Response to 23 Questions - Part 27 - Return of Jesus ( Nazul e Massih (A.S) - Javed Ahmed Ghamidi

Search for your favourite word

Video Transcripts In Urdu

  • 00:00:00 بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم مکتبے غامدی کی ایک اور نشست میں خوش امدید سب جانتے ہیں کہ ہم غامدی صاحب سے سلسلہ گفتگو میں وہ 23 بہت بنیادی اعتراضات جو ان کی فکر پے کیے جاتے ہیں ایک ایک کر کے رکھ رہے ہیں

  • 00:00:24 اور بہت تفصیل سے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ غامدی صاحب پر یہ اعتراضات کیوں ہوئے ہیں اور ان کا اس معاملے میں کیا نقطہ نظر ہے ہم سب بہت شکریہ اپ کے وقت کا اب تک ہم نے اپ سے شروع کی تھی گفتگو داڑھی پہ پھر پردے پے پھر اس کے بعد فطرت کے موضوع پہ سود کے موضوع پے اگے بڑھے ہم ظہور مہدی کے موضوع پہ ائے اج جو موضوع شروع ہونے جا رہا ہے میں یہ کہوں گا بلا کسی تردد کے اور بغیر کسی مبالغے کے یہ سب سے بڑا اعتراض ہے جو اپ کی فکر پہ کیا جاتا ہے اور کوئی عامی ہو عارف ہو عالم ہو ہر ادمی یہ کہتے ہیں کہ باقی تمام معاملات میں تو چلیں ٹھیک ہے غامدی صاحب کی رائے مختلف ہو سکتی ہے لیکن اتنی واضح بات اتنا بڑا نقطہ نظر اجتماعی عقیدہ امت کا سیلف خلف اج دور کل پرسوں ہر ادمی اس کو مانتا ہے کہ عیسی علیہ السلام دوبارہ انا ہے اور غامدی صاحب نزول مسیح کے منکر ہیں حضور نے مسیح کا یہ تصور ہے کیا امت کے اندر میں مختصر خلاصہ رکھ دیتا ہوں اور پھر غامدی صاحب کی طرف بڑھتے ہیں

  • 00:01:25 کہاہے جاتا ہے کہ اخری زمانے میں یعنی قرب قیامت کے قریب

  • 00:01:30 مہدی کا ظہور ہوگا ان کے ظہور کے چند سال بعد دجال نکلے گا اس کے بعد اس کو قتل کرنے کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے

  • 00:01:39 حضرت عیسی علیہ السلام کو نزول دمشق میں ہوگا عین اس وقت جب کہ نماز فجر کی اقامت ہوچکی ہوگی جامعہ دمشق کی شرقی منارہ کے پاس اپ نور فرمائیں گے اپ علیہ السلام اپنے دونوں ہتھیلیاں فرشتوں کے پروں پر رکھ کے نازل ہوں گے اپ کی تشریف اوری پر امام مہدی مثلث سے پیچھے ہٹ جائیں گے اور اپ کو امامت کا کہیں گے لیکن مسیح علیہ السلام امام مہدی ہی کو حکم کریں گے کہ وہی نماز پڑھائیں

  • 00:02:01 عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا کیوں متواتر احادیث ہیں امت کا اجماعی نقطہ نظر ہے کہ عیسی علیہ السلام نازل ہو کر صلیب کو توڑ دیں گے خنزیر کو قتل کریں گے جزیے کو موقوف کر دیں گے اور تمام لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے پس

  • 00:02:15 اللہ تعالی ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کردیں گے اور اللہ تعالی ان کے زمانے میں مسیح دجال کو ہلاک

  • 00:02:23 روئے زمین پر امن و امان کا دور دورہ ہوگا شعر اونٹوں کے ساتھ چیتے گائے بیلوں کے ساتھ اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ چلیں گے پھر عیسی علیہ السلام زمین پر 40 برس رہیں گے اور ان کی وفات ہو جائے گی مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور ان کو دفن کر دیں گے غامدی صاحب یہ نقطہ نظر ہے جو ہماری امت کے اندر رائج ہے ہمارے ہاں کوئی بچہ مسلمان ہو بڑا ہو تو اس سے اگر بنیادی ضروریات دین کے بارے میں پوچھا جائے اس طرح نماز روزہ کے بارے میں وہ جانتا ہے ایسے ہی جانتا ہے کہ عیسی علیہ السلام نے دوبارہ انا ہے

  • 00:02:56 میں نے یہ خلاصہ جو اپ کے سامنے رکھا ہے بیسیوں کی تعداد میں احادیث ہیں تفسیر کی کتابیں بھری ہوئی ہیں بخاری ہو مسلم ہو مستند احمد ہو ابو داؤد ہو ترمذی ہو جو بھی کتاب ہے رسول اللہ کی نسبت سے یہ باتیں بیان ہوئی ہیں

  • 00:03:12 سب سے پہلا بنیادی سوال میرا اپ سے یہ ہے روایتوں پر ہم ائیں گے کہ ایک روایت کیا ہے کیسے کہاں بات ہوئی

  • 00:03:18 یہ بتائیں کہ اگر اپ کو یہ معلوم ہو کہ اللہ کے رسول نے ایک پیشن گوئی کی ہے قیامت سے پہلے تو اس پیشن گوئی کی حیثیت یعنی اپ اللہ کے رسول کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کی ہوئی پیشن گوئی پر ایمان لانا اس کو حقیقی اور اس کو سچی خبر سمجھنا یہ اپ کے لئے ضروری ہے

  • 00:03:40 یہ ہر مسلمان کے لئے ضروری رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم

  • 00:03:45 اللہ کا پیغام پر مان

  • 00:03:47 اب یہ نہیں کہتے کہ وہ کوئی فلسفی تھے کوئی حکیم تھے انہوں نے انسانیت کے لئے ایک مسئلہ کے طور پر کوئی باتیں کہی ہے وہ اللہ کی طرف سے ائے ہیں اللہ کے نمائندے کی حیثیت رکھتے ہیں اس زمین پر اللہ تعالی کے سفیر ہیں

  • 00:04:03 اس حیثیت سے جب وہ گفتگو کریں گے تو ان کی ہر بات مانی جائے

  • 00:04:07 ان کی ہر چیز کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائیگا انہوں نے ہمیں قران مجید دیا ہے قران مجید بھی رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت ہی سے ہم تک پہنچا ہے اس میں بہت سی باتیں بیان ہوئیں اس میں ماضی کی بعض اخبار بیان ہوئے ہیں میں نے کئی مرتبہ ان کا حوالہ دیا ہے سیدنا سلیمان کا واقعہ

  • 00:04:28 اوکے دربار میں ملکہ بلقیس کا تخت اٹھا لینے کا واقعہ ہے اسی طرح سے اصحاب کہف کا واقعہ ہے ذوالقرنین کا واقعہ ہے بہت سی چیزیں بیان ہوئی ہیں مستقبل کے بارے میں بھی قران مجید میں بہت سی خبریں دی ہیں تو قران مجید میں بھی اخبار بیان ہوئے ہیں اخبار ماضیہ یعنی گزرے ہوئے زمانے کے بارے میں اور مستقبل کے بارے میں بھی اخبار ایسے ہی رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی

  • 00:04:54 ہمیں بہت سی چیزیں بتائیں ہیں کہ میرے پاس وہ کس طرح سے ہوں گی

  • 00:04:58 میں نے ان میں سے کئی چیزوں کا حوالہ اپنی کتابوں میں لیا ہے

  • 00:05:02 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ میرے بعد فتنے کس طرح سے پیدا ہوجائینگے کس طرح کی جنگیں پیش اجائیں گی مسلمانوں کو کیا کیا فتوحات حاصل ہوں گی سب چیزیں بتائیے اسی طرح قیامت کے معاملے میں میں کئی مرتبہ یہ بتا چکا ہوں کہ جب جبریل امین ائے اور انہوں نے اکے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کی موجودگی میں پوچھا کہ قیامت کب ائے گی تو فرمایا کہ قیامت کا علم تو میں رکھتا ہوں اپ رکھتے ہیں پھر انہوں نے پوچھا کوئی علامت ہے اس کی بتا دیجئے تو وہ علامت ہے اپ نے بتائی وہ نعمتوں کا میں نے کئی مرتبہ ذکر کیا ہے یہ بتایا ہے کہ حدیث جبریل میں جو علامتیں بیان ہوئی ہیں وہ جس طرح بیان کی گئی تھی اسی طرح پوری ہو گئی

  • 00:05:44 چلو اس میں دو چیزیں بیان کی گئی تھی ایک یہ کہ عرب کے ننگے پاؤں ننگے بدن پھرنے والے چرواہے عمارتوں کی بلندی میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہوں گے یہ قیامت کا قرب ہوگا قیامت اس کے بعد قریب اجائے گی اور دوسری بات یہ بیان کی تھی کہ ہم طالب علم تو

  • 00:06:03 لونڈی اپنی مالکہ کو جان دے گی میں نے اس کی تعبیر کی اور لوگوں کو بتایا کہ اس سے مدعا یہ ہے کہ غلامی بطور ایک ادارے کے بطور ایکس ٹیوشن کے ختم ہو جائے گی

