2 رویے تھے یعنی ایک رویہ یہ تھا کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ جو باتیں بھی لوگ بیان کر رہے ہیں صحابہ کی نسبت سے یہ ہمارے لئے قابل اتفاق ہی نہیں ہے پوری امت یہ فیصلہ کر لیتی اور دوسرا طریقہ کیا تھا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ جو بیان کیا جائے قبول کر لیا جائے ہم نے تیسرا طریقہ ہے
-
00:59:04 ہم میں سے مراد یعنی اس امت کے جلیل القدر اہل علم نے محققین نے وہ طریقہ کیا نہیں ہم چاند پھٹک کریں گے ہم تنقید کریں گے ہم ہی نہ اصولوں پر دیکھیں گے اور پھر اس کے بعد اگر کسی بات کی نسبت رسول اللہ کی طرف ہوگی تو بس اتنی ہوگی جتنی اس معیار پر پوری اترے گی اس سے اگے کی چیزوں کو قبول نہیں کریں گے یہ میرے نزدیک دو اپروچز
-
00:59:28 ہمارے ہاں جو رائج اپروچ ہے جو عام طور پر علمائے اختیار کرتے ہیں وہ دوسری اپروچ
-
00:59:35 یعنی اس میں جو کچھ پھیلا ہوا ہوتا ہے اس کا اثر قبول کر لیا جاتا ہے
-
00:59:40 اوسکو اسلم قبول کر لیا جاتا ہے
-
00:59:42 اسلم مان لیا جاتا ہے یہاں پر کیا کیا جاتا ہے کہ اس میں اگر کوئی چیزیں کمزور بھی ہے تو یہ کہہ کے اخر کچھ ذکر تو اگیا ہے نا
-
00:59:52 کچھ نہ کچھ تو مان لیا گیا ہے نا ایک امیر کی بات تو ہو گئی ہے ایک خلیفہ کا ذکر تو ہو گیا ہے نا تو ان چیزوں کو جب ان کے ساتھ اپ جوڑ دیتے ہیں تو اپ دیکھیں پھر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ایک پورا کا پورا عقیدہ دین میں داخل ہو جاتا اس کے ساتھ جذباتی تعلق وابستہ ہوتا ہے پھر مہدی کا انتظار شروع ہو جاتا ہے پھر دنیا کے اندر ایک عظیم انقلاب کے لیے لوگ جدوجہد کرتے ہیں اور میں نے اپنے زمانے میں دیکھا کہ بعض علماء تھے کہ وہ روز تقریر کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ بس پیدا ہونے والے ہیں بلکہ بعض کہتے ہیں کہ پیدا ہو چکے ہیں اور تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد بہت سے لوگ وہی قصے وہی روایتیں سناتے ہیں اور سناتے وقت ظاہر بات ہے یہ پوری تنقید لوگوں کے سامنے نہیں رکھتے
-
01:00:31 تم میرے نزدیک صحیح رویہ دین کے معاملے میں یہ نہیں ہے
-
01:00:35 کیونکہ یہ اپروڈ جو میں سمجھتا ہوں اور جب محققین کا اپروچ ہے یہی صحیح اپروچ ہے تو یہ جب اس ذہن کے سامنے ائے گا لوگ یہی کہیں گے کہ یہ دیکھیے یہ قابل اعتراض بات ہے یہ قابل اعتراض بات ہے ساری دنیا مانتی ہے سب لوگ ایک بات کو کہتے ہیں مسلمانوں کا اجماع ہے کس بات پر اجماع ہے
-
01:00:53 کین اس بات پر اجماع ہے کہ ایک ہستی اسمان سے ائے گی مامور ہوں گے مبعوث ہوں گے اگر اپ نے اجماع کی بات بھی کرنی ہے تو وہ یہ ہے یہ نہ کہیے کہ میں یہ کہیے شہرت ان باتوں کی
-
01:01:05 وہ باتیں پھیلی ہوئی
-
01:01:06 زاہرا کی جب اتنے بڑے پیمانے پر ان باتوں کو بیان کیا گیا ہوگا پہلی دوسری صدی میں مجلسوں میں بیان ہوئی تو لوگوں نے کتنے شوق سے سنا ہوگا
-