  • 00:06:13 کراچی یہ دونوں چیزیں ایک ہی وقت میں ہو گئیں یہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی نسبت سے بیان کرنا پیشن گوئی ہے اسی طرح اگر اپ میری کتاب میزان میں جائیں تو وہاں اپ کو علامات قیامت کا بعد ملے گا علامات قیامت کے اس باب میں میں نے قران مجید میں جو علامت بیان کی ہے یعنی یاجوج و ماجوج کا خروج اس پر بھی بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے اور پھر اس کے بعد وہ روایت نقل کی ہے جو مسلم شریف میں ہے جس میں 10 نشانیاں بیان کی گئی ہیں

  • 00:06:43 اور ان میں سے ایک ایک نشانی کی تفصیل کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کی جاتی ہیں تو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کی خبر دیں اور اطمینان ہو جائے کہ یہ اپ ہی کی دی ہوئی خبر ہے اس کی نسبت اپ کی طرف کی جاسکتی ہے تو پھر اس کو نہ ماننا یہ تو اللہ کے پیغمبر کو نہ ماننا ہے

  • 00:07:06 تاہم رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی تحقیق کی ہے

  • 00:07:11 یعنی کیا فل واقعی یہ بات حضور نے کہی کیا اس کی نسبت متحقق ہے

  • 00:07:16 اس کے بارے میں کوئی سوال تو پیدا نہیں ہوتا یہ میں کئی مرتبہ بتا چکا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین ہمیں دیا ہے

  • 00:07:25 وہ دو صورتوں میں منتقل ہوا ہے قران مجید اور سنت

  • 00:07:30 یہ دونوں تو مسلمانوں کے اجماع اور تواتر سے منتقل ہوگئے ہیں

  • 00:07:34 سنت مسلمانوں میں جاری ہوگئی صحابہ کرام نے اس کو اختیار کر لیا نسلا بعد نسل وہ ہم کو منتقل ہو رہی ہے قران مجید رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر سنایا لوگوں نے اس کو

  • 00:07:47 سنا سننے کے بعد جو یاد کر سکتے تھے انہوں نے یاد کرلیا جو لکھ سکتے تھے انہوں نے لکھا اسی طرح تحریری اور قولی تواتر سے وہ منتقل ہونا شروع ہو گیا اسی طریقے سے ہم کو منتقل ہو رہا ہے سارا دن انہی دو ذرائع سے ہم کو منتقل ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ رسول اللہ کی نسبت سے بہت سی باتیں لوگوں نے بیان کی ہیں لوگوں نے بیان کی ہے میں بار بار توجہ دلاتا ہوں کہ یہ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے راویوں کے بیانات

  • 00:08:19 وہ کیا کرتے ہیں یعنی ایک ادمی یہ کہتا ہے کہ میں نے صحابہ سے یہ سنا ہے کہ فلاں موقع پر حضور نے فلاں چیز کے بارے میں یہ وضاحت کی تھی

  • 00:08:28 فلاں صاحب ملنے کے لئے گئے تھے ان کو رسول اللہ نے یہ فرمایا تھا

  • 00:08:32 جمعہ کا خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے تھے اس موقع پر یہ کہا

  • 00:08:36 حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیا تھا اس وقت یہ چیزیں فرمائی گئی تھی

  • 00:08:40 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے وضو کرتے دیکھا اس طرح وضو کر رہے تھے

  • 00:08:45 فلاں موقعے پر میں گھر میں گیا تو میں نے اپ کو یہ یہ کام کرتے ہوئے دیکھا یہ جتنی چیزیں بھی اس طرح بیان ہوتی ہیں اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کیا تھی احوال کیا تھے علم کیا تھا کن چیزوں کی اپ نے وضاحت فرمائی ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین کے معاملے میں اپ کا اسوہ حسنہ کیا ہے

  • 00:09:04 یہ جو روایتیں ہیں جن کو میں کئی مرتبہ عرض کر چکا کہ اخبار احاد کہا جاتا ہے فنی اصطلاح میں یعنی لوگوں نے بات سنی اور سن کے اگے بیان کر

  • 00:09:15 ایک نہ سنی تو نے سنی 10 نے سنی 20 نے سنی اور پھر وہ اگے نقل ہونا شروع ہوگئی اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ہم تک جب بات پہنچ رہی ہے تو یہ کس سے سنی ہوئی ہے اور اس نے کس سے سنی تھی اور اس سے کس نے سنی تھی اس لئے یہ تاریخی ریکارڈ ہے اس کی تحقیق ضروری ہے

  • 00:09:34 اس میں تحقیق کے بغیر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی یعنی یہاں یہ نہیں ہے کہ کسی کتاب سے اپ کوئی چیز پڑھ کے سنا دیں گے تو بس مان لینا چاہیے کہ یہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی

  • 00:09:45 یہاں لوگ بیان کر رہے ہیں

  • 00:09:48 یعنی اپ اندازہ کیجئے نہ کہ مل کے لوگ ائے ہیں انہوں نے اکے دو یا تین واسطوں سے یہ باتیں بیان کرنا شروع کر دیں جب انہوں نے باتیں بیان کی ہیں تو پچھلی دفعہ میں نے بڑی تفصیل سے یہ بتایا تھا کہ پھر ہمارے ہاں وہ لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے جب یہ دیکھا کہ ان میں مبالغہ ہو رہا ہے ان میں داستان سرائی ہو رہی ہے ان میں بعض باتیں غلط منسوب کی جا رہی ہیں ان میں بعض جگہوں پر سیاق و سباق میں بات نہیں رکھی جا رہی تو تحقیق شروع ہو گئی اور وہ فن وجود میں ایا جس پر مسلمان فخر کر سکتے ہیں جس کو ہم کہتے ہیں کہ یہ اثار احادیث کی تنقید کا فن ہے جس میں ائمہ رجال پیدا ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو دیکھنا شروع کیا پھر اس کے معیارات بنائے گئے تو ظاہر ہے کہ یہ سب کیوں کیا گیا اس لیے کیا گیا کہ محض ایک بات کا سامنے اجانا کافی نہیں ہے اس کی تحقیق کی ضرورت ہے چنانچہ میں نے اپنی کتاب میزان میں لکھا ہے کہ جس وقت رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی روایت کی نسبت پر اطمینان ہو جائے گا پھر اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا یہ ایمان کا تقاضا ہے تو اس لیے یہ تو کوئی سوال ہی نہیں ہے کہ حضور کوئی بات فرمائیں اور واضح ہو جائے کہ اپ نے فرمائی ہے اور پھر کوئی مسلمان اس سے انحراف کا سوچے

  • 00:11:03 کر تو اس کو مانا بھی جائے گا پھر اس کو قبول بھی کیا جائیگا لیکن اس کو عقائد میں بیان نہیں کیا جاتا

  • 00:11:10 حقائد یا ایمانیات میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ قران مجید میں لفظ ایمان استعمال ہوا ہے وہ بالکل متعین ہے

  • 00:11:18 یہ اخبار ہے

  • 00:11:20 یعنی اخبار قران میں بھی ہیں اخبار رسالت میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے یہ ماضی کے بارے میں بھی ہے یہ مستقبل کے بارے میں بھی ہے اس میں ظاہر ہے کہ ایک چیز قران میں بیان ہو گئی ہے تو وہاں پر بھی یہ اختلاف ہو سکتا ہے کہ میں قران مجید کا مدعا جس طرح سمجھ رہا ہوں ہو سکتا ہے اپ کو اس سے اتفاق نہ ہو اور اپ بھی اس طرح سمجھ رہے ہو مجھے اس سے اتفاق نہ ہو تو ایمانیات کے معاملے میں تو ہر چیز اتمام حجت کے درجے میں واضح کر دی گئی ہے اور ایمانیات وہی پانچ

  • 00:11:50 یعنی اللہ پر ایمان اللہ کے فرشتوں پر ایمان اللہ کے پیغمبروں پر ایمان اللہ کی کتابوں پر ایمان اور روز جزا فرما

  • 00:11:59 یہ قران میں بھی بیان کر دی ہے کہ ایمانیات یہی ہے اور ان کی بنیاد ہی پر ایمان کا لفظ استعمال کیا جائیگا

  • 00:12:07 اور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیث جبریل میں اس کو واضح کر دیا ہے ہم اس پر بڑی تفصیل سے گفتگو کر چکے ہیں یہ اخبار ہے ان کے لئے لفظ عقیدہ کے استعمال کے بارے میں بھی میں توجہ دلا چکا ہوں کہ جب مختلف گروہ بن گئے تو انہوں نے اپنی شناخت کے لحاظ سے جن چیزوں کو مانا یا جنہیں ترک کیا ان کے لئے لفظ عقیدہ استعمال ہونے لگ گیا یہ بات کا استعمال ہے لہذا صحیح بات وہی ہے کہ یہ اخبار النبی ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بعض واقعات بیان ہوئے ہیں بعض خبریں بیان ہوئی ہیں ان کی تحقیق کی جائیگی یہ قران مجید میں ہے تو ان کو سمجھا جائے گا وہاں اس تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ فیل واکے اللہ تعالی کا یا اللہ کے پیغمبر کا بیان ہے

  • 00:12:53 اس لئے کہ وہ تو یقینی طریقے سے منتقل ہو گیا یہاں لوگ بات بیان کر رہے ہیں لوگ روایت کر رہے ہیں راوی حضرات ہیں انسان سے دوسرے انسان کو ایک چیز منتقل ہو رہی ہے دو چار پانچ دس بیس لوگ بیان کر رہے ہیں یہاں تحقیق ہوگی چنانچہ یہی اس امت کی تاریخ ہے اس کے سارے علم نے اس تحقیقی میں وقت بسر کیا ہے اگر اپ غور کر کے دیکھیں تو سب سے زیادہ کام انہی چیزوں پر ہوا ہے اگر اپ مسلمانوں کی لائبریری پر ایک نظر ڈال کے دیکھیں تو وہاں بھی اپ کو سب سے زیادہ تصنیفات اسی میں نظر ائیں گی تو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے صحابہ کی نسبت سے اگر کوئی واقعہ بیان ہو گیا کوئی قصہ بیان ہو گیا کوئی کہانی بیان ہو گئی اسوہ بیان ہو گیا کسی چیز کے بارے میں کوئی اطلاع دے دی گئی اب ہم تحقیق کریں گے تو تحقیق کے بعد یہ ضروری ہے کہ تحقیق کرنے والے کا اطمینان ہو جب اس کا اطمینان ہو جائے گا اس کے بعد وہ یہ کہے کہ میں یہ بات نہیں مانتا تو پھر تو پیغمبری کو نہیں مان

  • 00:13:55 یہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار ہوگا اگر وہ یہ مطمئن ہونے کے بعد یہ کہے کہ میں نہیں مان

  • 00:14:04 قران مجید میں ایک واقعہ بیان کیا ہے اس واقعہ کو ہم نے جان لیا اچھی طرح سمجھ لیا اس کے بعد پھر اگر اپ یہ کہتے ہیں کہ میں اس کو نہیں مانتا تو اصل میں اپ قران کو نہیں مان

  • 00:14:15 تو یہ بات تو ہو ہی نہیں سکتی کہ ایک مسلمان تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ یہ بات اللہ کی بات ہے یا اللہ کے پیغمبر کی بات ہے پھر اس سے انحراف کا

  • 00:14:26 اچھا انسر کی جو بھی اپ نے بات فرمائی کہ ہمیں اطمینان ہو جاتا ہے کہ اللہ کے پیغمبر کی نسبت

  • 00:14:32 سے یہ بات جو ہم تک ا رہی ہے بالکل ٹھیک ہے ثابت شدہ ہے اپنا اطمینان انسانی اطمینان ہوگیا اب ہم اس کو نہیں مانتے تو یہ بھی ایمان کے منافی ہے اور

  • 00:14:42 دین نے جو بنیادیں بتائی ہیں مذہب کی یا ایمان کی ان کو نہیں مانتے تو وہ بنیادی عقائد ہیں وہ بھی ایمان کے خلاف ہیں تو پھر نتیجے کے اعتبار سے کیا اختلاف ہوا میں اگر اللہ کو نہ مانوں اور میں حدیث کے اندر

  • 00:14:54 کیوی پیشن گوئی کو نہ مانو تو نتیجے کے دار سے دونوں ایمان کے خلاف ہو گئی اصل میں اس کی فرح ہے

  • 00:15:01 یعنی جب میں نے اللہ کو مان لیا تو اللہ کی کتاب کو مان لیا تو اب اس میں لکھی ہوئی باتیں معلوم ہے

  • 00:15:06 اسی طرح جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا تو اپ کی نسبت سے اگر کوئی بات مجھ تک پہنچے گی اور میں مطمئن ہو جاؤں گا تو پھر گویا پیغمبری پر ایمان کا اظہار کروں گا تو یہ اصل میں اس کے فروع ہیں

  • 00:15:18 لیکن یہاں دونوں چیزیں ہو سکتی ہیں یعنی قران میں بات بیان ہوئی ہے لیکن میرے اور اپ کے فہم میں فرق ہو گیا

  • 00:15:26 روایت میں بات بیان ہوئی ہے امام بخاری اس کو قبول کر رہے ہیں امام مسلم قبول نہیں کر رہے

  • 00:15:32 وہ قبول کر رہے ہیں کوئی اور محدث اس پر تنقید کر رہا ہے

  • 00:15:36 کیا اج کا کوئی عالم اس پر تنقید کر رہا ہے تو یہاں یہ گنجائش موجود ہے جو ایمانیات ہیں پانچ ایمانیات وہ بنیاد ہیں دین کی وہ اتمام حجت کے درجے میں منتقل ہوگئے ہیں ان کو قران نے بیان کر دیا ہے ان کو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا ہے ان میں اب کسی تاویل کی فہم کے کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں اپ پیغمبر تھے کتابوں پر ایمان لانا ہے اخرت ہونی ہے ان میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا میں نے عرض کہنا کہ یہ چیزیں اتمام حجت کے درجے میں منتقل ہوگئی ہیں لیکن باقی جو کچھ ہے قران مجید میں بہت سے واقعات بیان ہوئے ہیں ان واقعات کے بارے میں لوگ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں جب اپ قران مجید کو زیر بحث لائیں گے تو میں اپ کو یہ بتاؤں گا کہ پہلے دن سے اس کی تاویل میں دہرائے ہو جاتی ہیں تو وہاں کیا ایک رائے رکھنے والے دوسرے رائے رکھنے والے کو ممکن قرار دیں گے قران کا

  • 00:16:25 تو جہاں فہم تیرے پاس اجاتا ہے تحقیق زیر بحث اجاتی ہے نسبت کو متحقق کرنا زیر بحث اجاتا ہے وہاں پر اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اسے ایمان اور عقیدے کے الفاظ سے بیان نہیں کرنا چاہیے میں اس سے پہلے بھی یہ عرض کر چکا ہوں کہ ایسی چیزیں علم کی نوعیت کی ہیں

  • 00:16:43 ان کے اوپر ایکڈیمک بحث ہوگی

  • 00:16:45 ان کے بارے میں گفتگو ہو سکتی ہے

  • 00:16:48 ان میں ایک ادمی اختلاف کرتا ہے دلائل کی بنیاد پر تو یہ نہیں کہا جائیگا کہ وہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف کر رہا ہے

  • 00:16:55 واصل میں اس نسبت سے اختلاف کر رہا ہے جو کسی دوسرے کے نزدیک متحقق

  • 00:17:01 یا قران مجید کو لے لیجئے قران مجید کی کسی ایت کا مطلب ایک دوسرا ادمی مجھ سے مختلف سمجھ رہا ہے تو یہاں اس پر یہ فتوی نہیں لگایا جائیگا تم تو قران کو نہیں مانتے

  • 00:17:12 اس لئے کہ اس کے نزدیک قران مجید کی اس ایت کا وہ مفہوم نہیں ہے وہ مطلب نہیں ہے یہ فرق ہے ایمانیات میں اور اس طرح کے علمی اور تحقیقی معاملات میں عام لوگ چونکہ اس کو نہیں سمجھتے تو وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اسی طرح کی چیزیں ہیں کہ جن کو جب اپ نے مان لیا تو اپ مسلمان ہیں جب اپ نے نہیں مانا تو اپ اسلام کے دائرے سے خارج ہوگئے اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے اس مسلمان امت کے اندر پہلے دن سے اس طرح کی علمی چیزوں کے معاملے میں اختلافات ہوتے رہے ہیں اگر رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے معاملے میں تحقیق ضروری نہ ہوتی تو یہ فن حدیث کیسے وجود میں اتا یہ محدثین کیوں پیدا ہوتے یہ رجال پر کیوں تحقیق کرتے جو ادمی بیان کر دیتا ہے کہ میں نے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے کہ اپ کو یہ کرتے دیکھا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہے یہ بات پیار کر رہا ہے تو ماننا لازم ہو جاتا نہیں مانی ہمارے علم نے اس کی تحقیق کی ہے جب تحقیق کا دروازہ کھول دیں گے تو اپ اصل میں اختلاف کا دروازہ بھی کھول دیں

  • 00:18:11 اپ غصے اختلاف ہو سکتا ہے اس میں میری ایک رائے ہو سکتی ہے اپ کی دوسری رائے ہو سکتی ہے میری ایک تحقیق ہو سکتی ہے دوسرے کی ایک دوسری تحقیق ہو سکتی ہے جہاں تحقیق میں فہم میں اختلاف ہوگا وہ اصلا علمی چیزیں ہوں گی

  • 00:18:27 اور ان کو اسی طرح پیش کرنا چاہیے ان پر گفتگو ہوگی ان پر تبادلہ خیالات ہو گا ان میں ایک دوسرے کی رائے سنی جائے گی ان سے متعلق لوگوں کو ایجوکیٹ کیا جائے گا یہ سب ہوگا لیکن ایمانیات کا معاملہ یہ نہیں ہے وہاں یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبر نے وہ ایمانیات ہم کو منتقل کر دیے ہیں یہ مسلمان امت کو نہیں ایمانیات پر کھڑی ہے قران مجید نے ان کو وضاحت کے ساتھ واضح کر دیا ہے وہاں اپنا کسی تاویل کی کوئی گنجائش ہے نہ کسی بحث کا کوئی امکان ہے تو یہ دو بالکل الگ الگ چیزیں ہیں اسی لئے تو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے تو اپ نے یہ تو بیان نہیں کیا کہ ذوالقرنین پر ایمان لاؤ گے