01:01:15 داستان سرائی ہوگی تو لوگ کیسے متاثر ہوئے ہوں گے یہ محدثین جن کا کام میں نے اپ کے سامنے رکھا ہے یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے یہ خدمت انجام دی ہے اپ نے پوچھا تھا کہ ان پر بھی تم تنقید کر دیتے ہو ان پر بھی تنقید کا کام یہ محدثین خود بھی کرتے رہے تیسرا اس پر تنقید کرے گا چنانچہ یہ معلوم ہے ہمیں کہ خود بخاری کے کام کے اوپر کتنی تنقیدات ہوئی جو ہے یہ اصل میں تنقید کے بغیر قابل قبول ہو ہی نہیں سکتا تنقید ہی اس کا حسن ہے اور مسلمانوں کی تاریخ میں جو سب سے بڑا علم وجود میں ایا ہے وہ تنقید تاریخ کا علم ہے اور یہ محدثین وجود پذیر کر چکے ہیں اور بڑا اعلی علم ہے بہت کیٹیگریس کیا انہوں نے چیزوں کو یعنی مشہور باتوں کی کیا حیثیت ہوگی مستفیض باتوں کی کیا حیثیت ہوگی اس میں اگر تواتر پیدا ہوتا ہے تو کس طرح سے پیدا ہوتا ہے اور روایتوں کو چھان پھٹک کے لیے کیا معراج ہوں گے ان کی بنیاد پر ہم کام کرتے رہیں ہم سے مراد یہ پوری امت کے جلیل القدر محققین محققین کا زاویہ نظر یہی ہے جو میں نے اپ کے سامنے بیان کر دیا ہے البتہ
-
01:02:28 [Unintelligible]
-
01:03:29 ایک عام ادمی کا میں چاہوں گا کہ وہ جو ذہن ہے اس پوری کے اسٹڈی سے جو اپ نے دو اپروچز بتائیے اور پھر ایک ایک چیز کی تنقید کرکے وہ میتھڈولوجی واضح کی کہ اصل روایتیں کیا تھیں کن صحابہ سے تھی بات کیا تھی اس کو ترتیب سے رکھا
-
01:03:45 مجھے بتائی گئی جو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بھئی میں بالخصوص اپ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں اور اس ضمن میں پوچھ رہا ہوں عام طور پر یہی چیزیں بیان کرکے کہا جاتا ہے کہ ظہور مہدی کے عقیدے کا انکار کردیا ہے غامدی صاحب نے تو غامدی صاحب تو دین میں نئی باتیں کرتے ہیں تو یہ جو اپ نے اپروچ بیان کی ہے یہ اصل میں نئی بات اس پہلو سے تو ہے کہ جو قائم شدہ بات ہے اس کو اپ نہیں مان رہے لیکن یہ اپ کی اپروچ تو اصل میں پرانی بات کی تحقیق کی طرف نہیں جاتی اس کی طرف وضاحت کیجئے اسی اصول پر روایت کو قبول کرتا ہوں میں
-
01:04:19 یعنی اور یہ میں قبول کرتا ہوں یہ تو میں اپنا نقطہ نظر بیان کر رہا ہوں سب محدثین سب محققین یہی اصول اختیار کرتے ہیں اس کے اطلاق میں اختلاف بھی ہو جاتا ہے ابھی یہ دیکھیے کہ میں نے اپ کو یہ بتایا کہ ان تمام روایتوں کی تنقید کرکے جو روایت عبداللہ ادمی سجدے منتخب کیے ہیں الجامع الکامل میں وہ 14 کے قریب بنتی ہے بچھا شہابہ سے مضامین یہی ہے
-
01:04:44 ہم نے مزید تنقید کی ہے تو روایتیں سات
-
01:04:48 اور
-
01:04:49 شعبہ چار
-
01:04:50 مضمون میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی
-
01:04:52 وہی مزامیر
-
01:04:53 لیکن ظاہر ہے کہ سند کی تحقیق میں اختلاف ہو سکتا ہے
-
01:04:57 یعنی یہ ایک راوی کو ایک شخص مجروح کہتا ہے دوسرا اس کو قبول کر لیتا ہے یا کسی جگہ کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا یہ تاریخی تنقید کا علم ہے
-