  • 00:19:07 اصحاب کہف پر ایمان لاؤ گے نہیں یہ چیزیں اپ قران میں پڑھیں گے اگر اپ قران مجید میں پڑھنے کے بعد ان کا مدعا سمجھ گئے ہیں اور اپ کو اطمینان ہو گیا ہے کہ یہ بات اللہ تعالی نے قران مجید میں فرمائی ہے تو یہ اصل میں اللہ پر ایمان کا تقاضا ہے کہ اپ اسے مانیں

  • 00:19:24 تو یہ ایمان کے تقاضے ہیں نہ کہ براہ راست ایمانیات ایک اور پہلو سے میں اپ کے سامنے یہ اشکال پیش کرتا ہوں

  • 00:19:34 یہ تو اپنے دو کیٹگ کرکے واضح کر دیا کہ ایمان ہے اسلام کا بنیادی مقدمہ ہے قران و سنت میں محفوظ ہے رسول اللہ کی نسبت سے اخبار ہم تک پہنچتی ہیں اس پر اطمینان ہو جاتا ہے تو رسول کی اتباع کا تقاضا اس پر ایمان کا تقاضا ہے کہ ان کو بھی ہم مانیں اپ مخبر صادق تھے

  • 00:19:51 اپ جب ان دو کیٹیگریز میں ان چیزوں کو بانٹتے ہیں تو ایک تیسری کیٹیگری جو اتنی بڑی کیٹیگری ہے وہ بالکل نظرانداز ہو جاتی ہے اب ہم کہتے ہیں کہ قران پر اپ ایمان لائیں قران کی ہم بات کرتے ہیں تو قران میں نماز کا ذکر ہے روزے کا ذکر ہے حج کا ذکر ہے زکوۃ کا ذکر ہے کیسے ہوگی اس کا ذکر نہیں ہے یہ سب کچھ قران سے لے کر اج تک امت کے علماء نے اجماع سے بیان کیا ہے

  • 00:20:14 اب یہ جو نزول مسیح کا قصہ ہے چلیں اپ روایت حمزہ بحث لاتے ہیں میں صرف اپ سے اصول میں ایک بات سمجھنا چاہتا ہوں

  • 00:20:21 کہ ایک ہو گیا ایمانیات ایک ہوگئی روایتیں یہ بیچ میں جو ساری ضروریات دین ہیں علماء پہلی نسل سے لے کے اج تک منتقل کر رہی ہیں اس کو کیسے ہم یہ کہہ کر نظر انداز کر سکتے ہیں کہ یہ تو سب حدیث ہے اس میں گفتگو بھی ہو سکتی ہے وہاں تو حدیث نہیں ہے وہاں تو پوری امت رسول اللہ سے دین لے رہی ہے اور اگے منتقل کر رہی ہے نہ وہ قران میں ہے نہ وہ سنت میں نے ابھی اپ کو یہ بتایا کہ دو چیزیں ہیں جو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست ہمیں دی ہیں

  • 00:20:52 یعنی ایک اللہ کی کتاب قران مجید صحابہ کرام کو اپ نے پڑھ کر سنائی اللہ کی کتاب کی حیثیت سے پڑھ کر سنائی اللہ کی کتاب کی حیثیت سے انہوں نے اس کو عکس کیا اللہ کی کتاب کی حیثیت سے یاد کیا اللہ کی کتاب کی حیثیت سے لکھا اور نسلا بعد نسل المسلمان اسی طرح اس کو منتقل کر رہے ہیں دوسری چیز سنت ہے

  • 00:21:13 میں نے تو اس کو پچھلے 30 35 سال میں بالکل الگ کر کے بتایا ہے بلکہ فہرست ترتیب دے دی ہے کہ یہ سنت ہے سنت کیا ہے وہ عملی چیز ہے جن کو مسلمانوں کو اختیار کرنا ہے تو یہ اپ نے نماز کی مثال دی روزے کی مثال دی حج کی مثال دی یہ سب سنت سے متعلق چیز ہے ان میں بھی کسی بحث کا کوئی سوال نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو یہ چیزیں بتائیں یہ اس سے پہلے دین ابراہیمی کی روایت کی حیثیت سے موجود بھی تھی ان کی تجدید کی ان کی اصلاح کی صحابہ کرام میں ان کو جاری کر دیا اب یہ دیکھیے کہ ان میں یہ ایک ایک چیز عملی نوعیت رکھتی ہے یہ محض ایک لفظ نہیں ہے جو کہا گیا اس کو اگے منتقل ہونا ہے یعنی اگر لوگوں کو کہا گیا کہ نماز پڑھنی ہے تو نماز شروع ہوگئی روزے رکھنے ہیں تو رمضان جب بھی ایا روزے رکھے گئے لوگ عمرہ کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے انہوں نے ہر سال حج کیا یہ جتنی چیزیں ہیں میں نے ان کی فہرست جس طرح کے عرض کیا مرتب کر کے پیش کر دی ہے یہ سب کی سب اجماع اور تواتر سے منتقل ہوئی ہیں یہ پوری مسلمان امت کا اظہار تواتر ہے یہ مسلمانوں کے پورے علم کا اجماع ہے یہ صحابہ کرام کی پوری جماعت کا اجماع ہے قران بھی ایسے ہی منتقل ہوا ہے سنت بھی ایسے ہی منتقل ہوئی ہے اس لئے ان میں اور روایات میں وہی باہمی تعلق نہیں ہے روایات افراد منتقل کر رہے ہیں

  • 00:22:35 یعنی افراد نے ایک نے دو نے تین نے چار میں کوئی بات سنی ہے یہاں ایک اور بات واضح کردو اجماع اور تواتر نقل پر قائم ہوتا ہے ساری تاریخ ایسے ممکن ہوتی ہے مغلیہ سلطنت قائم ہوئی قائد اعظم نے پاکستان بنایا کال مارک سے ڈانس کیپٹل لکھی

  • 00:22:52 انگلستان میں ملکہ الزبتھ حکومت حکومت کرتی رہی ہیں یہ سب اجماع اور تواتر سے منتقل ہوتا ہے

  • 00:22:58 اس میں واکیا ہے جو لوگوں کے سامنے اتا ہے

  • 00:23:02 یار کوئی عملی چیز ہے جو رائڈ ہوگئی ہے اس کو اختیار کرلیا گیا ہے کال

  • 00:23:07 یہ صرف قران مجید ہے کہ جس میں قولی تواتر واقع ہوا ہے دنیا کی تاریخ میں یعنی لوگوں نے پوری کی پوری کتاب کو یاد کرکے نسلا باد نسلا اگے منتقل کیا ہے

  • 00:23:20 ورنہ کال اپ یہ دیکھیے میں اس کی مثال دیتا ہوں

  • 00:23:24 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے

  • 00:23:26 خطبہ دیا

  • 00:23:29 یہ سب سے بڑا واقعہ

  • 00:23:31 اس میں تو خوشبو نہیں ہے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ 1 لاکھ سے اوپر صحابہ کرام اس وقت موجود ہیں

  • 00:23:37 یہ بات کرے رسالت میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم اخری حج کے لئے گئے یہ واقعہ ہے یہ بات کہ اپ نے خطبہ دیا یہ واقعہ ہے اپ دیکھیے بالکل میری جواب منتقل ہوگئے

  • 00:23:49 سب کے سب

  • 00:23:50 یعنی کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے اس میں یہ بات کہ اپ نے خطبے میں کہا گیا یہاں کال زبان سے نکلنا ہے

  • 00:23:57 یہ اس طرح منتقل ہو ہی نہیں سکتا

  • 00:23:59 نہیں ہوا واقعہ بھی یہی ہے یعنی یہاں کیا ہوگا یہاں یہ ہے کہ سننے والوں میں سے کسی نے اگے اس کو بیان کر دیا دو نے کر دیا تین نے کر دیا 4 نے کر دیا یعنی جس وقت یہ واقعہ ہوگیا اس کے بعد ان اقوال کا بیان شروع ہوا میں نے حضور سے یہ سنا تھا رسول اللہ نے یہ فرمایا تھا یہ سب اخبار احادیث ہیں

  • 00:24:22 یہ ہو ہی نہیں سکتا اس وقت بھی اپ دیکھیں ہمارے ہاں اس وقت پاس جلسے ہو رہے ہیں

  • 00:24:27 بس واقعات ہیں جو پیش ا رہے ہیں وہ سب کے سب خبر بن جاتے ہیں

  • 00:24:32 جلسہ ہوا ہے گوجرانوالہ میں جلسہ ہوا کوئٹہ میں جلسہ ہوا ہے

  • 00:24:37 فلاں جگہ پر یہ حادثہ ہو گیا ہے یہ سب چیزیں ہو جاتی ہے لیکن جلسے میں تقریریں کی گئی وہ اج کے زمانے پر قیاس نہ کی جائے کہ اخبار ان کو نقل کر رہے ہیں

  • 00:24:48 ٹیلی ویژن ان کو سنانا ہے ریڈیو پر وہ نشر ہو رہی ہیں نامہ نگار ان کو بیان کر رہے ہیں یہ تو اس وقت نہیں تھا تو کیا ہوتا کوئٹہ میں جلسہ ہوا ہے اب لوگ بیان کرنا شروع کرتے ہیں

  • 00:24:58 1 2 3 4 پھر اس کے بعد یہ چیزیں پھیل جاتی ہیں اب اپ ان کو جمع کرنے کے لئے نکلتے ہیں

  • 00:25:06 ایک تو یہاں اس طرح ہوتا ہے اور جب اس طرح ہوتا ہے تو جانتے ہیں کہ کیا چیز ہے جو اجتماع تک پہنچتی ہے یعنی ایک نے بیان کیا دوسرے نے بیان کیا تیسرے نے بیان کیا مختلف جگہوں پر لوگ چلے گئے جلسہ سننے کے بعد انہوں نے اپنی اپنی جگہ جا کے بیان کیا اپ کو دو چار پانچ دس بیس پچاس لوگوں سے ایک ہی بات سننے کو ملی اس کو کہتے ہیں

  • 00:25:30 اجمہ اہل الحدیث یعنی اس پر اجماع ہو گیا

  • 00:25:34 سب لوگ جو روایت کر رہے ہیں تاریخ لکھ رہے ہیں اس فن کو منتقل کر رہے ہیں اس علم کو منتقل کر رہے ہیں ان کا ازمائش پر ہو گیا یہ وہ اجماع نہیں ہے کہ جو صحابہ کا اجماع کہلاتا ہے جو پوری امت کا اجماع کہلاتا ہے جو علم کا اجماع کہلاتا ہے

  • 00:25:52 یعنی وہاں کیا ہوتا ہے کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ایک واقعہ کو دیکھا اور وہ واقعہ ہر ایک نے بیان کر دیا جیسے میں نے کہا کہ حجۃ الوداع پہ ایک خطبہ دیا گیا یہ واقعہ ہے

  • 00:26:05 جو باتیں اس میں کہی جاتی ہیں وہ قول کی حیثیت سے اگے منتقل ہوتی ہے تو یہ اقوال ہے جو ظاہر ہے کہ بیان کرنے والا کسی دوسرے کو جا کے بیان کرے گا نا یعنی وہ کہے گا پہلے یہ واقعہ کے طور پر ایک اجتماعی خبر نہیں بن گئے

  • 00:26:22 بلکہ اب انہوں نے منتقل ہونے کا عمل شروع کیا ہے ممکن ہے کہ پوری تقریر میں سے کوئی 2 جملے ہی اگے کو منتقل کریں

  • 00:26:31 ممکن ہے لوگ بیان ہی نہ کریں

  • 00:26:33 اور ممکن ہے کہ کوئی ایسی بات اس میں کہی گئی ہو جو بڑی غیر معمولی ہو وہ اپ بھی بیان کریں میں بھی بیان کروں اگر ہم سننے والے ہیں دس لوگ بیان کریں 20 لوگ بیان کریں تو جب بہت زیادہ لوگ اس کو بیان کر دیتے ہیں نہ تو اس کو اس فن میں یعنی اس تاریخی ریکارڈ کو منتقل کرنے کے فن میں جس کو اپ حدیث کا فن کہتے ہیں اس کو اثار کا فن کہتے ہیں اس میں اس موقع پر کہا جاتا ہے تواترت الاخبار

  • 00:27:00 یعنی اس جلسے کے بعد ایک دو چار پانچ دس بہت لوگ اس بات کو بیان کرنے لگ گئے ہیں کہ یہ بات کہی گئی تھی

  • 00:27:10 اچھا اس میں بسا اوقات الفاظ کا بھی اختلاف ہو جاتا ہے تو اس میں ایک معنوی اشتراک ڈھونڈ لیا جاتا ہے کہ چلیے الفاظ میں کچھ اختلاف ہو رہا ہے لیکن سب کے سب مدعا کے لحاظ سے یہ بات بیان کر رہے ہیں تو یہاں کیا ہوگا ہنی 50 لوگ ہو جائیں گے سولو ہو جائیں گے 50 100 لوگوں کے معاملے میں اس فن میں یہ ایک اور اصطلاح وجود میں ائی یعنی تواترت الاخبار تواترت الاخبار کا مطلب وہ تواتر نہیں ہوتا

  • 00:27:37 اور جب کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہی بات نہیں ہوتا

  • 00:27:41 اب یہ دیکھیے کہ یہ جو تواتر ہے اس کے نتیجے میں ایک جملہ لوگوں میں شائع اور ضائع ہو گیا

  • 00:27:48 لوگوں نے اس کو ماننا شروع کر دیا اگے بیان کرنا شروع کر دیا تو دوسرے دور میں ہو سکتا ہے کہ سب کے سب لوگ اس کو بیان کر رہے ہیں

  • 00:27:56 لیکن ایک محقق یہ دیکھے گا کہ بات کی ابتدا کہاں سے ہوئی

  • 00:28:00 تو اس وجہ سے جب اپ

  • 00:28:02 اس طرح کے کسی موضوع پر تواتر کا لفظ سنتے ہیں یہ اجماع کا لفظ سنتے ہیں تو پہلے اندر اتر کر دیکھیے کہ کس ذیل میں یہ بات کہی جارہی ہے کیا یہ وہ تواتر اجماع ہے جو قران کے بارے میں پوری امت میں منتقل کرنے میں اختیار کیا ہے کیا یہ وہ اجماع اور تواتر ہے جو صحابہ کرام سنت کو منتقل کرنے میں اختیار کر رہے ہیں یہ وہ نہیں ہے

  • 00:28:27 اسی طرح جو بڑے بڑے واقعات کا اجماع ہوتا ہے مغلیہ سلطنت قائم ہوئی علامہ اقبال نے بانگ درا لکھی قائد اعظم نے پاکستان بنایا یہ اجماع اور یہ جو اقوال کا اجماع ہے یہ بالکل مختلف چیز ہے یعنی اس کے وجود پذیر ہونے کی ایک تاریخ ہوتی ہے

  • 00:28:45 وہ پہلے دن سے باتیں ہو جاتا

  • 00:28:47 نسل بعد ہے نسل منتقل ہوتا ہے اس کو وقت لگتا ہے

  • 00:28:51 یعنی جلسہ سن کے لوگ ائے ہیں تقریر سن کے لوگ ائے ہیں گفتگو سن کے لوگ ائے ہیں وہ اب بیان کرنا شروع کریں گے

  • 00:28:59 اچھا اسی طرح وہ واقعات جو سب کے سامنے نہیں ہوتے ان کی نوعیت بھی یہی ہوتی ہے تو پوری تاریخ کو جب اپ پڑھتے ہیں تو یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ اس میں ایسی چیزیں جو عملی نوعیت کی ہیں جاری ہوگئی ہیں یا کسی چیز کو ایک واقعہ کے طور پر لوگ سب کے سب بیان کر رہے ہیں یہ تو ہر جگہ نظر ائے گا

  • 00:29:19 لیکن ملکہ لذت نے ایک تقریر کی تھی 1952 میں

  • 00:29:24 اگر اس کو ریکارڈ نہیں کیا گیا اگر اس کو لکھنے والوں نے لکھا نہیں ہے تو پھر اس تقریر کے جملے ہوں گے جو اخبار احاد سے اگے منتقل ہوں گے اور ممکن ہے کہ ایک نسل کی تحقیق کے بعد یہ معلوم ہو کہ بہت لوگوں نے یہ جملہ بیان کیا ہے

  • 00:29:40 یہ جملہ کہاں گیا تھا جب بہت لوگوں نے بیان کی ہے وہی میں نے عرض کیا کہ پہلے ایک کرے گا پھر 2 کریں گے جب اپ جمع کرنے نکلیں گے تو ہو سکتا ہے کہ چالیس پچاس لوگوں کی روایت مل جائے تو اس کو کہا جاتا ہے تواترت الاخبار

  • 00:29:53 یہ اصطلاح اس علم کی اصطلاح ہے اس کو کہا جاتا ہے جب سب کے سب مؤرخین یہ بات بیان کر رہے ہو تو اجماع العصر

  • 00:30:02 یہاں اجماع کا لفظ بھی اور معنی میں بولا جاتا ہے اور تواتر کا لفظ بھی اور معنی میں بولا جاتا ہے یہ وہ مفہوم ہے جس میں ہمارے دور کے ایک بڑے عالم مولانا انور شاہ کاشمیری نے وہ کتاب لکھی ہے کیا تشریح جماعت تباہ تو نہ فی نزول المسیح اچھا اس میں بھی تواتر کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد یہ توات

  • 00:30:24 یعنی اتنی روایتیں ہیں میں اگے چل کے اس کا ذکر کروں گا اتنی روایتیں ہیں کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ راویوں نے اس میں تواتر اختیار کرلیا ہے یہ روایت کا تواتر ہے یہ خبر کا تواتر ہے