01:05:07 عام لوگوں کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تاریخی تنقید کو علمی طریقے سے دیکھنا چاہیے اس سے نہ عقیدے بنتے ہیں نہ اس کو عقیدہ بنانا چاہیے نہ اس سے دین میں کوئی اضافہ ہوتا ہے نہ دین میں کوئی کمی ہوتی ہے ہمارا دین قران و سنت میں پورا کا پورا موجود ہے اور ہماری تاریخ یہ رسول اللہ کی تاریخ ہے یہ تنقید کے عظیم عمل سے گزر گئی ہے گزر رہی ہے یہ گزرتی رہے گی اس معاملے میں ہم کوئی کمزوری نہیں دکھا سکتے یہ تنقید کا عمل ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے اس لئے کہ معاملہ اللہ کے رسول کا ہے اس میں یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم سے متاثر ہو جائیں شہرت سے متاثر ہو جائیں ایک بات کو داستان کے طور پر پھیلا دیا گیا ہے پھیلا دینے کے لئے تو اپ کوئی داستان سنا دیجئے اس کے بعد ہر شخص کی زبان پر ہوتی ہے لیکن ہم نے
-
01:05:59 ہم مسلمانوں نے ہمارے محققین نے ہمارے محدثین نے یہ روایت ڈالی کہ ہم لوگوں کی زبانوں پر پھیلی ہوئی اور اس طرح کی شہرت یافتہ چیزوں کو ایسے نہیں قبول کر لیں گے رسول اللہ کی نسبت سے بات بیان کی جائے گی تو اس تنقید کے عمل سے گزرے گی اور یہ انہوں نے گزارا ہے یہ سب کچھ اسی کا خلاصہ میں نے اپ کے سامنے رکھ دیا اپ کے وقت کا ہمارے یہاں پے وقت ختم ہوتا ہے ظہور مہدی کے حوالے سے ہم نے بہت تفصیل سے تین نشستوں میں اپ کے نقطہ نظر کو جانا انشاءاللہ ائندہ نشست کے اندر نزول مسیح علیہ السلام عیسی علیہ السلام کے نزول کے حوالے سے جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان کو اپ کے سامنے رکھیں گے اب تک اپ کے وقت کا بہت شکریہ
-
01:06:40 [Unintelligible]
-
01:06:41 [Unintelligible]
-
01:06:43 [Unintelligible]
-
01:06:45 [Unintelligible]
Video Transcripts In English
Video Summry
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 1:19 نزول مسیح کے بارے میں امت میں رائج نقطہ نظر کا خلاصہ 3:12 کیا اللہ کے پیغمبر کی پیشن گوئی پر ایمان لانا ضروری ہے 14:30 حدیث پر اطمینان کے بعد اس کو نہ ماننا کیسا ہے؟ 19:33 روایات اور اخبار احاد پر گفتگو کیا آپ اس واقعہ کو محض خبر واحد کی بنا پر قبول کرتے 32:29 37:59 خبر واحد پر مزید گفتگو
Video Transcripts In Urdu
Video Transcripts In English
Video Summary
-
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 1:19 نزول مسیح کے بارے میں امت میں رائج نقطہ نظر کا خلاصہ 3:12 کیا اللہ کے پیغمبر کی پیشن گوئی پر ایمان لانا ضروری ہے 14:30 حدیث پر اطمینان کے بعد اس کو نہ ماننا کیسا ہے؟ 19:33 روایات اور اخبار احاد پر گفتگو کیا آپ اس واقعہ کو محض خبر واحد کی بنا پر قبول کرتے 32:29 37:59 خبر واحد پر مزید گفتگو
▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 1:19 نزول مسیح کے بارے میں امت میں رائج نقطہ نظر کا خلاصہ 3:12 کیا اللہ کے پیغمبر کی پیشن گوئی پر ایمان لانا ضروری ہے 14:30 حدیث پر اطمینان کے بعد اس کو نہ ماننا کیسا ہے؟ 19:33 روایات اور اخبار احاد پر گفتگو کیا آپ اس واقعہ کو محض خبر واحد کی بنا پر قبول کرتے 32:29 37:59 خبر واحد پر مزید گفتگو