  • 00:30:39 یہ اہل عصر کا اجماع ہے

  • 00:30:41 چکن دونوں کو بھی الگ الگ رکھنا چاہیے اس پر تحقیق بھی ہوگی اس پر گفتگو بھی ہوگی اس کی تعریف کی جانی جائے گی ایک ایک کال کب سے روایت ہونا شروع ہوا ہے اس کو بھی دیکھا جائے گا یہی ساری امت دیکھ رہی ہے

  • 00:30:55 اس موسلمان امت کا علم یہی دیکھ رہا ہے اسی کو لکھا جا رہا ہے اسی پر کتابیں ترتیب پا رہی ہیں یہ بخاری مسلم یہ اسی فن کے ائمہ ہے تو یہاں بالکل اور نوعیت ہے اور سنت بالکل اور طریقے سے ممکن ہوئی ہے قران اور طریقے سے منتقل ہوا ہے وہاں نہ راوی کی ضرورت ہے نہ اس کے کردار اور سیرت کو دیکھنے کی ضرورت ہے وہ تو ایک واقعہ ہے جس کو بیان کر رہے ہیں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی

  • 00:31:22 نبوت کا دعوی کیا

  • 00:31:24 اپ کا اس میں گرافی محمد بن عبداللہ تھا یہ وہ واقعات ہیں کہ جو تواتر سے اجماع سے منتقل ہو گئے

  • 00:31:31 ان کے بارے میں کسی راوی کو نہیں دیکھا جاتا لیکن جب اقوال روایت ہونا شروع ہوجاتے ہیں

  • 00:31:37 میں نے ابھی مثال دی ہر ادمی کہتا ہے کوئٹہ میں ایک جلسہ ہوا

  • 00:31:41 یہ سب کو معلوم ہے لیکن اس میں کیا باتیں کہی گئی یہ ایک ایک کرکے دو دو کر کے نقل ہونا شروع ہوں گی کچھ وہیں رہ جائیں گی کچھ نقل ہو جائیں گی کچھ میں الفاظ تبدیل ہو جائیں گے اس کو اخبار احاد سے منتقل کرنا کہا جاتا ہے یہ اخبار احاد جب تعداد میں کافی ہو جاتے ہیں بہت لوگ مختلف علاقوں میں ان کو بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں تو کہا جاتا ہے تواترت الاخبار

  • 00:32:08 اور تمام لوگ جو اس فن میں کام کر رہے ہیں اس علم میں کام کر رہے ہیں وہ اگر سب کے سب اس پر متفق ہو جائیں تو اس کو کہا جاتا ہے تو پہلے ان دونوں اصطلاحوں کا فرق سمجھ لیں یہ جو ابھی اپ نے فرق بتا دیا کہ بھئی تواتر جو قران مجید یا سنت کو منتقل کرنے میں علم کا تواتر ہو رہا ہے اس میں اور یہ جو ہمارے عام طور پر جب ہم اس طرح کی روایتیں زیر بحث لاتے ہیں اور کہتے ہیں متواتر روایتیں ہیں ایک اور اصولی سوال میں اپ سے پوچھنا چاہتا ہوں

  • 00:32:36 اپ نے ابتدا میں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حیثیت نبوی ہے اس میں اپ سے کسی نسبت پر میں مطمئن ہو جاتا ہوں اور اس کی بنیادیں بھی قران مجید میں موجود ہیں جس کی عشر وضاحت کریں تو پھر وہ تبین کر رہے ہیں علامات قیامت کی اپ نے بہت ساری روایتیں لی ہیں یہ جو روایت ہے ابھی ہم اس روایت پر بات نہیں کر رہے ہیں اس پہ یہ مسیح علیہ السلام کے نزول کی روایت ہے میرا اپ سے اصول سوال ہے

  • 00:33:00 یہ اگر علماء کی نظر میں جو یہ تواترت الاخبار ہے یہ نہ بھی ہوتا

  • 00:33:06 یہ اپ ایک صحابی سے دو صحابہ سے اس طرح باقی روایتوں میں مطمئن ہوئے ہیں تو تواتر اخبار کے بغیر بھی اگر اپ کو اس پر اعتراض نہ ہوتا تو میں اس خبر واحد کی بنیاد پر قبول کر لیتے

  • 00:33:18 میں نے تو اپ کو بتایا ہے کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے کوئی ایک ادمی ایک بات بیان کرتا ہے

  • 00:33:25 اپ تحقیق سے مطمئن ہو جاتے ہیں استعمال کر رہا ہوں مطمئن

  • 00:33:29 میرا اطمینان ہو گیا امام بخاری کا اطمینان ہوگیا امام مسلم کا اطمینان ہو گیا اپنے اطمینان پر بیان کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک بات کہی جاتی ہے

  • 00:33:39 علامات قیامت کا جو باب میں نے لکھا ہے اپ اس کو پڑھیے اس میں 10 علامتوں والی روایت امام مسلم کی میں نے لی ہے اس کی شرح کی ہے بتایا ہے کہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات روایت ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی لکھ دی ہے کہ اگر اس بات کی نسبت حضور کی طرف صحیح ہے

  • 00:34:01 یہاں اس احتمال کو اپ ختم نئی کر

  • 00:34:04 اگر صحیح ہے

  • 00:34:06 تو رسول اللہ کی دی ہوئی خبر ہے یہ بین ہی پوری ہو جائیگی

  • 00:34:11 میں نے یہاں اپ کیا کہتے ہیں کہ میں نے تحقیق کی علماء نے تحقیق کی اہل فن نے تحقیق کی اہل عصر نے تحقیق کی محدثین نے تحقیق کی اطمینان ہو گیا ہے کہ اس بات کی نسبت رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جاسکتی ہے اطمینان ہو گیا ہے یقین کے درجے میں

  • 00:34:31 کراچی پوری امت یہ کہتی ہے کہ اخبار احاد سے جو چیز ہمیں حاصل ہوتی ہے وہ ظن غالب ہے

  • 00:34:38 یعنی غالب گمان ہو جاتا ہے کہ یہ بات حضور ہی نہیں کہی ہوگی ساری تاریخی روایات کو اسی اصول پر دیکھا جاتا ہے

  • 00:34:46 تو میرے نزدیک تو ایک روایت بھی ہو اپ کے علم میں ہے کہ یہ جو

  • 00:34:51 عیدالاضحی کے موقع کے اوپر ناخن نہ کاٹنے یا بال نہ مونڈنے کی روایت ہے وہ تو ایک روایت ہے اور میں نے اس کو قبول کیا ہے اور اس کا دفاع کر رہا

  • 00:35:01 میری کتاب فیضان میں 1200 سے زیادہ روایات ہیں جن کو میں نے قبول کیا ہے

  • 00:35:06 بیان کیا ہے لکھا ہے اس کو میں حدیث پر کام کر رہا ہوں حدیث پڑھا رہا ہوں یہ ہمارا بہت بڑا سرمایہ ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام نے کسی چیز کے بارے میں کیا کہا ہے کوئی ہدایت دی ہے لوگوں نے اپ کی کوئی بات سنی ہے اپ کو کوئی کام کر کے دیکھا ہے سیرت ہے سوال ہے یہ کوئی معمولی چیز ہے یہ سب کچھ تحقیق سے گزارا جائے گا اور قبول کیا جاتا ہے ایک ادمی کی بات بھی قبول کی جاتی ہے لیکن میں نے اپ کو یہ بتایا ہے کہ اسلم جیتنے بھی اقوال ہوتے ہیں یہ ابتدا اخبار احادیث ہوتے ہیں جس وقت بہت زیادہ لوگ اکے بیان کرنا شروع کرتے ہیں یعنی اندازہ کیجئے نہ کہ جلسے سے نکل کر جب ایک ادمی نے کہا کہ فلاں رہنما نے یہ کہا ہے تو وہ ایک ادمی کی خبر ہے

  • 00:35:55 اپ تھوڑی دور گئے تو دوسرے نے بھی وہی بتایا اپ کسی تیسرے شہر میں گئے تو وہاں بھی کسی نے یہی بیان کیا اب ا کے اس پر اجماع ہونا شروع ہوتا ہے

  • 00:36:04 تو یہاں اجماع اور تواتر ایک عمل ہے جس نے پایہ تکمیل کو پہنچنا ہے اور وہ عمار تواتر کس کا ہوگا اہل عصر کا

  • 00:36:13 کس کا ہوگا بیان کرنے والوں کا بہت بڑی تعداد تو بہت بڑی تعداد ظاہر بات ہے کہ ایک طرح کا اطمینان پیدا کرتی ہے نا یعنی اگر ایک ہی ادمی کی بات ہوگی اور کوئی غرابت نہیں ہے اس میں

  • 00:36:25 کہاں جا سکتا ہے کہ یہ بات ضرور کہی ہوگی کوئی غیر متوقع بات بھی نہیں ہے کیا اعتراض ہے

  • 00:36:31 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حجۃ الوداع کا خطبہ نقل ہوا ہے 1 لاکھ سے زیادہ ادمی سن رہے ہیں لیکن ہمارے ہاتھ سے منتقل ہوا ہے ہم اس کو بیان کرتے ہیں اس میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر یہ فرمایا کہ مسلمان کی یا کسی بھی انسان کی جان مال ابرو کی حرمت ہی حیثیت رکھتی ہے تو سب بیان کر رہے ہیں

  • 00:36:50 تو اس وجہ سے اخبار احاد ہو خواہ متواتر ہو دونوں صورتوں میں وہ ہمارے لئے علم کا عمل کا ذریعہ بنتی ہیں ان سے ہم رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے حالات جانتے ہیں وہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا ماخذ ہے اس لئے رد کرنے کی تو کوئی وجہ ہی نہیں ہے لیکن تحقیق کرنی ہوگی

  • 00:37:11 یعنی قران اور سنت کے معاملے میں تحقیق ہو چکی

  • 00:37:15 معاملہ ختم ہو گیا وہ اجماع اور تواتر سے منتقل ہو گئے لیکن اس دائرے میں تحقیق کرنی

  • 00:37:23 اور پوری کی پوری تاریخ جان نہیں ہوگی بات کہاں سے چلی ہے کیسے ہوئی ہے کیسے منتقل کی جا رہی ہے اہل عصر کیوں مطمئن ہو گئے ہیں یہ سب کچھ جاننا ضروری ہے یعنی یہ دائرہ جو ہے جس کو اپ حدیث کا دائرہ کہتے ہیں جس کو اپ اثار کا دائرہ کہتے ہیں اس میں تحقیق کے بعد اطمینان کا اظہار کیا جاتا ہے

  • 00:37:45 جبکہ وہاں تو پوری کی پوری امت کہہ رہی تھی کہ اللہ کی کتاب ہے قران مجید اچھا ان سے جو بھی اپ نے بات فرمائی اخری بات کی یہ زنی ماخذ ہے پوری امت اس کے بارے میں یہی کہتی ہے حدیث کے بارے میں کہ بھائی اس میں ضمن غالب ہے وہ یقین اور وہ اطمینان جو ہمیں قطعی اخبار میں ہوتا ہے وہ نہیں ہے تو اس میں کون ریڈکشن یہ نظر ارہی ہے ایک طرف بھی کہتے ہیں مذہبی اپ نے فرمایا کہ کوئی رسول اللہ کی نسبت سے خبر مجھ تک پہنچے اور اطمینان ہوجا میں نہ مانوں تو پھر تم رسول کو نہیں مانتا تو پھر اس طرح کی باتوں کے بارے میں اتنا بڑا دعوی پھر کیسے کرنا ہے کہ رسول کیوں نہیں مانتا کوئی شخص کہتا ہے

  • 00:38:21 یعنی اطمینان ہوگیا یعنی میں نے تحقیق کی تمام ذرائع سے میں نے پلٹ لیا اور میرا دل مطمئن ہو گیا میرا دماغ مطمئن ہو گیا میرا علم مطمئن ہو گیا کہ یہ بات تو رسول اللہ کی نسبت سے ٹھیک ہی نقل ہوئی ہے ٹھیک ہی نقل ہوئی گمان غالب یہ ہے

  • 00:38:37 زمے غالب یہ ہے

  • 00:38:39 تو پھر مجھے ماننی چاہیے ہوگا

  • 00:38:41 اس لئے کہ اس دنیا میں ہم زن میں غالب کی پرزندگی بسر کر رہے ہیں

  • 00:38:45 ہمارے یہاں عدالتو میں بیٹھ کر جو فیصلے دیے جاتے ہیں زن میں گالی بھی کر دیے جاتے ہیں

  • 00:38:50 یہ تو نہیں ہوتا کہ یقینی طور پر اپ دیکھ لیتے ہیں کہ کیا ہوا

  • 00:38:54 دو ادمیوں کی گواہی بھی اپ قبول کرتے ہیں تو گواہی کا مطلب کیا ہے یعنی اس بات کو سن کر ان حالات کو جان کر ان کے بیان کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک قاضی کو اطمینان ہو گیا ہے کہ قتل ہوا ہے اور فلانے کیا ہے تو یہاں اطمینان کا لفظ اس لیے استعمال کیا جاتا ہے قران مجید یقینی طور پر رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے ممکن ہوا

  • 00:39:17 سنت یقینی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منتقل ہوئی ہے اخبار احاد ظن غالب

  • 00:39:24 غالب گمان ہے یہ خیال نہ کیجئے کہ یہ کوئی چھوٹی بات ہے یہ بہت بڑی بات ہے ظن غالب بھی پر اصل میں ہم تمام علوم و فنون کو اگے منتقل کر رہے ہیں ساری تاریخ اسی پر منتقل ہو رہی ہے

  • 00:39:36 یہ جو تاریخ لکھی جاتی ہے مورخین واقعات بیان کرتے ہیں تو بعض اوقات ایک ادمی ہوتا ہے جو روایت کر رہا ہے

  • 00:39:43 دو ادمی ہوتے ہیں پانچ ادمی ہوتے ہیں کسی علاقے میں اپ 10 لوگوں سے ایک بات پوچھتے ہیں اس کو نقل کر دیتے ہیں ساری تاریخ کی کتابیں اسی طرح لکھی جا رہی ہیں تو ان میں جب تک کوئی شبہ نہ پیدا ہو جائے

  • 00:39:55 تحقیق میں کوئی خرابی سامنے نہ اجائے ان کو مانا ہی جاتا ہے بیان کیا جاتا ہے پڑھا جاتا ہے پڑھایا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے تو اطمینان ہو گیا اطمینان نہیں ہوا

  • 00:40:07 تحقیق کی اور اطمینان نہیں ہوا تحقیق کی اور اطمینان نہیں ہوا میں یہ نہیں عرض کر رہا کہ میری عقل نہیں مانتی میرے نزدیک یہ بات ہو نہیں سکتی

  • 00:40:18 یہ بھینسیں

  • 00:40:19 بھینس یہ ہے کہ کیا اس بات کی نسبت رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہے اس پر اطمینان ہو گیا تو میں نے عرض کیا کہ اس کورٹ سوچیے اطمینان نہیں ہوا اپ کا تو پھر اپ کیسے اس کو منسوب کر سکتے ہیں

  • 00:40:32 اس لئے کہ حضور کے معاملے میں کیا اطمینان کے بغیر بھی کوئی بات کہہ دی جائے گی تو دونوں جانب ذمہ داری کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے یعنی تحقیق سے اطمینان ہو گیا تو بیان کیجئے اطمینان نہیں ہوا

  • 00:40:45 اپ رسول اللہ کی نسبت سے وہ بات لوگوں کے سامنے نہیں رکھی جائے گی بلکہ اپنے حق میں اطمینان کو لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے

  • 00:40:53 اس کے دلائل بیان کیے جائین

  • 00:40:55 یہ کہاں جائے گا کہ کیوں اب میں اطمینان

  • 00:40:57 تو میں ابھی عرض کرتا ہوں کہ اس وقت جو موضوع زیر بحث ہے اس کے بارے میں میں نے اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے

  • 00:41:05 یعنی اس کے لئے یہ کہنا بھی ضروری نہیں ہے کہ انکار کردیا عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے میرے الفاظ یہ ہے میری کتاب میں کہ یہ روایات یہ سے مراد یعنی نزول مسیح کی روایات

  • 00:41:16 انڈین دلائل کی بنیاد پر محلے نظر ہو گئیں

  • 00:41:20 یہ عدم اطمینان کا اظہار ہے

  • 00:41:23 اب ظاہر ہے کہ ادمی اطمینان کا مطلب کیا ہے کہ کوئی شخص ان سوالوں پر گفتگو کرے انہیں اعتراضات کا جواب دے میں خود بھی اس پر غور کروں گا اگر میں مطمئن ہو جاتا ہوں تو اپنے اطمینان کا اظہار کرتے

  • 00:41:36 تو اس دائرے میں یا اس علم میں اطمینان اور عدم اطمینان ہی اصل چیز ہے ٹھیک اور یہ اطمینان اور عدم اطمینان گھر میں بیٹھے نہیں ہوتا اطمینان کے لئے بھی تحقیق کی ایک پوری دنیا جس سے گزرنا پڑتا ہے اور اب میں اطمینان کے لئے بھی ایسا ہی کرنا پڑتا ہے امام بخاری جب کوئی روایت نقل کرتے ہیں یا امام مسلم نقل کرتے ہیں تو یہ ان کا اطمینان ہے جس کی بنیاد پر وہ نقل کرتے ہیں

  • 00:42:00 اور اس کے ساتھ یہ واضح کر دیتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یقینی طور پر یہ بات رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے نہیں

  • 00:42:10 یعنی یار یہ بات ہوگی یا جیسے حضور نے فرمائی ہمارے پاس جو تحقیق کے ذرائع تھے انسانی سطح پر وہ ہم نے استعمال کر کے دیکھ لیے ہیں اس کے نتیجے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس بات کی نسبت کی جاسکتی

  • 00:42:24 اسی لیے ہمارے ہاں جو علمائے اصول ہیں وہ اس بات پر کاتبن متفق ہیں ایک ابن ہضم کا استثناء قبول کرلیں سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ اخبار احاد سے احادیث سے اثار سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ علم ظن نہیں گمان غالب

  • 00:42:45 ہم نے تحقیق کے بعد اطمینان کر لیا ہے

  • 00:42:49 اطمینان کی بنیاد پر یہ بات اب بیان کرنے کے قابل ہوگئے امکان ہے کہ کوئی غلطی ہوگئی یہ امکان ہے کہ کہیں نسبت میں غلطی ہوگئی ہو کہیں بیان میں غلطی ہوگئی ہو کہیں سیاق کو سمجھنے میں غلطی ہوگئی ہو کہیں مدعا کو بیان سمجھنے اور بیان کرنے میں غلطی ہوگئی ہو یہاں اس امکان کو مانا جاتا ہے اس لیے اس پر تحقیق کا دروازہ بھی بند نہیں ہوتا

  • 00:43:12 قران مجید پر کبھی اپ نے سنا ہے کہ اب تحقیق ہو رہی ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دیا تھا یا نہیں دیا تھا

  • 00:43:19 سنت کے معاملے میں سارا مسلمانوں کا علم جب اس کو بیان کرتا ہے تو اج مان مسلم ہو

  • 00:43:25 اپنے دماغ کے ساتھ بیان کر دیتا ہے وہاں کوئی سوال نہیں ہے لیکن اخبار ہاتھ میں اگر کوئی چیز ہے تو اس پر گفتگو ہوگی

  • 00:43:33 اس وقت بھی اپ یہ دیکھتے نہیں ہیں یعنی کتنی کتابیں ہیں جن میں رفع الیدین کی روایت بیان ہوئی

  • 00:43:39 اس کے باوجود اس کی حیثیت کیا ہے انکار تو کوئی بھی نہیں کرتا اس کی حیثیت کیا ہے ہر نماز میں کرنا ضروری ہے نہیں کرنا ضروری اس پر اہل حدیث کے اور احناف کے مابین مناظرے ہوتے رہتے گفتگو ہوتی رہتی ہے کیوں ہوتی رہتی ہیں اس لئے کہ یہ سارا کا سارا موضوع ہی تحقیق کا موضوع اس میں اختلافات ہوتے ہیں

  • 00:44:01 اور جب اختلافات ہوگئے تاریخی واقعات کا بیان ہے اپنے موجودہ زمانے میں دیکھیں اپ کسی ایک تاریخی واقعہ کی تفصیلات پر بھی پوری طرح متفق نہیں ہو پاتے

  • 00:44:13 ہمارے سامنے واقعات ہوئے

  • 00:44:15 جس میں ریڈیو نے اس کو بیان کیا ٹیلی ویژن نے اس کو نشر کیا وہاں نمائندے کھڑے ہیں بڑے بڑے واقعات ہیں اپ لال مسجد کے واقعے کو دیکھیے

  • 00:44:24 اپ منہاج القران کے واقعے کو دیکھیے یہ واقعہ اتا ہے نہ جن میں بڑا نقصان ہوا جانی نقصان ہوا اس کو بیان کرتے وقت کتنی تفصیلات ہیں جن پر اج تک بحث جاری رہتی

  • 00:44:35 یہاں بھی بالکل ایسے ہی ہوتا ہے اب دیکھیے یہی فرق سمجھ لیجئے یہ واقعات ہوئے ہیں

  • 00:44:40 اس میں کوئی اختلاف نہیں

  • 00:44:42 لیکن اس موقع پر فلاں نے یہ کہا تھا فلاں نے یہ بات کی تھی معاملے کی نوعیت اس طرح ہوئی تھی اس میں کتنے اختلافات ہیں جن کو اج تک موضوع بحث بنایا جاتا ہے اس پر اپ عدالتیں قائم کرتے ہیں اس پر تنقید کی کمیٹیاں بناتے ہیں یہی کام مسلمان امت ان سب چیزوں کے بارے میں کر رہی ہے اور پہلے دن سے کر رہی ہے میں اگے اس کی تفصیل اپ کو بتاؤں گا پہلے دن سے کر رہی ہے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے صحابہ کرام کی وساطت سے جو چیزیں لوگوں نے بیان کر دی ہیں ذہن میں رکھیے لوگوں نے بیان کرتیں سننے والوں نے بیان کردی ہیں دیکھنے والوں نے بیان کر دی ہیں ان کی کیا حیثیت ہے قانون کو بیان کرنا ہے ان کی نسبت حضور کی طرف کرنی ہے یہی تو وہ چیزیں ہیں کہ جن کے بارے میں تحقیق کرکے ایک محقق یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ موضوع بات ہے

  • 00:45:31 یہ مزا کی ہوئی بات ہے یہ لوگوں نے گھڑ لی ہے

  • 00:45:34 چناچہ پوری پوری کتابیں ہیں جن میں موضوعات کو ترتیب دے دیا گیا ہے

  • 00:45:40 تو اس لئے اس فن اور اس علم میں ایسے ہی بات کی جاتی ہے اگر اپ نزول مسیح پر بات کریں گے تو یہاں بھی اسی طرح بات ہوگی یہ جو روایات ہیں نزول مسیح کی امت کے تمام علماء جو اس فن میں مہارت رکھتے ہیں امت کے اجتماعی بصیرت امت کا مجموعی فہم

  • 00:45:59 انہوں نے ان روایات کے اوپر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ جو اخبار ہیں ثابت ہیں متحقق ہیں ہم تک پہنچی ہیں

  • 00:46:13 زبان بھی صاحب کا اس پر کیا عدم اطمینان ہے ان روایات کو کیسے دیکھتے ہیں ہم سب ایک ایک پہلو پر میں اپ سے بات کروں گا لیکن ہمارا وقت چونکہ یہاں پر ختم ہو رہا ہے اگلی نشست کا اغاز انشاء اللہ ہم ان روایات کے متعلق سے کریں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اپ ان روایات کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں ہمارے پروگرام کا وقت ختم ہوتا ہے انشاءاللہ اگلی نشست میں

  • 00:46:37 [Unintelligible]

  • 00:46:38 [Unintelligible]

  • 00:46:41 [Unintelligible]

Video Transcripts In English

Video Summry

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 1:19 نزول مسیح کے بارے میں امت میں رائج نقطہ نظر کا خلاصہ 3:12 کیا اللہ کے پیغمبر کی پیشن گوئی پر ایمان لانا ضروری ہے 14:30 حدیث پر اطمینان کے بعد اس کو نہ ماننا کیسا ہے؟ 19:33 روایات اور اخبار احاد پر گفتگو کیا آپ اس واقعہ کو محض خبر واحد کی بنا پر قبول کرتے 32:29 37:59 خبر واحد پر مزید گفتگو

Video Transcripts In Urdu

Video Transcripts In English

Video Summary

  • ▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 1:19 نزول مسیح کے بارے میں امت میں رائج نقطہ نظر کا خلاصہ 3:12 کیا اللہ کے پیغمبر کی پیشن گوئی پر ایمان لانا ضروری ہے 14:30 حدیث پر اطمینان کے بعد اس کو نہ ماننا کیسا ہے؟ 19:33 روایات اور اخبار احاد پر گفتگو کیا آپ اس واقعہ کو محض خبر واحد کی بنا پر قبول کرتے 32:29 37:59 خبر واحد پر مزید گفتگو

▶ About Javed Ahmed Ghamidi: Javed Ahmed Ghamidi is a Pakistani Muslim theologian, a Quran scholar, and an educationist. Mr. Ghamidi is a student of Maulana Amin Ahsan Islahi and Maulana Abul A’la Maududi. Mr. Ghamidi has authored several books, including the bestseller ‘Meezan’, in which he presents a comprehensive treatise on the entire content of Islam. Mr. Ghamidi is a researcher and a critical thinker who has challenged many aspects of the traditional Muslim schools of thought on the basis of evidence from Quran and sunnah. ▶ About Ghamidi Center Of Islamic Learning: "Ghamidi Center of Islamic Learning", an initiative of Al-Mawrid US, is established with a single purpose, to educate people of all ages about moral, ethical, and humane values as taught in Islam. Our aim is to separate history and culture from Islam and teach it in its purest form as a field of knowledge and not enforce it as a creed. We base our instruction method on argument and logic and encourage healthy criticism. An institute where traditional and historical knowledge can be understood as well as challenged with reason. 00:00 افتتاحیہ 1:19 نزول مسیح کے بارے میں امت میں رائج نقطہ نظر کا خلاصہ 3:12 کیا اللہ کے پیغمبر کی پیشن گوئی پر ایمان لانا ضروری ہے 14:30 حدیث پر اطمینان کے بعد اس کو نہ ماننا کیسا ہے؟ 19:33 روایات اور اخبار احاد پر گفتگو کیا آپ اس واقعہ کو محض خبر واحد کی بنا پر قبول کرتے 32:29 37:59 خبر واحد پر مزید گفتگو

Related Videos
1
Response to 23 Questions - Part 26 - Arrival of Imam Mahdi - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 26 - Arrival of Imam Mahdi - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 25 - Arrival of Imam Mahdi - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 25 - Arrival of Imam Mahdi - Javed Ahmed Ghamidi
1
Response to 23 Questions - Part 24 - Arrival of Imam Mahdi - Javed Ahmed Ghamidi
Response to 23 Questions - Part 24 - Arrival of Imam Mahdi - Javed Ahmed Ghamidi